سانحہ کربلاتاریخ کاایک ایساالمیہ ہے۔ جس کے زخم چودہ سوسال بعدبھی مندمل نہ ہوسکے۔صدیوں سے امام حسین اوراہل بیت کے مصائب کاذکرعربی،فارسی اوراردوکے رثائی ادب میں بیان ہوتے رہے ہیں۔بے شمارتحقیقی کتب دنیا کی ہرزبان میں لکھی گئی ہیں۔ادب میں سانحہ کربلا پر بے شمارمضامین، مقالے اورکتب لکھی گئیں۔اردو فکشن میں بھی تاریخ کابدترین المیہ باربار دوہرایا جاتا ہے ۔ کربلااردوشاعری کا اہم استعارہ بھی رہا۔عصمت چغتائی نے واقعہ کربلاپر ناول”ایک قطرہ خون” لکھا۔جس میں میرانیس کے مرثیوں سے اکتساب کیا۔ علی اکبرناطق دورحاضر کے اہم نثرنگار،شاعر،نقاد اورماہرتعمیرات ہیں۔ انہوں نے سانحہ کربلاکو” کوفہ کے مسافر ” کی شکل میں فکشن کاروپ دیا ہے۔جس پر مختصرترین تبصرہ تویہ ہوسکتاہے۔”مکمل طور پرغیرجذباتی اورغیرجانبدارانہ تحقیق کانچوڑ منفرداور حقیقت سے قریب ترناول ہے۔”
علی اکبرناطق اردوکے معروف افسانہ نگار،ناول نگار،شاعراورماہرتعمیرات ہیں۔علی اکبر ناطق کا خاندان تقسیم کے وقت فیروزپورسے ہجرت کرکے وسطی پنجاب کے شہراوکاڑہ کے نواحی گاؤں بتیس ٹوایل میں آباد ہوا۔ناطق یہی 1976ء میں پیداہوئے اوراسی گاؤں کے ہائی اسکول سے میٹرک کیا۔ایف اے کاامتحان گورنمنٹ کالج اوکاڑہ سے پاس کیا۔اس کے بعدمعاشی حالات دگرگوں ہونے پربی اے اورایم اے بہاؤالدین ذکریایونیورسٹی ملتان سے پرائیویٹ طالب علم کی حیثیت سے کیے۔تعلیم کے ساتھ مزدوری کا سلسلہ جاری رکھا اوربطور راج مستری پندرہ سال تک کام کیا۔اس طرح علی اکبرناطق کوشاعرمزدوراحسان دانش کے مانند ادیب مزدور کہاجاسکتاہے۔مزدوری اورتعلیم کے ساتھ ناطق نے اردونثر،شاعری،تاریخ اورسماج کا مطالعہ بھی جاری رکھا۔کچھ عرصہ روزگارکے لیے سعودی عرب اورمشرق وسطیٰ میں بھی رہے۔ پاکستان واپسی کے بعدچنداداروں سے بطوراستادشعبہ اردومنسلک رہے۔کچھ عرصہ بعدیونیورسٹی چھوڑکراپنے آبائی گاؤں اوکاڑہ منتقل ہوگئے۔معروف ادبی جرائد میں ان کے افسانے اورنظمیں شائع ہونے لگیں توبہت جلدادبی حلقوں میں شہرت ہوگئی۔ دوہزاردس میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ”بے یقین بستیوں میں” چھپااوریوبی ایل ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوا۔دوہزاربارہ میں علی اکبرناطق کاپہلا افسانوی مجموعہ ”قائم دین” بین الاقوامی پبلشنگ ادارے آکسفرڈ نے شائع کیااوراسے یوبی ایل ایوارڈ بھی ملا۔اس مجموعہ کے کئی ایڈیشنز شائع ہو چکے ہیں۔ناطق کے ایک ابتدائی افسانے”معمارکے ہاتھ” کاانگریزی ترجمہ محمدحنیف نے کیا۔جسے امریکا کے ادبی جریدے ”گرانٹا” نے شائع کیا۔علی اکبرناطق کی کتب انگریزی اورجرمن زبان میں ترجمہ ہوچکی ہیں۔ان کے پہلے ناول”نولکھی کوٹھی”ادبی حلقوں میں ہلچل مچائی اوراسے بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔دوہزارتئیس میں نائمہ راشد نے ”نولکھی کوٹھی ” کاانگریزی ترجمہ کیا۔جوپینگوئن انڈیا سے شائع ہوا۔ ناطق کا دوسرا ناول ”کماری والا” دوہزاربائیس میں بک کارنرجہلم نے شائع کیا۔علی اکبرناطق کی دیگرکتب محمدحسین آزاد کی شخصیت اورفن پرتجزیات کتاب” فقیر بستی میں تھا” علامہ اقبال کی شاعری پر”شعراقبال” افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”شاہ محمدکاتانگہ” شعری مجموعے ”سبزبستیوں کے غزال”،”بے یقین بستیاں”،”یاقوت کے ورق”،”سرمنڈل کاراجہ”،”مارچ کے پھول” ،”تصویروں کاباغ” اور منقبت کے مجموعہ ”درمدحتِ علی” کے علاوہ کلیات”سفیرلیلیٰ” اور آپ بیتی”آباد ہوئے بربادہوئے” بھی شائع ہوکر قارئین میں بے پناہ مقبولیت حاصل کرچکی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پاکستان کی تاریخ کے ایسے انکشافات جو کبھی دیکھ نہ سنے
سید محمد علی نے ڈھونڈا ہے ممتاز مفتی کی عورت کو
حکومت پی ٹی آئی مذاکرات، رانا ثنا اللہ کی غیر معمولی تجویز
” کوفہ کے مسافر ” کاجائزہ لینے سے قبل ناول کے بیک ورق پربھارت کے مشہورادیب،شاعر،نقاد اورمنفردادبی رسالے”شب خون” کے مدیرشمس الرحمٰن فاروقی کی علی اکبرناطق کے بارے میں رائے پیش کرنا چاہوں گا۔”ناطق کے لیے اب یہ حکم لگانامشکل ہے کہ ان کی اگلی منزل کہاں تک جائے گی کہ ہرباروہ پہلے سے زیادہ چونکاتے ہیں۔ا ن کے تمام کام میں تازگی ہے،روایت اورتاریخ کاشعور حیرت زدہ کرنے والاہے۔ جس طرح ان کاشعراورپھرفکشن کاکام ہے۔اس سے پہلے ایسی روایت موجود نہیں ہے۔ وہ شاعربھی ہیں۔افسانہ نگاربھی ہیں اورناولسٹ بھی۔ ناطق کی نثرسے مکالمہ اوربیانیہ کے نامانوس گوشوں پر ان کی قدرت کااندازہ ہوتاہے۔ناطق کے فکشن کاقاری خودانسان اورفطرت کے پیچیدہ رشتوں،انسان اورانسان کے درمیان محبت اور آویزش کے نکات سے بہرہ اندوزہوتاہوادیکھ سکتے ہیں۔ علی اکبرناطق سے اردوادب جتنی بھی توقعات اورامیدیں وابستہ کرے، نامناسب نہ ہوگا۔ان کاسفربہت طویل ہے،راہیں کشادہ اورمنفعت سے بھری ہوئی ہیں۔”
آٹھ سوبائیس صفحات پرمشتمل ضخیم ناول”کوفہ کے مسافر” علی اکبرناطق نے غالباً موضوع کی حساسیت کے پیش نظر خود شائع کیاہے۔کتاب کی پروف ریڈنگ بہترین اورضخیم ناول میں غلطیاں نہ ہونے کے برابر ہیں۔بہترین سفید کاغذ پرعمدہ کتابت اورپرنٹنگ سے آراستہ کتاب قاری کی توجہ مبذول کراتی ہے۔جواس کی اضافی خوبی ہے۔ناول کاانتساب”حسین اب علی کے دفاع میں قتل ہونے والوں کے نام” ہی قاری کی توجہ کھینچتا ہے۔
ناول پرتبصرے سے قبل میں اس کااجمالی جائزہ پیش کرتے ہوئے یہ ضرور عرض کروں گا کہ علی اکبرناطق نے ”کوفہ کامسافر”تحریر کرنے سے قبل سانحہ کربلا اوراس سے مربوط تاریخ کا بہت باریک بینی سے مطالعہ کیا۔امام حسین کے مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ کے سفرکے بارے میں بہت زیادہ تحقیقات کیں اور ممکنہ حد تک مستند واقعات کوہی متن کا حصہ بنایا۔مجھے اس سے قبل ناول ”جانگلوس” کی تحریرکے دوران مصنف شوکت صدیقی سے ملاقات کے مواقع میسرآئے تومیں نے دیکھاصدیقی صاحب نے ایک دیوار پر پنجاب کے ان تمام شہروں،قصبات اورگاؤں کے نقشہ جات لگائے ہوئے ہیں۔ جہاں سے ان کے کرداررحیم داد اورلالی نے گزرنا تھا۔ ان علاقوں کے گزیٹر اور دیگرمطبوعات بھی کمرے میں بکھری ہوئی تھیں۔ اس طرح شوکت صدیقی نے بھرپور تحقیق کرتے ہوئے ”جانگلوس” تصنیف کیا۔میرا خیال تھاکہ کوئی اردو مصنف اس سے زیادہ تحقیق اپنی تصنیف کے لیے نہیں کرسکتا۔لیکن ”کوفہ کامسافر” کے مطالعہ سے واضح ہوتاہے کہ علی اکبرناطق نے ایک ایک واقعہ، شخصیت اوراس کے اہم کرداروں کے حوالے سے بہت تحقیقات کی ہیں اورناول کوقطعی غیرجانبداری اورغیر جذباتی انداز سے تحریر کیاہے۔ اپنے مذہبی عقائداورجذبات کاپرتواس پر نہیں پڑنے دیا اورنتائج اخذ کرناقاری کی صوابدیدپرچھوڑ دیا۔
مستند تاریخ اسلام اوراب ”کوفہ کے مسافر” کے مطالعہ سے ایک اہم سوال بھی ذہن میں بارباراٹھتاہے۔محسن انسانیت،محبوب خدا،ختمی مرتبت حضرت محمدمصطفٰی ص کے تربیت یافتہ صحابہ کرام اوران کی اگلی نسل کے افرادحضورص کے وصال کے پچاس سال بعداسلام کے اعلیٰ شعائر،اخلاق وحسن سلوک کے اصول بھلاچکے تھے۔انہیں نہ نواسہ رسول سے کوئی عقیدت تھی نہ ان کی تکالیف کااحساس ۔ام مومنین حضرت عائشہ، حسن بن علی کی تدفین آنحضرت ص کے ساتھ کرنے پرگھرسے نکل آئیں۔ جنگ جمل اورصفین میں مسلمانوں کاآپس میں مقابلہ ہوا۔عبداللہ بن زبیرجیسے صحابہ خلیفہ سوئم حضرت عثمان کے پوتے گورنرمدینہ ولیدکے دربار سے وابستہ ہوچکے تھے اوراس کا پیغام لے کرامام اعلی مقام کے پاس جاتے تھے۔ ان میں سے بہت سے حقائق ہم مستند تواریخ سے بھی پڑھ سکتے ہیں کہ کس طرح مال غنیمت خصوصاً لونڈیوں کی تقسیم پر کس طرح صحابہ کرام باہم دست وگریبان ہوتے تھے۔ یہ حقائق قاری کے لیے چشم کشا ہی نہیں عبرت ناک بھی ہیں اوراس کے لیے یہ سوال پیداہوتاہے کہ ابتدائی مسلمانوں کی تربیت اتنی ناقص تھی۔ مسلمان ایمان کے بجائے عہدے اورمال ودولت کے پجاری بن کر بنو امیہ کے حامی ہوگئے۔ جومال اورعہدوں کے جال میں نہیں پھنسے انہیں خوف اورڈر نے ایمان سے دورکردیا۔پھریہ فرقہ وارانہ سوچ بھی سر اٹھاتی ہے کہ ایمان کی بقاصرف اہل بیت یا عام لفظوں میں شیعوں کی بدولت ممکن ہوئی۔ دوسرے تمام افراد ایمان سے یکسرتہی دامن ہوچکے تھے۔
علی اکبرناطق کوخراج تحسین بنتاہے کہ وہ اپنے عقائدکوسچ کی راہ میں نہیں آنے دیا۔بلکہ امام حسین سے اہل مدینہ کے رویے،مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ ہجرت اوراس سارے سفرکوحقیقت بیانی تک محدود رکھا اورکہیں جذبات کوغالب نہ آنے دیااورنتیجہ قاری پرچھوڑدیاکہ وہ ان واقعات اورشخصیات سے اچھے برے نتائج خود اخذکریں۔مصنف نے حقیقی کرداروں کے ساتھ کچھ کرداربطور راوی تخلیق کیے اوران کی زبانی خطے ،حکمرانوں اوران کے کاسہ لیسوں کی صورت حال عہدوں، دولت اورسزاؤں کے ذریعے عوام کوقابوکرنے کابیان ہے۔
پہلے باب میں یہودی تنوخ کاکرداراسی نوعیت کاہے۔جو مسلمان کاروپ دھارکراسحاق بن عبداللہ کے نام سے پورے عرب اورحجاز میں کاروبارکرتاتھا۔اس کے دادا تمود کے بہت بڑے گھرکے تہ خانے میں ڈھلائی کی بھٹیاں لگی ہوئی تھیں۔وہ سونے کی مہریں ڈھال کرانھیں اشرفیوں میں تبدیل کرتاتھا۔یہ احمری اشرفیاں اس وقت پورے عرب کاسکہ تھیں اوربیشتر معیشت یہودیوں کے ہاتھ میں تھی۔یثرب کی ایک تہائی آبادی ان کی مقروض تھی۔پردادا انہیں سود پرقرض دیتاتھا۔پھرمکہ میں بنواسمٰعیل سے ایک پیغمبرمحمدبن عبداللہ کاظہورہوا۔محمدص نے دین میں سود کوحرام اورقرض کومکروہ قراردیا۔اس سے یہودیوں کے کاروبارپرضرب لگی۔انہیں اپنی معیشت خطرے میں پڑتی محسوس ہوئی۔ جس نے انہیں نبی کی تضحیک اورتوہین پرابھارا۔ وہ سمجھتے تھے کہ وہ مسلسل دین محمد کامذاق اڑائیں گے تواہل مدینہ بھی اسے جھوٹا سمجھیں گے۔مگران کا خیال غلط ثابت ہوا۔کچھ عرصہ بعد مسلمانوں نے خیبرفتح کیاتوتنوخ کے دادا عرب سے نکل کرشام چلے گئے۔شام میں اس کاکاروبار وسیع ہوا تو وہ اس نے حجازتک بڑھا دیا۔اب اسحاق اکثرمدینہ جاتا اور چارچار ماہ یہاں قیام کرتاتھا۔خود کومسلمان ظاہرکرکے مسجدنبوی میں نماز بھی پڑھتا۔عام لوگوں کی طرح وہ امویوں ہی کے ساتھ کاروباراورمیل جول رکھتا۔ کیونکہ یہ لوگ حکومت میں اثررسوخ رکھنے کے سبب طاقتورخیال کیے جاتے تھے۔شہرکے باہرجن تین اطراف میں آبادیاں تھیں۔ان میں نخلستانوں کے بیچ زبیربن عوام،سعدبن ابی وقاص اور دیگر اصحاب رسول کے بیٹوں کے محل اوران کی اپنی اپنی رعایاتھی۔اپنی دانست میں میں مسلمانوں سے یہودیت کے ساتھ زیادتیوں کاانتقام لے رہاتھا۔
”اولادعلی مدینہ میں نہیں رہتی تھی بلکہ مدینہ سے ڈیڑھ سومیل دورمغرب کی جانب ینبع میں آباد ہوگئی تھی۔اگرکبھی مدینہ آتی توان کے رہنے کی دو جگہیں مخصوص تھیں۔ایک مدینہ اورعقیق کے درمیان دارالحزان تھاجہاں فاطمہ بنت محمدنے اپنے آخری دن گزارے۔دوسری جگہ ایک نخلستان تھاجس میں اولاد علی کے مختلف مکانات تھے۔مدینہ سے ابوطالب کی اولاد کے مکمل انخلا کے باوجودمعاویہ سمجھتاتھا شیعان علی کسی بھی وقت خفیہ طور پرحسن بن علی کے ساتھ منظم ہوکرنئی جنگ کا آغاز کردیں گے۔کیونکہ اب بھی کوفہ سے گاہے گاہے باغی افراداٹھ رہے تھے اور معاویہ انھیں بغیرحیل وحجت ٹھکانے لگاتارہا تھا۔اسی خطرے کے پیش نظرمعاویہ نے کچھ عرصہ بعد حسن بن علی کوزہردلواکراپنا راستہ صاف کرلیاتھا۔مگرحسین کی وجہ سے مدینہ کی کڑی نگرانی ابھی تک جاری تھی۔معاویہ کا خاص آدمی مروان بن حکم اس کام کے لیے بہترین مہرہ تھا۔جسے اس نے مدینے کاگورنربنائے رکھا۔مروان نے حسین کوراستے سے ہٹانے کی بھی بہت کوشش کی مگرحسین نے اپنی حفاظت کے لیے کئی احتیاطیںکررکھی تھیں۔جن کی نگہبانی عبا س ابن علی کے پاس تھی۔”
اس اقتباس سے اس دور کے مسلمانوں کے حالت کااندازہ کیاجاسکتاہے۔علی اکبرناطق کی تحریرکاکمال یہ ہے کہ انہوں نے افراد ، واقعات اوراس المناک سفر کے مسافروں کا احوال جیساتحقیق سے علم ہوا۔ویسے ہی بیان کردیا۔ نہ غیرضروری تحریف کی نہ جذبات کوحاوی ہونے دیا۔اپنی طرف سے کچھ اضافے کی کوشش نہیں کی۔ اس اسلوب نے”کوفہ کے مسافر” کوایک حقیقی فیکٹ فکشن بنادیا۔جس کا قاری ان تمام حالات کوپڑھ کرخو د فیصلہ کرسکتاہے کہ کیاحق تھا اورکیاناحق۔کون ظالم اور کون مظلوم۔ کس نے اسلام کی بقاکے لیے قربانی دی اور امر ہوگیااورکون وقتی جاہ وحشم کے باوجود تاریخ کے کوڑادان کی نظرہوگیا۔
امام حسین کی شخصیت آئینہ کی طرح شفاف اور واضع ہوکرقارئین کے سامنے آگئی۔ اس قسم کی باتوں کی واضع طور پرتردیدہوگئی کہ یہ دراصل اقتدار کی جنگ تھی۔ جس میں امام حسن دستبردار ہوگئے اورامام حسین نے اقتدارکے لیے جنگ کی۔جنگ جمل اورصفین کی حقیقت بھی واضع ہوئی کہ کس طرح مسلمان آپس میں دست وگریبان ہوئے ۔امام حسین کی اہل بیت سے گفتگو،لوگوں سے سلوک،ایفائے عہد اورپھر میدان جنگ میں دلیری پرپہلو”کوفہ کے مسافر” کے مصنف نے بلاکم وکاست بیان کردیااورفیصلہ قاری پرچھوڑدیا۔
حسین کوامام حسن کی تدفین کس طرح جنت البقیع میں کراناپڑی اوراس قضیے سے اولادِرسول حجازاورخاص مدینہ میں مکمل طورپراجنبی ہوکررہ گئی۔ یہاں تک کہ اہل مدینہ نے ان کے ساتھ ایک قسم کامقاطعہ کردیا۔یہ وہ تنہائی تھی جوبنی ابوطالب کے جوان مردوں سے ہوتی ہوئی ان کے لڑکوں کے نصیب میں بھی آئی۔اولادابوطالب کے چھوٹے بڑے تمام لوگ مدینہ والوں کی خوشی ،غمی،عید،سوگ اورکھیل کود سے جداکردیے گئے۔حسن کی شہادت کے بعد حسین ہی اس محلے کے پوری طرح نگران اورسرپرست تھے۔ حسین چھ ماہ ینبع میں گزارتے اورچھ ماہ مدینہ میں۔آپ نے والد اوربھائی کی سنت پرعمل کرتے ہوئے خود کوزمین داری اورباغات کی پرورش کے لیے وقف کردیا ۔ کھیتوں سے جو اور اجناس عرب کی دوسری منڈیوں میں بھیجی جاتیں۔خاص کریمن اوردیہی علاقوں میں جہاں قحط کی صورت پیداہوجاتی تھی۔ دوسری وجہ وہاں آل محمدص کے متعلق شعوربیدارکرنااور دین محمدص کی اصل شکل کوپہنچاناتھا۔معاویہ حسین کی اس حکمت عملی سے واقف تھا۔لیکن مدینہ کے لوگ فقط چلتے پھرتے انسان نظرآتے تھے، اصل میں کھجور،زیتون اورگوشت کے گندھے ہوئے مجسمے تھے۔ خلیفہ اول سے لے کرآج تک مسجدنبوی کے منبرپرآل محمدکے غیرخطبہ دیتے رہے تھے۔نمازبھی انہی کی اقتدا میں پڑھی جاتی تھی۔گویاپچھلے پچاس سال سے مسجدنبوی میں منبررسول پراغیارکا حق تسلیم کرلیاگیاتھااوراہل مدینہ اس امرکے تابع ہوچکے تھے۔معاویہ کے دورمیں حالات اس سے بھی آگے نکل کر یہاں تک آگئے کہ جس منبرپراہل مدینہ نے رسول کے فیصلے کومروان اوراس کے باپ حکم کے خلاف سناتھاکہ یہ باپ بیٹا مدینہ سے نکل جائیں، وہی لوگ مروان کواس منبر پراٹھارہ سال سے خطبہ دیتے دیکھ رہے تھے اوراسی کی امامت میں نمازپڑھ رہے تھے۔اہل مدینہ بنی امیہ کونہ صرف اپنا معاشی بلکہ مذہبی رہنمابھی مان چکے تھے۔ اب یہ بات تیسری نسل تک راسخ ہوگئی تھی۔
اس سب کے باوجودآل زبیراورآل ابوطالب کی کبھی بنی امیہ سے قربت نہ ہوسکی۔اس کے باوجود کے دونوں کادشمن ایک تھا۔مگرآل زبیر آل ابی طالب کوبھی اپناسیاسی حریف سمجھتی تھی۔ عبداللہ بن زبیر نے کبھی حسین کودل سے تسلیم نہیں کیا۔حالت یہ تھی کہ حسین اپنے عزیزوں کی نمازکی امامت کرتے توابن زبیربھی چاربھائیوں کی امامت کرنے لگتا۔عباس ابن علی ایک قسم سے حسین کے محافظ بھی تھے۔وہ سائے کی طرح ساتھ لگے رہتے۔درازقد، سیاہ اورمیانی داڑھی،چہرے پرایک نرم مشفق ہالہ تھا۔
معاویہ کے گزرجانے کے بعد یزیدبن معاویہ نے خلافت سنبھال لی اوربزوربیعت لینے کا آغاز کردیا۔ حاکم مدینہ ولیدبن عتبہ کویہ ذمہ داری سونپی گئی اور لوگوں نے جوق درجوق یزیدکی بیعت شروع کردی۔اسی مقصد کے لیے حسین کوبھی طلب کیا اورکہاکہ میں ولیدبن عتبہ بحیثیت امیرمدینہ پابندہوں کہ آپ اورتمام اہل مدینہ سے امیریزیدبن معاویہ کی بیعت لوں۔میرے پاس اس کے سواچارہ نہیں۔ بادشاہوں کی جانشینی کااختیارخداکی ضمانت میں ہوتاہے۔آپ میرے ہاتھ پریزیدکی بیعت کیجیے تاکہ امت افتراق وانتشارکے فتنے سے بچ جائے۔حسین نے جواب دیا۔یزیدکی بیعت کوخداکی مشیت سے مت باندھو۔بیعت سے متلق میراجواب یہ ہے کہ مجھ جیساآدمی یوں رات کی تنہائی میں چھپ کریاظاہرہوکربیعت نہیں کرسکتا۔میں صبح کے عالم میں بھی مدینہ میں موجود ہوںگا۔تم اپنی دعوت عوام الناس میں دو اوران کے ساتھ یہ تقاضامیرے سامنے بھی رکھوتب میں تمھیں اپنا فیصلہ سناؤں گا۔ حسین اوراہل بیت کے بیعت نہ کرنے پران کے لیے مدینہ کی زمین کس طرح تنگ کردی گئی۔اپنے عظیم والدعلی کے طرح امام حسین کوبھی مدینہ چھوڑنے پرمجبور کردیاگیا۔یہ تمام انتہائی دردناک واقعات ہیں ۔
حسین اوراہل بیت کے قافلے نے مدینہ سے مکہ کی راہ اختیارکی۔لیکن ان پرمکہ کی زمین بھی تنگ کردی گئی۔اہل کوفہ نے خطوط لکھ کرانہیں کوفہ آنے کی دعوت دی ۔ امام حسین نے پہلے اپنے بھائی مسلم بن عقیل کواپنانمائندہ بناکرکوفی بھیجا۔کوفہ میں مسلم بن عقیل پرکیاگزری اور انہوں نے کس طرح امام کا پیغام اہل کوفہ کوپہنچایا اور انہیں کس طرح شہیدکیاگیا۔یہ سانحہ کہانی بھی”کوفہ کے مسافر” میں تفصیل کے ساتھ پیش کی گئی ہے۔
چوبیس رجب کی صبح حسین غرس دیہات کی جانب جارہے تھے۔جب مروان اپناناقہ حسین کے مقابل لے آیا اوربولا۔”ابوعبداللہ میںآپ کونصیحت کرتاہوں ییدابن معاویہ کی بیعت کرلو۔یہ تمھاری دنیاوآخرت کے لیے بہتر ہے۔اسی کام میں آپ کے خاندان کی بقاہے اورفتنہ و فساد سے رہائی بھی۔ خدا نے یزیدکوخلیفہ مقررکیاہے اورلوگوں پر اس کی اطاعت واجب ہے۔آپ شیخ عرب ہیں، اگربیعت کروگے تویزید کی طرف سے ایسے انعامات کے سزاوارہوگے جوشایدہمارے حصہ میں نہ آئیں۔”
امام حسین نے گستاخانہ گفتگوکے جواب میں اناللہ واناالیہ راجعون پڑھااورکہا،”ابن زرقا تمھاری نصیحت کامدعایہ ہے کہ اسلام کوالوداع کہہ دوں اورتوحیدکی جگہ شرک اورعدل کی جگہ ظلم پرقناعت کرلوں ۔خداکی قسم امت پیغمبرکی باگ یزیدکے ہاتھوں میں دینے سے بہترہے مجھے موت آجائے۔میں نے خدا اور رسول سے عہد باندھ رکھاہے کہ اس کے دین کے جزوکل پرآنچ نہیں آنے دوں گا۔میرایزیدکے ہاتھ پربیعت کرلینے کامطلب ہے میں دین کی رسیاں کاٹ ڈالوں اورزمین پرخداکے نظام کولپیٹ دوں۔”
مروان سے بات چیت میں علی اکبرناطق نے امام حسین کے فلسفہ کانچوڑپیش کردیاہے۔ان کامقصدکیاتھا اوردشمن کیاچاہتاتھا۔ مروان کی بد تہذیبی اورمدینہ کے مخدوش حالات کے پیش نظرامام حسین کے لیے مدینہ سے ہجرت لازمی ہوگئی۔ان کے لیے یہ بات دشوارنہیں تھی کہ خود کوموت کے حوالے کردیں۔مشکل یہ ھی کہ ان کاکلام کیسے اپنے حواریوں کواسی یقین اورمعرفت تک لے جائے جوخوداسے حاصل ہے۔ انہوں نے اتمام حجت کے لیے مدینہ کے چالیس سرداروں کے پاس نمائندے بھیجے اورکہاکہ کوئی سردار رہ نہ جائے جوکل عذرپیش کرے کہ مجھے حسین نے خبرنہ دی ورنہ میں ان کی نصرت کے لیے آگے بڑھتا۔اتمام حجت کے بعداہل بیت کاقافلہ مکہ ہجرت کے لیے تیارتھا۔
مکہ میں کسی نے امام حسین اوراہل بیت کااستقبال نہیں کیا۔تمام مکہ میں ان کی آمدکی خبرپھیل چکی تھی۔گاہے گاہے لوگ خفیہ طور پرآنے لگے۔ مکہ کے قدیم باشندوں کوحسین سے بے نیازی تھی۔ اکثرکاایمان اسلام کے فروعات سے جڑا ہواتھا۔حسین اورآل محمدص ان کے لیے وہ اجنبی شے تھی جسے صرف دیکھ اورچھوکراپنافرض پورا کیاجاسکتاتھا،اگریہ بھی میسر نہ ہوتوان کے ایمان کوکوئی خطرہ لاحق نہیں تھا۔عبداللہ بن زبیرحسین کے مسلسل کوفہ جانے پراصرارکررہے تھے۔
یزیدکے دربارکی منظرکشی بھی علی اکبرناطق نے ایک یہودی کی نظرسے کیاخوب کی ہے۔”پہلی نظرمیں یزیدکودیکھ کرایک طرح سے میرے اندرمایوسی کی ایک لہردوڑگئی ۔ میں نے سن رکھاتھاکہ بادشاہوں کے ہاںپہنچنے سے انسان میں احساس تفاخرابھرتاہے مگریہاں اس کے برعکس ذلت کااحساس ہورہاتھا۔ مجھے یہ درباربادشاہ کے بجائے شاہی مسخروں کااکھاڑہ معلوم ہورہاتھا جہاں کسی بھی لمحے تمسخراڑایاجاسکتاتھا۔بادشاہی ایرانی اوررومی سلطنتو ںکا زیورتھی جسے سینکڑوں سال کی تربیت نے تہذیب شاہی سکھائی تھی۔اسے تلواروں کی نوک سے اکھاڑ کرمکہ کے بدواس پربراجمان ہو بیٹھے۔بادشاہی ان کوایک حادثہ میں ملی تھی،اصلیت میں تومیرے سامنے ایک بدوہی بیٹھاتھا۔مجھے اس کی ہیئت دیکھ کروحشت ہوئی اور میرے اوپر لرزا طاری ہوگیا۔یہ لرزہ اس خوف، دہشت اورہیبت کانتیجہ نہیں تھاجودربارکی اونچی چھت سے لے کرامیریزیدکے تحت کے پایو ں تک پھیلانے کی کوشش کی گئی تھیبلک متوقع ذلت کے سبب تھاجوبغیروجہ کے ہوسکتی تھی۔حسین ابن علی سے میراکبھی واسطہ نہیں رہابلکہ کوشش رہی کہ ان سے دور رہوں لیکن اس دربارکودیکھ کرخداجانے کیاہواکہ مجھے حسین ابن علی کے معاملے میں اچانک تشویش لاحق ہوگئی۔یہ شخص جوعرب وعجم کی قسمت کامالک بن کربیٹھاتھااورجس کے لیے میں مدینہ سے خط لایاتھا،چہرے اورحرکات وسکنات سے نہایت احمق اورکسی بھی انسانی جذبے سے عاری محسوس ہورہاتھا۔یہ آدمی حسین کے متعلق کوئی بھی خطرناک فیصلہ کرسکتاتھا۔”
کوفہ کی بستی میں ام یعقوب جیسے ہستی بھی موجود تھی جوکنیزہونے کے باوجود حسین کے بارے میں تشویش کاشکارتھی اوران کے لیے پیغام اوراپنی حق ہلال کی کمائی بھیجتی ہے۔کوفہ میں مسلم بن عقیل پرجوبیتی اورانہیں کس طرح شہید کیاگیا،وہ الگ المیہ ہے۔مکہ میں اہل یت نے کس طرح چارماہ گزارے۔ وہ بھی توجہ طلب ہے۔
کوفہ کے حاکم ابن زیاد نے امویوں کے حلیفوں کواپنے دربار میں بلایاجن میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنھیں صحابی یامعتبرصحابہ کے بیٹے ہونے کازعم تھا۔جب یہ لوگ جمع ہوگئے توکھانے کھلانے کے بعدانہیں یزیدکاپیغام اور اشرفیوں کی تھیلیاں پیش کیں اوران سے کہاکہ اب جوبھی اپنے قول وفعل میں مضبوط ہے اورحسین کے لیے کسی نرمی یارعایت کاطلب گارنہیں وہ یہ اشرفیاں اپنی قاب سمیت اپنے غلام کوسونپ دے کہ وہ تمھارے گھرپہنچادے۔پھرقاضی شریح کے پاس آیااورپوچھاکہ تمھاری رکابی میں اشرفیوں کی تعدادتین گناہے ۔امیرالمومنین یزید ،جسے خدا نے حکومت اوراقتداربخشا ہے،کے خلاف حسین کاقیام غیرشرعی اوربغاوت ہے۔تم اس بغاوت کی جوسزاتجویز کرتے ہووہ بطور قاضی اپنی مہرکے ساتھ ہمیں لکھ کردو اورتم جانتے ہوکہ ایک باغی کے لیے سزاکیاہوتی ہے؟ہمیں وہ فتویٰ چاہیے۔
یہ حقائق چشم کشا ہیں۔حربن یزیدالریاحی نے کوفہ کی جانب رواں حسین سے کہاکہ عبیداللہ ابن زیادکے پاس چلیں اوران کے انکارکے بعد قافلہ کے ساتھ اپنا لشکرلے کرچل پڑا۔یہی حرکربلا میں حسین کے مقابل آنے کے بجائے یزیدی لشکرکوچھوڑ کراہل بیت کے ساتھ شامل ہوگیا اوربھرپورداد شجاعت دے کرشہیدہوا۔
”کوفہ کے مسافر” حسین بن علی کی مدینہ سے مکہ اور مکہ سے کوفہ ہجرت،اس کے پس منظر،تمام شخصیات،راستوں،مشکل مقامات،پیش آنے والے سانحات اوراس سفرکے کربلا کے میدان میں اختتام پرفیکٹ فکشن کے روپ میں جس خوبی سے علی اکبرناطق نے پیش کیاہے۔اس کی جتنی داد دی جائے وہ کم ہے۔کوئی بھی فرد واقعہ کربلاکے تمام حقائق سیاق وسباق ،پس منظراورپیش منظرکے ساتھ کسی تحریف کے بغیرجاننا چاہے تو”کوفہ کے مسافر” سے بہترکوئی تحریر نہیں ہوسکتی۔ جوتاریخ نہ ہوکربھی حقائق سے بھرپور ہے۔اس میں کوئی جذباتی عنصر نہیں ہے۔ مذہبی کا فرقہ وارانہ جانب داری کاشائبہ تک نہیں ہے۔
علی اکبرناطق نے حسین اوران کے شہدا کی شجاعت ودلیری اوریزیدی لشکرجرارکے سامنے دادشجاعت کی عکاسی شاندارانداز سے کی ہے اورمیدان جنگ کوفلم کی صورت قاری کے سامنے پیش کردیاہے۔ حسین بن علی،عباس، علی اکبر،مسلم بن عقیل ،حربن یزید اورکربلا کے شہداء کے ایک ایک فرد کی شجاعت اورمیدان جنگ کااحوال اور قاتلوں کی بے رحمی اور سقاوت قاری کے رونگٹے کھڑے کردیتی ہے۔”ادھم بن امیہ اپنے نیزے کے ساتھ اس طرح میدان میں گھوم رہاتھاکہ اس کی رفتارسے اردگردکی فضابگولہ بن چکی تھی۔وہ نیزہ چلانے کے ساتھ رجز خوانی بھی کرتاتھا۔بصرہ سے آیایزیدبن ثبیط اپنے بیٹوں کے ہمراہ اس طرح تلوارکے جوہردکھارہاتھاکہ دشمنوں کی صفیں چیرکرایک کے بعد ایک اموی کوقتل کرتاجاتاتھااوراس کی رجزخوانی اتنے ہی جوش سے جاری تھی جتنی اس کی تلوار۔حسین اپنے دلاوروں کومیدان کے درمیان پہنچ کرحوصلہ دیتے۔جب کوئی زخم کھاکرگرتافرزندرسول ص سبک رفتاری سے اس تک خود پہنچتااوراسے اٹھالیتا۔اپنے جانثارکی لاش تک پہنچتے ہوئے حسین کی رفتاراتنی جارحانہ ہوتی کہ دشمن بھاگ کردورجاکھڑے ہوتے۔عباس اورعلی اکبرشیروں کی طرح میدان کارزارمیں داخل ہوکرکشتوں کے پشتے لگانے لگے۔
”کوفہ کے مسافر” تاریخی ناول نویسی کاایک بے مثال شاہکارہے۔ جس کے تحریرکرنے پرعلی اکبرناطق کوسلام عقیدت پیش ہے۔اس ناول کو لکھ کرانہوں نے دنیائے ادب میں اپنانام بھی امرکرلیاہے۔