افغانستان کی چار لاکھ کے قریب فوج ہے جس میں تین لاکھ افغان نیشنل آرمی، پینتالیس ہزار کے قریب جدید اسلحے سے لیس سپیشل فورسسز اور اتنے ہی “اربکی” کے نام سے افغان لوکل پولیس ہے ـ کُل ملا کر قریباً چار لاکھ کے فوج بنتی ہے لیکن وہ کیا وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ افواج آج جارحانہ سے دفاعی بلکہ پسپائی حالت اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں ـ ایسا کون سا راز ہے کہ جب طالبان 1994 میں ابھرے تھے تو ان کے مقابلے میں مرکزی حکومت کے بجائے شمالی اتحاد اور کچھ روس کے وقت کی جہادی تنظمیں تھیں لیکن اس وقت انہوں نے اتنی تیزی سے پیش قدمی نہ کی جتنی آج امریکہ اور نیٹو کی حمایت یافتہ مرکزی حکومت کی موجودگی میں وہ کر رہے ہیں؟
پہلی اور سب سے بڑی وجہ وه سچ ہے جو گذشتہ دنوں امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ “ہم افغانستان ایک ملت بنانے نہیں گئے تھے اپنے مفادات کے حصول کیلئے گئے تھے”ـ مفادات تو انہوں نے سوائے طالبان کے خاتمے کے کافی حد تک حاصل کرلیے لیکن اس کے لیے امریکہ نے افغانستان کی حکومت کا جس خود غرضانہ طریقے سے استعمال کیا، اس کے نتیجے میں آج وہ دفاعی حالت میں اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے ـ
امریکہ نے افغان حکومت کے ساتھ ساتھ غیر ریاستی عناصر جو طالبان کے مخالف تھے لیکن حکومتی کنٹرول سے بھی باہر تھے کو سپورٹ کیا گیا ـ مثلاً میدان وردگ میں علی پور کے نام سے حزب وحدت کا ایک کمانڈر جو طالبان کا بھی مخالف تھا اور اپ پر یہ الزام بھی لگتا رہا کہ وہ طالبان کے نام پر عام لوگوں خصوصاً پشتونوں کے خلاف کاروائیاں کرتا ہے ـ 2017 میں انہی الزامات کی بنا پر گرفتار ہوا لیکن نامعلوم لوگوں کی مداخلت پر رہا ہواـ علی پور کی ملیشیا نے مارچ 2021 میں افغان فضائیہ کا ہیلی کاپٹر مار گرایاـ افغان آرمی اس کے خلاف میدان وردگ میں آپریشن کرنے گئی ـ ایک ہفتے بعد بغیر آپریشن کیئے دوبار لوٹ آئی ـ یہی حال بلخ او شبرغان کے صوبوں میں متحرک نظام الدین قیصاری نامی جنبش گروپ کے ایک کمانڈر کا تھا ـ جس پر جنگی جرائم کے الزامات کے بعد 2020 میں افغان نیشنل آرمی نے حملہ کردیا، شدید لڑائی ہوئی لیکن امریکی مداخلت پر صلح ہو گئی اور آج مزار شریف میں رہ رہا ہے اور جس جنرل خوشحال سادات کی سربراہی میں اس کے خلاف آپریشن کیا گیا وہ استعفی دے کر آج گھر بیٹھا ہے ـ ایک اور مثال ویمن فٹ بال فیڈریشن کے سربراہ اکرام الدین کرام ہیں جن پر جب خواتین فٹ بال ٹیم کی کچھ کھلاڑیوں نے الزام لگایا کہ انہوں نے ہمیں جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا ہے ـ اکرام الدین جا کر شمالی صوبے پنجشیر میں روپوش ہو گیا جب پولیس گرفتار کرنے گئی تو مقامی لوگوں کی جانب سے شدید مزاحمت ہوئی پولیس ناکام لوٹ آئی ـ اسے شمالی اتحاد کی حمایت حاصل تھی اور آج تک وہ کھلے عام پھر رہا ہےـ ایسی حالت میں جب امریکی انخلاء شروع ہوا جہاں ان لوگوں کا اثر و رسوخ ہے وہیں حکومت ان کے سامنے بے بس ہےـ جن علاقوں میں یہ لوگ متحرک تھے وہاں مرکزی حکومت کمزور ہو گئی ہے اور وہ ملکی مفاد کے بجائے اپنا مقاصد لے کر آگے بڑھ رہے ہیں ـ طالبان ان کی اس مخالف کا فائده اٹھا رہے ہیں ـ
دوسرا غیر ریاستی عناصر کے ساتھ ساتھ حکومت اور فوج میں کچھ لوگوں کو “خصوصی” طور پر نوازا گیاـ جیسے کندهار کے پولیس چیف جنرل عبدالرازق، پکتیکا میں سپیشل فورس کے سربراہ عزیز الله کاروان، جنوبی صوبے اروزگان کے پولیس چیف مطیع الله جان، لوگر میں افغان لوکل پولیس کے کمانڈر سبز علی ،شمالی صوبوں میں عبدالرشید دوستم اور مقامی سطح پر ایسے سینکڑوں افراد کو کھلی چھوٹ دی گئی ـ ان کے اپنے ٹارچر سیلز تھے ـ اپنی کاروائیوں کی بہت کم رپورٹس وه وزارت دفاع کے ساتھ شیئر کرتے تھے ـ یہ حقیقت ہے کہ ان کی کاروائیوں سے جہاں طالبان کو شدید نقصان پہنچا وہیں ان پر کرپشن، ماروائے عدالت قتل ذاتی اور قومی دشمنیوں کا بدلہ لینے جیسے الزامات پر لگے ـ جب تک امریکہ ان سے مدد کرتا رہا تب تک وہ طالبان سے لڑتے رہے ـ جب امریکی انخلاء شروع ہوا تو ان کی کمک کم ہو گئی اور مرکزی حکومت ویسے ان کی مدد نہ کر سکی تو ان گروہوں کی بھی لڑائی میں پہلے جیسے دلچسپی نہ رہی اور انہیں علاقوں کے وہ لوگ جو ان کی کاروائیوں کا نشانہ بنے تھے وہ مجبوراً یا انتقاماً طالبان سے مل گئے جس کی بہترین مثال شمالی صوبے تخار او بدخشان جیسے نان پشتون اور تاجک اکثریت کے صوبے جو طالبان کی حکومت کے دوران شمالی اتحاد کا گڑھ تھے ،ان میں طالبان کو خلافِ توقع کامیابی حاصل ہوئی اور اب ان صوبوں کے اسی فیصد علاقے طالبان کی کنٹرول میں ہیں ـ
تیسری اور سب سے بڑی وجہ یہ کہ بیس سال بہت بڑا عرصہ ہے لیکن اس تمام دورانئے میں افغان وزارت دفاع غیر ملکی افوج پر انحصار کرتی رہی ـ اور خود کفیل ہونے کی بہت کم کوشش کی ـ ان کی وردی، اسلحہ، جوتے ،تنخواه ،علاج سب کچھ غیر ملکی بالواسطہ یا بلاو واسطہ فراہم کرتے رہے ـ فضائی حملوں سے لیکر دور دراز کے علاقوں میں اسلحے کی کمک، کھانا اور پانی بھی غیر ملکی ہیلی کاپٹرز کے ذریعے انہیں پہنچاتے تھےـ دوسری طرف اس سب عمل میں طالبان سخت ترین لڑائی کے عادی ہو گئے ـ انہوں نے فضائی بمباری میں سخت گوریلا جنگ سیکھ لی ـ اب کہ جب غیر ملکی افواج نے ان سب چیزوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے تو افغان فوج کو فضائی حملوں کے بیک اپ، زمینی کمک اور دور دراز کے علاقوں میں کی خوراک او دیگر ساز و سامان کی سپلائی کی شدید کمی محسوس ہو رہی ہے اور یہ خلاء شائد جلدی پر نہ ہو سکےـ غیر ملکی افواج کے فضائی حملوں کی غیر موجودگی نے طالبان کیلئے یہ لڑائی بہت آسان کر دی ہے ـ انہوں نے تمام سرینڈر کرنے والے فوجیوں کے لیے عام معافی کا اعلان بھی کر دیا ہے ـ دیکھنے میں آرہا ہے کہ اب طالبان حملوں کے بجائے ان کا محاصره کرتے ہیں ـ اور بہت کم مزاحمت کے بعد وہ سرینڈر کر دیتے ہیں جس کے نتیجے میں اب تک ہزاروں فوجی سرینڈر کر چکے ہیں اور بھاری اسلحہ ،فوجی گاڑیاں اور گولہ بارود طالبان کے ہاتھ لگ رہا ہے ـ
اب دیکھنا ہو گا کہ افغان حکومت کس طرح خود کو سنبھالتی ہے اور دفاعی پوزیشن سے نکل کر جارحانہ پوزیشن پر آتی ہے لیکن ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکہ نے واقعی افغانستان کو ایک ملت بنانے کا کام نہ کیا افغانستان کے ساتھ بحثیت ریاست یا حکومت مدد کرنے کے بجائے اس کا کنٹریکٹر کی طرح استعمال کیاـ جب بیس سال میں القائده او اسامه بن لادن کو ختم کرنے کا کنٹریکٹ ختم ہوا ـ آدھی رات باگرام ائیر بیس خالی کیا او امریکا کو چل دیئے ـ اب طالبان جانیں ،خانہ جنگی کا شکار افغانستان جانے اور دفاعی انداز میں اپنی بقاء کی جنگ لڑتی افغان حکومت جانے.