بھارت سے پاکستان آنے والے کون کون سے فلمی ستاروں کا مقدر ناکامی بنی، آہو چشم راگنی، مینا شوری، سورن لتا اور کون سی ہیروئینیں گم نامی کے اندھیرے میں ڈوب گئیں، لتا منگیشکر نے فیصلہ کیوں بدلا؟
ممبئی فلم انڈسٹری کی آہو چشم راگنی، مینا شوری،سورن لتا، سمیت کئی مشہور ہیروئنیں پاکستان میں ناکام رہیں، لتا منگیشکر نے بھی پاکستان آنے کا پروگرام بنا لیا تھا مگر باز رہیں
پاکستان اور بھارت کے درمیان بھٹکنے والے ادیبوں، شاعروں فنکاروں، گلوکاروں اور موسیقاروں کی ایک بہت لمبی لسٹ موجود ہے۔ یہ لوگ مسلمان ہونے کے باعث متحدہ ہندوستان چھوڑ کر مہاجر بن کر پاکستان تشریف لے آئے مگر یہاں کے مخدوش، دگرگوں حالات دیکھ کر واپس چلے جانے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ بھارت واپس پلٹ کر انھوں نے بے تحاشا ناموری اور دولت کمائی ۔
بھارت سے آزاد پاکستان آ کر بہت سے حساس فنکاروں کو لگ پتہ گیا کہ اس نئی مملکت میں موسیقی، گلوکاری، رقص، مجسمہ سازی، آرٹ اور دیگر کئ فنون کی سرکاری سرپرستی تو درکنار، نہایت حوصلہ کشی اور ممانعت کی جاتی ہے۔ معاشی و معاشرتی حالات سازگار نہ پا کر متحدہ ہندوستان سے پاکستان آ کر اور پھر دوبارہ بھارت واپس پلٹ جانے والے کئی ادبی لوگ واپس پلٹ کر بہت اچھے رہے مثلا ساحر لدھیانوی صاحب، سید سجاد ظہیر صاحب اور قرتہ العین حیدر صاحبہ، اردو ادب کے یہ تینوں بہت بڑے نامور لوگ اگر یہاں رہتے تو یہاں ان کی مٹی اسی طرح پلید کی جاتی، جس طرح حضرت جوش ملیح آبادی صاحب اور محترم سعادت حسن منٹو صاحب کی کی گئی۔
ہمارا بدنصیب ملک شروع سے ہی افسر شاہی غنڈہ گردی کا شکار ہو گیا تھا۔ یہاں فلم، موسیقی، گلوکاری، ادب ہر میدان میں صف اول کے فنکاروں کی سخت بے توقیری کی گئ۔ استاد بڑے غلام علی صاحب اور دیگر کتنے ہی نامور موسیقار و گوئیے دوبارہ بھارت چلے گئے اور وہاں بے پناہ عزت حاصل کی۔ یہاں رہ کر امیر طبقے کی جوتیاں سیدھی کرنے اور چاپلوسی کرنے کے باوجود کئ فنکاروں کو سخت کسمپرسی اور بے روزگاری کا شکار ہونا پڑا۔
یہ بھی پڑھئے:
حج اخراجات میں کمی، انیق احمد کا صدقہ جاریہ
جناب سہیل وڑائچ کی مہا بھارت اور سینیٹر عرفان صدیقی
مینا کماری کو اپنوں نے کیوں لوٹ کھایا؟
نوازشریف سے نہیں، ”چابی برداروں” سے رجوع کریں
پاکستان سے بھارت منتقل ہو جانے والے ایک مشہور استاد کا ستار وہاں کے وزیر آعظم مرار جی ڈیسائ صاحب نے خود اٹھا کر اور ان کے پیچھے پیچھے چل کر انھیں توقیر عنایت فرمائی تھی۔
فلمی دنیا میں تو حالات اس سے بھی بدتر رہے۔ بھارت سے یہاں تشریف لانے والی ساری کی ساری ہیروئینوں کو ماسوائے ملکہ ترنم نور جہاں کے، یہاں بےآبرو اور ناکام ہی ہونا پڑا۔ مثلا آہو چشم راگنی، لارا لپا گرل مینا شوری، زینت، جمیلہ رزاق (جن کی بنا پر رزاق باولا مرڈر کیس ہوا)، شعلہ، شرارہ، ریحانہ، سورن لتا، شمیم، ببو اور کئی دوسری ہیروئینوں کو یہاں مکمل ناکامیاں ہی ملیں۔
سائرہ بانو کی والدہ پری چہرہ نسیم صاحبہ کی شادی لاہور کے بزنس مین میاں احسان الحق صاحب سے ہوئی تھی۔ وہی محترمہ سائرہ بانو صاحبہ کے والد بھی تھے۔ ان کے ایما پر پری چہرہ نسیم بھی پاکستان تشریف لا کر لاہور میں آن بسنے پر رضامند ہو گئ تھیں، مگر انھیں واہگہ بارڈر پر ہی روک لیا گیا اور اپنی ملکیت بھاری مقدار میں موجود سونے کے زیورات بھارت سے پاکستان لے جانے کی اجازت نہیں دی گئ۔ وہ پاک بھارت سرحد سے ہی واپس ممبئی (بمبئ) چلی گئیں اور یوں ان کی طلاق واقعہ پذیر ہو گئ تھی۔
محترم دلیپ کمار صاحب کے سگے بھائ ناصر خان صاحب پاکستان تشریف لے آئے تھے۔ یہاں آ کر انھوں نے پاکستان کی پہلی فلم “تیری یاد” میں محترمہ آشا بھوسلے (ان کا اسم مبارک پوسلے بھی لکھا گیا ہے) صاحبہ ( یہ محترمہ لتا منگیشر صاحبہ کی مشہور گلوکارہ بہن کی ہمنام تھیں) کے ساتھ ہیرو کا کردار نبھایا تھا۔ اس کے بعد بھی انھوں نے چند اور پاکستانی فلموں میں کام کیا مگر کام بنا نہیں اور انھوں نے بھی بھارت واپس چلے جانے میں اپنی عافیت جانی۔
بھارتی فلمی دنیا سے پاکستان آنے والے مرد اداکاروں میں نذیر صاحب جو محترمہ سورن لتا کے “نصف بہتر” یعنی شوہر نامدار تھے، ان کے علاوہ مزاحیہ اداکار نذر، طالش، علاءالدین، درپن اور پاکستان کے نامور ولن ادیب بھی شامل تھے۔ ادیب نے متحدہ ہندوستان میں مرزا رسوا کے ناول “امراو جان ادا” کی کہانی پر بننے والی پہلی فلم “مہندی” میں بھی بطور ولن کام کیا تھا۔ اس فلم کی ہیروئین جے شری تھیں جو مشہور فلم ساز شانتا رام کی بیگم تھیں اور انھوں نے شادی کے بعد فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ شانتا رام صاحب سے طلاق لینے کے بعد دوبارہ اس فلم سے اپنے فلمی سفر کا آغاز کیا تھا۔ وہ مشہور اداکارہ راج شری کی والدہ ماجدہ تھیں۔
اداکار جمیل بھارت سے تشریف لائے تھے۔ ان کا اصل نام جمال تھا مگر جمال نام کا ایک اور ہیرو پاک فلم انڈسٹری میں پہلے ہی سے موجود تھا لہذا علی سفیان آفاقی صاحب نے ان کا اسم شریف جمیل کر دیا۔ انھوں نے فلم سزا اور یہ امن میں کام کیا تھا۔ ناکام ہو کر بھارت واپس تشریف لے گئے۔ ان کی بیٹیاں فرح اور تبو بھارت فلم انڈسٹری میں ستارے بن کر جگمگائیں۔ فرح اور تبو کی والدہ شبانہ آعظمی صاحبہ کی کزن ہیں۔ ان کی جمیل یا جمال صاحب سے علیحدگی اپنی دونوں بچیوں کی کم سنی میں ہی ہو گئ تھی۔
ہماری مشہور آرٹسٹ محترمہ روحی بانو صاحبہ جن کی وفات حسرت آیات نہایت کسمپرسی کے عالم میں استنبول کے ایک اسپتال میں ہوئ تھی، ان کے والد بزرگوار مشہور طبلہ نواز محترم استاد اللہ رکھا صاحب مہان فنکاروں میں سے ایک تھے، انھیں بھی پاکستان آ کر کہیں کوئ کام نہیں ملا تو واپس بھارت چلے گئے تھے اور وہاں جا کر بہت دولت و شہرت کمائی تھی۔ مرحومہ محترمہ روحی بانو صاحبہ استاد ذاکر حسین صاحب کی سوتیلی بہن تھیں۔
پاکستان آنے کے متعلق سنجیدگی سے غور کرنے والوں میں محترم خواجہ احمد عباس، محترمہ عصمت چغتائ صاحبہ اور ملکہ غزل محترمہ بیگم اختر (اختری بائ فیض آبادی) کے نام نامی شامل ہیں مگر پھر انھوں نے اپنے فیصلے بدل لیے اور وقت نے ثابت کیا کہ ان سب کا بھارت ہی میں رہنے کا فیصلہ درست ثابت ہے۔
اس آرٹیکل کی آخری بات یقینا سب لوگوں کو چونکا دے گی۔ وہ یہ کہ ایک بار بھارت کی سب سے بڑی گلوکارہ محترمہ لتا منگیشتر صاحبہ نے بھی ایک بے حد مشہور پاکستانی کلاسیکل استاد گوئیے سے شادی کرنے اور پاکستان آ بسنے کا مصمم ارادہ کر لیا تھا۔
یہ “دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئ” والا معاملہ تھا۔ شام چوراسی خاندان کے چشم و چراغ یہ محترم شادی شدہ بھی تھے اور لتا جی اپنے پہلے ناکام عشق کی بدولت سخت برافروختہ اور رنجیدہ تھیں اور سخت سنجیدہ بھی تھیں۔ اسی اثناء میں پاک بھارت سرحدی کشیدگی اتنی بڑھ گئی کہ روزانہ جھڑپیں ہونے لگیں۔ ہمارے ان دونوں نئے “لیلی مجنوں” نے بھی اونچ نیچ بھانپ لی اور یہ سوچا کہ انھیں اس جلتی پر تیل نہیں چھڑکنا چاہیے۔ یوں یہ معاملہ ٹھنڈا پڑ کر ٹھپ ہو گیا۔ یہ محترم اپنے نامور بھائی کے ہمراہ بھارت کے دورے پر گئے تھے تو وہاں ان کی بے حد عزت احترام اور آو بھگت کی گئ تھی۔ بھارت کے نامور فلمی اداکار اور “مغل آعظم” بننے والے محترم پرتھوی راج صاحب نے ان کے روبرو سر عام، سر محفل سجدہ تعظیم ادا کیا تھا۔ ان محترم کا نام استاد سلامت علی خان صاحب تھا۔ استاد نزاکت علی خان صاحب ان کے سگے بھائی تھے۔