بعض اوقات لوگ اپنی نقاب خود اتار دیتے ہیں آرٹیکل تریسٹھ اے کے فیصلے کے موقع پر کچھ لوگوں نے اتاری۔ جسٹس افتخار چوہدری کو مسیحا سمجھنے والوں نے اس ملک کی جمہوریت کو عدالتی مارشل لاء کے حوالے کرکے ہائیبرڈ نظام ایجاد کرکے ایک اور عذاب مسلط کیا۔ فروری کے انتخابات میں جو ہوا اس نے مزید عدم اعتماد پیدا کیا۔ 1973 کے آئین نے ملک کو ایک راہ دکھائی لیکن جلد ہی اس آئین بنانے والوں، اس کے تحت حکومت اور وزیر اعظم کو برطرف کرکے قید کردیا گیا اور عدلیہ نے اپنے دونوں کندھے پیش کردیئے۔ یہ منحوس ” ملاپ ” پاکستان کو اس بربادی کی طرف لے گیا۔ جہاں آج ہر طرف لگڑ بھگے، خون آشام ، مگرمچھ دوڑ رہے ہیں، رینگ رہے ہیں۔ ایسے میں کوئی عدالت اتفاق سے آئین کی کوئی اصلی شق بحال کرکے کہتی ہے کہ یہ پارلیمنٹ کا حق ہے کہ وہ کسی شق میں کمی یا اضافہ کرے تو کچھ گرگٹ چلاتے ہیں: ” ابھی یہ فیصلہ مناسب نہیں تھا ” باالفاط دیگر ہماری حکومت میں کرتے تو اچھا ہوتا۔
میں نے آرٹیکل تریسٹھ اے کی عدالتی عصمت دری کے وقت ٹی وی پر کہا تھا کہ یہ عدالت کا اختیار ہی نہیں وہ زیادہ سے زیادہ پارلیمنٹ سے سفارش کرسکتی ہے ۔ جسٹس بندیال نے عدم اعتماد کی تحریک پر دو اہم جملے کہے تھے
1۔ قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی ہے پارلیمنٹ اس پر کارروائی کرسکتی ہے( آئین شکنی کا مقدمہ )
2 ۔ عدم اعتماد کی تحریک پیش کی جائے ووٹ پڑیں اور ” ہر ووٹ گنا ” جائے پھر اسی جج نے ” حلقہ بے ہنگم ” کو ساتھ لے کر آئین سے وہ کھلواڑ کی جس پر خود اس کو بھی حیرت ہے کہ یہ کیا کرگئے ہم ۔۔۔۔
یہ بھی پڑھئے:
اسرائیل پر ایرانی حملہ، کیا عالمی جنگ شروع ہوگئی؟
اکبر بنام اقبال: ڈاکٹر زاہد منیر عامر کا سب سے بڑا علمی کارنامہ کیسے ہے؟
تفصیلی فیصلہ: ہیجان خیز معجون مرکب
بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے وفاقی محتسب کیا قدم اٹھایا؟
یہ جدا بات کہ حکومت نے قاسم سوری اور صدر عارف علوی کے خلاف کوئی کارروائی کی نہ اسمبلی توڑنے کی سفارش کرنے والے کے خلاف بلکہ توشہ خانہ وغیرہ میں پھنسے رہے ۔ حکومت نے تو ڈی چوک پہنچنے والے سیاست دانوں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی پر بھی زور نہیں دیا جس میں جسٹس بندیال نے کہا تھا کہ ” اسلام آباد کے سیکٹروں درختوں کو آنسو گیس سے بچنے کے لئے جلایا گیا ہوگا “
اس تحریر کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں کہ ” شہرہ آفاق ” قانون داں حامد خان کو آئین کی شق 63 اے کی اصل شکل میں بحال پر خوش ہونا چاہیئے تھا لیکن وہ بھی آج اپنی نقاب اتار کر آگئے ۔۔۔۔کہتے ہیں کہ عدالت نے فلور کراسنگ کے راستے کھول دئیے فلور کراسنگ دنیا کے کسی بھی مذہب ملک میں ممنوع ہے
اندازہ ہوا کہ وہ ” سپریم کورٹ بندیال بینچ کی ترمیم کردہ شق پڑھے بغیر ہی بول اٹھے” 63 اے میں لکھا ہے کہ جو بھی پارٹی لائین سے ہٹ کر ووٹ دے گا وہ ” ڈی سیٹ ” ہوجائے گا ہندوستان سمیت کئی جمہوری ملکوں میں ایسا ہی ہے اور اس کے سوا کچھ نہیں مگر قائد کے حکم ” سخت بولو گالی دو ” کے باعث وہ بندیال بینچ کا اضافی جملہ ہضم کرگئے کہ ” پارٹی لائین کی خلاف ورزی کرنے والے کا ووٹ بھی کاونٹ نہیں ہوگا ” یہ اضافہ مضحکہ خیز اور جمہوریت کے بنیادی اصول کی نفی ہے کہ ” every vote must count “
اب آجائیں کہ کن مہذب ملکوں میں فلور کراسنگ کی اجازت ہے تو حامد خان صاحب ان میں امریکا اور برطانیہ دونوں شامل ہیں۔ دونوں کی پارلیمنٹ اور کانگریس میں عام طور پر پارٹی رکن پارٹی کے خلاف ووٹ دیتا ہے
اس گفتگو کے آخر میں ایک زبردست رپورٹ کا ایک چارٹ پیش کروں گا جس میں ان دعووں کی قلعی کھل جائے گی کہ دنیا کے اکثر ممالک میں اینٹی فلور کراسنگ لاز ہیں۔ حقیقت یہ کپ یورپ امریکا اور برطانیہ ضمیر کی آواز اور ووٹ دینے کو ” ذاتی پسند اور آزادی ” قرار دیتے ہیں۔ یہ رپورٹ 1200 صفحات کی ہے اس میں دنیا بھر کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں جمہوری ملکوں کی سب سے نچلے درجے( غیر جمہوری ) میں رکھا گیا تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق 193 جمہوری ، نیم جمہوری اور غیر جمہوری ملکوں میں سے 41 میں فلور کراسنگ کے مختلف قوانین ہیں۔
پھر لکھنے پر مجبور ہوں کہ کسی بھی ملک میں ” ووٹ ” نہ گننا شامل نہیں۔ کسی ملک میں عدالت کی جرات نہیں ہوتی کہ وہ قانون سازی کی کوشش کرے یا آئین میں فل اسٹاپ کا بھی اضافہ کرے یہ پاکستان ہی ہے جہاں آئین منسوخ معطل منجمد ہوتا ہے وزیراعظم عدالت سے گھر بھیجے جاتے ہیں۔۔۔عدالتیں ملکی معیشت کا بیڑا غرق کرتی ہیں اور مارشل لاء کو گلے سے لگاتی ہیں
اس بلاگ کا مقصد ڈی فیکشن کی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ ہم کتنے جھوٹے منافقانہ اور مفاد پرست معاشرے میں ریتے ہیں جہاں آپ کے ” وکیل ” بھی کچھ زیادہ ہی مفاد پرست ہیں اور گمراہ کرتے ہیں