تو بس پھر کہنے لگے کہ وقت ہے تم لوگ اب عملی تربیت حاصل کرو ۔ ہم نے کہا کہ آپ ہمیں کہاں بھیجنا چاہتے ہیں۔۔۔بولے۔۔۔۔جہاں بھی جاو گے کچھ سیکھ ہی لو گے لیکن اس سے پہلے ایک بات۔۔۔متین صاحب سے نظریاتی اختلاف بہت نمایاں تھا ۔ ہم کلاس، کوریڈور اور ان کے چیمبر میں بھی گفتگو کرتے تھے۔۔بے حد اختلافی معاملات پر مگر مجال ہے کہ ان کی آواز اونچی ہوجائے۔ عام طور سے کلاس میں آتے اور پوچھتے۔۔۔۔کوئی نئی کتاب کسی کے زیر مطالعہ ۔۔۔؟ میں بتادیا کرتا تھا کہ کیا پڑھ رہا ہوں۔۔۔۔ایک روز میں نے کہا بانگ سحر ۔۔۔۔رجسٹر پر کچھ لکھ رہے تھے چونک کر دیکھنے لگے۔۔۔۔۔
کچھ ذوق تبدیل ہوا ؟
نہیں سر ۔۔۔مطالعے کا دائرہ وسیع کیا ہے ۔ دیکھ رہا ہوں کہ 22 سال کا نوجوان کس حد تک پختہ لکھ سکتا ہے ؟ میں نے جواب دیا ۔۔
مگر یہ یاد رہے کہ یہ مولانا مودودی کی تحریر ہے ۔ وہ ہنس پڑے۔
میں نے عرض کیا ابھی ملوکیت کے باب میں سعودی ملوکیت کا حصہ پڑھ رہا ہوں، دل کو لگ رہا ہے ۔۔۔۔
وہ عام طور سے قہقہہ نہیں لگاتے تھے لیکن اس بار قہقہہ ہی لگایا۔۔۔۔تو اپنے مطلب کی بات نکال ہی لی ۔ مسکرا کر بولے پوری کلاس ہونق بنی دیکھ رہی تھی۔
اس میں ہندو مسلم نفاق اور تیسری قوت کی بات بھی دل کو لگتی ہے۔
متین الرحمن مرتضیٰ مسکرا کر چپ ہوگئے، بات آئی گئی ہوگئی۔
اگلے روز سب کو لکھنے کے لئے موضوع ملا ۔۔۔۔Reasons fall of Dhaka.
یہ میرا دل پسند موضوع تھا یقین تھا، اس بار وہ سارے بدلے چکا دیں گے ۔ سر شمس نے مشورہ دیا، احتیاط سے لکھنا۔
میں نے فری ہینڈ میں لکھا۔ بنگالی زبان سے پیریٹی اور پھر فوجی آپریشن، جنرل نیازی کے کردار اور ہتھیار ڈالنے تک
بھری کلاس میں انہوں نے دو روز،بعد سب کو نمبر بتاتے ہوئے ان کی رپورٹس بھی واپس کیں سب سے زیادہ نمبر مجھے ملے تو میں چکرا کر رہ گیا لیکن انہوں نے مجھے میری رہورٹ واپس نہیں کی۔
چیمبر میں رکھی ہے ۔ آکر لے لینا۔ انہوں نے ہدایت کی
قصہ مختصر۔۔۔۔چیمبر میں پھر بحث ہوئی۔ میں نے حوالے پیش کئے انہوں نے اپنے دلائل دئیے۔ ۔۔۔لیکن رپورٹ واپس کرنے کے بجائے ردی کی ٹوکری ہی میں جلادی۔
” اپنی سوچ کو اسی طرح ضمیر پر چھوڑ دینا۔۔۔صحافت کو تم درکار ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو پھر جب وقت آیا تو انہوں نے مجھے میرے دو ساتھیوں سمیت نئے روزنامے مساوات کے حوالے کردیا۔ خود اپنے ہاتھ سے ملک کے سب سے بڑے صحافی لکھاری استاد شوکت صدیقی کو خط لکھا جس کا عکس آپ دیکھ رہے ہیں۔
یہ وہ خط ہے جو میری صحافت کے طویل دور کی بنیادی اینٹ ہے اس کے بغیر یہ عمارت بن ہی نہیں سکتی تھی ۔ روشن پہنور بعد میں سندھ یونیورسٹی واپس گئے۔۔۔وہاں انہوں نے شعبہ صحافت کی بنیاد رکھی ۔۔۔۔۔
میں لڑتا بھڑتا۔۔۔۔مساوات کی جابرانہ بندش کے بعد گھر بیٹھا تو انہوں نے مجھے فون کیا کہ لڑتے کیوں نہیں؟
مجھے امن کا جرگا واپس لے گیا پھر جنگ پھر اردو نیوز جدہ۔۔۔۔۔جنگ واپسی۔۔۔جیو کی لانچنگ ٹیم کا ہیڈ ۔۔۔۔ڈائرکٹر ۔اے آر وائی ون ورلڈ کو نیوز چینل بنانے کے لئے مشن کی بطور چینل ہیڈ کام۔۔۔اب تک کی تعمیر پھر 92 نیوز چینل کی ڈویلپمینٹ۔۔۔۔۔۔جیو میں واپسی۔۔۔لیکن اس دوران دس دس گھنٹے کی live براڈ کاسٹنگ۔۔۔۔۔اس پر متین صاحب کا پیغام” وار روم دیکھ کر میرا خون سیروں بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔”
میرے تمام پروگرام وہ دیکھتے تھے نیوز رن ڈاون پر کبھی ڈانٹ بھی دیتے تھے ۔۔۔۔۔۔حق مغفرت کرے
تو آج متین صاحب بھی رخصت ہوگئے۔۔۔۔لیکن ان کے ہزاروں شاگرد ان کا نام لیتے رہیں گے
اللہ ان کی لحد کو نور سے بھر دے ۔۔۔۔