• Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں
No Result
View All Result
10 °c
Islamabad
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
  • مخزن ادب
    • مخزن ادب
    • کتاب اور صاحب کتاب
  • زندگی
    • زندگی
    • تصوف , روحانیت
  • معیشت
    • معیشت
    • زراعت
    • ٹیکنالوجی
  • فکر و خیال
    • فکر و خیال
    • تاریخ
    • لٹریچر
  • محشر خیال
    • محشر خیال
    • تبادلہ خیال
    • فاروق عادل کے خاکے
    • فاروق عادل کے سفر نامے
  • اہم خبریں
    • تصویر وطن
    • عالم تمام
  • یو ٹیوب چینل
  • صفحہ اوّل
  • شوبز
  • کھیل
  • کھانا پینا
  • سیاحت
No Result
View All Result
آوازہ
No Result
View All Result
Home کتاب اور صاحب کتاب

آسماں در آسماں: فنکاروں کی کہانیاں جو تقسیم کی لہرکا شکار ہوئے

قاری کیلیے شخصیت جانی پہچانی نہ بھی ہوتوشاہدصدیقی کا اسلوب اسے دلچسپ بنادیتاہے۔''آسماں درآسماں'' کے بعد بھارت دیگر داستانوں کاانتظار رہے گا

نعیم الرحمٰن by نعیم الرحمٰن
April 21, 2025
in کتاب اور صاحب کتاب
0
Share on FacebookShare on TwitterShare on LinkedinShare on Whats app
ADVERTISEMENT
Ad (2024-01-27 16:32:21)

شاہدصدیقی راولپنڈی میں پیداہوئے۔گورڈن کالج سے ایم اے انگلش میں ٹاپ کیا۔برٹش کونسل اسکالرشپ پربرطانیہ کی یورنیورسٹی آف مانچسٹرسے ایم ایڈکی ڈگری لی۔کینیڈین اسکالرشپ پریونیورسٹی آف ٹورنٹوسے انگریزی لسانیات میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی اور برطانیہ کے چارلس ویلس اسکالرشپ پرآکسفرڈیونیورسٹی میں پوسٹ ڈاکٹریٹ کرنے کاموقع ملا۔ شاہد صدیقی پاکستان کے معروف ماہر تعلیم،مصنف اورادیب ہیں۔انہوں نے ملک کے مختلف معروف اداروں میں خدمات انجام دیں۔آج کل وہ لاہوراسکول آف اکنامکس میں فیکلٹی آف سوشل سائنسزاورمیڈیا اسٹیڈیزآرٹ اینڈ ڈیزائن کے ڈین کے طور پرکام کررہے ہیں۔شاہد صدیقی طویل عرصے تک ڈان کے ادارتی صفحے پرلکھتے رہے۔دنیااخبار میں باقاعدگی سے کالم بھی لکھ رہے ہیں۔اردوکالم نگاری میں انہوں نے سیاست اورحالات حاضرہ کے بجائے یکسرمختلف موضوعات کواختیارکیا۔جن میںشخصی خاکے،آپ بیتی،جگ بیتی،یادیں،سفر نامے، مختلف اداروں اورعلاقوں کا احوال ان کے کالمز کا موضوع بنے اورقارئین میں بے حد مقبول ہوئے۔
شاہدصدیقی نے ایک ناول”آدھے ادھورے خواب”تحریرکیا۔جس کے متعدد ایڈیشن شائع ہوئے۔ناول پنجابی،سندھی اورپشتوزبان میں ترجمہ بھی کیاگیا۔ کالموں کے انتخاب”زیرآسماں” اور”موسم خوش رنگ” کے علاوہ راولپنڈی کے یادوں پر مبنی ”پوٹھوہار:خطہ ء دل ربا” اور تین ملکوں کی سفری یادیں”ٹورنٹو،دبئی اورمانچسٹر” تحریر کیے۔ ”پاکستان،تعلیم اوراکیسویں صدی” کے عنوان سے پاکستان کی تعلیم کے بارے میں شاندارکتاب بھی ان کی قلم کا شاہکار ہے۔جس کے بہت کم عرصہ میں دوایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔
”آسماں درآسماں” شاہدصدیقی کے ان کالموں کا مجموعہ ہے۔جن میں برصغیرکے ان فن کاروں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں۔جنھیں تقسیم کی لہر سرحد کے پار لے گئی۔ لیکن وہ کبھی اپنی جنم بھومی کوبھول نہ سکے۔ان میں فلم اوراداکاری سے وابستہ افراد،نثرنگاراورشاعر،فلمی نغمہ نگاری میں شہرت یافتہ افراد،موسیقی کے ماہرین، گلوکار،مصوراورسیاست داں شامل ہیں۔مجموعی طور پر”آسماں درآسماں” میں پینتالیس خواتین وحضرا ت کاتذکرہ ہے۔ہر شخصی خاکے میں شاہدصدیقی کی تحریر کاجادوسرچڑھ کربولتاہے اورقاری مانوس فن کاروںکی کہانیوں میں کھوجاتاہے۔ کتاب کاسرورق انتہائی دل کش ہے۔جو محمدرفیع،ساحرلدھیانوی، دلیپ کمار،گلزار،دیوآنند،امرتاپریتم،خوش ونت سنگھ اورسریندرکورکے خوب صورت پنسل اسکیچز سے مزین ہے۔ان اسکیچز کے درمیان مصنف اورکتاب کانام درج ہے۔اپنے موضوع کے اعتبارسے کتاب کوبہت ذومعنی جملے سے معنون کیاگیاہے۔”ان زمین زادوں کے نام جوہم سے دور جاکربھی ہمارے آس پاس ہیں۔”
بک کارنرجہلم کے گگن شاہد اورامرشاہد برادران اپنے والدکے لگائے گلشن جہلم بک کارنر کوبے مثل اندازمیں پروان چڑھا رہے ہیں۔ ادارے کی ہر کتاب خوب سے خوب تر کے نئے معیارقائم کرتی ہے۔ ”آسماں درآسماں” اردو پرنٹنگ کی دنیامیںاپنی مثال آپ ہے۔ شاندار آرٹ پیپر پرخوب صورت کتابت، دلکش طباعت، بے مثال سرورق اورجاذب نظرڈسٹ کور،استرکے اندرونی جانب متعلقہ افراد کے پنسل اسکیچزغرض جس پہلو کی جتنی تعریف کی جائے، کم محسوس ہوتی ہے۔اس شاندارطباعت کے باوجودتین سوساٹھ صفحات کی کتاب کی قیمت ایک ہزارنوسو پچیانوے آج کے دورکے حساب سے انتہائی کم ہے۔اس شاندارکتاب کی اشاعت پر بک کارنرجہلم کوبھرپور مبارک باد پیش ہے۔

یہ بھی پڑھئے:

اقبال__ کیا ہم بھول جائیں گے؟

کیا توہین صرف عدلیہ ہی کی ہوتی ہے؟

Ad (2024-01-27 16:31:23)

پراجیکٹ عمران خان__ بہت مہنگا پڑ رہا ہے

ناقابل یقین کہانیوں میں گھری عطیہ فیضی کی اصل کہانی کیا ہے؟

ملک کے مشہورمصنف اورلازوال سب رنگ ڈائجسٹ کے مدیرشکیل عادل زادہ کہتے ہیں۔” آسماں درآسماں کی پہلی خوبی ،اس کی انفرادیت ہے۔دوسری یہ کہ اسے ڈاکٹرشاہدصدیقی نے قلم بند کیاہے۔ادق اورپیچیدہ موضوعات پر رواں دواں ،سادہ وشگفتہ انداز بیاں میں انھیں کمال حاصل ہے۔آسماں درآسماں میں شامل نام وراں نے مجبوری اور بے دلی سے ہجرت کی تھی۔ ہندوستان جاکے آباد ہو گئے۔بہت عزت اورنام کمایا لیکن اپنے آبائی گھر اورشہرچھوڑجانے کی خلش تادم آخربرقراررہی۔ان ناقابل فراموش،یادگارِ زمانہ شخصیات میں ہرایک پرکتاب لکھی جاسکتی ہیں،لکھی بھی گئی ہیں۔لیکن جس جامع واکمل اختصارسے ڈاکٹرشاہدصدیقی نے انھیں ایک کتاب میں یک جااورچشم گزارکیاہے،انہی کاحصہ،انہی کاخاصہ ہے۔”
معروف کالم نگارحسن نثارکے مطابق شاہدصدیقی کی لازوال اورباکمال تحریروں کامجموعہ ”آسماں درآسماں” میری روح کے لیے کسی تحفے سے کم نہیں۔کیسے کیسے روشن ستارے اس کہکشاں کاحصہ ہیں۔سنیل دت،گلزار،مدن موہن اورمیراپسندیدہ اداکاردلیپ کمارجس کی حویلی ابھی تک پشاور میں ہے۔یہ کتاب سفرکاایک پڑاؤ ہے۔شاہدصدیقی کاکہناہے کہ اس کی اگلی کتاب ان فن کاروں کے حوالے سے ہوگی جنھو ں نے تقسیم کے بعد ہندوستان سے پاکستان آنے کافیصلہ کیااوریہاں آکرفن کی دنیا میں نئے رنگ بکھیرے۔یوں یہ داستان یہاں ختم نہیں ہوگی بلکہ اورآگے بڑھے گی۔آخرمیں مجھے کہناہے ،میری صحافتی کیریئرمیں ”آسماں درآسماں” وہ پہلی کتاب ہے جسے لکھنے والاہی نہیں، شائع کرنے والاادارہ بک کارنرجہلم یعنی امرشاہد اورگگن شاہدبھی مجھے بہت عزیز ہیں۔
اردوکے استاد،دانشوراورنثرنگارناصرعباس نیر نے کس خوب صورتی سے شاہدصدیقی کی تحریروں کاتجزیہ کیاہے۔”ڈاکٹرشاہدصدیقی کاقلم مسلسل رواں ہے۔یوںمحسوس ہوتاہے کہ ان کی نئی کتاب کابیج،گزشتہ کتاب ہی میں موجود ہوتاہے۔ابتدامیں ان کااختصاص تعلیم ، لسانیات اورصنفی مطالعات پرفاضلانہ انداز میں لکھی گئی انگریزی کتب تھیں۔اب ان کاامتیازاردومیں جگہوں،مقامات اورشخصیات پر لکھی گئی تحریریں ہیں جنھیں کسی ایک صنف میں قید کرناممکن نہیں۔کھوئے ہوؤں کی جستجو،ان سب تحریروں میں مشترک بھی ہے اوران کی قوت متحرکہ بھی، کہ ان کے اسلوب میں جہاں گزرے دنوں اورکھوئے ہوئے لوگوں کی یاد سے مسرت وبشاشت کاعنصرپیداہواہے،وہیں دبا دبا ایک نیم ناسٹلجیائی،المیاتی احساس بھی ظاہرہواہے۔زیرنظرکتاب ان شخصیات سے متعلق ہے جن کاتعلق فن اورتخلیق کی دنیاسے تھااور جنھیں تقسیم نے ہجرت پرمجبورکیا۔تقسیم کاالمیہ ان شخصیات کی روحوں میں،ان کی آخری سانس تک گونجتارہا۔شاہدصاحب نے ہجرت کے اس تجربے کواپنے مخصوص دل کش اسلوب میں کچھ اس طرح بیان کیاہے کہ ایک پورے عہدکوگویازندہ کردیاہے۔”
کتاب کے بارے میں شاہدصدیقی لکھتے ہیں۔”آسماں درآسماں ان فن کاروں کااحوال ہے جومتحدہ ہندوستان میں ان علاقوں میں پیدا ہو ئے جواب پاکستان کاحصہ ہیں۔1947ء میں جب ہندوستان کی تقسیم ہوئی توسرحدکے دونوں طرف لوگوں کی ایک کثیرتعدادنے ہجرت کی۔یہ ایک غیرمعمولی تجربہ تھاجب اچانک سرحد کے دونوں طرف لوگوں کواپنے شہر،محلے اورگھرچھوڑنے پڑے اورپھریہ شہر،محلے اورگھر ان کے لیے اجنبی ہوگئے۔پاکستان سے بھارت جانے والوں میں بہت سے لوگ ایسے تھے جنھوں نے بعدمیں ہندوستان کی سیاست،معا شرت اورثقافت پرگہرے اثرات ڈالے۔ان میں کچھ توبھارت کے وزارت عظمٰی کی مسند تک پہنچے جن میں آئی کے گجرال اورمن موہن سنگھ شامل ہیں۔اسی طرح کراچی میں آنکھ کھولنے والاایل کے ایڈوانی ڈپٹی پرائم منسٹرکے عہدے تک پہنچا۔لیکن اس کتاب کاموضوع صرف وہ افراد ہیں جن کاتعلق فن کی دنیاسے تھا،جوپیداتوان شہروں اورقصبوں میں ہوئے جواب پاکستان کاحصہ ہیں لیکن جنھیں تقسیم کی لہر سرحدپارلے گئی اورجنھوں نے فن کی دنیامیں اپنانام کمایا۔ان میں اداکار،فلم ساز،شاعر،ادیب،نغمہ نگار،گلوکار،کلاسیکی موسیقی کے استاد، جدیدموسیقی کے پیش رو،مصور اورماہرتعمیرات شامل ہیں۔ان فن کاروں کے احوال میں قدرمشترک ہجرت ہے۔یہ ان کی زندگی کاناقابل فراموش تجربہ تھا۔جس کی کسک تمام عمران کے ساتھ رہی۔”
آسماں درآسماں ایک غیرمعمولی کتاب ہے۔جس کاہرلفظ قاری کواپنے دل میں اترتا محسوس ہوتاہے۔اپنے پسندیدہ اداکار،گلوکار،ادیب، مصوریا موسیقارکی داستان زیست کی دلچسپی اپنی جگہ،ان کی زندگی کے المیہ کوجاننا اس دلچسپی میں کئی گنااضافہ کردیتاہے۔اورپھرمصرعہ میں قدرے تحریف کے ساتھ عرض ہے۔”ذکراس پری وش کا،اورپھربیاں شاہدصدیقی کا۔” لطف دوبالا ہی نہیں سہ بالااورچہاربالاہوجاتا ہے۔
کتاب کومصنف نے ان فن کاروں کے شعبہ کے مطابق سات حصوں میں تقسیم کیاہے۔ جن میں ”فلم اوراداکاری کاطلسم”،”نثرکی ساحری” ،”شاعری کاچمن”،”نغمہ نگاری کی چاندنی”،”سات سروں کا بہتادریا”،” آوازکاجادو” اور ”رنگوں اوردائروں کاطلسم” شامل ہیں۔” فلم اور اداکاری کاطلسم” کے تحت ”دل سکھ پنچولی:لاہورکافلمی گرو”،” پرتھوی راج کپور،پشاوراوربمبئی”،” بلراج ساہنی اورپنڈی کی پرندوں والی سڑک”،” شیام،گورڈن کالج اوربمبئی”،” پران،لاہوراوربالی ووڈ” ،” دلیپ کماراورپشاورکاعشق”،” دیوآنند:شکرگڑھ سے بمبئی تک”،” پشاورکا راج کپور”،” راج کمار:لورالائی سے بالی ووڈتک”،” کامنی کوشل،کنیئرڈکالج لاہوراوربمبئی”،” پریم چوپڑا اورلاہورکی کرشناگلی نمبر5” ،”منوج کمار،ایبٹ آباداوربالی ووڈ”،”ونودکھنہ،پشاوراوربمبئی” اور”کبیربیدی،ماڈل ٹاؤن لاہوراوربمبئی”چودہ فن کاروں کا احوال رقم کیاگیاہے۔
بھارت کے مشہورفلم سازاوراسٹوڈیواونر دل سکھ پنچولی کا ذکرپہلے اس کے لاہوراسٹوڈیواورپھراس کی زندگی کااحوال ،شاہدصدیقی کے سحرطرازقلم سے ملاحظہ کیجئے۔ ” آج لاہور میں چھٹی کادن تھااور میں فیروزپورروڈپراچھرہ کی طرف جارہاتھا۔چلتے چلتے مجھے خیال آیایہیں کہیںسڑک کے بائیں طرف لاہورکامعروف پنچولی آرٹ اسٹوڈیوہواکرتاتھاجوبعدمیں ایورنیواسٹوڈیواورپھرپاسپورٹ آفس کامسکن رہا،دل سکھ پنچولی کاآرٹ اسٹوڈیوجولاہورکاسب سے بڑافلم اسٹوڈیوتھا۔اب تو اس عمارت کانام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔سب کچھ بدل چکاہے۔ میں سوچتاہوں وقت کادریاکیسے سب کچھ بہاکرلے جاتاہے اورکناروںپر محض یادوں کی سنہری ریت باقی رہ جاتی ہے۔اس نام دل سکھ پنچولی تھا۔ وہ 1906ء میں کراچی میں پیدا ہوا،لاہورسے فلمی سفرکی شاندار ابتداکی اورمحض ترپن برس کی عمرمیں دنیاسے کوچ کرگیا۔ دل سکھ کے والدلاہور میں امریکی فلموں کے سب سے بڑے امپورٹراورڈسٹری بیوٹرتھے۔ گھر کاماحول ایساتھاکہ فلم سے دل سکھ پنچولی کی دلچسپی کی ابتدابچپن سے ہوگئی تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعددل سکھ پنچولی نے نیویارک کارُخ کیا جہاں اس نے اسکرین رائٹنگ کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی۔نیویارک سے واپس آکراس نے پنچولی آرٹ اسٹوڈیومیں متحرک کردارادا کرناشروع کیا۔پنچولی آرٹ اسٹوڈیواس زمانے میں لاہورکاسب سے بڑا اسٹوڈیوتھا۔دل سکھ پنچولی کی پہلی فلم ”سوہنی مہیوال تھی” جو1939ء میں ریلیزہوئی۔مسلسل کامیاب فلمو ں کے بعد دل سکھ پنچولی نے اپنی فلمی سلطنت کووسیع کرتے ہوئے لاہور میں کچھ اورسینماخریدلیے تھے۔سب کچھ معمول کے مطابق چل رہا تھا۔پھرہندوستان کی تقسیم کااعلان ہوا۔اس کے ساتھ سرحدکے دونوں طرف فسادات شروع ہوگئے۔لاہور بھی فسادات کی زدمیں آگیا۔ دل سکھ پنچولی کے لیے لاہورچھوڑنا آسان نہ تھا۔اس کا سارا سرمایہ یہیں پرتھا۔لیکن ہرگزرتے دن کے ساتھ حالات بگڑتے جارہے تھے۔ آخرکاراسے لاہور چھوڑنے کامشکل فیصلہ کرنا پڑا۔اس کا خیال تھاکہ لاہورسے یہ جدائی عارضی ہے۔اس نے اپنا اسٹوڈیومنیجرکے حوالے کیا اورخود لاہورسے بمبئی چلاگیا۔”
دل سکھ پنچولی خواہش کے باوجودکبھی لاہور واپس نہ آسکا۔اس نے بمبئی میں بھی کئی شاہکارفلمیں بنائیں۔اس کی آخری فلم ”فرشتہ ” تھی۔جو 1958ء میں ریلیز ہوئی۔ سہراب مودی اورمیناکماری نے اس میں مرکزی کردار ادا کیے تھے۔دل سکھ نے کامیاب ترین فلمیں بنانے کے ساتھ ماسٹرغلام حیدر،نورجہاں،اوپی نیئر،شمشادبیگم اورسی ایچ آتماجیسے فن کاروں کوبھی متعارف کرایا۔
”آسماں درآسماں” میں ”نثرکی ساحری” کے زیرعنوان دس مصنفین کا زندگی نامہ پیش کیاگیاہے۔ جن میں ”گوجرانولہ کادیوان سنگھ مفتون” ،” منٹگمری کاکنورمہندرسنگھ بیدی سحر”،” کنہیالال کپورارلاہورکاعشق”، ” کرشن چندراورلاہورکی موہنی روڈ”،” راولپنڈی کابھیشم ساہنی”،” راجندرسنگھ بیدی اورشیام گلی لاہور”،” خوشونت سنگھ اورہڈالی کاشالی”،”دیوندراسر:کیمبل پورسے کان پورتک” اور ” سریندرپرکاش اورلائل پورکی یاد” جیسے ناموران شامل ہیں۔
اردوکے نامورافسانہ نگارکرشن چندرکے لاہورسے عشق کابیان بھی انتہائی دلچسپ ہے۔جسے شاہدصدیقی کے قلم نے دوآتشہ بنادیا ہے۔ ”کرشن چندراردوکا وہ خوش قسمت ادیب تھاجوخواص وعوام میں یکساں مقبول تھا۔اس کی پیدائش تئیس نومبر1914ء میں ہوئی۔ کرشن چندرکی جائے پیدائش کے حوالے سے وزیرآباد،لاہوراوربھرت پورکے نام لیے جاتے ہیں۔لیکن اس پرسب کااتفاق ہے کہ کرشن چندر کے والدین کاتعلق گوجرانولہ سے تھا۔ والدپیشے کے لحاظ سے ڈاکٹرتھے۔والد نے کرشن چندراورمہندرکوایک پہلوان کے اکھاڑے میںتربیت کے لیے بھیج دیا لیکن کرشن چندرکے شوق مختلف تھے۔مصوری اس کاشوق تھااورڈراموںاسے خاص دلچسپی تھی۔میٹرک پاس کر نے کے بعدکرشن چندرنے لاہورکارُخ کیا۔لاہوران دنوں سیاسی ،علمی،ادبی اورثقافتی سرگرمیوں کامرکزتھا۔ کرشن چندرکی ادبی تربیت اسی لاہورشہرمیں ہوئی۔اس نے افسانے کے آسمان پرپہلی اڑان یہی بھری تھی۔کرشن چندربھگت سنگھ کے ساتھیوں سے متاثر ہوااوران کے اجلاس میں شرکت کرنے لگا۔بھگت سنگھ اوراس کے ساتھیوں کے ساتھ کرشن چندرکوبھی گرفتارکیاگیااوراسے لاہورکے شاہی قلعے میں ایک ماہ تک قید میں رکھاگیا۔ایف سی کالج جہاں اس نے زندگی کی کتنی بہاریں گزاری تھیں،لاہورکے موہنی روڈ پراس کاگھرجہاں اس نے اپنے تخلیقی سفرکے کئی سنگ میل عبورکیے تھے۔پھرتقسیم کاسال جب اس نے فسادات کے مناظراپنی آنکھوں سے دیکھے تھے۔اس نے مہاجر کیمپو ں میںجاکران کی کہانیاں سنی تھیں۔وہ ایک حساس طبیعت کامالک تھا۔یہ کہانیاں اسے دن رات بے چین رکھتی تھیں۔پھراس نے ان کہانیو ں کولکھناشروع کیااوراپنے مشاہدات کواپنی تحریروں میں امرکردیا۔”ہم وحشی ہیں” اس کی انہی کہانیوں کامجموعہ ہے۔کرشن چندر لاہور سے نکل کردہلی،پونے،لکھنؤاوربمبئی میں رہا۔اس دوران وہ کتنے ہی گلی کوچوں سے آشناہوا،لیکن معلوم نہیں کیوں اسے یوں لگتاتھاکہ لاہور کے قریے سب سے جدا ہیں جن کی نظیرپورے عالم میں نہیں۔یہی وجہ ہے کہ لاہورکی فضائیںاوریہاں کے لوگ اس کی لوح دل پرہمیشہ جگمگا تے رہے۔اخترجمال کے بقول ایک محبت ایسی تھی جس کے لیے وہ بہت تڑپتے تھے اور وہ تھی لاہورکی محبت۔لاہور،میرالاہور۔لاہور کیسا ہے؟ لاہورکاکیاحال ہے،کتنے دن تم رہیں لاہورمیں؟،وہ لاہور سے آنے والوں کورشک سے دیکھتے کہ ان کابس چلتاتوآنکھوں سے لاہور کی سڑکوں،مکانوں اوردرختوںکی تصاویرحاصل کرلیتے۔باربارلاہورکی باتیں سن کران کاجی نہیں بھرتا۔لاہورکے ادیبوں کے نام لے لے کرپوچھتے۔”
اتنے بڑے ادیب کی ہجرت کادکھ اورناسٹلجیا قاری کے لیے بھی المناک بن جاتاہے۔شاہدصدیقی ہر خاکہ ایسے ڈوب کرلکھتے ہیں کہ ہر واقعہ قاری کوسنی سنائی نہیں۔ بلکہ آنکھوں دیکھا لگتاہے۔وہ مذکورہ شخصیت کے ساتھ ساتھ جیتا اوراس کے ہرعمل وردعمل کاگوارہ بن جاتاہے۔ جانی پہچانی اور شہرت یافتہ شخصیات کی زندگی سے لوگوں کو ویسے بھی دلچسپی ہوتی ہے۔ شاہدصدیقی جومرقع پیش کرتے ہیں۔بیان کی ایسی خوبی بہت کم لکھاریوں کونصیب ہوتی ہے۔
”شاعری کاچمن”سات افراد کی یادوں کابیان دیاگیاہے۔ جس میں”تلوک چندمحروم،میانوالی اورراولپنڈی”، ” پوٹھوہار کاموہن سنگھ”،” میراجی،گوجرانوالہ اوربمبئی”،”وزیرآباد کاراجہ مہدی علی خان”،” جگن ناتھ آزاداورگورڈن کالج راولپنڈی کی یادیں”،”امرتاپریتم،گوجرانو الہ اوربمبئی” اور ”شوکماربٹالوی،شکرگڑھ اوربٹالہ”میں سے ہرخاکہ دامن دل کھینچتا ہے۔راجہ مہدی علی خان باکمال مزاحیہ شاعر اوربے مثال نغمہ نگار تھے۔ان کی مزاحیہ شاعری کی کتاب”اندازبیاں اور” میں کئی نظمیں ان ممنوعہ موضوعات پرہیں جن پرگفتگو کے لیے بھی جرات چاہیے۔منافقت پر مبنی رسومات پرنظمیں ہیں۔اندازِبیان دلچسپ اورپرلطف ہے لیکن قہقہوں کی زیریں سطح پرسنجیدہ تنقید ہے۔اکثر نظموں کااسلوب مکالمے کاہے۔سادہ زبان اورمکالماتی آہنگ کے ساتھ ان نظموں میں زندگی دھڑکتی نظرآتی ہے۔راجہ مہدی علی خان کا قلم ایک ڈاکٹرکے نشترکی طرح فرسودہ روایات کا پوسٹ مارٹم کرتاہے۔
راجہ کی زندگی کودیکھیں تویہ کسی افسانے سے کم نہیں جس میں کئی غیرمتوقع موڑآتے ہیں۔وہ پنجاب کے علاقے وزیرآباد کے گاؤںکرم آباد میں پیداہوئے۔اس کی والدہ مولاناظفرعلی خان کی بہن تھیں اورخود بھی معروف ادیبہ اورشاعرہ تھیں۔یہ ایک خوشحال گھرانہ تھا۔وہ چار سال کاتھاکہ اس کے والدکاانتقال ہوگیا۔ایسے میں بہادر والدہ نے اس کاہاتھ پکڑااورماموں ظفرعلی خان نے اپنی پناہ میں لے لیا۔راجہ مہدی علی خان نے ہوش سنبھالاتوشعروادب کی دنیاہی میں اپنی دلچسپی کاسامان پایا۔ایک طرف ان کی شاعری مزاحیہ ہے تودوسری جانب ان کی نغمہ نگاری میں اداسی کا رنگ غالب ہے۔ لیکن دونوں میں معیاربرقرار رکھاہے۔ایک منفردشاعروادیب کی داستان زیست دل موہ لیتی ہے۔
”نغمہ نگاری کی چاندی” میں”ساحرلدھیانوی،لاہوراوربمبئی”،” راولپنڈی کاشیلندر”،” آنندبخشی اورراولپنڈی کاعشق” اور”گلزار،دینہ اور بمبئی” چار مضامین درج ہیں۔ سب ایک سے بڑھ کرایک۔ سب دل میں اترجانے والے۔ شاعر،افسانہ وناول نگار،نغمہ نگار،فلم ساز، ہدایت کار سمپورن سنگھ گلزارنے جس شعبے میں قدم رکھا۔جھنڈے گاڑدیے۔غالب کی زندگی پرٹی وی سیریل بنائی۔غالب کاکردارادا کرنے والے نصیرالدین شاہ،سیریل کے موسیقاراورگلوکارجگجیت سنگھ اورگلزارکانام ہمیشہ کے لیے امرکردیا۔افسانے،خاکے اورناول تحریر کیے۔توسب نے مقبولیت حاصل کی۔غرض گلزارکانام ہی معیارکی ضمانت ٹھہرا۔
”گلزار،دینہ اوربمبئی” میںشاہدصدیقی نے سمپورن سنگھ جو”آسماں درآسماں” میں شامل واحدحیات فن کارہے،کی کھوئے ہوئے کی جستجو کو اس طرح تازہ کیاہے۔” بعض دفعہ اچانک ہم بغیرکسی پیشگی منصوبہ بندی کے دل کی آواز پرچل پڑتے ہیں۔اس روزبھی ایساہی ہواتھا۔ وہ اتوارکادن تھا۔میں اپنے گھرکی اسٹڈی میںکوئی کتاب تلاش کررہاتھاکہ شیلف سے ایک کتاب فرش پرگرپڑی۔میں نے جھک کرکتاب اٹھائی تودیکھاوہ گلزارکے افسانوں کی کتاب”دستخط” تھی۔ پہلاصفحہ کھول کردیکھاتودودہائیاں پیچھے چلاگیا۔یہ کتاب مینانے مجھے دی تھی۔ پہلے صفحے پراس نام اورنیچے جنوری دوہزارکی تاریخ لکھی تھی۔مینامیری بھانجی ہے۔وہ کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ایم اے کر رہی تھی اورمیں آغاخان یونیورسٹی میں پڑھارہاتھا۔میں نے کتاب واپس شیلف میں رکھ دی لیکن گلزارکی یادکی مہک میرے اردگردپھیل گئی ۔ اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیاکیوں نہ گلزارکے خوابوں کے نگردینہ جایاجائے،ابھی اوراسی وقت۔وہی دینہ جس کے بار ے میں گلزارنے کہاتھا۔ ذکرجہلم کاہے، بات ہے دینے کی۔۔چاند پکھراج کا، رات پشمینے کی
میں دینہ کے لیے کیوں نکل پڑا تھایہ مجھے خود بھی معلوم نہ تھا۔گلزارسے میراپہلاتعارف اس کی فلم”موسم” سے ہواتھا۔یہ فلم میں نے کئی بار دیکھی۔سنجیوکماراورشرمیلاٹیگورکی اداکاری،کہانی اورمکالموں کے علاوہ فلم کی خاص بات اس کے گیت تھے۔جن کی لفظیات،تشبیہات، استعارے اورامیجز بہت منفرد تھے۔موسم کے بعد”آندھی ” نے گلزارکے بارے میں میرے پہلے تاثرکومزید تقویت دی۔”
گلزارکی زندگی کے اتارچڑھاؤ،موٹرمکینک سے شہرت کی بلندیوںکاسفر،دنیابھرمیں مقبولیت کے باوجود دینہ سے غیرمعمولی لگاؤ کابرقرار رہنے کی داستان قاری کومسحور کردیتی ہے۔”سات سروں کابہتادریا” میں استاد بڑے غلام علی خان،قصورسے بمبئی تک”،” روشن:گوجرانوا لہ سے بمبئی تک”،”مدن موہن،چکوال اوربمبئی” اورلاہورکااوپی نیئر”چاردل میں اترجانے والے مضامین شامل ہیں۔”آوازکاجادو” میں ”شمشادبیگم:لاہورسے بمبئی تک”،” سی ایچ آتما،حیدرآبادسندھ سے بمبئی”،”محمدرفیع:لاہورکے محلہ چومالہ سے بالی ووڈتک”،”سریندر کور:پنجاب کی کوئل”اور”ثریا،گوجرانوالہ سے بمبئی” پانچ مضامین ہیں۔اورآخری باب ”رنگوں اوردائروں کاطلسم” میں” گنگارام :جدید لاہورکاتخلیق کار”اور”جہلم کاستیش گجرال”۔
”آسماں درآسماں” میں ذکرکسی اداکارکاہو، یافلم سازکا،شاعرہویانغمہ نگار،نثرنگارہوموسیقارہرتحریردلچسپ اورقابل مطالعہ ہی نہیں باربار پڑھنے لائق۔اگرکسی فیورٹ شخص کاذکرہوتو دلچسپی دوچند ہوجاتی ہے۔اگرقاری کے لیے شخصیت جانی پہچانی نہ بھی ہوتوشاہدصدیقی کا اسلوب اسے دلچسپ بنادیتاہے۔”آسماں درآسماں” کے بعد بھارت سے پاکستان ہجرت کرنے والوں کی داستان کاانتظار رہے گا۔

Screenshot 2024-02-07 at 2.46.36 AM
Tags: آسماں در آسماںآوازہ؎پاکستانتقسیمشاہد صدیقیفن کار
Previous Post

اقبال__ کیا ہم بھول جائیں گے؟

Next Post

باکسنگ کی رانی عالیہ کی دکھ بھری کہانی

نعیم الرحمٰن

نعیم الرحمٰن

نعیم الرحمٰن اور پاکستان کی سالگرہ ایک ہی روز آتی ہے، بس سال کا فرق ہے یعنی وہ 1958ء کراچی میں پیدہوئے۔ ابتدائی تعلیم پیرکالونی کےاس دورکے بہت اچھےمسزچودھری کےاسکول میں حاصل کی والدہ سےیسرناالقرآن پڑھنےکی وجہ سےالفاظ جوڑناسیکھ لیا۔ حساب میں قدرتی طورپراچے تھے ۔ چھوٹی کلاسوں میں ہی مطالعے کاشوق پیداہوگیا جو کچھ بھی میسرآتا پڑھ ڈالتے ، نہ کھیلنےکاشوق نہ دوستی کا۔ جو چنددوست تھے وہ بھی گھر بدلنے پرچھوٹ گئے، گویا ہی اول و آخر ساتھیں بنیں۔ میٹرک تیرہ سال میں کیا-بی کام نیشنل کالج سےکیا- گھریلو مسا ئل کےباعث خواہش کےباوجود مزید تعلیم حاصل نہ کرسکااور گھرکی ذمہ داریاں سنبھالنا پڑیں گریجویشن ٹیوشن پڑھا کرکی- پروفیشنل کیریئر بلڈرکےساتھ کام سےکیا- اس دورمیں صحافی کی تنخواہ کم تھی لیکن شوقیہ پارٹ ٹائم صحافت شروع کردی- مالی حالات بہترہونےپرذاتی لائبریری تشکیل دینا شروع کردی جو اب پانچ ہزار کتب سے بڑھ گئی ہے-آٹھ سال کےدوران والدین,دوبہنیں,بڑے بھائی اور بیوی انتقال کرگئے-اس مشکل دور میں ایکسپریس اخبار جوائن کیااب باقاعدہ صحافت میں پچیس سال ہوگئے-کالم نگاری فروغِ مطالعہ کےلیےشروع کیا۔

Next Post
Boxing

باکسنگ کی رانی عالیہ کی دکھ بھری کہانی

ہمارا فیس بک پیج لائیک کریں

ہمیں ٹوئیٹر ہر فالو کریں

ہمیں انسٹا گرام پر فالو کریں

Contact Us

[contact-form-7 id=”415″ title=”Contact form 1″]

Categories

  • Aawaza
  • Ads
  • آج کی شخصیت
  • اہم خبریں
  • تاریخ
  • تبادلہ خیال
  • تصوف , روحانیت
  • تصویر وطن
  • ٹیکنالوجی
  • خطاطی
  • زراعت
  • زندگی
  • سیاحت
  • شوبز
  • صراط مستقیم
  • عالم تمام
  • فاروق عادل کے خاکے
  • فاروق عادل کے سفر نامے
  • فکر و خیال
  • کتاب اور صاحب کتاب
  • کھانا پینا
  • کھیل
  • کھیل
  • کیمرے کی آنکھ سے
  • لٹریچر
  • محشر خیال
  • مخزن ادب
  • مصوری
  • معیشت
  • مو قلم

About Us

اطلاعات کی فراوانی کے عہد میں خبر نے زندگی کو زیر کر لیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روح ضعیف ہو گئی اور جسم و جاں یعنی مادیت کا پلہ بھاری ہو گیا "آوازہ" ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو خبر کے ساتھ نظر کو بھی اہمیت دے گا۔ اس پلیٹ فارم پر سیاست اور واقعات عالم بھرپور تجزیے کے ساتھ زیر بحث آئیں گے لیکن اس کے ساتھ ہی روح کی غذا یعنی ادب و ثقافت اور روحانیت سمیت بہت سے دیگر لطیف موضوعات بھی پڑھنے اور دیکھنے والوں کو لطف دیں گے۔
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions

No Result
View All Result
  • Privacy Policy
  • Urdu news – aawaza
  • ہم سے رابطہ
  • ہمارے بارے میں

© 2022 Aawaza - Designed By Dtek Solutions