راشداشرف کی ”زندہ کتابیں”تیزی سے چوتھی سنچری کی جانب گامزن ہے۔اردوادب کی گمنام اوریادگارکتب کوحیات نوبخشنے والے اس سلسلے نے بے شمارنایاب اورفراموش شدہ آپ بیتیوں ،سوانح اورخاکوں کی کتابوںکونئی زندگی بخشی ہے۔ زندہ کتابیں کی تین سوبیالیس ویں کتاب عطیہ فیضی رحمین کی سوانح حیات پر مبنی ہے۔جسے ڈاکٹروسیم رضانے تحریرکیاہے۔جن کے عطیہ فیضی اوران کی فیملی سے خاندانی مراسم تھے ۔ عطیہ فیضی جن کی زندگی کے گردبے شمارافسانوں اورافسانہ طرازیوں کا جال پھیلا ہے۔خصوصاً علامہ شبلی نعمانی اورعلامہ اقبال اورکئی اورافراد کے عطیہ فیضی سے عشق کی داستانیں عام ہیں۔
یہ کتاب عطیہ فیضی اوران کے خاندان کے بار ے میں براہ راست معلومات اورحقائق پر مبنی اور اردو ادب کی اہم ضرورت کوپورا کرتی ہے۔زندہ کتابیں نے اردوادب سے وابستہ ایک فراموش کردارکااحوال پیش کرکے اہم ادبی خدمت انجام دی ہے۔
عطیہ فیضی یکم اگست اٹھارہ سوستتر میں استبول میں اسمٰعیلی بوہرہ برٹش کمشنرحسن علی آفندی کے گھرپیداہوئیں۔ان کے والدحسن علی کوعثمانیہ دربارتک رسائی حاصل تھی۔ان کاکاروبارہندوستان،عراق اوراستبول تک پھیلا ہواتھا۔عطیہ فیضی کواس دور میں جب ہندوستان میں خواتین توکیامردوں کی تعلیم بھی عام نہ تھی، اس دور کے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے تحصیل علم کا موقع میسرآیا۔جس کی وجہ سے انہیں ترکی،عربی ، فارسی،اردو،انگریزی اورفرانسیسی زبان پرعبورحاصل تھا۔بیسویں صدی میں جب لڑکیوں کی تعلیم کا رواج خال خال تھا۔ عطیہ نے حصول علم کے لیے برطانیہ کاسفرکیا۔ اوربہت جلد ہندوستانی کمیونیٹی میں جگہ بنالی۔ لندن میں ٹاٹاکمپنی کے بانی جمشیدٹاٹا،سروجنی نائیڈوکے علاوہ ہندوستانی راجوں مہاراجوںکے ساتھ عطیہ فیضی کی صحبتیں رہنے لگیں۔
عطیہ فیضی کی اردو کے نامورادیبوں اورشعرا سے روابط تھے۔علامہ اقبال اورشبلی نعمانی سے ان کے رومانی تعلقات کے بھی چرچے رہے۔ عطیہ فیضی کی خط وکتابت نے علامہ اقبال،شبلی نعمانی،حفیظ جالندھری اورمحمدعلی جوہرجیسے زعماء کومتاثرکیا۔معروف صحافی نصراللہ خان جنہوں نے ریڈیوپاکستان سے عطیہ فیضی کاانٹرویوکیا۔اپنی تصنیف ‘کیاقافلہ جاتارہا’ میں عطیہ فیضی کے بارے میں لکھا۔قلوپطرہ اورعطیہ فیضی کی داستان میں بہت سی مماثلتیں ہیں۔ایک ریاست کی حکمران تھی اور دوسری دلوں کی ملکہ۔قلوپطرہ کی محبت میں سیزراورانتونی دیوانے تھے۔عطیہ بیگم کی زلف گرہ گیر کے اسیربڑے بڑے دانشورتھے۔اس دورکے مسلم شاعروں اورادیبوں کے لیے اعلیٰ تعلیم یافتہ،خوش خصائل اورسماجی میل جول کی حامل خاتون توجہ کا مرکزبن گئی۔
یہ بھی پڑھئے:
جعفر ایکسپریس: ہائی جیکنگ کے پس پردہ کون کون سی قوتیں تھیں؟
شام کی حالیہ خونریزی اور ممکنہ نئی قیادت
پاپولزم کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت
تہاڑ جیل میں رمضان کے روزے، افتخار گیلانی کے انکشافات
موسیقی اورمصوری سے وابستگی نے عطیہ فیضی کی شادی ہندوستانی یہودی سموئل رحمین سے کرادی۔جس نے عطیہ کی خاطرناصرف اسلام قبول کیابلکہ فیضی کواپنے نام کاحصہ بنالیا۔شبلی نعمانی نے عطیہ اوررحمین کی شادی اورتبدیلی مذہب کی طرف یوں اشارہ کیا۔
بتان ہندکافرکرلیاکرتے ہیں مسلم کو۔۔عطیہ کی بدولت آج ایک کافرمسلمان ہوگیا
عطیہ فیضی بمبئی میں جناح کے ہمسایہ تھیں۔انیس سواڑتالیس میں قائداعظم کی دعوت پرعطیہ فیضی اپنے شوہر اوربہن کے ساتھ کراچی منتقل ہوگئیں ۔انھوں نے اپنے نئے گھرمیں ایک فن اورادبی گوشہ بنایا۔جس کانام بمبئی کی رہائش گاہ کے نام پررکھاگیا۔قائداعظم کی وفات کے بعد عطیہ اور ان کے شوہرکواس گھرسے بے دخل کردیاگیا،جوقائداعظم نے الاٹ کیاتھا۔قائداعظم ان کی آرٹ اورکلچرسے وابستگی سے بخوبی آگاہ تھے۔ فنکارانہ مزاج کا حامل یہ جوڑا زمین کی ملکیت اورکلیم داخل کرنے کے روایتی اورقانونی تقاضے پورے نہ کرسکا اور انھیں ادھیڑعمری میں مصائب کاسامناکرنا پڑا۔
”عطیہ فیضی رحمین ” کے مصنف ڈاکٹروسیم رضاپچپن برس سے امریکامیں قیام پذیرہیں۔وہ نوجوانی میں کراچی میں رہتے تھے،جہاں ان کے اہل خانہ کے عطیہ فیضی سے گہرے مراسم تھے۔ وسیم صاحب نے اس زمانے کی یادوں کودلچسپ انداز میں سپردقلم کیاہے۔کئی چونکادینے والے انکشافات سے بھرپوریہ کتاب نہ صرف عطیہ فیضی پر کام کرنے والے محققین کے لیے معلومات کا خزانہ ہے۔بلکہ عام قاری بھی اس سے بہت کچھ حاصل کرسکے گا۔
وسیم رضالکھتے ہیں۔”بیگم عطیہ فیضی کی زندگی پرکوئی کتاب نہیں لکھی گئی۔صرف ہلکے پھلکے خاکوںپرمبنی کچھ تحریریں ملتی ہیں جوکہ نہ صرف ادھوری ہیں،بلکہ بہت حدتک غلط اوربے بنیادباتوں پر مبنی ہیں،اور نہ ہی وہ ان کی زندگی کے مختلف گوشوں کونمایاں کرتے ہیں۔ ہماری فیملی سے عطیہ فیضی کے بہت پرانے تعلقات تھے اس لیے ایسی کتاب کی اشدضرورت سمجھی جوان کے مختلف ادوارزندگی پرمحیط ہو، اوران کی شخصیت اورحالات زندگی کامکمل احاطہ کرسکے۔عطیہ فیضی کے دونامورشخصیتوں کے ساتھ تعلقات سیرحاصل تفصیلات کے محتاج ہیں۔ان دو یگانہ روزگارعالموں سے دوستی کی داستانیں جن سے بے شمارکہانیوں نے جنم لیااورہرمضمون نگارنے انھیں اپنے رنگ میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔جس کی وجہ سے ان کولازوال شہرت نصیب ہوئی اور وہ ایک پراسرارہستی بن کرلوگوں کے سامنے آتی ہیں۔
میں نے کوشش کی ہے کہ ان محفلوں اورحالات کواس طرح سے بیان کروں کہ پڑھنے والایوں محسوس کرے گویا وہ ان محفلوں میں بذات خودشریک ہے۔ ان کا وہ زمانہ بھرپورزندگی کی عکاسی کرتاتھااورکسمپرسی کا وہ وقت جو پاکستان میں گزراتھا۔اس کی جیتی جاگتی تصویرپیش کرنے کی کوشش کی ہے۔یہ ذاتی تاثرات ان کی انفرادیت اورشخصیت کے اظہارمیں لہجے کی جھنکار،جملوںکی روانی اورمشاہدے کاعکس قاری کے دل کے تاروں کو ضرور مرتعش کرے گا۔ان میں حقائق بھی ہیں،صداقتیں بھی اوریادماضی بھی نمایاںنظرآتی ہے۔میں نے صرف تماشائی کی آنکھ سے نہیں،بلکہ اہل نظرکی حیثیت سے حالات کودیکھااورعطیہ فیضی کے غم واندوہ اورقلبی واردات کی جھلک دکھانے کی کوشش کی ہے۔ یہ سوانح عمری دوسری کتابوں سے مختلف ہے، کیونکہ اس میں بہت واضح الفاظ میں ان واقعات کوبیان کیاگیاہے جوکہ زیادہ ترسوانح نگار نظرانداز کردیتے ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ دوسروں کی نظرمیں تنقید کانشانہ بنیں۔اس طرح ہم اپنی سماجی،اخلاقی اورسیاسی ذمہ داریوں سے دستبردار نہیں ہوسکتے۔ اورنہ ہی اپنے ملک اورسماج کے لیے کوئی مثبت کردارادا کرسکتے ہیں ۔اس لیے کتاب میں بہت سے لوگوں کے کرداروں کو صحیح تناظر میں بیان کیاہے۔ان پرخوب صورتی کے چڑھے ملمع کوبے نقاب کیاہے تاکہ قاری کوان کااصلی چہرہ دیکھنے کوملے ،جس سے وہ اب تک بے خبرتھے۔ ہرواقعہ اورہرحادثہ اس تحریر میں اپنے محاسن وعیوب کے ساتھ موجودہے۔اس سوانح میں عطیہ بیگم کی زندگی کواس طرح بیان کیاہے کہ قاری پڑھنے کے بعدسوچے کہ زندگی کے رنگ کس طرح انسان پرآشکارہوتے ہیں۔یہ دورخی دنیااپنے اندرکیسے کیسے پوشیدہ واقعات سے بھری پڑی ہے۔”
عطیہ فیضی کے خاندان اورپیدائش کاذکروسیم رضاکس عمدگی سے کرتے ہیں۔”نگاہ کی مستی،امنگوں کے ولولے،جذبات کی تڑپ اورتزئین و آرائش کی گرمی کی ملکہ کانام تھاعطیہ فیضی رحمین جویکم اگست اٹھارہ سوستتر کوعروس البلاد استبول کے مخصوص علاقے جوکہ خلیفہ وقت کے مصاحبین کے لیے وقف تھا،میں پیداہوئیں۔وہ بمبئی کے مشہورمسلم خاندان طیب جی سے تعلق رکھتی تھیں۔ان کی والدہ بدرالدین طیب جی کے بڑے بھائی شجاع الدین کی بیٹی امیرالنساکے بطن سے پیداہوئیں۔والدکی طرف سے طیب علی کے بڑے بھائی فیض حیدرکے بیٹے تھے ۔ اس طرح دونوں فرسٹ کزن تھے۔سلیمانی بوھرہ خاندان میں شادیاں صرف خاندان کے لوگوں کے درمیان طے پاتی تھی۔ان کے والد حسن علی فیض حیدرجواستبول میں حسن آفندی کے نام مشہورتھے اورخلیفہ عبدالحمیدکے سیاسی اوراقتصادی امور کے ہندوستان کے متعلق مشیر بھی تھے۔وہ عرصہ دراز سے استنبول میں رہائش پذیرتھے۔ان کی ساری اولاد استنبول کی ہی پیدائش تھی۔”
کتاب کی ترتیب کے مطابق عطیہ فیضی کی پیدائش اورابتدائی حالات یورپ جانے سے پہلے ،یورپ کاتعلیمی سفر،جس میں ان کی سماجی اور ثقافتی سرگرمیاں اورلندن میں اشرافیہ سے ملاقاتیں،علامہ شبلی سے تعلقات کی نوعیت ،علامہ اقبال سے ملاقات،پھران سے تعلقات کی تفصیل، علامہ اقبال کے زمانہ اضطراب کی صورت حال پرخامہ فرسائی،بشمول دوسری مستورات سے تعلقات کی نوعیت،مصنف کی عطیہ فیضی سے پہلی ملاقات،کراچی کاابتدائی خوش حالی کادوراوورسماجی، ثقافتی شب وروز اورآخر میںان کی زندگی کاالمناک باب جس میں ان کی کسمپرسی کازمانہ ساری جزویات کے ساتھ موجود ہے جس کی وجہ سے عطیہ کوزمانے کے ہاتھوں عبرت ناک انجام سے دوچار ہونا پڑا۔
عطیہ بیگم نے اپنی ابتدائی زندگی نہایت شاندارانداز میں اوراپنی مرضی پرچلتے ہوئے گزاری۔انھیں شروع ہی سے فنون لطیفہ کے مختلف شعبوں سے شغف تھااوران کی دلچسپی ان شعبوں سے تمام زندگی قائم رہی۔ان کی منجھلی بہن نازلی رفیعہ جنجیرہ،عطیہ کواکثرشاہی تقریبات میں اپنے ہمراہ رکھاکرتی تھیں۔اس لیے نوعمری ہی سے عطیہ کی دیگرریاستوں کے حکمرانوں سے میل جول کے سبب حوصلہ افزائی ہوئی۔دوسری جانب ان کے خاندان نے بھی انھیں ہراس کام سے کبھی نہ روکاجووہ کرنا چاہتی تھیں۔اس زمانے میں عطیہ کوسائیکل سواری کا شوق پیداہواتوگھروالوں نے ان کوایک عمدہ سائیکل تحفے میں دی۔انھوں نے یورپ سے مصوری کاسامان منگواکرڈرائنگ اورمصوری کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اوربمبئی کے مشہورفوٹوگرافرکلفٹن جی سے تصویراتارنے کی تربیت حاصل کی۔
غرض ڈاکٹروسیم رضا کی کتاب میں عطیہ فیضی کی زندگی کا ہرگوشہ عیاں کیاگیاہے۔ اردو ادب کی اس معروف شخصیت کے بارے میں درست معلومات کے لیے ڈاکٹروسیم رضاکی ”عطیہ فیضی رحمین ” کا مطالعہ ناگزیر ہے۔ایک ایسی ہستی جسے قائداعظم محمدعلی جناح نے پاکستان بلاکر آباد کیا اوربانی پاکستان کی وصال کے بعداس سے وہ گھرخالی کرالیاگیا۔جوقائداعظم نے الاٹ کیاتھا۔یہ تمام داستان چشم کشااورعبرت انگیز ہے۔پاکستانی قوم کی احسان فراموشی ہی کہانی بیان کرتی ہے۔
کتاب کے اہم ابواب علامہ شبلی نعمانی اور علامہ اقبال سے عطیہ فیضی کے مراسم کے بارے میں ہیں۔جن میں بہت سی افواہوں کی حقیقت عیاں ہوتی ہے۔علامہ شبلی تعلیم حاصل کرنے کے بعد علی گڑھ سے وابستہ ہوگئے ۔پھرایک مذہبی تحریک کے رہنمابن گئے۔ان کے والد ممتاز وکیل اور زمیندارتھے۔دوبھائی بھی بڑے وکیل تھے۔اس طبقے کی جودلچسپیاں ہوتی ہیں۔علامہ ان سے آزاد نہ تھے۔عبداالماجددریابادی کے بقول وہ زاہد خشک نہ تھے اوردنیاکی رنگینیوں سے حدودکے اندررہتے ہوئے لطف اندوز ہوتے تھے۔جب وہ علی گڑھ آئے توانھیں انگریز پروفیسروں کی خوش شکل بیویوںکوقریب سے دیکھنے کا موقع ملاجوتعلیم اورگھرکااچھا انتظام کرنے کے ساتھ عملی زندگی میں اپنے شوہروں کاہاتھ بٹاتی تھیں، توایک ذہین اوراہل نظرکی حیثیت سیان کے لیے یہ امرناگزیرتھاکہ وہ مشرقی عورتوں کی تعلیم وتربیت کانیانصب العین بنانے پرغور کرے اوراس مسئلہ پرواضح خیالات کااظہارکرے۔علی گڑھ میں انگریزخواتین کی تعلیم وتربیت،آزادی خیال،ہمت اورخوش سلیقگی دیکھ کروہ مشرقی عورتوں کی تعلیم،آزادی نسواںاورمعاشرتی حقوق کی علم برداربن گئے۔ان کی عطیہ بیگم سے دوستی کوسمجھنے کے لیے اس بارے میں شبلی کے عمومی خیالات کوذہن میں رکھنا ضروری ہے۔
طیب جی نے اپنے خاندان کوگجراتی کے بجائے اردوزبان کوروزمرہ کی زبان قراردیا۔عطیہ بیگم کی بڑی بہن زہرہ بیگم اردوکی ماہرتھیں۔ دونوں نے علامہ کوشبلی کواپنااتالیق بنالیا۔تہذیبی اورعلمی سرپرست بنانے کے بعدوہ ان کے آزادی نسواں سے متعلق مشوروں سے بہرہ مند ہونے لگیں کہ فارسی اوراردو پڑھنے لکھنے میں ان کی مدد لے سکیں۔شبلی نے جوخطوط انیس سوآٹھ سے چودہ کے دوران لکھے،ان میں بہت سے مفید مشوروں سے انہیں نوازا۔جس سے واضح تھاکہ دونوں بہنیں انھیں اپنااتالیق سمجھتی تھیں،علامہ اردوکے بہترین انشاپردازتھے جن کی قابلیت سے وہ فائدہ اٹھارہی تھیں۔عطیہ بیگم کچھ ماہ پہلے ہی ولایت سے اپنی تعلیم کے بعد واپس آئی تھیں۔لندن کی رونق اوربے شمارلوگوں سے میل ملا پ نے ان کی ذہنی پرورش کواورزیادہ نمایاں کردیاتھا۔ان کے دل ودماغ پردوستوں کی محفل کاجوتہذیبی اثرپڑاتھا،اس کابے جھجک استعمال کرناشروع کردیا۔
شبلی کامزاج حقیقت پسندانہ تھا، مگرخوابوں اورآرزوؤںکے معاملے میں وہ بڑے جرات پسندتھے۔بمبئی کی رومانی اوردل آویزآب وہوا، فلمی مناظر،فراوانی حسن وجمال اورصحبت ہائے رنگیں نے انھیں بالکل دوآتشہ کردیا۔ایک طرف محبت وعقیدت اور دوسری طرف ادب و احترام کے بیج بوئے گئے اورشناسائی دوسری اور دوستی بے تکلفی میں تبدیل ہوگئی۔شبلی پرشاعرانہ کیف ومستی چھائی ہوئی تھی۔حسرتیں امیدوں پرغالب آگئیں۔علامہ کے خطوط جوعطیہ کی واپسی پرلکھے گئے وہ شاعری کی معطر اورکیف آورہواؤںسے لبریزتھے اوریہی خطوط ان کی دل کی کیفیات بیان کرتے ہیں۔اس وقت عطیہ کی شادی نہیں ہوئی تھی اور قیاس کیاجاتاہے کہ مولانا ایک زمانے تک یہ خواب دیکھتے رہے کہ نکاح ثالث کے متعلق ان کے جوارمان تھے شایدبمبئی کی رومانی فضا میں پورے ہوجائیں اورجونکاح اول اورنکاح ثانی کے وقت پورے نہ ہوئے تھے۔اب شایدایسی شریک حیات مل جائے جوہمہ صفت ہو۔ ان خطوط کی مدد سے ہمیں علامہ شبلی کی نفسیاتی کیفیت کوسمجھنے میں بڑی مدد ملتی ہے۔علامہ ان دنوں شعرالعجم تالیف کررہے تھے۔فارسی شاعری کے سبب ان کے دل وماغ اورطبیعت پرشاعرانہ رنگ آجاناقدرتی تھا۔اس شاعرانہ کیفیت کااظہار”دستہ گل” اور”بوئے گل” کی ان غزلوں میں نہیںبلکہ اس کااظہارخطوط شبلی سے بھی صاف جھلک رہاتھا۔
اس تمام تفصیل سے یہ امرواضح ہے کہ علامہ شبلی نعمانی ،عطیہ بیگم کے لیے رومانی جذبات رکھتے تھے اوران کی خواہش عطیہ بیگم سے تیسرانکاح کرنے کے بھی تھی۔ شبلی نے عطیہ بیگم سے جوامیدیں باندھ رکھی تھیں،اس میں ان کی طبعی رومانیت کوبھی دخل تھا،لیکن یہ بھی انصاف نہیں کہ اس دل بستگی کے علمی اوراصلاحی پہلوؤں کونظرانداز کردیاجائے۔اس دلبستگی میں وفورجذبات کے علاوہ جسے علامہ نے ایسے دل آویزاشعار میں ادا کیاہے،جسے غیرمعمولی ذہانت اورقابلیت کی قدر،ہمت کااحترام یہ سب باتیں شامل تھیں۔ان سب کے پس پشت یہ ارمان کے ان کے کرم فرما کی بیٹی جس کے خاندان میں پردے کارواج نہیں،ان مشہورعورتوں کی طرح مقرر اورخطیب بن جائے، جیسے انگریز اورپارسی عورتیں ممتاز ہوچکی ہیں۔وہ عطیہ بیگم کی قابلیت، ذہانت،وسعت اورمعلومات کے معترف تھے،لیکن ان کی عمروں سماجی مراتب،جداگانہ رہن سہن اورطبقوں میں جوتفاوت تھاوہ کسی پائیداردوستی کے لیے بالکل سازگارنہیں تھا۔ان کی عمروں میں بیس سال کافرق تھااور دونوں کے خیالات میں ہم آہنگی میں بڑی مشکل تھی۔بعض واقعات ایسے رونماہوئے جس سے تعلقات پہلے مجروح اورپھربالکل منقطع ہوگئے۔ جبکہ زہرہ بیگم سے ان کی خط وکتابت وفات تک قائم رہی۔
دوسری جانب عطیہ بیگم اس تعلق کومحض احترام کی نظرسے دیکھتی تھیں۔ اسی لیے عطیہ بیگم نے فنون لطیفہ سے فطری دلچسپی اورموسیقی اورمصوری سے لگاؤکے پیش نظریہودی نژاد سیموئل رحمین سے شادی کرلی۔جس نے عطیہ کے کہنے پراسلام بھی قبول کرلیا۔ عطیہ بیگم نے علامہ شبلی نعمانی کی وفات کے بعد بعض تحریروں سے متاثرہوکران کے متعلق ایسے بیانات دیے جوعلامہ شبلی جیسے پرستاراورمحسن کے ساتھ عطیہ بیگم کی بے انصافی سمجھنی چاہیے۔کیونکہ شبلی جیسے نادرروزگارہستی کے والہانہ التفات اورتوجہ نے عطیہ بیگم کی فکرکوجلابخشی تھی۔پاکستان آکربھی عطیہ نے ریڈیوکے انٹرویو میں علامہ شبلی کے متعلق بہت تلخ باتیں کی تھیں، جس کی وجہ سے انٹرویوکا وہ حصہ ہذف کردیاگیا۔
کتاب کاچوتھا باب علامہ اقبال اورعطیہ بیگم کے تعلقات کے بارے میں ہے۔درحقیقت یہ دوایسے دانشوروں کاملاپ تھاجنھوں نے حلقہ احباب میں باہمی چاہت، چشم بصیرت اورذہنی صلاحیتوںکوبروئے کارلاتے ہوئے ایک دوسرے سے اظہارخیال اوراندازبیاں سے سب کومرعوب کیا،اور پھریہ رفاقت یک طرفہ نہیں تھی،بلکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے التفات کے زیراثرآئے۔اقبال اورعطیہ دونوں 1877ء میں پیداہوئے اورملاقات کے وقت دونوں انتیس سال کے تھے۔وہ ایک دوسرے سے انتہائی جوش وخروش سے ملے اورایک دوسرے سے متاثرہوئے بغیر نہ رہ سکے۔دانشوروں کاوہ طبقہ جوتہذیب وثقافت کاحامل اورسماجی ،اخلاقی اورمعاشرتی سوچ بچارکااہل ہوتا ہے۔وہ ذی شعور،فہم ،ذہانت اوراعلیٰ درجے کوسوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت سے غافل نہیں ہوتے۔ اقبال سے مراسم بہت زیادہ اہم اوراس کے نتائج دور رس ثابت ہوئے اوراقبال زندگی کے آخری برسوں تک ایک دوسرے کے رازداں اورغم گسار رہے۔
اقبال کیمرج میں تعلیم کے دوران عطیہ بیگم کے مضامین سے واقف تھے اوراقبال ان سے ملنے کے لیے بے چین تھے کہ یہ خاتون کون ہیں جو ہندوستان اورولایت دونوں کی سماجی زندگی میں اس قدرنمایاں ہیں کہ ہرطرف ان کے نام کے ڈنکے بج رہے ہیں اورعلامہ شبلی جیسااعلیٰ پائے کاانشاپردازبھی ان کی شخصیت کے سحرسے نہ بچ سکا، اور وہ اس قدر متاثرہوئے کہ دوبارہ سے فارسی شاعری نہ صرف شروع کردی بلکہ سال میں دومجموعہ کلام بھی شائع کردیے۔اس دور میں بے پردہ ہندوستانی خواتین ماسوائے انگریزاورپارسی ناپیدتھیں۔اس لیے اقبال کے لیے عطیہ بیگم عجوبہ روزگار تھیں۔اس زمانے میں عورتوں کوبے پردہ دیکھناتوایک طرف ان کولبادے میں دیکھنے سے بھی بدن میں کپکپی طاری ہوجاتی تھی۔کسی ستم ظریف نے کیاخوب کہاہے۔”مرد حضرات عورت کے ایکسرے پر بھی عاشق ہوجاتے تھے۔”
اقبال اورعطیہ نے انگلینڈاورجرمنی کے ان گنت محفلوں میں ایک ساتھ شرکت کی۔دونوں لندن اورمیونخ میں گھومے پھرے۔اقبال نے ایسے فی البدیہہ شاعری بھی کی۔جسے عطیہ کولکھنے سے روکتے ہوئے کہاکہ یہ تحریرکے لیے نہیں وقتی شاعری ہے۔اقبال نے جوچند نظمیں عطیہ بیگم کی رفاقت میں رہ کرلکھیں وہ شاہکارکی حیثیت رکھتی ہیں۔جس میں ”حسن وعشق”،”عشق ہرجائی”،”فراق”اور”ایک شام دریائے نیکرکے کنارے”شامل ہیں۔عطیہ بیگم کے ہندوستان روانہ ہونے کے بعد اقبال نے اپنی بڑی دلنشین نظم”وصال” میونخ سے عطیہ بیگم کوبھیجی تھی۔اقبال کے ہندوستان لوٹنے کے بعد جوخطوط عطیہ بیگم کولکھے گئے وہ نہایت پیچیدہ اوریاس انگیز منظرنامہ پیش کرتے ہیں۔ اقبال ہرخط میں اپنی نامساعدحالت اورذہنی ،قلبی جذبات کی پامالی کی تصویرپیش کرتے ہیں۔جن میں اقبال کی شخصیت کی نہایت دل خراش جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔اس شدید ذہنی پریشانی کی بڑی وجہ ان کی ازدواجی زندگی کی الجھن اورناآسودگی تھی۔یورپ میں اقبال نے آزادی ذہن اورقلب کی ب فکری کے ساتھ جوزندگی بسر کی تھی وہ اپنی جگہ بذات خودایک لذت رکھتی تھی۔اس پر مستزادہم ذوق اورہم خیال خواتین کی صحبت جن کی رنگ افروز کیفیات کوجذب کرنے والی شاعرانہ آنکھ جس سے زندگی جگمگانے لگی۔اقبال کاپنجاب کے گھٹن زدہ ماحول سے یورپ جانادو تہذیبوں،انداز زیست اورروایات کاٹکراؤتھا۔اقبال کی ذہانت اورجمالیاتی حسن کی تسکین کے لیے عطیہ بیگم کے علاوہ جرمن معلمات بھی تھیں۔اس دورکے واقعات و حوادث کس طرح اقبال کے جذبات میں ہلچل پیداکرنے کے محرک ثابت ہوئے، عطیہ بیگم کے خطوط اورڈائری کے اقتباسات نہ طبع ہوتے توان کی زندگی کے اہم ترین واقعات ہمیشہ لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل رہتے۔ عطیہ بیگم کے بارے میں اقبال کارویہ ذہنی رفاقت سے حصول تسکین کامعلوم ہوتاہے۔اس تسکین کوسہ آتشہ کرنے کے لیے عدم وصل سے شخصیت میں ایک لطیف اضطراب اورپرکیف بے کلی پیداہوتی ہے۔عطیہ بیگم اپنے تیزمشاہدے کی بناپر پہلی ہی ملاقات میں اقبال کی شخصیت کے اہم ترین پہلوؤں کوسمجھ چکی تھیں۔یہ سلسلہ خطوط انیس سوسات سے شروع ہوکرانیس سوتینتیس تک چلا، یہ خطوط کیاہیں،نامساعدحالات کے خلاف نارسائی محبت اور سکون کے فقدان کی دل خراش تحریریں ہیں۔
ڈاکٹر وسیم رضا نے پینتیس صفحات پرمبنی اس باب میں عطیہ بیگم اور اقبال کے مراسم کاتفصیل سے جائزہ لیاہے۔ اقبال کی شاعری پراس کے اثرات اورکئی نظموں کے اقتباس اور اشعار بھی پیش کیے ہیں۔عطیہ اور اقبال دونوں کے لیے اس رفاقت کی اہمیت بھی اجاگرکی ہے۔ یہ کتاب کااہم ترین باب ہے۔جس سے قاری کی معلومات میں اضافہ ہوتاہے۔
وسیم رضاکا اقبال کی جرمن اتالیق ایماویگنسٹ کے بارے میں باب بھی چشم کشا ہے۔جس میں وسیم رضا کی ایماکی بہن صوفی سے ملاقات اقبال کی زندگی کئی پہلوعیاں کرتی ہے اورایماجیسی گمنام عورت کے بارے میں بھی کچھ علم میسرآیاہے،جس کے متعلق مصنفین نے حواشی لکھنے پر اکتفا کیا ہے اوراقبال کی حیات کے اس گوشے کومکمل نظراندازکردیاہے۔ کتاب کامصنف لکھتاہےْ”ہمارے سوانح نگارتحقیق کے غوطے لگانے سے ڈرتے ہیں، کیونکہ اس کے لیے تن اورمن دونوں کوآزمائش سے گزرنا پڑتاہے۔جہاں ابتلااورآزمائشوں کے قلزموں سے گزرناپڑتاہے۔مگرہمارے ہاں تحقیق کارواج نہیں، اس لیے نصابی اورادبی کتابیں نہ چھپائی میں اچھی ہیں نہ ہی مواد میں۔سوچ یہ ہے کہ اقبال کیونکہ شاعرمشرق، مفکر اسلام اورحکیم الامت ہیں، اس لیے ان کے بارے میں ہرگز کوئی ایسی بات نہ لکھی جائے جس سے وہ انسان ثابت ہوسکیں۔ اقبال پرتنقیدکے نام پرلکھی تحریریں محض تشریحی نوعیت کی ہیں۔اقبال پرہرسال متواترکتابیں شائع ہوتی ہیں،مگرکوئی بھی ان کی حیات کے منفی گوشوںکوزیربحث نہیں لانا چاہتااوران کے متعلق سرسری بات کرکے گھسے پٹے موضوع چھیڑ دیتے ہیں، اورتو اور جاویداقبال نے والدکی سوانح میں ایسی باتوں کاسرسری ذکر کیاہے۔اقبال کے خطوط کوڈھونڈنے میں کوئی تگ ودو نہیں کی اورکتاب میں یہ فقرہ لکھ کراپنے آپ کو اس موضوع سے بری الذمہ کرلیاکہ کے ان کے متعلق مزیدمعلومات حاصل نہ ہوسکیں۔”
شاعرمشرق کی زندگی کے کچھ منفی گوشوں خصوصاً ایما،کاؤنٹیس بیرونیز،امیرجان کے بارے میں ڈاکٹر وسیم رضاکی کتاب ”عطیہ فیضی رحمین” سے کچھ چشم کشاحقائق کاعلم ہوتاہے۔جن کے تذکرے سے اقبالیات کی دیگرکتب میں گریز کارویہ اختیارکیاگیاہے۔
عطیہ بیگم نے انیس سوآٹھ میں یورپ سے واپسی پرشادی کاارادہ کرلیا۔اس وقت ان کی عمراکتیس سال ہوچکی تھی اوراس عمرمیں ہندوستانی عورتیں نانی،دادی بھی بن جاتی تھیں۔عطیہ کی وابستگی دومشہوردانشوروں کے ساتھ تھی۔ان کے علاوہ بھی کئی حضرات ان پرمرمٹنے والوں میں شامل تھے۔جس کی وجہ سے بے پرکی اورگھٹیاباتیں ان کے خاندان کے لیے باعث زحمت بن رہی تھیں۔یورپ جانے سے پہلے عطیہ کی سہیلی مہارانی آف بروڈانے ان کی ملاقات اپنے درباری مصورسیموئل رحمین سے کروائی تھی۔ان سے عطیہ بیگم کی ملاقاتیں یورپ جانے سے پہلے اورواپسی کے بعد بھی ہوئیں۔انھیں پرکھنے کے بعدعطیہ نے ایس آر کوجیون ساتھی بنانے کافیصلہ کرلیا۔ایس آریہودی فرقہ بنی اسرائیل سے تعلق رکھتے تھے۔یہ فرقہ دوصدی سے پونا میں رہائش پذیر تھا۔وہ بڑودا کے درباری مصورتھے اورنواب گائیگواڈنے بھی کہاکہ ایس آر کوجیون ساتھی بناناعطیہ بیگم کے لیے نہایت مفید اورسودمند ہوگا۔وہ ہندوستان کے مقابلے میں یورپ میںزیادہ جانے جاتے تھے۔ شادی کے بعدان کاانگریز حکومت نے اپنے نئے دارالحکومت نئی دہلی میں امپیریل سیکریٹریٹ بلڈنگ کے گنبدکوپینٹ کرنے کے لیے منتخب کیا۔جس کے لیے انھوں نے عربی خد میں”اللہ اکبر”لکھ کرمہارت کاسکہ جمایا۔چھوٹے گنبدکو”اوم” پینٹ کرنے کااعزازبخشا۔وہ موسیقی اور تعمیرات کے شعبوں میں بھی مہارت رکھتے تھے۔عطیہ بیگم کے عالیشان بنگلے کانقشہ بھی انھوں نے بنایاتھا۔
ایس آر اورعطیہ بیگم کی شادی میں مختلف مذاہب کاپیروکارہونے سے رخنہ پڑا۔توایس آرنے کہاکہ وہ مسلمان ہونے کوتیارہیں۔اس سے عطیہ بیگم ، ایس آر کے خلوص کی معترف ہوگئیں۔دس اکتوبرانیس سوبارہ کوایس آر نے اسلام قبول کیا۔نکاح کے کاغذات پران کانام”نور محمد” لکھا گیا۔مگربھائی نے عطیہ کوآگاہ کیاکہ سیموئل کاقریبی اسلامی نام اسمائیل ہے۔اس لیے یہ نام تجویز ہوا۔مگر وہ ہمیشہ اپنے پیدائشی نام سے یادرکھے گئے۔شادی کے وقت عطیہ بیگم کی عمرپینتیس سال اور ایس آر کی تینتیس سال تھی۔شادی کے بعد عطیہ بیگم نے اپنانام عطیہ رحمین فیضی رکھالیا۔
1919ء میں امریکاسے واپسی پرعطیہ فیضی نے بمبئی مالابارہلزکے انتہائی مہنگے علاقے میں جنگ نگاہ منظرپیش کرنے والابنگلہ تعمیرکیاجوایس آر نے مغلیہ طرزتعمیرکے مطابق تیارکیاتھا۔اس گھرکوچارحصوں میں تقسیم کیاگیاتھا جن کے نام اسلامی تہذیب،ثقافت اورتمدن کے وارث تھے۔انھوں نے خوب صورت گوشہ نشین کو”ایوان رفعت” کانام دیا۔اسی گھر کے پڑوس میں جناح صاحب بھی مقیم تھے۔ایوان رفعت کی تعمیرکے بعدان کی سماجی اورثقافتی زندگی کابہترین دور شروع ہوا۔جس کی شہرت کے ڈنکے چاروں طرف بجنے لگے اوران کی مشاہیرسے دوستی کی وجہ سے بمبئی میں بہت نمایاں ہوگئی۔
عطیہ فیضی رحمین میں امریکی مصنفہ ایڈتھ وارٹن سے مشابہت۔عطیہ ،نازلی اورزہرا تینوں بہنوں کی ثفافتی اورسماجی سرگرمیوں پرتفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔اس دوران عطیہ فیضی کی شائع ہونے والی کتب کا بھی ذکرہے۔عطیہ فیضی کی ذات کادبدبہ اورطنطنہ اس قدرتھاکہ بہت سے لوگ ان سے ملنے سے کتراتے تھے۔پل بھر میں دہکتاانگارہ ہوجاتی تھیں۔کج کلاہ تھیں،اناپرست اورنرگسی مزاج رکھتی تھیں۔
پاکستان بننے کے بعدبمبئی کی سماجی زندگی میں نمایاں مقام رکھنے والی عطیہ فیضی،قائداعظم کی حوصلہ افزائی اور پاکستان منتقل ہونے کی دعوت قبول کرتے ہوئے اپنی بہن اورشوہرکے ساتھ پاکستان آگئیں۔ان کی زندگی کاہیجان انگیزدورختم ہو،اورایک بالکل مختلف زندگی کاآغاز ہوا۔ایوان رفعت کی زیارت سے بہت سے اہل علم اوراہل سخن ان کی صحبت سے لطف اندوز ہوئے۔ان کی اس زیارت گاہ میں جن مشاہیر نے عزت افزائی کی وہ فنون لطیفہ ،علم وادب کی نادرروزگارشخصیات تھیں۔ان کی محفلوں میںبمبئی اورہندوستان کی اشرافیہ کے چیدہ چیدہ مہمان موعوہوتے تھے۔اس کے لیے بھی ڈاکٹر وسیم رضا نے ایک مختصرباب”ایوان رفعت کے طائران خوش نما” کے نام سے مختص کیاہے۔
جہاں آراکجن، مختاربیگم، اختری بائی فیض آبادی،پیشنس کوپر، رقاصہ مادام آزوری،خالدہ ادیب خانم،راشدالخیری اورمصورایف ایم حسین کے مختصر خاکوں نے کتاب کی دلچسپی میں بے پناہ اضافہ کیاہے۔
کتاب”عطیہ فیضی رحمین” کادوسرادورعطیہ کے پاکستان آنے کے بعدسے تعلق رکھتا ہے۔جس میں پہلاباب”میری ملاقات” مصنف وسیم رضااور عطیہ فیضی کی پہلی ملاقات کے حوالے سے ہے۔اس وقت وسیم رضا کی عمرصرف بارہ سال تھی۔پندرہ صفحات کے اس باب میں کچھ ایسی گفتنی اورناگفتنی قاری کے مطالعہ میں آتی ہیں۔ جوکسی اورکتاب میں میسر نہیں ۔آٹھواں باب ”پاکستان میں پہلا دور” ہے۔جس میں قائدکی پاکستان بلانے اورعطیہ کے اس دعوت کوقبول کرنے کی وجوہ پرتفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔قائداعظم نے برنس روڈ پرسلیمانی بوہرہ لوگوں کے گڑھ میں زمین لاٹ کروادی۔ عطیہ فیضی نے بھی ہمت کرکے کراچی میں ایوان رفعت کی بنیادڈالی اوراسے بمبئی والے ولا کی طرزتعمیرپربناناشروع کردیا۔ اس کودوحصوں میں تقسیم کیا۔ایک طرف آرائش تھی اوردوسری طرف ایس آرکی مصوری کونمایاں جگہ دینے کے لیے آرٹ گیلری بنائی۔دونوں عمارتوں کے درمیان مغلیہ طرز کاچمن ”باغ فردوس” نام کابنایا۔نوتعمیرگھرمیں انھوں نے اپنے ادارے آرٹ سرکل کوازسرنوبحال کیا۔پاکستان میں عبدالرحمٰن چغتائی کے شہ پاروں پرمشتمل پہلی نمائش عطیہ فیضی کی آرٹ گیلری میں ہوئی۔
جب قائد نے انھیں پاکستان آنے کی دعوت دی تھی تووہ اپنا سب کچھ لاکریہاں آئی تھیں۔قائدکی رحلت کے بعد فرزندان توحیدکے تیور کس طرح بدل گئے۔جب ان کاکوئی سرپرست نہ رہاتوہماری بدبخت نوکرشاہی اوربداندیش سیاست داںاوران کے نمک خواروں نے ان کی زندگی عذاب بنادی اورانھیں اپنے ہی پیسے سے بنائے ہوئے شانداربنگلے سے نکالنے کی کوشش شروع کردی اورآخرکاراس گھناؤنے دھندے میں حکومت کے ایما پراپنے مقاصد میں کامیاب ہوگئے۔وہ جگہ انھوں نے بڑے ارمانوں اورچاہ سے بنائی تھی اورجسے اپنے خون پسینے سے اس کہن سالی میں پروان چڑھایا۔اس واقعے کے بعدان کودربدری کاسامناکرنا پڑااوران کا پاکستان میں کوئی مستقل ٹھکانہ نہ بن سکا۔ان کاسارااثاثہ گھرکی تعمیرمیں خرچ ہوچکاتھا اورباقی سرمایہ ایس آرکی مصوری پرلگاہواتھااس لیے وہ بالکل گنگال ہوگئیں۔برسوں عدالتوں کے چکرنے انھیں اس حدتک ذلیل وخوارکیاکہ انسانیت کے نام پراس ملک کی تقدیر پربدنماداغ بن گیا۔
یہ تمام انتہائی دلخراش داستان ہے۔ جسے بیان کرنے کابھی یارا نہیں ہے۔ڈاکٹر وسیم رضا نے”عطیہ فیضی رحمین” لکھ کراردوادب اور پاکستان کی انتہائی اہم خدمت انجام دی ہے۔اس کتاب کی بھرپورپذیرائی ہونی چاہیے۔کتاب مشاہیرعلم وادب کی زندگی کے کئی اہم گوشوں کوعیاں کرتی ہے ۔ پاکستان کے ابتدائی دور کے اہم حالات سے قاری کوآگاہ کرتی ہے۔جن کاعام کتب میں ذکر بھی نہیں کیاجاتا۔
ڈاکٹر وسیم رضا کوکتب کی تحریر اور راشداشرف اوران کے سلسلے زندہ کتابوںکی اشاعت بھرڈھیروں مبارک باد۔آپ کے قلم سے مزیدچشم کشاکتابوں کاانتظار رہے گا۔