ادبی کتب کے جائزے،مصنفین کے تعارف،ان کے انٹرویوزاورکتابوں کی باتوں پرمبنی سیدکاشف رضاکے کتابی سلسلہ ”کراچی ریویو“ نے چارشماروں میں ہی اپنی دھاک بٹھادی ہے۔اجمل کمال کے باکمال جریدے ”آج“ کے ادارے سے شائع ہونے والے ”کراچی ریویو“ کاچوتھاشمارہ منظرعام پرآگیا۔سیدکاشف رضاکے معاونین رفاقت حیات،ابوعمش،شیخ نویداورمحمودالحسن کی ادبی دنیامیں شائع ہونے والے بہترین مضامین کی تلاش اوران کی تراجم نے کتابی سلسلہ کوخوب سے خوب ترکی جانب گامزن کردیاہے۔”کراچی ریویو“ نے ابتدا ہی سے ہرشمارے میں دنیاکے کسی نامورادیب یاشاعرکاگوشہ شائع کرنے کی روایت قائم کی ہے۔سرورق پرمصنف کی تصویر،اس کا انٹرویو، اس کی کتابوں پرتبصرہ اوردیگرمضامین شامل کیے جاتے ہیں۔شمارہ نمبرچار میں خصوصی گوشہ بکرایوارڈ یافتہ کینیڈین مصنفہ مارگریٹ ایٹ ووڈکاشائع کیاگیا ہے۔
سیدکاشف رضانے ”جب بہاروں کے ہاتھ خالی ہیں“ کے عنوان سے کیاخوب اداریہ تحریرکیاہے۔”مارگریٹ ایٹ ووڈنے کرونالاک ڈاؤن پراپنے ایک مضمون کاآغازڈکنزکے ان الفاظ کے ساتھ کیاجواس کے مشہورناول’دوشہروں کی ایک کہانی‘کے ابتدائی الفاظ ہیں۔’وہ سب سے اچھاوقت تھا،وہ سب سے بُراوقت تھا۔‘ آصف فرخی نے یہ مضمون مجھے ترجمے کے لیے بھجوایاتھا۔وہ وباکے دنوں کے تجربات کی دستاویزبندی کرنے کے لیے اپنے کتابی سلسلہ ’دنیازاد‘ کاخصوصی شمارہ ترتیب دے رہے تھے۔میں مارگریٹ ایٹ ووڈکے خصوصی مطالعے پر مبنی اس شمارے کاابتدائیہ لکھ رہاہوں۔وباکے بُرے دنوں کی کہانی ابھی جاری ہے اورآصف فرخی خودایک کہانی ہوچکے ہیں۔ایٹ ووڈ کا نام میں نے پہلی بارانیس سوننانوے میں سناتھاجب ان کے ناول”اندھاقاتل“ کوبکرپرائزملاتھا۔مارگریٹ ایٹ ووڈمیرے لیے کیوں اہم ہے؟ میراخیال ہے کہ وہ ہمارے عہدکے لیے بہت متعلقہ ہے اوراگرآپ کواپنے عصرکوسمجھناہے تومارگریٹ ایٹ ووڈ کی تحریریں آپ کی بہت مدد کرسکتی ہیں۔دوسری وجہ یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعدسامنے آنے والی نئی عورت ایٹ ووڈکے ہاں بڑے بھرپورطریقے سے سامنے آتی ہے۔ساٹھ کی عشرے میں جب امریکااوریورپ میں نسائیت کی تحریک ابھی عروج پرنہیں پہنچی تھی ایٹ ووڈ،جوتب نوجوان تھیں، اپنامشہورناول’خورنی عورت‘ لکھ رہی تھیں جس نے آزادی پسندمردکابیانیہ اسی پراُلٹ دیاتھا۔اس ناول کی ایک کردارعورت ایک مرد سے اس لیے تعلق بڑھارہی ہے تاکہ اس سے ایک بچہ حاصل کرسکے۔یہ ایک حیران کن عورت ہے مگرایٹ ووڈ نے ہرممکن منطقی التزام کے ساتھ اسے پیش کیاہے۔اس شمارے کے لیے آصف فرخی کامضمون ہمیں لاہورسے محمودالحسن سے حاصل ہوا۔محمودالحسن ’کراچی ریویو‘ کے لیے ہر بار محمدسلیم الرحمٰن سے ایک خاص مضمون بھی حاصل کرتے ہیں۔غالب کے خطوط سے ان کی سوانح عمری پہلے بھی مرتب ہوچکی تھی مگراب غالب کے فارسی خطوط کے تراجم کے بعدخالدندیم اوراب میاں شہبازعلی نے غالب کی خودنوشت بہت سے اضافوں کے ساتھ شائع کی ہے۔ میاں شہبازعلی کی مرتبہ کردہ غالب کی خودنوشت تین جلدوں پرمشتمل ہے جس پراردوکے سینئرفکشن نگاراکرام اللہ کاتبصرہ ہمیں اجمل کمال سے حاصل ہوا۔اس دوران اردوکی فکشن نگارنثارعزیزبٹ اورانگریزی ادب کے معروف نقادہیرلڈبلوم اورجورج سٹائنربھی ہم سے رخصت ہوگئے۔ہیرلڈبلوم پرایک تعارفی مضمون اس شمارے میں شامل ہے جسے پڑھنے سے پتہ چلتاہے کہ ادب سے عشق کے معنی کیاہیں۔ادب کاایک فائدہ یہ بھی توہے کہ یہاں محفل سے اٹھ جانے والے بھی شریکِ محفل رہتے ہیں۔ذراان کی کوئی کتاب نکالیے توآپ سے گفتگوکرنے لگیں گے۔“
”کراچی ریویو“ کی ابتدا”مارگریٹ ایٹ ووڈسے مکالمہ“ سے ہوئی ہے۔جس کاترجمہ شیخ نویدنے اونٹاریوریویوبکس کی شائع کردہ ارل جی انگرسول کی مرتب کردہ کتاب سے کیاہے۔طویل انٹرویو میں ایٹ ووڈادیب کی ذمہ داری،رویے،شاعرہ اورمصنفہ کی حیثیت سمیت کئی امورپراظہارِخیال کیاہے۔مارگریٹ ایٹ ووڈ کے ناول ’خوردنی عورت‘ پرتبصرہ سیدکاشف رضا نے کیاہے۔اس ناول کاترجمہ اورتلخیص فہمیدہ ریاض نے کی تھی۔یہ ترجمہ ’آج‘ میں شائع ہواتھا۔کاشف رضانے ایک دلچسپ بات بتائی کہ مارگریٹ ایٹ ووڈکایہ ناول وہ پہلاناول ہے جس میں میری ملاقات جدیدعورتوں کے روزمرے سے ہوئی۔عورتیں دوسری عورتوں کوکیسے دیکھتی ہیں،اس کی بڑی واضح، دل فریب اوربڑی حدتک پرمزاح عکاسی اس ناول میں کی گئی ہے۔مارگریٹ ایٹ ووڈکے ناول”اندھاقاتل“ پرتبصرہ جان اُپڈائک کاہے جس کاترجمہ کاشف رضا نے کیاہے۔اس طویل تبصرے سے ہم جیسے مبصرین کوعلم ہوتاہے کہ تبصرہ کیسے کیاجاتاہے۔ناول کی ساری کہانی میں محبت کی رسدناکافی نظرآتی ہے اورجب محبت کہیں نظربھی آتی ہے توعام طور پراس جگہ کے بجائے کسی اورجگہ پرملتی ہے جہاں اسے ہونا چاہئے ہوتاہے۔بقول شاعر
ترے جہان میں ایسانہیں کہ پیارنہ ہو۔۔۔جہاں امیدہو،اس کی وہاں نہیں ملتا
دی نیویارک ٹائمزمیں شائع ہونے والے مارگریٹ ایٹ ووڈ کے مضمون”ٹرمپ دورمیں ’ہینڈمیڈزٹیل‘ کی اہمیت‘ کاترجمہ بھی سیدکاشف رضا نے کیاہے۔ مارگریٹ لکھتی ہیں۔”میں جوانیس سوانتالیس میں پیداہوئی تھی اورجس نے دوسری عالمی جنگ کے دوران ہوش سنبھالاتھا،جانتی تھی کہ مستحکم قسم کے نظام بھی راتوں رات تبدیل ہوسکتے ہیں۔تبدیلی بھی بجلی کی کڑک کی طرح اچانک ہوسکتی ہے۔یہ یہاں نہیں ہو سکتا جیسی بات کاکوئی بھروسہ نہیں۔حالات پرمنحصرہے ورنہ کہیں بھی،کچھ بھی ہوسکتاہے۔“ مارگریٹ ایٹ ووڈ کے ایک اورناول ”دی ٹیسٹامنٹس“ پرمچیکوکاکوتانی کے تبصرے ”خادماؤں کاتھرلر“ کے عنوان سے نیورک ٹائمزسے سیدکاشف رضا نے ہی کیاہے۔اس طرح مارگریٹ ایٹ ووڈ کاخصوصی گوشہ ’کراچی ریویو‘ کے تقریباً پچاس صفحات پرمشتمل ہے اورمصنفہ کے بارے میں قارئین کوبھرپورآگاہی فراہم کرتاہے۔
اس شمارے کی انتہائی اہم تحریرمعروف ادیب اکرام اللہ کا میاں شہبازعلی کی کتاب”غالب ازغالب“ پرتبصرہ ہے۔اکرام اللہ لکھتے ہیں۔ ”ایک صاحب میاں شہبازعلی سے گلبرگ لاہورکے سرِراہ چائے خانے میں ملنے کااتفاق ہوا۔عزیزم عاصم کلیارنے ان کاتعارف کرایا کہ آپ بھی غالب کے معتقدین میں سے ہیں۔انہوں نے غالب کے شائع شدہ مجموعوں سے استفادہ کرتے ہوئے اک عجب کتاب”غا لب ازغالب“ کے نام سے سات برسوں میں مرتب کرتے ہوئے تین جلدوں میں شائع کردی ہے۔غالب کوفوت ہوئے کوئی ڈیڑھ سو برس گزرچکے ہیں۔کتاب دیکھ کریوں لگتاہے کہ غالب نے اپنی خودنوشت سوانح حیات لکھ کرکہیں سنبھال کررکھ دی تھی۔اب کہیں جاکراس پر کسی کی نظرپڑی ہے تواُس نے طباعت سے آراستہ کرکے ایک تحفے کے طور پرغالب کے سخن فہموں کی خدمت میں پیش کردی ہے۔ اردو خطوط دلی سے پانچ جلدوں میں جناب خلیق انجم نے تالیف کرکے شائع کیے تھے۔اورغالب کے فارسی خطوط کااردوترجمہ جناب پرتو روہیلہ نے کیا اورایک ضخیم کتاب ”کلیات ِ مکتوباتِ فارسی غالب“ کے نام سے شائع ہوئی۔جناب مالک رام اورغلام رسول مہرنے بھی غالب پرکتابیں لکھی ہیں۔یہ سب وہ ماخذہیں جن کی مدد سے ”غالب ازغالب“کی شکل وصورت میں ظہورمیں آئی۔مولف نے تمام خطوط کوموضوعات کے اعتبارسے الگ الگ کرتے ہوئے چونتیس ابواب میں تقسیم کردیاہے۔پہلے باب کانام ”آباواجداد“اورآخری کا”پیری و صدعیب“ ہے۔یہاں یہ تزک غالب کی پوری زندگی کااحاطہ کرتی ہوئی اختتام پذیرہوتی ہے۔“
”کلیاتِ نثرمنیرنیازی“ سمیرااعجازنے مرتب کی ہے۔جس پرمحمدسلیم الرحمٰن جیسے دانشورنے تبصرہ کیاہے۔کتاب سرگودھایونیورسٹی شعبہ اردو نے شائع کی ہے۔اطہرفاروقی کی کتاب”محاصرے کی آوازیں“ پرآصف فرخی مرحوم نے تبصرہ کیاہے اورکتاب کی تمام خصوصیات بیان کر دی ہیں۔صلاح الدین عادل کاضخیم ناول ”خوش بوکی ہجرت“ کئی سال پہلے شائع ہواتھا۔اس ناول کابھرپورجائزہ ناول نگاررفاقت حیات نے پیش کیاہے اوربہت عمدگی سے قاری کوناول سے متعارف کرایاہے۔”سہیم“ معروف ناول وافسانہ نگاراورمترجم نجم الدین احمد کاتیسرا ناول ہے۔جس کاجائزہ اظہرحسین نے لیاہے۔جبکہ یوسف زیدان کے ناول ”عزازیل“ جس کاترجمہ آج کے شمارہ ایک سوسات کے لیے ندیم اقبال نے کیاہے۔اس پرتبصرہ عاصم کلیارنے کیاہے۔بیدل کے متعلق مضامین پرمبنی کتاب کواسلم انصاری نے ”میناخانہء حیرت“ کا نام دیاہے۔اس پرعمدہ تبصرہ سیدکاشف رضا نے کیاہے۔مرحوم ناول نگارنثارعزیزبٹ،انگریزی نقادہیرلڈبلوم اورجورج سائنرکی یادوں کو بھی تازہ کیاگیاہے۔ایلفرڈہچکاک کے روجرایبرٹ کے دومضامین کے تراجم سیدکاشف رضا نے کیے ہیں۔مجموعی طور پر”کراچی ریویو“ کاتازہ شمارہ عالمی ادب اورادیبوں کی بہترین ترجمانی کرتاہے۔یہی وجہ ہے کہ کتابی سلسلہ کاانتظارکیاجاتاہے۔