شمس زبیری مرحوم نے نصف صدی قبل ”نقش“ کے نام سے ادبی ڈائجسٹ جاری کیاتھا۔”نقش“میں اردو کے بہترین ادبی رسائل سے مقبول اوربہترین اصنافِ ادب کا انتخاب شائع کیا جاتاتھا۔اس سلسلے میں انہیں نقوش اوردیگرادبی جرائدکے مدیران کرام کی سخت مخالفت کابھی سامنارہا۔”نقش“ اپنے دورکامقبول ادبی رسالہ تھا۔شمس زبیری بہترین شاعربھی تھے۔ان کے دواشعارپیش ہیں۔
کبھی آتشِ غمِ عشق تھی، کبھی آتشِ غمِ زندگی
مرے دل میں آگ لگی رہی،کٹی عمرسوزوگدازمیں
سودا وہ سما گیا ہے سرمیں،جچتانہیں کوئی نظر میں
پہچان رہاہوں دشمنوں کو،کچھ دوست بھی ہیں نظرمیں
شمس زبیری کی پیروی میں محترم ضیاالرحمٰن ضیابرسوں سے اردوکا خوبصورت ادبی جریدہ”ادبی ڈائجسٹ“ شائع کررہے ہیں۔جس میں اردو ادب کی بہترین،منتخب اورنایاب تحریریں شائع کی جاتی ہیں۔پرچہ بہترین اوراعلیٰ آفسٹ پیپر پرشائع کیاجاتاہے۔”ادبی ڈائجسٹ“ کے سرورق پر’زندگی آمیزاورزندگی آموزادب کاانتخاب‘ لکھاہوتاہے۔سال میں ”ادبی ڈائجسٹ“ کے دوشمارے شائع کیے جاتے ہیں۔شمس زبیری کی مانند ضیاالرحمٰن ضیابھی ایک بہت اچھے شاعرہیں۔ان کے دوشعری مجموعے”پیارکاپہلادن“ اور”کبھی سوچانہ تھا“ شائع ہوچکے ہیں۔’میری دنیا‘کے عنوان سے ان کی پانچ درسی کتب بھی شائع ہوئی ہیں۔ضیاالرحمٰن ضیاکے ادبی ڈائجسٹ میں شائع غزل کے چنداشعار ؎
مسکرانے کو لب کھولتے ہیں ۔۔۔تیرے رخسار بھی بولتے ہیں
لائیں آبِ بقا اب کہاں سے۔۔۔ یاں تو سب زہرہی گھولتے ہیں
اورکیا ہوضیا اس کے غم میں ۔۔۔ موتی اشکوں کے ہم رولتے ہیں
حال ہی میں ”ادبی ڈائجسٹ“ کابیسواں شمارہ شائع ہو ا ہے۔ آفسٹ پیپرپرایک سوبتیس صفحات کے پرچے کی ڈھائی سوروپے قیمت بھی مناسب ہے۔ جس میں شامل تمام تحریریں قندِمکرر کا مزہ بہم پہچاتی ہیں۔اداریہ ”احوال“میں ضیاالرحمٰن ضیا نامورشاعرومدیرادبِ لطیف ناصر زیدی کے خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے لکھا۔”ناصرزیدی بھی رخصت ہوئے۔حق مغفرت کرے۔ناصرزیدہ سے میرے دیرینہ تعلقا ت تھے۔اسکول کے زمانہ طالب علمی میں جب بھی لاہورجاتا،میری’شمع‘ کے دفترمیں ملاقات ہوتی۔وہ ایک اشاعتی گروپ سے وابستہ تھے۔یہ اشاعتی گروپ’آئینہ‘اوردیگرماہنامے بھی شائع کرتاتھا۔پھروہ’ادب لطیف‘کے ایڈیٹربھی ہوگئے۔ادب لطیف سے ان کاتعلق دمِ آخرتک قائم رہا۔”زمیں کھاگئی آسماں کیسے کیسے۔“
اس بارادبی ڈائجسٹ میں ممتازلکھنے والوں کی تحریریں شامل ہیں۔قتیل شفائی،مشفق خواجہ،علی عباس جلال پوری،انورعنایت اللہ،احمدندیم قاسمی، ناصر کاظمی، شکیب جلالی،مصطفےٰ زیدی اورمحبوب خزاں وغیرہ شامل ہیں۔پرچے کاآغازسیدمبارک حسین سرورکی نعت سے ہواہے۔
اٹھائیں درد جدائی کی سختیاں کب تک
ملے گا اذن ِ حضوری شہِ شہاں کب تک
حضور چشمِ کرم ہوگی مہربا ں کب تک
بنیں گے ہم ہدفِ تیر دشمناں کب تک
جبین ِ شوق کو اپنی سکوں نہیں ملتا
نصیب ہوگا مجھے سنگ آستاں کب تک
مضامین میں ”محمدحسین آزاداورہماراعہد“ نامورمرحوم ادیب اورنقادسجادباقر رضوی کے قلم کاشاہکارہے۔جس میں انہوں نے ایک سوال کیاکہ آج ہم آزاد کوکیوں پڑھیں؟اوراس کاجواب آبِ حیات سے آزادکی زبان سے ہی دیا۔
”اے کاغذی خانقاہوں کے بسنے والو! تمہاری تصنیفات تمہارے گھرآباد ہیں۔جب آنکھیں کھولتاہوں تم نقوش وحروف کے لباس پہنے ہنستے بولتے پھرتے چلتے نظرآتے ہواورویسے ہی نظرآتے ہوجیسے کہ تھے۔ زمانہ سالہاسال کی مسافت طے کرکے دورنکل آیااورسینکڑوں برس آگے بڑھااوربڑھ جائے گامگرتم اپنی جگہ بدستورقائم ہو۔تمارے اعمال وافعال کے پتلے تمہاری تصنیفیں ہیں ان کی زبانی آئندہ نسلوں سے دل کی باتیں کہتے رہوگے نصیحتیں کروگے سمجھاتے رہوگے۔غمگین دلوں کوبہلاؤگے۔مردہ طبیعتوں میں جان ڈالوگے۔مدھم آرزؤں کو چمکاؤگے،سوتے دلوں میں گدگدی کروگے خوشی کواداسی کردوگے اداسی کوخوشی کردوگے۔اے ہمارے رہنماؤ تم کیسے مبارک قدموں سے چلے تھے اورکیسے برکت والے قدموں سے رستے میں چراغ رکھتے گئے تھے کہ جہاں تک زمانہ آگے بڑھتاہے تمہارے چراغوں سے چراغ جلتے چلے جاتے ہیں اورجہاں تک ہم آگے جاتے ہیں تمہاری ہی روشنی میں جاتے ہیں۔ذراان برکت والے قدموں کوآگے بڑھاؤکہ میں آنکھوں سے لگاؤں۔اپنے مبارک ہاتھ میرے سرپررکھواورمیرے سلام کاتحفہ قبول کرو۔“
مشفق خواجہ مرحوم کامضمون”کچھ انورشعورکے بارے میں“ ہے۔مضمون کے آخرمیں وہ کہتے ہیں۔”شعورکی شاعری کے بارے میں میں نے اس لیے کچھ نہیں کہاکہ اس کی شاعری کوکسی دیباچے یاتعارف کی ضرورت نہیں ہے،ہاں اتناضرور عرض کروں گاکہ شعورکی غزل کے لیے میں نے ’مختلف اورمنفرد‘ کے جوالفاظ استعمال کیے ہیں،انہیں روایتی توصیف نہ سمجھاجائے،ا س سے میری مرادیہ ہے کہ اب تک اردو میں غزل کے جتنے بھی سانچے اورجتنے اسالیب ملتے ہیں،شعورکی غزل اُن سب سے الگ ہے،اِس کی ایک اپنی فضاہے،ایک اپنامزاج ہے،یہاں تک ذخیرہ الفاظ بھی مروجہ غزل کے ذخیرہ الفاظ سے بڑی حدتک مختلف ہے،لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ شعورکی غزل ہماری شعری روایات سے یکسرانحراف کی مثال ہے۔اپنی شعری روایات سے جتنی واقفیت شعور کوہے،اتنی کم شاعروں کوہوگی،لیکن شعورنے بنے بنائے سانچوں پرانحصارنہیں کیا،اپنی شعری روایات سے استفادہ کرتے ہوئے ایک الگ راہ نکالی ہے اورایک الگ لہجے کی تشکیل کی ہے،جس سے نئی غزل کی وسعتوں اورامکانات کااندازہ ہوتاہے۔“
نظموں میں قتیل شفائی کی ”یادوں کامزار“ انجم اعظمی کی”میراقتل“ اورفہمیدہ ریاض کی ”زادِ راہ“ بہترین انتخاب ہیں۔جن قارئین نے یہ نظمیں پہلے نہیں پڑھیں وہ توان سے لطف اندوز ہوں گے ہی۔دوبارہ پڑھنے والوں کوبھی قندِ مکرر کامزا آئے گا۔
افسانوں میں ناموردانشورعلی عباس جلال پوری کا”گلاب کاپھول“ ایک عمدہ افسانہ ہے۔بہت کم افراد کویہ علم ہے کہ علی عباس جلال پوری ایک اچھے افسانہ نگاربھی تھے۔لیکن حال ہی میں مثال پبلشرز نے ان کے افسانوں کامجموعہ شائع کیاہے۔انورعنایت اللہ ”اوروہ لمحہ“ کے ساتھ اس محفل میں شامل ہیں۔انورسجادکا”گائے“ بھی ایک خوبصورت افسانہ ہے۔پروین عاطف بہت عمدہ افسانہ اورسفرنامہ نگارتھیں انہیں وہ مقام نہیں ملاجس کی وہ حقدارتھیں۔ان کاافسانہ”لوٹ سیل“ بھی ایک اچھی تحریرہے۔ڈاکٹرجعفرحسن مبارک کاچالیس صفحات پر محیط طویل افسانہ”چھپکلی والے“ اس شمارے کاحاصل ہے۔یہ ایک ایساافسانہ ہے جسے پڑھ کرقاری کاتجسس ہرصفحے کے ساتھ بڑھتاچلاجاتا ہے اورشروع سے اختتام تک پڑھنے والے کی دلچسپی اورتجسس کم نہیں ہوتااوراب کیاہوگاکہ سوال ہرسطراس کے ساتھ رہتاہے۔اس افسانے میں کئی افسانوں کے درکھلتے محسوس ہوتے ہیں۔فیروزعالم کا”خزاں کاگیت“ اورمحمدسعید شیخ کا”نیند“ بھی بہترین تخلیقات ہیں۔
غزلوں میں اس شمارے میں احمدندیم قاسمی،باقی صدیقی،شکیب جلالی،ناصرکاظمی،محبوب خزاں،مصطفٰے زیدی،کلیم عثمانی،ظفراقبال،ناصر زیدی،قابل اجمیری،باسط عظیم اورضیاالرحمٰن ضیاکاکلام شامل کیاگیاہے۔چندمنتخب اشعارکے ساتھ اس جائزے کااختتام کرتاہوں۔
یہ دوپہر، یہ خموشی کے لب پہ سائیں سائیں
چلو۔۔حیات کی اس قبر پہ چرا غ جلائیں
ندیم، میں کبھی اظہارِ مدعا نہ کروں گا
مگر وہ، بہرِ خدا یہ غزل توسنتا جائے احمدندیم قاسمی
داغ، دل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دیئے جلانے لگے
شام کا وقت ہو گیا باقی
بستیوں سے شرار آنے لگے باقی صدیقی
جو ترا محرم ملا اُس کو نہ تھی اپنی خبر
شہر میں تیرا پتا کس کس سے پوچھاہے، نہ پوچھ
یوں توجتنے پھول سے چہرے ہیں،کملاجائیں گے
اِن بھری آبادیوں میں کون تنہاہے، نہ پوچھ شکیب جلالی