اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا پاکستان کا سب سے بڑا صنعتی شہر کراچی، قیام پاکستان کے 74 برس بعد بھی اپنی واضع سیاسی شناخت سے محروم ہے۔ یہ شہر کبھی اپنے اربن مڈل کلاس کے کلاسیکل مزاج کی بھرپور عکاسی کرتے ہوئے جمہوری قوتوں کے ساتھ شانہ بشانہ جمہوری نظام کی بحالی کی جدوجہد کرتا ہوا دیکھائی دیتا ہے اور اپنے صنعتی اربن مڈل کے مفادات کے عین مطابق جنرل ایوب خان کے مقابلے میں محترمہ فاطمہ جناح کی بھرپور حمایت کرتا ہے، تو کبھی اپنے روایتی کردار کی نفی کرتے ہوئے ذوالفقارعلی بھٹو کی جمہوری حکومت کی بدترین مخالفت میں پیش پیش نظر آتا ہے ۔1970 ملک میں پارلیمانی سیاست کا آغاز ہوتا ہے اور عوام کو اپنے حق رائے دہی کے اظہار کا موقع ملتا تو یہاں کے عوام حنفی مسلمانوں کے دو بڑے مسلکوں یعنی ( بریلوی اور دیوبندی) کی نمائندگی کرنے والی سیاسی جماعتوں، جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی میں تقسیم دیکھائی دیتے ہیں ۔ اس وقت مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے اربن علاقوں کے مفادات کے محافظ جمہوری سوچ اور صنعتی اربن مڈل کلاس کے نمائندہ لیڈر ذوالفقارعلی بھٹو کی جدید، روشن خیال اور ترقی پسندانہ سوچ کی حمایت کے بجائے، بھٹو کے ماضی کے سیاسی کردار کی مخالفت کی بناء پر ان سے کوسوں دور بلکہ ان کے بدترین مخالف بن جاتے ہیں ۔ 1977 میں بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کے پلیٹ فارم سے ملک بھر میں چلنے والی تحریک کا سب سے موثر اور فعال مرکز بنے رہتے ہیں، یہاں تک کہ ملک میں ایک بار پھر مارشل لاء لگا دیا جاتا ہے تو بدقسمتی سے ماضی میں مارشل لاء کی بھرپور مخالفت کرنے والے اس شہر میں جمہوری حکومت کے خاتمے پر جشن منایا جاتا اور مٹھائی تقسیم کی جاتی ہے ۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کے طویل مارشل لاء کی کہیں کھل کر تو کہیں درپردہ حمایت کی جاتی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین کی مداخلت کے خلاف امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے جنگ چھڑ جاتی ہے۔ جسے جہاد کا نام دیا جاتا ہے ۔ جہاد افغانستان کے اثرات کراچی پر اس صورت میں مرتب ہوتے ہیں کہ جہاد افغانستان میں افرادی قوت فراہم کرنے والی دیوبندی عقائد کی سیاسی جماعتوں کا اس شہر پر تسلط قائم کر وادیا جاتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں جماعت اسلامی کامیاب ہو کر مسلسل دو بار اپنا میئر منتخب کروالیتی ہے۔ اسی اثناء میں شہر میں شیعہ سنی کی مسلکی بنیادوں پر تقسیم ہوتی اور پھر بدترین شیعہ سنی فساد برپا ہوتا ہے۔ بے گناہ لوگ شہید کئے جاتے ہیں۔ ہنستے بستے گھر اجاڑ دیئے جاتے ہیں۔ آبادیوں کی آبادیاں نقل مکانی پر مجبور ہو جاتی ہیں اور شہر مذہبی فرقہ بندی کا شکار مذہبی جنونیت میں مبتلا دیکھائی دیتا ہے۔ شہر کا صنعتی اربن مڈل کلاس کا تشخص دھندلا جاتا ہے۔ 1985 میں غیر جماعتی انتخابات منعقد ہوتے ہیں تو منقسم انداز میں راۓ کا اظہار سامنے آتا ہے جس سے شہر کے سیاسی مزاج کا اندازہ لگانا مشکل ہوجاتا ہے۔
بعد ازاں شہری سطح پر مہاجر قومی موومنٹ (MQM) قائم کی جاتی ہے تو کراچی اس کی سیاست کا محور بن جاتا ہے، یعنی اب مذہبی اور مسلکی سیاست سے نکلتے ہیں تو دلیل اور منطق کی بنیاد پر لسانی سیاست کو اپنی فکر کی جواز بنا بیٹھتے ہیں ۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت ہی میں جب اس سیاسی جماعت کو عوامی حمایت اور تقویت حاصل ہوجاتی ہے تو 1987 کے بلدیاتی انتخابات میں اگرچہ کے آزاد حیثیت میں حصہ لیا جاتا ہے لیکن کامیابی حاصل کرنے کے بعد بلدیاتی ہاؤس میں اپنی جماعت کا مئیر منتخب کر واکر اس نوزائیدہ سیاسی جماعت کو قومی سطح پر اپنی حیثیت کو تسلیم کروانے کا موقع مل جاتا ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت کے خاتمے کے بعد جب ملک میں قومی انتخابات کا موقع آتا ہے تو 1988 کے جماعتی انتخابات میں بھرپور حصہ لیا جاتا ہے۔ جس میں کراچی کے شہری قومی جماعتوں کو مسترد کرتے ہوئے ایم کیو ایم کو اپنی بھرپور تائید و حمایت سے نوازتے ہیں ۔ انتخابات میں MQM شاندار کامیابی حاصل کرنے کے بعد قومی دھارے کی سیاسی جماعتوں سے گٹھ جوڑ کر کے اقتدار میں اپنا حصہ لے لیتی ہے ۔ کراچی کو MQM کا گڑھ تصور کیا جانے لگتا ہے، بعد ازاں MQM کے ملک کی طاقتور قوتوں کے ساتھ تعلقات نشیب و فراز کا شکار رہتے ہیں۔ کبھی بہت اچھے تو کبھی بہت خراب، تعلقات کی بہتری کے زمانے میں NOR کے ذریعے سنگین مقدمات ختم کرکے شاملِ اقتدار کیا جاتا ہے، گورنر اور وفاقی وزراء بناۓ جاتے ہیں تو شدید اختلافات اور کشیدگی کے زمانوں میں MQM اور اس کے بانی پر نقب زنی کی جاتی ہے، پہلی بار یہ کوشش آفاق احمد اور عامرخان کی سرکردگی میں اوراس کے کئی سالوں بعد دوسری بار مصطفیٰ کمال اور انیس قائم خانی کی سرکردگی میں پھر نقب لگانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن دونوں مرتبہ عوامی حمایت حاصل کرنے میں مکمل ناکام رہتی ہے ۔ بہرحال بالادست قوتیں انہیں ہر سیاسی حکومت کو دباؤ میں رکھنے کے لیے اپنے آلۂ کار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔ جس کی بہت ہی واضح مثال سانحہ 12 مئی ہے ۔ خیر اسی بناء پر تمام سیاسی جماعتوں سے شدید مخاصمت کا ماحول رہتا ہے اور گاہے بگاہے سیاسی جماعتیں شہر میں قیام امن کے لیے آپریشن کرواتی ہیں تو ٹکراؤ پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں شہر میں زیادہ بد امنی پیدا ہوتی ہے۔ ایک عشرے سے زیادہ عرصے تک یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ یہاں تک کہ 12 اکتوبر 1999 کادن آجاتا ہے۔ ملک میں جنرل پرویز مشرف ایک بار پھر مارشل لاء نافذ کر دیتے ہیں۔ سیاست کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے لیکن عوامی تائید سے محروم فوجی حکومت کو کراچی میں قدم جمانے کے لیے کراچی شہر کی نمائندہ جماعت کو شاملِ اقتدار کرنا پڑتا ہے۔ MQM ایک بار پھر زیادہ توانا ہو کر آتی ہے اور شہر کے سیاہ وسفید کی مالک بنا دی جاتی ہے۔ اس بار بھی اس کی توجہ شہراور شہریوں کے مسائل کے حل کے بجائے اپنی طاقت میں اضافے کی جانب ہی مرکوز رہتی ہے۔ اس جماعت کے بانی اور دیگر کئی رہنما تقریباً تیس سال کراچی شہر کی ہر فورم پر نمائندگی کرتے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں اقتدار میں حصہ دار تو رہتے ہیں لیکن خود مین اسٹریم سے آؤٹ ہو جاتے ہیں۔ اس جماعت کے بانی کو پارٹی اور پورے شہر میں بلند ترین مقام حاصل ہو جاتا ہے، ان کی کہی ہر بات کا ہر سطح پر ان کی جماعت کے ارکان خوب دفاع کرتے ہیں ، ان کی کہی ہر بات کو درست ثابت کرنے کے لیے زمین وآسمان کی قلابیں ملا دی جاتی ہیں، کہاں کہاں سے دلیلیں اور طاویلیں تلاش کی جاتی ہیں لیکن ان کی کہی ہر بات کو کسی بھی قیمت پر درست ثابت کیا جاتا ہے ۔ عشروں تک یہ تماشا دیکھنے کو ملتا ہے۔ مشرف حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی قومی سطح پر ان کی افادیت بھی ختم ہو جاتی ہے اور آخر کار 22 اگست 2016 کا وہ دن آ جاتا ہے کہ جب MQM کے بانی کراچی پریس کلب کے باہر مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان سے متعلق کچھ ایسے قابلِ اعتراض نعرے لگاتے ہیں کہ اس کی پاداش میں ملک کی طاقتور قوتیں جو پہلے ہی ان سے جان چھڑانے کے لیے کسی غلطی کے منتظر تھیں انہیں اپنا دست شفقت MQM سے سمیٹنے کا موقع مل جاتا ہے ۔ اس کے بعد چشم فلک کو یہ دن بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ ان کی ہر بات کو دلیلوں سے صحیح ثابت کرنے اور ان پر جان نچھاور کرنے والے خود ان ہی کو ان کی جماعت سے نکال کر بےدخل کردیتے ہیں اور ان سے ان کی جماعت کی شناخت تک چھین لی جاتی ہے ۔ ان سے اس جماعت کی شناخت کیا چھنتی ہے گویا کراچی بے شناخت ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد MQM جس کی پہلے ہی کراچی کے شہریوں کی جانب سے حمایت اور تائید میں کمی واقع ہو چکی تھی اور وہ اب صرف دھونس اور دھمکی کی بنیاد پر عوام کے سروں پر مسلط تھی ۔ ایسے میں کراچی کے عوام سکھ کا سانس لیتے ہیں اور ماضی قریب کے تلخ تجربات کے پیش نظر اس کی باقیات سے بھی اپنے آپ کو لاتعلق رکھتے ہیں ۔ ایسے میں کراچی میں شدید سیاسی خلاء پیدا ہوجاتا ہے۔ طاقتور قوتوں کی جانب سے سیاسی لاوارث اس شہر کے لیے نئے ورثاء کی تلاش شروع کردی جاتی ہے۔ اس بار قرٔعہ فال تحریک انصاف کے نام نکلتاہے ۔ اس شہر کے سیاسی تشخص کا فیصلہ اس مرتبہ بھی مصنوعی طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ تحریک انصاف کے حق میں فیصلہ اس لیے بھی آسانی سے کر لیا جاتا ہے کیونکہ انہیں اقتدار میں لانے کا اصولی فیصلہ تو پہلے ہی کیا جاچکا ہوتا ہے لہذا اس پر بلا کسی چوں چراں کے عمل درآمد بھی کر لیا جاتا ہے۔
اب آج کی الجھن یہ ہے کہ گزشتہ تقریباً تین برسوں میں تحریک انصاف پورے ملک کے عوام کی طرح کراچی کے شہریوں کو بھی اپنی کارکردگی سے متاثر نہیں کرسکی ہے لہذا کراچی شہر میں MQM کی بساط لپیٹنے کے نتیجے جو خلاء پیدا ہوا تھا وہ آج بھی اسی طرح محسوس ہوتا ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ماضی میں بانیMQM کی قیادت میں کام کرنے والے آج مختلف دھڑوں میں منتشر ہیں اور تمام ہی رہنما اپنے لیے نئے امکانات کی تلاش میں مصروفِ عمل ہیں۔
ان حالات میں گزشتہ چند ماہ کے دوران کراچی شہر میں ایک صوبائی اور پھر قومی اسمبلی کی خالی نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لیے میدان سجے۔ صوبائی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی کیونکہ وہ حلقہ روایتی طور پر اسی جماعت کا رہا ہے لہٰذا اس کے نتائج کو سب ہی تسلیم کر لیتے ہیں لیکن قومی اسمبلی کے نتائج سے پوری قوم ہی ششدر رہ جاتی ہے، ملک کے تمام تجزیہ نگاروں کی جانب سے قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس حلقے سے پیپلز پارٹی کامیاب ہو چکی ہے۔
ملکی معاملات میں سوچ بچار کرنے والے سیاسی داؤ پیچ سے واقف اہل علم و دانش حالیہ قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی کامیابی سے یہ نتیجہ اخذ کر رہے ہیں کہ ملک کی مقتدر قوتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ موقع فراہم کیا ہے کہ اگر وہ کراچی شہر میں اپنی کارکردگی بہتر بناکر اس سیاسی خلاء کو پُر کرسکتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا ورنہ ان کے پاس آخری آپشن بہرحال یہ کھلا ہے کہ وہ MQM کے بانی پر عائد پابندی ختم کرکے انہیں ایک بار پھر سیاست میں اپنا کردار ادا کرنے کا موقع فراہم کریں۔ MQM کے بانی پر عائد پابندی ختم کرنے کی مہربانی آخر کیوں کی جارہی ہے تو شاید اس کا واحد سبب کراچی شہر میں مسلم لیگ ( ن) کا راستہ روکنا مقصود ہے۔ جس سے مقتدر قوتوں کو شدید اختلاف ہے اور جس جماعت کی قیادت کے سخت گیر رویہ کی بناء پر فی الحال ان کے مابین تعلقات بنتے دکھائی نہیں دیتے۔ دوئم وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ کراچی بہر حال ایک صنعتی اربن مڈل کلاس کا شہر ہے اور فطری طور پر اس شہر کو ایک ایسی ہی سیاسی جماعت کاحصہ بننا ہے جو معاشرے میں صنعتی فروغ کے تصورات کو سیاسی تحفظ فراہم کرتی ہو اور آج کے حالات میں ملک میں ایسی جماعت صرف مسلم لیگ ( ن) ہی ہے جو اس شہر میں اپنی سیاسی حیثیت کو تسلیم کرواسکتی ہے۔ اپنے صنعتی اربن مڈل کلاس کے تشخص کی بناء پر کہا جاسکتا ہے کہ اس شہر کو جب بھی کبھی آزادانہ طور پر اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ملا تو یہ شہر مسلم لیگ ( ن) کے حق میں فیصلہ کرے گا جو جاگیر دارانہ سماج کی فکر کے بر خلاف اربن مڈل کلاس پر مشتمل صنعتی شہر ہے۔
سب سے بڑھ کر مقتدر قوتیں اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ MQM ہے جو ایک طویل عرصہ تک ان کے ساتھ مل کر قومی سیاست میں کردار ادا کرتی رہی ہے اور ان دونوں کی شراکت داری کی طویل تاریخ ہے۔ ماضی میں اس میں کہیں کہیں اختلافات ضرور پیدا ہوئے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مذاکرات کی میز پر مشترکہ مفادات کے پیشِ نظر وہ حل بھی ہوتے رہے ہیں لہذا گزشتہ چند برسوں کی دوری کو غلط فہمی قرار دے کر ماضی کے آزماۓ ہوئے پرانے دوستوں کے ساتھ ایک بار پھر اقتدار میں شراکت داری کی جاسکتی ہے ۔ ملک کی طاقتور قوتوں کے لیے ان کے حق میں فیصلہ کرتے وقت ان کا ماضی کا کردار بھی اطمینان کا باعث ہو گا کہ اگر MQM کی قیادت طے شدہ امور سے اختلاف کرتی ہے تو ان کے بانی کو ایک بار پھر بہ آسانی سیاسی میدان سے نکال باہر کیا جاسکتا ہےاور اس سے کراچی کی سیاست میں کوئی بھونچال بھی نہیں آۓ گا جس کا مشاہدہ وہ ماضی قریب میں کربھی چکے ہیں۔ دوسری جانب مقتدر قوتیں اس حقیقت سے بھی بخوبی واقف ہیں کہ یہ کام MQM کے علاوہ مسلم لیگ (ن) سے کروانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہوگا کیونکہ ماضی میں پوری ریاستی مشینری کے استعمال اور مصنوعی عوامی قیادت کے باوجود بھی میاں محمد نواز شریف کو مسلم لیگ ( ن) سے علیحدہ نہیں کیا جا سکا ہے۔ بہرکیف اس شہر کے سیاسی تشخص کی یہ لڑائی اب آخری مراحل میں داخل ہو چکی ہے اور زیادہ عرصے تک ملک کے سب سے بڑے صنعتی شہر جس کی آبادی کا بڑا حصہ مڈل کلاس پر مشتمل ہے اس کو کسی واضع سیاسی شناخت سے محروم نہیں رکھا جاسکے گا۔