پاکستان کے سب سے بڑے شہر اور پہلے داراالحکومت کراچی کے بارے میں بہت کم کتب دستیاب ہیں۔ ملک کے دیگرشہروں کے گزیٹرزکی مانند بھی کچھ زیادہ دستیاب نہیں۔ سن دوہزار میں اجمل کمال کے منفرد اور شاندار ادبی جریدے ”آج” نے ”کراچی کہانی” کے عنوان سے دو جلدوں پر مشتمل یادگار شمارے شائع کیے تھے۔جس میں کراچی کی کہانی،اس شہرکی ترقی کے لیے کام کرنے والے کرسچن، پارسی ،ہندواور مسلمانوںکے کردار کاتفصیلی جائزہ لیاگیاتھا اورکراچی کے میئرز اوردیگر اہم شخصیات کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی تھیں۔ روشنیوں کے شہرکراچی کے بارے میں آج کاکراچی کہانی نمبر محمدطفیل کے نقوش کے ”لاہورنمبر” کے پائے کاجریدہ تھا۔جس کے ذریعے کراچی کی تاریخ ،ثقافت،مختلف قوموں اورزبانوں کے افراد کی ہم آہنگی سے بخوبی آگاہ ہواجاسکتاہے۔ شنید ہے کہ اجمل کمال ”آج ” کی ”کراچی کہانی” کی تیسری جلد شائع کرنے کی تیاری کررہے ہیں۔ یہ اس شہر کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔جس کاتمام تر کریڈٹ محترم اجمل کمال کوجاتاہے۔ انہوں نے تن تنہا وہ کام سرانجام دیاہے جواداروں کے کرنے کاتھا۔
گذشتہ کچھ عرصہ میں کراچی کے حوالے سے کئی عمدہ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔ جن میں محمد سعید جاوید کی”ایساتھامیراکراچی” اور اقبال اے رحمٰن کی ”اس دشت میں اک شہرتھا” بہترین کتب ہیں۔ جن سے کراچی شہر، اس کے مختلف محلوں، اداروں، اہم شخصیات،اس شہرکے معمارو ں ، تعلمی اداروں، اسپتالوں اور دیگر کے بارے میں بھرپور معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔کھتری عبدالغفور نے ”کراچی کی کہانی،تاریخ کی زبانی” محمودہ رضوایہ نے”کراچی تاریخ کے آئینے میں” رمضان بلوچ کی ”لاپتہ شہرکاسراغ” بھی پاکستان کے پہلے دارلحکومت کے بارے میں چند بہترین کتب ہیں۔
محترم علی حسن ساجد نے کراچی کے ایک الگ تشخص کواجاگرکیاہے۔ ان کی کتاب”کراچی کی تاریخی عمارات” جیسا کے اس کے نام ہی سے ظاہرہے۔شہرکی قدیم عمارتوں اورتاریخی یادگاروں کے بارے میں معلومات سے بھرپور ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
مُودی کا ”نیو نارمل“ اور راکھ ہوتا سیندور
پاکستان بیس بال فیڈریشن کی التجا کیا ہے؟
علی حسن ساجدادب،تحقیق اوربراڈکاسٹنگ کے شعبے کی نامورشخصیت ہیں۔انہوں نے بچوں کے ادب سے لکھنے کا آغاز کیا اورپھرکراچی کی تاریخ، تہذیب وثقافت اوربلدیات کواپنا موضوع بنالیا۔ کراچی کی تاریخی عمارات،مقامات اورتہذیب وثقافت سے متعلق ان کے لاتعداد مضامین شائع ہوچکے ہیں۔علی حسن ساجد نے ایم اے صحافت کے بعد جامعہ کراچی سے پی ایچ ڈی بھی”کراچی میں بلدیاتی نظام اور ارتقائ” کے موضوع پرکیا۔وہ بلدیہ کراچی سے سینئرڈائریکٹراطلاعات وطباعت ومیڈیامینجمنٹ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔علی حسن ساجد بین الاقوامی کانفرنسز،سیمینارز اورمطالعاتی دوروں کے سلسلے میں آسٹریلیا،فرانس، جرمنی،ترکی، تھائی لینڈ،بھارت،سعودی عرب،دبئی اور ابوظہبی کے سفرکرچکے ہیں۔ان کوخدمات کے اعتراف میں دوسوسے زائدانعامات اور ایوارڈز سے نوازا جاچکاہے۔ان کی کارکردگی کا اعتراف امریکا کے ادارے اے بی آئی نے دنیاکی معروف شخصیات کی ڈائریکٹری کے آٹھویں ایڈیشن میں پاکستان سے ان کانام منتخب کیاہے جوایک منفرد اعزاز ہے۔
پیش لفظ میں ڈاکٹر علی حسن ساجد لکھتے ہیں۔”کراچی صوبہ سندھ کا دارالحکومت، پاکستان کاسب سے بڑا شہراور اقتصادی مرکز ہے۔ اس شہر کی تاریخ بے شمار تبدیلیوں،تجارتی سرگرمیوں اور ثقافتی تگ ودو سے بھرپور ہے۔ کراچی کبھی ایک چھوٹی سی بندرگاہ تھا۔ آج اس کا شمارپاکستان نہیں دنیاکے بڑے شہروں میں ہوتاہے۔ کراچی کی ترقی وارتقا کی کہانی بے حددلچسپ ہے۔وقت کے ساتھ شہرکی اقتصادی، سماجی،سیاسی اورثقافتی اہمیت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔بندرگاہ نے شہرکودنیابھر کے تجارتی مراکز سے جوڑدیا اور یہاں مختلف ثقافتوں اورقوموں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔انگریزوں کی حکمرا نی نے شہرکی ترقی کی رفتار کوتیزکردیا اور شہر میں جدید انفرااسٹرکچر،رہائشی علاقے،تجارتی مراکزاورتعلیمی ادارے قائم ہونے لگے۔قیام پاکستان کے بعد کراچی کواس کا پہلا دارالحکومت قرار دیاگیا۔ بعد میں دارالحکومت اسلام آباد منتقل کردیاگیا۔لیکن کراچی نے اپنی اقتصادی اور تجارتی اہمیت برقرار رکھی۔یہاں مختلف زبانیں بولی جاتی ہیں،مختلف مذاہب کے لوگ رہتے ہیں اورمختلف ثقافتوںکامیل جول ہے۔یہ شہرآنے والوں کوروزگار کے مواقع فراہم کرتاہے۔کراچی میں بے شمارتاریخی اور قومی اہمیت کی حامل عمارتیں موجود ہیں۔جونہ صرف اس کے ماضی کی گواہ ہیںبلکہ شہر کی شناخت اور پہچان کاحصہ بھی ہیں۔یہ عمارتیں کراچی کے بدلتے ہوئے ادوار کی کہانیاں سناتی ہیں اورشہرکے مختلف پہلووں کواجاگر کرتی ہیں۔اس کتاب میں صرف ان عمارتوں کوشامل کیاگیاہے۔جونہ صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہیں بلکہ کراچی کے منظرنامے کا لازمی جزبھی بن چکی ہیں۔قارئین کی سہولت کے لیے ان عمارات کوان کے استعمال کے مطابق مختلف کیٹیگریز میں تقسیم کیاگیاہے اورپھران کیٹیگریزکوسن تعمیر کے اعتبارسے ترتیب وارشامل کیا گیاہے۔یہ عمارات قیام پاکستان سے قبل کے کراچی کی گواہ ہیں۔جب مختلف ثقافتوں،تہذیبوں اورتاریخ کے دھارے بہہ رہے تھے۔ ان عمارتوں میں وہ تمام عناصردیکھے جاسکتے ہیں جواس کی شناخت اورتمدن کا حصہ ہیں۔کراچی کی تاریخ کوسمجھنے کے لیے ان عمارات کا مطالعہ انتہائی اہم ہے۔”
ڈاکٹرعقیل عباس جعفری ”نوآبادیاتی دورکی تعمیرات ” میں لکھتے ہیں۔”کراچی، دلی، لکھنؤ،لاہور اور ملتان کے طرح کوئی قدیم شہرتونہیں۔ مگر قیام پاکستان کے بعد دارالحکومت بننے کی وجہ سے اس کی شہرت میں بہت اضافہ ہوا۔دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آبادی لاکھوں سے کروڑوں میں پہنچ گئی۔کراچی کی تاریخ پر اولین کتاب الیگژنڈرایف بیلی کی سمجھی جاتی ہے۔جو1890ء میں شائع ہوئی۔قیام پاکستان کے بعد کراچی کی تاریخ پرچند اورکتابیں منظرعام پر آئیں۔جن کے مصنفین میںسہراب کے ایچ کڑک، مانک جی پیٹھاوالا اوربہرام سہراب جی کے نام سرفہرست ہیں۔اردو میں کراچی کی تاریخ پر اولین کتاب محمودہ رضویہ کی”ملکہ مشرق” تھی۔نوے کی دہائی میں عثمان دموہی کی”کراچی تاریخ کے آئینے میں” احمد حسین صدیقی کی ”گوہربحیرہ عرب”، پروفیسر محمد اسلم کی ”خفتگان کراچی” ڈاکٹرسیدعارف شاہ گیلانی کی ”عروس البلاد پاکستان” س م سلمان یونس کی” باتیں کراچی کی” رئیس فاطمہ کی ”شہربے مثال کراچی”اختر بلوچ مرحوم کی تین حصوں پر مشتمل کرانچی والا سیریز،سید ادیب حسین کی ”کراچی اوراس کی بندرگاہ” غلام حسین کلمتی کی” کراچی،قدامت،واقعات،روایات” کھتری عبدالغفورکانڈا کریا کی ”کراچی کی کہانی،تاریخ کی زبانی”شاہ ولی اللہ جنیدی کی ”یہ شارع عام نہیں ہے”ڈاکٹر اقبال ہاشمانی کی ”ایام رقص طاؤس”اہم ترین ہیں۔علی حسن ساجد”کراچی کی تاریخی عمارات” میں کراچی کی ان عمارتوں کی تاریخ درج ہے جو نوآبادیاتی دور میں تعمیرہوئی تھیں۔ان میں تعلیمی ادارے بھی ہیں،چرچ اورگرجاگھربھی،کاروباری مراکزبھی ہیں اورتفریحی مقامات بھی۔”
اقبال عزیز نے ”ماضی کی کہانی۔حال کی پہچان” کے عنوان سے لکھاہے۔” کراچی، پاکستان کاسب سے بڑا شہراور معاشی حب،ایک منفرد مقام کاحامل ہے۔یہ شہرصرف بندرگاہ اورتجارتی مراکز کی وجہ سے مشہورنہیں، بلکہ اپنے تاریخی ورثے کی وجہ سے بھی ایک خاص کشش رکھتا ہے۔کراچی کی عمارتوں کی تاریخ،فن تعمیراوران کی موجودہ حالت پر مبنی”کراچی کی تاریخی عمارات” ہمیں ایک منفرداوردلکش سفر پرلے جاتی ہے۔کتاب کے ورق الٹتے جائیں اورنئے انکشاف اور حقائق آپ پر منکشف ہوتے چلے جائیں گے۔اختتا م پر آپ حیران ہوں گے اپنے شہر کراچی کے اس تاریخی ورثے سے عام طور پرہم کس قدر لاعلم اور بے خبرہیں کہ رات دن جن عمارتوں کے سائے تلے چلتے اورسفرکرتے ہیں انہی کے بارے میں ضروری معلومات نہیں رکھتے اورنہ ہی ہمیں شعور ہے کہ اس تاریخی ورثے کووقت کے گرد تلے دب جانے سے بچا کراپنی آئندہ نسلوں کے لیے محفوظ رکھناکس قدرضروری ہوتاجارہاہے۔ اورڈاکٹرعلی حسن ساجد کی کتاب یہ ضرورت بخوبی پوری کرتی ہے۔ ”
بڑے سائز کی ایک سوچھیاسٹھ صفحات پر مشتمل کتاب الحسن اکیڈمی نے انتہائی دلکش اور خوب صورت انداز میں شائع کی ہے۔سفیدعمدہ کاغذ، دلکش چھپائی،ضروری تصاویرسے مزین اور سب سے بڑھ کرکتابت کے غلطیوں سے بڑی حد تک پاک۔جس کی پندرہ سوروپے قیمت انتہائی مناسب ہے۔بڑے سائز کی وجہ سے کتاب کوسنبھالناقدرے مشکل ہے۔مستقل اہمیت کی حامل اس کتاب کوعام کتابی سائز میں شائع کیاجانا چاہیے۔
”کراچی کی تاریخی عمارات” کوگیارہ حصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔ جس سے شہر میں موجود قدیم عمارتوں کی نوعیت اوراستعمال قارئین پر کھل کر اجاگر ہوجاتی ہے۔ سب سے پہلا حصہ ”سرکاری عمارات” ہے۔ جس میں سندھ گورنرہاؤس، کراچی پورٹ ٹرسٹ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، بلدیہ عظمیٰ کراچی اور سندھ اسمبلی بلڈنگ شامل ہیں۔
”تعلیمی مراکز” میں بھی سات عمارتوں کا تذکرہ کیاگیاہے۔ جن میں این جے وی ہائی اسکول، سینٹ پیٹرک ہائی اسکول، سینٹ جوزف کانونٹ اسکول، سندھ مدرستہ اسلام، ڈی جے سائنس کالج، سندھ مسلم لاء کالج اور این ای ڈی یونیورسٹی کوشامل کیاگیاہے۔
تیسرا حصہ”طبی مراکز” ہے۔ جس میں ایڈلجی ڈنشاڈسپنسری، سول اسپتال، لیپروسی اسپتال منگھوپیر، جعفرفدوڈسپنسری، سوبھراج میٹرنٹی اسپتال،جناح اسپتال کا تعارف کرایاگیاہے۔ چوتھاحصہ ”سماجی مراکز” ہے۔جس میں فریئرہال،سندھ کلب، میکس ڈینسوہال، کراچی جیم خانہ، خالق دینا ہال، کراچی پارسی انسٹی ٹیوٹ، کراچی چیمبرآف کامرس اینڈانڈسٹری اورہندو جیم خانہ شامل ہیں۔
پانچواں حصہ کو”کارباری مراکز ” کا عنوان دیا گیاہے۔ جس میں ایمپریس مارکیٹ، لکشمی بلڈنگ، لی مارکیٹ اورکاٹن ایکسچینج کوشامل کیاگیا ہے۔ چھٹا حصہ ”معلوماتی مراکز/ عجائب گھر” ہے۔ جس میں قومی عجائب گھر، فلیگ اسٹاف ہاؤس(قائداعظم میوزیم)، وکٹوریہ میوزیم اور قصر فاطمہ (موہٹہ پیلس) کا تعارف کرایاگیاہے۔ ساتویں حصے”تفریحٰ مراکز” میں باغ ابن قاسم کلفٹن کا بھرپور تعارف اور تصاویر دی گئیں ہیں۔ آٹھویں حصے”مذہبی مراکز” میں سینٹ پیٹرک چرچ اورہولی ٹرینٹی چرچ کا ذکرکیاگیاہے۔نویں حصے ”عدالتی مراکز” میں سٹی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ کا تعارف ہے۔ دسویں حصے”نشریاتی مراکز” میں ریڈیو پاکستان کراچی کا ذکر ہے۔ جبکہ گیارہویں اور آخری حصے مواصلاتی مراکز میں کینٹ اسٹیشن کراچی اور آخر میں سرکاری طور پرورثہ قرار دی گئیں عمارتوں اور مقامات کی فہرست دی گئی ہے۔
تبصرے میں ”کراچی کی تاریخی عمارات” کے تمام پینتالیس مضامین کا جائزہ لینا ممکن نہیں۔ تاہم کتاب کے چیدہ چیدہ مضامین کا مختصر تعارف پیش کردیاگیاہے۔تاکہ دلچسپی رکھنے والے قارئین کتاب کوحاصل کرکے تفصیلات پڑھنے کی ترغیب مل سکے۔
کتاب کی ابتدا”گورنرہاؤس کراچی” سے کی گئی ہے۔ کراچی کی تاریخی اہمیت کی حامل خوب صورت،دلکش ، وسیع اور انتہائی اہم عمارت گورنر ہاؤس کراچی ہے۔جوکراچی کے مشہور پولوگراؤنڈ کے برابراورایوان صدرروڈ پرواقع ہے۔باہرہی سے دیکھنے سے عمارت کے خدوخال، طرزتعمیراور وسعت کا بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔سرچارلس نیپئر نے1843ء میں اس عمارت کی تعمیرجس جگہ شروع کی۔اس ووقت یہ جگہ ملٹری کیمپ کی مرکزی سڑک وکٹوریہ اسٹریٹ پرواقع تھی۔جس کاتذکرہ عمارت کے پورچ میں نصب سنگ مرمرکی تختی پرملتاہے۔چارلس نیپئرکی ریٹائرمنٹ کے بعدحکومت نے اس جائیداد کوکمشنرسندھ کی رہائش گاہ کے لیے چارہزارآٹھ سو روپے میں خریدلیا۔بعدمیں یہ عمارت گورنر کی رہائش کے لیے استعمال ہونے لگی۔یہاں آنے والے پہلے گورنرسرلینس لٹ گراہم تھے جو1936ء سے 31مارچ 1941ء تک یہاں مقیم ررہے۔اسی دوران عمارت کونئے سرے سے تعمیرکرنے کامنصوبہ بنا۔عمارت کا ڈیزائن انڈیاکے کنسلٹنٹ آرکیٹکٹ رابرٹ ٹی رسل نے تیارکیا۔جونئی دہلی کے کناٹ پیلس ارفلیگ اسٹاف ہاؤس تعمیر کرچکے تھے۔گورنرسرایچ ڈاؤ پانچ برس عمارت میں مقیم رہے۔ فرانسس موڈی قیام پاکستان تک اس میں ٹھہرے۔قیام پاکستان کے بعد سرغلام حسین ہدایت اللہ سندھ کے گورنرنامزد ہوئے۔مگرانہوں نے وزیراعلیٰ کی رہائش گاہ ہارڈلی ہاؤس ہی میں رہائش اختیارکی۔دارالحکومت اسلام آباد منتقل ہونے کے بعد کوئی وی وی آئی پی شخصیت اس عمارت میں قیام کے لیے باقی نہیں رہی۔ 1970ء میں ون یونٹ کے خاتمے کے بعدصوہہ سندھ بحال کردیاگیااوریہ عمارت ایک مرتبہ پھر گورنر ہاؤس بن گئی۔میاں امین الدین، جنرل رحیم الدین خان نے بطور گورنرسندھ عمارت میں قیام کیا۔ رعنالیاقت علی خان واحد خاتون گورنر اور شہلا رضا نے خاتون قائم مقام گورنرکی حیثیت سے عمارت میں قیام کیا۔ ڈاکٹرعشرت العباد خان چودہ سال سندھ کے گورنر اور عمارت کے مقیم رہے۔
گورنرہاؤس کراچی کے بارے میں بے حدکارآمد معلومات اس مضمون سے حاصل ہوتی ہیں۔اسی طرح سرکاری عمارات کے دیگرمضامین بھی قابل قدر اور معلومات افزا ہیں۔ہمیں ان تاریخی اوریادگارعمارتوں کے بار ے میں گراں قدرعلم ہوتاہے۔ جوہمارے اردگردہی موجود ہیں۔ لیکن ہم ان کی تعمیراورمختلف ادوار میں ان کی اہمیت کے بارے میںکراچی میں رہنے کے باوجود کچھ نہیں جانتے۔
شہرکراچی میں ان گنت تعلیمی ادارے ہیں۔جن میں سے ڈاکٹرعلی حسن ساجد نے سات کواپنی کتاب کے لیے منتخب کیاہے۔ ان میں سینٹ جوزف کانونٹ اسکول اور سندھ مدرستہ اسلام شامل ہیں۔ ”سینٹ جوزف اسکول کی عمارت 1864ء میں کیتھولک مسیحی برادری نے تعمیر کی تھی۔ابتداء میں یہ عمارت دومنزلہ تھی۔جس کے گراؤنڈ فلورپرایک بڑی محرابی چھت اور پہلی پرصحن دیاگیاتھا۔دونوں منزلوں پرتعمیراتی نمونے سادہ گول محرابیں تھیں۔1970ء میں عمارت کوایک مربع مرکزی ٹاوراورایک اوپری منزل سے مزین کیاگیا۔عمارت کے بائیں طرف موجود وسیع گرجاگھرمیں دوسوطالب علموں اوار ان کے اساتذہ کے لیے عبادت کی گنجائش موجود ہے۔عمارت کے اندرونی حصے میں کشادہ کلاس رومز،طعام گاہ یاڈائننگ روم، اوپنرمنزل پرایک شفاخانہ اورہاسٹل موجود ہے۔ درحقیقت انیسویں صدی میں یہ بہترین اسکول کے لیے ضروری تمام سہولیات سے آراستہ عمارت تھی ، جس میں وقت کے ساتھ تبدیلیاں کی جاتی رہیں۔”
جہاں سینٹ جوزف اسکول کراچی کاغیرمعمولی تعلیمی ادارہ رہا۔جس کی اہمیت ڈیڑھ صدی بعد بھی کم نہیں ہوئی۔اسی طرح یکم ستمبر1885ء میں کراچی میں سندھ مدرستہ اسلام کا قیام عمل میںآیا۔جس کے قیام کا مقصدمسلمانوں کے بچوں کوجدیدتقاضوں س ہم آہنگ زیورتعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔”سندھ مدرستہ اسلام کی عمارت کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے میں واقع ہے۔ ایک جانب آئی آئی چندریگر روڈ، دوسری جانب شاہراہ لیاقت ہے۔ اس تاریخ ادارے کی مرکزی عمارت کاسنگ بنیاد گورنرجنرل ووائسرائے آف انڈیالارڈ ڈفرن نے 14 نومبر1887ء میں رکھاتھا۔عمارت گوتھک طرزتعمیرکاخوب صورت شاہ کار ہے، جس کاڈیزائن کراچی میونسپلٹی کے انجینئرجیمس اسٹریجن نے بنایاتھا۔سندھ مدرسے کی دوسری قدیم عمارت حسن علی آفندی لائبریری ہے۔جسے انیس ویں صدی کے آخر میں خیرپور ریاست کے ٹالپر حکمرانوں کی مالی معاونت سے پرنسپل ہاؤس کے طور پرتعمیرکیاگیاتھا۔1985ء میں اس عمارت کولائبریری میں تبدیل کردیاگیا۔سندھ مدرستہ اسلام کویہ اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح نے 1887ء سے 1892ء تک یہاں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔مدرسہ کے قیام کے دوبرس بعد قائداعظم نے اس مادرعلمی میں داخلہ لیا۔قائد اعظم کواپنی مادرعلمی سے اس قدرمحبت تھی کہ انہوں نے اپنی جائیداد کاایک تہائی حصہ اس کے نام کردیاتھا۔قائد اعظم محمدعلی جناح کی یہ تعلیمی درس گاہ برصغیرپاک وہندکے مسلمانوں کاعلی گڑہ کالج کے بعددوسراجدید ترین علمی ادارہ تھا۔اس عظیم ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبا نے قیام پاکستان اورتعمیرپاکستان میں مرکزی کردار اداکیا۔سندھ مدرستہ الاسلام کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اسے یونیورسٹی کادرجہ دینے کا فیصلہ کیاگیا۔جس کابل دسمبر 2011ء میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا اور21فروری 2012ء کواس وقت کے گورنر سندھ نے مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کاچارٹر منظورکرلیا اور یوں یونیورسٹی کے قیام کاایک صدی پرانے خواب نے حقیقت کا روپ دھارلیا۔”
کراچی کے قدیم تعلیمی اداروں کے بارے میں مضامین ”کراچی کی تاریخی عمارات” میں بے حداہمیت کے حامل ہیں۔جن سے قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتاہے۔تعلیمی ادارے کی مانند کراچی کے طبی مراکز بھی انتہائی اہم ہیں۔
”کراچی کاسول اسپتال شہرکی اہم پہچان ہے۔جونہ صرف علاج معالجے کے لیے ایک بڑا مرکز ہے بلکہ اس کی تاریخی اہمیت بھی اپنی مثال آپ ہے۔سول اسپتال کراچی کا قیام 1888ء میں برطانوی دورحکومت میں عمل میں آیا۔کراچی برطانوی راج کا ایک اہم ساحلی شہرتھا، جہاں صحت عامہ کی سہولیات کافقدان شدت سے محسوس کیاجارہاتھا۔کراچی میں ہیضے کی وباپھیلنے کے بعدایک بڑے اسپتال کی ضرورت غیر معمولی اہمیت اختیار کرگئی۔جوعوام کومعیاری علاج کی سہولت فراہم کرسکے اوریہی ضرورت سول اسپتال کے قیام کا بنیادی محرک بنی۔دو ہزارسترہ میں اسپتال کانام تبدیل کرکے رتھ فاؤسول اسپتال رکھ دیاگیا۔سندھ حکومت کی جانب سے یہ اقدام جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ جنہیں پاکستان کی مدرٹریسابھی کہاجاتاہے کی کراچی اور سندھ میں جذام کے مریضوں کے علاج معالجے کی گراں قدرطبی اورسماجی خدمات کے اعتراف میں کیاگیا۔آج یہ اسپتال لاکھوں مریضوں کے لیے امیدکی کرن ہے اوراس کی تاریخی عمارت کراچی کے ماضی کی یادگارطور پراپنی جگہ برقرار رکھے ہوئے ہے۔یہ عمارت انیس ویں صدی کے فن تعمیر کاشاندارنمونہ ہے۔جس میں مغربی طرزتعمیرکے ساتھ مقامی طرز کے اثرات بھی شامل ہیں۔سول اسپتال کی مرکزی عمارت کئی ایکڑ پرمشتمل ہے اوراس میں مختلف بلاکس،شعبے،وارڈز اورانتظامی دفاترموجود ہیں۔وقت کے ساتھ اس میں توسیع ہوتی رہی ۔قیام پاکستان کے بعد سول اسپتال نے اپنی خدمات کومزید وسعت دی جس کے نتیجے میں سول اسپتال کی تاریخی عمارت کو کئی مرتبہ بحالی کے مراحل سے گزارا گیا اورنئی عمارتوں کا بھی اضافہ کیاگیا۔آج یہ اسپتال انیس سوسے زائد بستروں پرمشتمل ہے اورمختلف شعبوں میں خدمات فراہم کررہاہے۔جن میں سرجری،کارڈیالوجی،نیورولوجی اوردیگرجدیدطبی شعبے شامل ہیں۔”
گیارہ حصوں میں تقسیم کراچی کی قدیم پینتالیس عمارات کا کتاب میں تذکرہ کیاگیاہے۔ اس کام کومزید آگے بڑھایاجاسکتاہے۔لیکن اس کے لیے ڈاکٹرعلی حسن ساجد جیسے محقق کی ضرورت ہوگی۔کتاب کے آئینے میں کراچی کے ارتقاء اور ترقی کو بھی دیکھا جاسکتاہے۔
”کراچی کاتجارتی مرکزایمپریس مارکیٹ کب اورکیسے بنی۔مورخین کا کہناہے کہ 1839ء میں کراچی پر قبضہ کرنے والی برطانوی افواج کے سپاہیوں کے لیے کیمپ کے علاقے میں خرید وفروخت کے لیے جس بازارکی ابتداء کی گئی تھی وہ حیرت انگیز ترقی کرکے بہت جلد پورے شہرمیں کیمپ بازارکے نام سے مشہور ہوگیااور شہر کے دور دراز محلوں سے لوگ یہاں خرید وفروخت کے لیے آنے لگے۔کراچی کی اس وقت کی انتظامیہ نے اس بازارکی مقبولیت دیکھتے ہوئے یہاں ایک عظیم الشان مارکیٹ تعمیرکرنے کافیصلہ کیا۔مجوزہ مارکیٹ کا ڈیزائن کراچی کے مشہور انجینئرجیمزاسٹریچن نے تیار کیاانہی کی نگرانی میں اس کی تعمیرمکمل کی گئی۔ایمپریس مارکیٹ کا سنگ بنیاد گورنربمبئی سرجیمز فرگوسن نے دس نومبر1884ء کو رکھا۔اسی روز سرویلم میری ویدر کی یادگارکے طور پرتعمیرکیے جانے والے میری ویدرٹاورکاسنگ بنیاد بھی رکھاگیا۔ایمپریس مارکیٹ کوایک لاکھ بیس ہزارروپے لاگت سے تیار کیاگیا۔ایمپریس مارکیٹ کاٹاورایک سوچالیس فٹ بلند اوربمبئی کی کرافورڈ مارکیٹ ٹاور سے بارہ فٹ بلند ہے۔اس ٹاور میں ایک بڑا گھڑیال نصب ہے جس کے چاروں طرف ڈائل ہیں جوایک زمانے میں دور دور سے نظرآتے تھے اورلوگوں کووقت دیکھنے میں آسانی ہوتی تھی۔”
کراچی کی قدیم عمارتوں میں ریڈیو پاکستان کی عمارت بھی شامل ہے۔جس کے بارے میں مصنف نے بتایا۔”کراچی کے قلب میں واقع ریڈیوپاکستان کے قدیم عمارت پاکستان کی نشریاتی تاریخ کا اہم اورناقابل فراموش حصہ ہے۔جواپنے منفرد طرز تعمیر،تاریخی اہمیت اورنشریاتی ورثے کے حوالے سے مشہورہے۔ اس عمارت کونہ صرف فن تعمیرکا شاہ کارسمجھاجاتاہے بلکہ یہ اس خطے کی ثقافتی اورتاریخی کہانی بھی بیان کرتی ہے۔ ریڈیوپاکستان کی عمارت کو1930ء میں انجینئرجان اے ٹرنر تھے۔یہ عمارت آرٹ ڈیکوطرز تعمیر کی نمایاں مثال ہے۔ اس عمارت میں استعمال ہونے والے عناصر مثلاً موزائیک،خوب صورت محرابیں اوراونچے ستون،ایک نادر شاندار جمالیاتی منظرپیش کرتے ہیں۔ریڈیو پاکستان کی عمارت کی تعمیرکااصل مقصدتقسیم ہندسے پہلے آل انڈیاریڈیوکی نشریات کوکراچی میں منظم کرنا تھا۔ 1935ء میں اس عمارت سے آل انڈیاریڈیو کراچی اسٹیشن کی نشریات کا آغاز ہوا۔یہ اسٹیشن نہ صرف مقامی خبروں اورتفریحی پروگراموں کا مرکز تھابلکہ اس نے تعلیمی اورثقافتی پروگروموں کے ذریعے عوام کوجوڑنے کاکردار بھی ادا کیا۔اس عمارت میں قائم ریڈیو پاکستان نے13اگست 1947ء کورات گیارہ بجکرانسٹھ منٹ پرپاکستان کی آزادی کا اعلان کرنے کااعزاز حاصل کیاتھا۔جوپاکستان کے قیام کے پہلاباضابطہ علان تھا۔یہ عمارت اس اہم لمحے کی بھی گواہ ہے۔ جب بانی پاکستان قائداعظم محمدعلی جناح کی آواز میں یہاں سے پہلی بارآزادی کے اعلان کے طور پرنشرکی گئی ۔”
آخر میں کراچی کے ساحل کلفٹن پرکراچی کے سب سے بڑے پارک باغ ابن قاسم کاکچھ ذکرکیاجائے۔ایک سوتیس ایکڑ پررقبے پرمحیط باغ ابن قاسم اپنی وسعت،خوب صورتی اورڈیزائن کے اعتبار سے اپنا ثانی نہیں رکھتا۔باغ کی تعمیر سے قبل 1920 ء میں ایک راہداری جو سمندر تک جاتی تھی کلفٹن کراچی کے حوالے سے مشہور ڈوم اورجہانگیرکوٹھاری پریڈتعمیرکی گئی تھی۔اس کے ساتھ ہی ایک چھوٹاساپارک بھی بنایا گیاتھا۔جہاں شہری آکراس راہداری سے سمندر کانظارہ کیاکرتے تھے۔یہ کراچی کے ایک مخیر شخص جہانگیرایچ کوٹھاری کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ اس پارک پرتین لاکھ روپے لاگت آئی۔جو کراچی کے شہریوں نے جہانگیرکوٹھاری کے توسط سے جمع کیے۔بلدیہ عظمٰی کراچی نے قابل دیداورپرسکون مقام بنانے کے لیے دوہزارچھ میں اس پارک کی تعمیرکا آغاز کیا۔اس وسیع وعریض پارک کانام محمدبن قاسم کے نام پرباغ ابن قاسم رکھاگیا۔پاکستان کے سب سے بڑے ساحلی تفریحی پارک میں بچوں کی تفریح کے لیے دوایکڑرقبے پرمیوزمنٹ پارک تعمیر کیاگیاہے۔ جس میں جدید اور محفوظ جھولے اور دوسری سہولتیں میسر ہیں۔اس پارک میں بیک وقت تین لاکھ افرادکوتفریح میسرہیں۔”
کتاب کے آخر میں ڈاکٹرعلی حسن ساجد نے کراچی میں سرکاری طور پرتاریخی ورثہ قراردی گئی عمارتوں اور مقامات کی فہرست دی گئی ہے۔ جس سے کتاب کی افادیت میں اضاف ہواہے۔ قاری کوایک نظر میں چارسوچھبیس تاریخی عمارات اورمقامات کاعلم ہوجاتاہے۔
ڈاکٹرعلی حسن ساجد کی کتاب ”کراچی کی تاریخی عمارات” کراچی کی قدیم عمارتوں کے بارے میں انتہائی وقیع اور جامع کتاب ہے۔ جس میں کراچی کی قدیم اورمختلف نوعیت کی عمارتوں کے بارے میں ایک جگہ معلومات مل جاتی ہیں اورکتاب ایک اہم ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ کتاب میں شامل کوئی بھی مضمون غیراہم یا وقتی نوعیت کا نہیں ہے۔بلکہ ہر مضمون اپنی جگہ ایک مکمل ضرورت کوپورا کرتاہے۔ڈاکٹرعلی حسن ساجداتنا بھرپور تحقیقی کام کرنے پر قارئین کی داد کے مستحق ہیں۔کسی شہر کی قدیم عمارتوںکے بارے میں اتنا وسیع تحقیقی کام آسان نہیں ہے۔ کسی شہر کی شناخت اس کی قدیم عماراتوں اور تعمیرات سے ہی ہوتی ہے۔ کراچی گوکوئی تاریخی شہر نہیں ہے۔ لیکن اس جدید شہر میں بھی ایک صدی سے زیادہ پرانی عمارات موجود ہیں۔ جن کی اپنی تاریخ اوراہمیت ہے۔
ڈاکٹرعلی حسن ساجد کوگراں قدر اورتحقیقی کتاب تحریرکرنے پربھرپورمبارک باد۔کتاب ”کراچی کی تاریخی عمارت” کوتعلیمی اداروں کے لیے لازمی قرار دیاجانا چاہیے ۔تاکہ طلبا کواپنی شہرکے بارے میں علم حاصل ہوسکے۔مختلف لائبریریوں میں بھی کتاب کی موجودگی ضروری ہے۔