خالد مسعود خان منفردمزاحیہ شاعر،بے مثل کالم نگاراورایک بہت حساس انسان ہیں۔مزاحیہ شاعری میں انہوں نے تین چارزبانوں کوملاکر ایک انوکھااسلوب وضع کیااوربے پناہ مقبولیت حاصل کی۔کالمز میں انہوں نے شخصی خاکے،کردارنگاری، سیاسی تجزیہ نگاری،اعدادوشمارکی دلچسپ جادوگری اورسفرنامے اس خوب صورتی سے پیش کیے کہ ان کالمزکوکسی ایک خانے میں شمارکرناممکن نہیں۔ خالدمسعودخان کے کالمز کے کئی مجموعے شائع ہوئے۔جن میں بک کارنرجہلم سے شخصی خاکہ نگاری پرمبنی تاثراتی کالموں کامجموعہ ” زمستان کی بارش” بہت مقبول ہوا ۔ سنگ میل نے ان کے مختصرسفری کالموں کو”سفرکے زائچے” اور”سفردریچے” کے نام سے شائع کیا۔یہ انتہائی دلچسپ اورقابل مطالعہ کتب ہیں۔جنہیں سنگ میل نے اسی خوب صورت انداز سے شائع کیاہے، جوان کتابوں کاتقاضہ تھا۔عمدہ سفیدکاغذ،غلطیوں سے پاک اور دلکش کتابت، بہترین جلدبند ی سے آراستہ کتب صوری اورمعنوی ہرلحاظ سے ہرصاحب ذوق قاری کی ذاتی لائبریری کاحصہ بننے کے لائق ہیں۔
نوجوان شاعروادیب عرفان شہود نے مختصرسفرناموں کی ایک نئی اوردلچسپ صنف کا آغازکیاتھا اورانہیں ”سفرانچے” کانام دیاتھا۔ ممتازشیخ مرحوم کے انتہائی اعلیٰ ادبی جریدے ”لوح” میں یہ سفرانچے چھپ کرقارئین کی پسندیدگی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ عرفان شہود نے ان میں سے باون منتخب سفرانچوں کو”باونی” کے منفردعنوان سے کتابی شکل میں شائع کرایاتواس کے بھی کئی ایڈیشن منظرعام پرآئے، میں نے اپنے تبصرے میں انہیں سفری ٹی ٹوئنٹی کانام دیا۔ مشہورشاعر،ادیب،ڈرامہ ،کالم وسفرنامہ نگار امجداسلام امجدکے مختصر سفر نامے ”سفرپارے” کے نام سے سنگ میل نے ہی شائع کیے۔ خالد مسعودخان کے یہ کالمز بھی سفرانچے قراردیے جاسکتے ہیں۔
نامورادیب مستنصرحسین تارڑبیک پیچ پرلکھتے ہیں۔” یہ ان وقتوں کاقصہ ہے جب میں پردیسی ہوگیااورجامقیم ہوااس بے روح شہراسلام آباد میں صبح کی نشریات کی میزبانی کے فرائض سرانجام دینے کے واسطے۔لاہور کی مے لالہ فام کے بعدوہ شہرایک کچی شراب تھاجس کے گھونٹ بھرنے سے طبیعت میں انقباض پیداہوتاتھا۔ میرے یارِ خوش آثاریوسف کی مسٹربکس پرایک اجنبی نوجوان نے نہایت متانت سے اعلان کیاکہ سرمیں نے آپ کی کتاب اندلس میں اجنبی پڑھی ہے اورایک سمفنی کی موسیقی کے تال میل کے ساتھ پڑھی ہے۔ظاہرا نوجوان میں جذبے کے آثارتھے اورتھابھی ملتان کا۔وہ نوجوان خالدمسعودتھاجو آج نامورشاعراورمعروف کالم نگارکے طور پر پہنچانا جاتا ہے ۔ خالدمسعودکے کالم اگرچہ زائچے ہیں لیکن ذائقے بھی ہیں۔دسترخوان بچھاہے ہرنوعیت کے پکوان سجے ہیں۔قرطبہ ،غرناطہ،امریکایہاں تک کہ کمبوڈیاکے ذائقے موجودہیں۔چکھیے، لطف لیجئے اورکوچ کرجائیے۔خالدکے کالم اگرچہ مشاعرہ بازی کی زدمیں آتے ہیں لیکن میں انہیں پڑھ کرلطف اندوز ہورہاہوں وہاں حیران بھی ہوں کہ یہ دیگرمشاعرہ باز حضرات کے غیرملکی کالموں سے سراسر جدانوعیت کے ہیں۔ انہوں نے اپناایک شعربھی نہیں لکھااورنہ ہی انہیں روایتی سفرناموںکی طرح کثرت سے دردِ دل رکھنے والے حب الوطن پاکستانی ملے ہیں ۔ اوریہی ان کے کالموں کی خوبی ہے،کالموں کی روانی اورشگفتگی میں کچھ کلام نہیں۔اللہ کرے زورکالم اورزیادہ۔”
”سفرکے زائچے”کاانتساب خالدمسعودنے اپنے بچوںکے نام کیاہے۔”کومل،سارہ،انعم اوراسدکے نام جنہوں نے اپنی ہمت اور استطاعت سے کہیں بڑھ کراس دائمی مسافر کے لیے سفرکوممکن بنائے رکھا!
مجھ میں مقیم شخص ، مسافرتھا دائمی۔۔سامان ایک روزاٹھایانکل گیا”
جبکہ ”سفرذائقے” کاانتساب انہوں نے امریکی نواسوں”کوچو(سفیان) اورضوریزکے نام! جواب میرے لیے وجہ سفرہیں
عجیب ہوتے ہیں آدابِ رخصت ِ محفل۔۔کہ اُٹھ کے وہ بھی چلاجس کاگھرنہ تھاکوئی”
یہ بھی پڑھئے:
میاں طفیل محمد کے لخت جگر میاں حسن فاروق طفیل
کتاب کے پیش لفظ” دائمی مسافر” میں خالدمسعودخان لکھتے ہیں۔”زندگی کی ناپائیداری کوسامنے رکھیں توانسان مسافرہے اوردنیامسافر خانہ۔لیکن بعض لوگ اس مسافرخانے میں مزیدمسافرت اورمہاجرت کی زندگی گزارتے ہیں ۔میراشمارآپ ان لوگوں میں کرسکتے ہیں جوزندگی کے اس سفرمیں مزیدسفرکشیدکرتے رہتے ہیں۔پاکستان سے باہرکا پہلاسفرافغانستان کاکیا۔سفرمیں اب بھی کرتاہوں لیکن اب شوق کے مارے نہیں،بلکہ اب تودل لگانے اوردل بہلانے والامعاملہ آن پڑا ہے۔ایک زمانہ تھافرزانہ میرے لیے سفرکوسہل بنایاکرتی تھی ۔ اب نہ وہ ہے اورنہ سفرکی وہ آسانی۔چاروں بچوں نے خودمشکل میں ہونے کے باوجودحتی الامکان یہ کمی پوری کرنے کی کوشش کی،اب سفر دل لگانے کی سعی ہے اوربس!امریکا میں کومل،عہدآفرین،سیفان اورضوریزہیں۔کبھی کبھی تولگتاہے کہ شایدکسی نے اس فقیرکوسفرکی بد دعا دی تھی جوقبول بھی ہوگئی ہے۔میرے یہ کالم نہ توکالم ہیں اورنہ ہی کوئی سفرنامہ۔بس یوںسمجھیں کہ یہ پاکستان اورزمین سے جڑے ہوئے ایک مسافرکی واردات قلبی ہے جواسے بیرون ملک کے سفرکے دوران پاکستان سے اورپاکستان کے اندرسفرکے دوران ملتان سے دورنہیںجانے دیتی۔”
”سفردریچے” میں”میں گلیاںداروڑاکوڑا” میں لکھتے ہیں۔”نہ لکھنے کاڈھنگ آئے،نہ اردوسیدھی ہو،نہ انشاپردازی کی صلاحیت ہواورنہ جملہ بنانے کاسلیقہ ہولیکن مالک کاکرم ہواوراس بے ہنرسی لکھائی کے باوجوددنیابھرمیں چاہنے والے موجودہوں تومیاںمحمدکیوں نہ یاد آئیں جوکہتے ہیں ”میں گلیاں داروڑاکوڑا،تے محل چڑھایاسائیاں” ۔سفرکے بارے میں اورکیالکھوں؟ بس یہی کہ سفرمیری زندگی کاحصہ ہے بلکہ ایک بڑاحصہ۔یہ کالم اسی سفرکے دوران لکھے گئے ہیںاورخواہ دنیاکے کسی ملک میں بھی لکھے گئے ہوں پاکستان سے جڑے ہوئے ہیں میں پوری دنیاکوپاکستان کی عینک سے اوربیرون پاکستان سفرکے دوران وہاں کی عینک سے پاکستان کودیکھتاہوں۔مرکزِ نگاہ پاکستان ہی ہے۔”
محمداظہارالحق نے ”ایک شخص عہدقدیم کا” میں ”سفرکے زائچے” کاتاثراتی جائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔”عمرخیام ریاضی دان تھامگرمقدر شاعری کی طرف لے گیا۔آج وہ رباعی گوکی حیثیت سے زندہ ہے۔ صادقین کمال کاشاعرتھا۔مگرکتنے جانتے ہیں کہ شاعرتھا۔ایسی ایسی رباعی کہی کہ ہوش اڑجاتے ہیں۔مگردیکھئے وہ مصورکے طورپرمشہورہیں۔خالدمسعودخان کے ساتھ بھی مقدرنے یہی کیا۔ایک باکمال نثر نگار!اورشہرت بطورمزاحیہ شاعر!مزاحیہ شاعربھی ایساکہ دنیابھرمیں اس کے شائقین ہمہ وقت اس کی آمدکے منتظررہتے ہیں۔کوئی مشاعرہ اس کے بغیرمکمل نہیں ہوتا۔کرہ ارض کے وہ کئی چکرلگاچکاہے۔خالدمسعودخان کے کالم برائے کالم اورتحریربرائے تحریرنہیں!اسے محض مشہور ہونے کے لیے کالم لکھنے کی یاکسی بھی اورسرگرمی کی ضرورت نہیں ۔یہ تومقصدیت ہے جواس کی تحریروں پرچادرکی طرح تنی ہوئی ہے۔اپنے شہرکے مسائل،اپنے وطن کے دکھ، اپنے لوگوں کے درداس کی ہرتحریرسے جھانک رہے ہوتے ہیں۔اس حس مزاح اورحاضردماغی کے پیش نظرخالص فکاہی تحریریں تخلیق کرنااس کے لیے کوئی مسئلہ نہیں۔مگروہ ہمیشہ مسائل اورمصائب پرلکھتاہے۔بڑی سے بڑی شخصیت کانام لے کر،کسی رعایت کے بغیر،تنقیدکرتاہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جنوبی پنجاب کی سیاست،معاشرت اورمعیشت پروہ ایک اتھارٹی ہے۔”پیرس کاچارسوسال پرانا،نیاپل” پڑھیے۔پیرس کاذکراس انداز سے کرتاہے کہ جس نے پیرس نہیں بھی دیکھا،دیکھنے لگ جاتاہے۔ سیکرے کورکاچرچ،اس کے گنبد،وہاں بیٹھے مصور،اوپرجاتی ہوئی سیڑھیاں،کیبل کاراوربھٹکتے ،مٹکتے ٹورسٹ!خالد نے یہ بھی قسم کھارکھی ہے کہ آپ کودنیابھرکی سیرکرائے گامگرساتھ ہی رلائے گابھی! مثلاً قرطبہ کاحال تفصیل سے بتائے گا۔گلیوں کے فرش کی بناوٹ سے لے کر مسجد قرطبہ کی موجودہ حالت تک ہرمنظرکی تصویرکھینچ کررکھ دے گا۔مگرچلتے چلتے کسی بادل میں چھیدکرے گااورآنکھیں برسنے لگ جائیں گی۔یہ تحریریں صرف سفرنامے نہیں ،مرقع ہائے تاریخ بھی ہیں۔استنبول کے سفرکااحوال لکھتاہے توعثمانیوں کی تاریخ بھی سامنے لے آتا ہے۔ مگریوںجیسے کوئی پینٹنگ ہواوردیوارپرلگی نظررہی ہو۔پڑھناشروع کریں تودلچسپی کاایک بہاؤہے جوآخرتک لیے جاتاہے۔یوں لگتا ہے خالدمسعودناؤ کھے رہاہے اورہم اس کے ساتھ ساتھ، کنارے کنارے، چلے جارہے ہیں،منظرنامے میں پوری طرح شریک!ایک رفیق سفرہوکر،اس کی قافلہ ساری میں!!”
خالدمسعودخان کے سفرانچوں کواس سے بہترخراج تحسین پیش نہیں کیاجاسکتا۔ان سفرناموں میں جہاں جہاں مصنف گیا،اس کاذکرنہیں ، درد مندی کے ساتھ اپنے وطن کے ساتھ موازنہ بھی ہے۔ ”سفرکے زائچے” کوقارئین کی آسانی کے لیے چارابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ ”رودبادانگلستان کے پار”،” یورپ یاترا”،” اندلس سے ہسپانیہ تک” اور”چچاسام کے دیس میں” ۔ ان میں سے ہرباب سے متعلق کالمز کو ذیلی عنوانات دیے گئے ہیں۔جن میں اس سفرکی تفصیلات ہیں۔خالدمسعود کاشگفتہ اندازبیان ان سفری کالموں کودلچسپ اورقابل مطالعہ بناتے ہیں۔
خالدمسعودخان نے اپنے کالمزمیں کچھ دلچسپ کرداربھی تخلیق کیے ہیں۔جن کے ذریعے وہ باآسانی اپنامدعابیان کرلیتے ہیں۔ایساہی ایک کردارسائیں ہے۔جس کی وساطت سے انہوں نے انگلینڈکے ٹریفک نظام کوطنزومزاح کے لبادے میں لپیٹ کرپیش کیاہے۔ ” سائیں انگریزوں کی تقریباً ہرشے کے خلاف ہے اورخصوصاً ٹریفک کے خلاف ہے۔سائیں کے خیال میں انگلینڈکی ٹریفک انسانی حقوق کی مکمل نفی کرتی ہے کہ اس میں آپ اپنی مرضی کاکہیں بھی استعمال نہیں کرسکتے۔بلکہ ہرشے اصولوں اورقاعدوں کے مطابق کرنی ہوگی۔دورانِ گفتگو سائیں کوبرطانوی انشورنس کمپنیوں کے بارے میں رطب السان پایاتواس کی وجہ دریافت کی برادرم طارق حسن نے بتایاکہ سائیں نے ایک عددکارمبلغ ساڑھے تین سوپونڈمیں خریدی تھی۔مگربدقسمتی سے حساب کتاب کی غلطی سے انشورنس فارم پرقیمت آٹھ سوپونڈ لکھی گئی اور پریمیئم بھی اسی حساب سے اداکرناپڑا، جس کاسائیں کوبڑاقلق تھا۔مگراب اسے سائیں کی خوش قسمتی بھی کہاجاسکتاہے کہ ایک انتہائی معمولی ایکسڈنٹ ،جس میں سائیں کی گاڑی کی صرف سیدھے ہاتھ کی پچھلی بتی ٹوٹی تھی،انشورنس کمپنی کے ‘ٹیکنیکل سرویئر’ نے گاڑی کافریم ٹیڑھا ہو جانے کے باعث گاڑی کومکمل ناکارہ اورناقابل استعمال قراردے کرسائیں کوانشورنس کی مکمل ادائیگی یعنی آٹھ سوپونڈادا کردیے ہیں۔ اس سارے حساب کتاب میں سائیں کومبلغ چارسوپونڈکانفع ہواہے اورسائیں نے پہلی گاڑی سے کہیں بہترگاڑی بھی خریدلی ہے۔برطانیہ میں ٹریفک کاسارانظام قواعدوضوابط کی پابندی اورجرمانے کے ‘ٹکٹ’ کے درمیان چلتاہے لہٰذابڑے آرام سے چلتاہے۔اصولوں سے کسی شخص کوکوئی استثنیٰ نہیں ہے اوران کی خلاف ورزی پرہرشخص کوٹکٹ تھمادیاجاتاہے۔وہاں کاکوئی ممبرپارلیمنٹ بھی ان اصولوں کی خلاف ورزی کرکے بچ نہیں سکتا۔ادھرہمارے ہاں یہ موج ہے کہ ممبرصوبائی اسمبلی سیاہ شیشوں والی گاڑی میں سفرکرے اورمنع کرنے پرٹریفک سارجنٹ کی سرعام نہ صرف پٹائی کرکے بلکہ درویش وزیراعلیٰ ایس پی ٹریفک کاتبادلہ کرکے بیان دے کہ انہیں اپنی طاقت کاآج اندازہ ہوا۔”
اس سفری کالم میں پاکستان اورانگلینڈکے ٹریفک نظام، افرادکی سوچ،طاقت کے غلط استعمال کااس طرح موازنہ کیاہے جوکسی طویل مضمون پربھاری ہے۔اسی کالم میں یہ تلخ حقیقت بھی دیکھیں۔” کیاخیال ہے پاکستان سے تمہارے جیسے بدمزاج ڈرائیوروں کوچارچھ ماہ کے لیے یہاں نہ بھجوادیاجائے تاکہ وہ تمیزداراوربااصول ہوجائیں۔وہ ہنس کرکہنے لگایہ سارا ماحول کااثرہے۔چھ ماہ رہ کرواپس جانے والے وہاں جاتے ہی ویسے ہوجائیں گے جیسے وہ آئے تھے۔بندہ یہاں آنے سے صرف یہاں کے لیے ٹھیک ہوتاہے۔واپس جاکروہ ویسے کاویسابن جاتا ہے۔کیونکہ وہاں نہ توقانون پرعمل کرناباعث عزت سمجھاجاتاہے اور نہ ہی قانون کااطلاق سب پریکساں ہوتاہے۔نتیجہ یہ کہ ہرتگڑاقانو ن توڑنااپناحق سمجھتاہے اوریہی طاقت اسے عام لوگوں سے ممتازکرتی ہے۔”
خالدمسعوداپنے کالمزمیں جس غیرمحسوس انداز میں یورپی ملکوں اورپاکستان کاموازنہ کرتے ہیں۔ ان سے دلچسپی اورمعاشرتی فرق واضح ہوتا ہے اوراپنی معاشرتی اقدارمیں تبدیلی کی خواہش بھی پیداہوتی ہے۔”عدلیہ فیصلے ہواکارخ دیکھ کرنہیں،بلکہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق کرتی ہے۔ اورہرشخص کویہ یقین ہے کہ اسے انصاف ملے گا۔ یہاں عام آدمی قانون کے خلاف ورزی کرکے صرف قانون کامجرم بنتاہے،مگرکوئی بھی بڑا آدمی قانون کی خلاف کرکے قانون کامجرم بننے کے علاوہ، عوام کی تنقیدکانشانہ بھی بنتاہے اورسیاسی رہنمایاحکمران طبقے کاممبرہونے کے بعدتواس کاکوئی بھی ناپسندیدہ فعل اس کاذاتی نہیں رہ جاتااورہرشخص اس کے درپے ہوجاتاہے۔یہاں سرکاری فنڈ کھا کرکوئی شخص دوبارہ اپنے حلقہ انتخاب میں جانے کاسوچ بھی نہیں سکتا، کجاکہ وہ پچھلی مرتبہ سے بھی زیادہ ووٹ لے کرمنتخب ہوجائے۔”
خالدمسعودملک سے باہربھی پاکستان اورپاکستانیوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔”ڈیرن کودنگافسادکرنے کے جرم میں چھ ماہ قیداورپچاس پونڈجرمانہ ہوا۔ڈیرن کے پاس جرمانے کی ادائیگی کے لیے سرکاری ہفتہ واروظیفے کے سواکوئی ذریعہ نہیں تھا۔جج نے پہلے جرمانہ دس پونڈ ہفتہ اورپھرڈیرن کی درخواست پردوپونڈفی ہفتہ کردیاتاکہ ڈیرن کواپنی روزمرہ ضروریات میں کسی قسم کی تنگی کاسامنانہ کرناپڑے۔برطانوی جج سزاکے ساتھ مجرم کی انسانی ضروریات کامکمل خیال رکھتے ہیں۔وہاں مجرم نے خواہ کتناہی بھیانک جرم کیونہ کیاہوبہرحال انسان ضرور سمجھاجاتاہے۔کیامملکت خدادادپاکستان کے شہریوں کاحکومت وقت اتنابھی خیال نہیں رکھ سکتی کہ جرمانے کی رقم کی استطاعت نہ رکھنے والے قیدیوںکی سزاختم ہوجانے کے باوجودجیلوں سے رہائی نہ پانے پرحکمرانوں کے ضمیرپرکوئی بوجھ ہے؟حکمرانوں پرچارحرف بھیج کر مخیر لوگوں کوہی آگے آناچاہیے۔مجرم کواس سے جرم کی سزاضرور ملنی چاہیے مگرجرمانے کی ادائیگی کی استطاعت نہ رکھناجرم نہیںغربت ہے اور غربت کوجرم نہیں بناناچاہیے۔”
ناروے کے سفرکے بارے میں خالدمسعودنے چارکالم ”دنیاکے شمالی سرے پر”کے عنوان سے لکھے ہیں ، جن میںناروے کااحوال اور پاکستان سے موازنہ ملاحظہ کریں۔”سارے ناروے میں درخت اورسبزہ تناہے کہ آنکھیں ٹھنڈک محسوس کرتی ہیں اورفضامیں ایک نہا یت حیران کن خوشبوہے۔ فضائی آلودگی کانام ونشان نہیں اورقدرتی حسن کواسی طرح برقرار رکھنے کے لئے زمین کوسیدھاکرنے پرپاپندی ہے۔ کھیت اورمیدان اونچے نیچے اورڈھلوانوں کی صورت میں ہیں اورقدرتی حسن کومحفوظ کرنے کی کاوشوں نے ناروے کوایساخوبصورت لینڈ اسکیپ عطاکیاہے جوبہت کم دیکھنے میں آتاہے۔ناروے دنیاکے شمالی سرے پرواقع ایساملک ہے جس کے انتہائی شمالی سرے پرچھ ماہ کا دن اورچھ ماہ کی رات ہوتی ہے۔ گرمیوں میں روزہ بیس گھنٹے کا اورسردیوں میں سات گھنٹے کاہوتاہے۔ ملک نے انتہائی شمال میں گرمیوں میں رات کے بارہ بجے بھی سورج دکھائی دیتاہے اورسردیوں میں درجہ حرارت منفی باون ڈگری سینٹی گریڈتک گرجاتاہے۔ابلتے ہوئے پانی کی بالٹی کوگھرسے باہرپھینکیں توزمین پرگرنے سے پہلے ہی پانی جم کربرف بن جاتاہے۔ رقبے میں پاکستان کااڑتالیس فیصدجبکہ آبادی پاکستان کاتین اعشاریہ تین فیصدہے۔بچوں کی اموات کی شرح ناروے میں اعشاریہ پانچ فیصدہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح ناروے سے انیس گناسے بھی کچھ زیادہ ہے۔ خواندگی کی شرح ننانوے فیصدسے زیادہ ہے۔فی مربع کلومیٹرآبادی کی شرح پاکستان کے چھیاسٹھ افراد کے مقابلے میں صرف گیارہ افرادہے اورجنگلات ملکی رقبے کاچھبیس فیصدسے زائدرقبے پرمشتمل ہے۔ اگرپاکستان سے ٹمبرمافیاکے زیادہ نہ سہی صرف ہزارہ کی ایک جانی پہچانی شخصیت کووہاں بھیج دیاجائے توچند ہی سال میں ناروے کوگنجاکرکے رکھ دیں۔ناروے میں بادشاہت ہے مگریہ بادشاہ ہمارے ہاں کے جمہوری حکمرانوں سے بھی زیادہ جمہوری اندازمیں اپنے فرائض سرانجام دے رہاہے۔موجودہ بادشاہ نام ہرل پنجم ہے۔ناروے میںسات سیاسی جماعتیںہیں اورفی الوقت مخلوط حکومت برسراقتدارہے۔موجودہ شاہ ہرل 1991ء میں بادشاہ بنا۔پارلیمنٹ ارکان کی تعدادایک سوپینسٹھ ہے جس میں چونتیس فیصدخواتین ہیں۔پورے ناروے میں کوئی شخص ‘نوبل’ نہیں ہے اور نہ کوئی شخص کوئی اعزازیاٹائٹل رکھتاہے۔ٹیکس سسٹم بڑی سختی س نافذہے اورکسی کواس میں معافی یاچھوٹ حاصل نہیں،مگربادشاہ ٹیکس نہیں دیتا ۔ اس لحاظ سے ناروے کابادشاہ صرف اس معاملے میں ہمارے حکمرانوں کاہم پلہ ہے۔تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ناروے کاشاہ ہرل یورپ کاغریب ترین بادشاہ ہے۔یورپ کے امیرترین ملک کاغریب ترین بادشاہ ہے۔جبکہ ہمارایہ حال ہے کہ غریب ترین اورقرضوںتلے دبے ہوئے ملک کے حکمران امیرترین ہیں۔یہ ملک موسم اوررہن سہن کے اعتبارسے ہم سے بہت مختلف ہے،مگراصل فرق حکمرانوں میں ہے، جنہوں نے اس ملک کوجنت اورہمار ملک کوغریب آدمی کے لیے جہنم بناکررکھ دیاہے۔”
پیرس کے سفر میں مصنف تعلیمی معیاراورنظام پرنظرڈالتے ہوئے لکھتے ہیں۔ ”سوربون یونیورسٹی ساڑھے سات سوبرس پرانی ہے یعنی جب برصغیرپرمغل بادشاہوں کی حکومت تھی پیرس میں جدیدتعلیم کے لیے ایک تین سوسالہ قدیم جامع تعلیمی ادارہ موجودتھااوراس میںاس وقت بھی علم وادب،سائنس،ریاضی اوردوسرے علوم میں قابل ذکرکام ہورہاتھا۔مغلیہ سلطنت کے گن گانے والوں نے نہ توکبھی اس چیزپرروشنی ڈالی کہ گریٹ مغلز نے اپنے کئی سوسالہ دورحکومت و وسیع سلطنت اورسارے جاہ وجلال اورکروفرکے باوجودایک بھی ایساتعلیمی ادارہ نہ بنایا جومروجہ علوم میں پیشرفت کافریضہ انجام دیتا۔نہ ہی جدیدعلوم سے آگاہی اورتحقیق کے لیے کوئی ادارہ بنایا۔جب مغل حکمران اپنے حرم بنا رہے تھے یورپ میں کئی نامورعلمی اورتحقیقی تعلیمی ادارے بڑی مضبوط بنیادوں پرچل رہے تھے اورسائنس اورٹیکنالوجی کی ترقی کے لیے حکومتی سطح پرکام شروع ہوچکاتھا۔سوربون یونیورسٹی اس کی روشن مثال ہے۔”
ایک اوردلچسپ اقتباس پڑھیے۔” پیرس کے درمیان سے گزرنے والے دریائے سین کی سیرکے لیے نکلے توکشتی ایک پل کے نیچے سے گزری توگائیڈنے بتایاکہ اس پل کانام نیاپل ہے۔ اوریہ چارسوسال پراناہے۔ہمیں بڑی حیرانی ہوئی کہ ہمارے ہاں کوئی پرانے سے پرانا پل بھی سوسال پرانانہیں ہے اورپیرس کاچارسوسال پراناپل ابھی تک نیاپل ہے۔ہمارے ہاںسارے نئے پل الحمداللہ نئی حالت میں ہی اللہ کوپیارے ہوجاتے ہیں یاگزرنے والے کواللہ یادکروادیتے ہیں۔میری نظروںکے سامنے بننے والے کئی پل جدیداورعمدہ تعمیرات نشان عبرت بن چکی ہیں۔”
ہالینڈکے سفرپرکالم میں خالدمسعوداپنے ملک سے موازنہ کچھ یوں کرتے ہیں۔”ہالینڈایک چھوٹاساملک ہے۔جس کارقبہ تقریباًساڑھے اکتالیس ہزارمربع کلومیٹرہے۔اس کی آبادی ایک کروڑ اسی لاکھ کے لگ بھگ ہے۔رقبے میں ہالینڈ، پاکستان کاپانچ فیصد اورآبادی میں دس فیصد ہے۔لیکن جی ڈی پی پرنظرڈالیں توشرمندگی ہوتی ہے۔ ہالینڈکاجی ڈی پی پاکستان کے تین سوچھتیس ارب ڈالرکے مقابلے میں آٹھ سواڑتیس ارب ڈالرسالانہ ہے۔یعنی پاکستان سے ڈھائی گنازیادہ اورفی کس آمدنی کاتومت ہی پوچھیں۔پاکستان فی کس آمدنی کے حساب سے دنیامیں ایک سوسینتالیسویں نمبرپرہے جبکہ ہالینڈکاتیرہواں نمبرہے۔ پاکستان کی فی کس آمدنی تیرہ سوڈالر اورہالینڈکی پچاس ہزار ڈالرسالانہ کے لگ بھگ ہے۔ہالینڈآبادی کے لحاظ سے تریسٹھویں،رقبے میں ایک سوچونتیسویںجی ڈی پی میںسترہویں اورفی کس آمدنی میں تیرہویں نمبر پرہے۔پاکستان کاحساب اس کے بالکل الٹ ہے۔پاکستان آبادی کے حساب سے چھٹے، رقبے میں چھتیسویں، جی ڈی پی میں پینتالیسویں اورفی کس آمدنی کے چارٹ میں ایک سوسینتالیسویں نمبر پرہے۔بزعم خودہم ایشین ٹائیگرہیں۔”
قرطبہ کاسفرکرتے ہوئے مسلمانوں کے زوال کاجائزہ لیتے ہوئے لکھتے ہیں۔”قرطبہ جوسواپانچ سوبرس تک مسلمانوں کے یورپ میں اقتداراورطاقت کامظہراورپورے دوسوننانوے سال تک مسلم اسپین کادارالحکومت رہا۔سات سواڑسٹھ برس قبل فرڈیننڈکی فوج نے فتح کیا اورپھراس شہرسے صرف مسلمانوں کااقتدارہی ختم نہ ہوابلکہ مسلمانوں کانام ونشان تک مٹادیاگیا۔ایساشایددنیامیں کہیں اورنہیں ہواہوگاکہ کسی مذہب کے ماننے والوں نے کسی ملک پرآٹھ سوسال حکومت کی اورپھریوں ہوکہ وہاں ڈھونڈے سے بھی نہ ملیں۔ایسااندلسیہ میں ہوا۔ بارہ سوسال قبل جب قرطبہ کی گلیاں سرکاری خرچ پرچراغوں اورمشعلوں کی روشنی سے جگمگاتی تھیں تب لندن کے گھروں میں بھی روشنی نہیں ہوتی تھی۔تب قرطبہ میں سولہ سومساجدتھیں۔آج صرف دومساجدہیں۔”
خالدمسعودخان کے سفرانچے محض سفری کالم نہیں بلکہ سوچ کے درواکرنے والے فکرانگیزمضامین ہیں۔ہسپانیہ کے بارے میں پچیس سفری کالم تحریرکیے گئے ہیں۔جن میں اسپین میں مسلمانوں کے عروج وزوال کی داستان انتہائی دردمندی کے ساتھ اس طرح بیان کی گئی ہے کہ قاری کے ذہن میں آٹھ سوسالہ حکومت کی ترقی اورتنزلی کاحوال واضح ہوجاتاہے ۔دورترقی میں ملک کی کیاحالت تھی اورکس طرح کے نابغہ افرادکااس خطے سے تعلق رہا۔پھرآخری دوسوسال میں حکمرانوں کی عیاشی اورعیش کوشی نے پورے ملک سے مسلمانوں کانام ونشان مٹادیا۔
”سفرکے زائچے” کاآخری حصہ ”چچاسام کے دیس میں” ہے۔جس میں امریکاکے سفرپردس کالمزہیں۔ جن میں امریکاکی تہذیب ،ثقافت اوردیگرمسائل کے بارے میں دلچسپ امورپیش کیے گئے ہیں۔
”سفردریچے”کے آٹھ ابواب”دریائے نیل کے کنارے”،”ارتغل کادیس”،”سربفلک عمارتوں کاجنگل”،”یہ ہندوستان ہے”،”ایور سٹ،دھول گیری،اناپورنا”،”ہندچینی”،”پاک سرزمین شادباد”اور”ملتان مابہ جنت اعلیٰ برابراست” ہیں۔جن میں پہلاباب مصر،دوسرا ترکی اورتیسرا ہانگ کانگ کے اسفار پرمبنی ہے۔ ”یہ ہندوستان ہے” بھارت ،”ایورسٹ،دھول گیری،اناپورنا،نیپال اور”ہندچینی”ویت نام اورکمبوڈیاکے سفرکے احوال پرمشتمل کالمزسے سجے ہیں۔لیکن ”سفردریچے” کانصف حصہ پاکستان کے مختلف علاقوں کی سیرکے کالمزپر مبنی ہے اوران میں خالدمسعودخان کی وطن سے محبت ہرلفظ اورہرکالم سے واضح ہوتی ہے۔یہ سراسرپاکستان کی محبت سے سرشارشخص کے تحریرکردہ کالم ہیں۔ جن میں تنقیدبرائے تنقید کے بجائے بہتری کی بے پایاں خواہش جھلکتی ہے۔”پاک سرزمین شادباد”کاعنوان ہی مصنف کے ملک سے عشق کاآئینہ دارہے۔اس کے بائیس کالموں میں پاکستان کے مختلف حصوں کی خوبصورتی ،قدرت کی عطاکردہ نعمتوں کی فراوانی کے ساتھ ہمارے ارباب اختیارکے لاپرواہی اورناقص منصوبہ بندی کاذکرکیاگیاہے۔ جبکہ ملتان خالدمسعودکاآبائی شہراورجنم بھومی ہے۔ جس کاعشق ان کی رگ وپے میں سمایاہواہے۔جس کااظہار”متلان مابہ جنت اعلیٰ برابراست” کے عنوان اوردس کالموں سے بخوبی ہوتاہے۔
کالم ”فرعونوں کے مدفن”سے اقتباس ملاحظہ کریں۔جس سے خالدمسعودکاطرزفکرواضح ہوتاہے۔”مصرکی معیشت کادارومدارفرعونوں کی چھوڑی ہوئی نشانیوں پرہے۔ جس کی تعمیرمیںجبری مشقت کی وجہ سے فرعون ظلم وجبرکی علامت بن کررہ گئے تھے اورلفظ فر عون اورفرعونیت ظالم اورظلم کے مترادف کے طور پراستعمال ہوتے ہیں۔فرعون نے اہرام بنائے اورہزاروں سال بعدوہ اہل مصرکے لیے بہت بڑاذریعہ آمدنی ہیں۔ہمارے حکمرانوںنے عوام کے خون پسینے سے رائے ونڈاورسرے محل بنائے، سوئس بینکوں میں اربوں ڈالرجمع کیے،فرانس اور برطانیہ میں فلیٹ اورجاگیریں جبکہ امریکا میں فارم خریدے اورقوم مزیدقرضوں کے بوجھ تلے دب گئی۔ہمارے حکمران فرعونوں سے زیادہ خودغرض اورظالم ہیں اورہم اکیسویں صدی میں بھی ساڑھے چارہزارسال قبل فرعون خوفوکے اہرام کی تعمیرمیں شامل مشقتی مزدورسے زیادہ مظلوم ہیں۔انہوں نے اپنے حکمرانوں کے مدفن بنائے جوآج مصرکے کام آرہے ہیں۔ہم پاکستان سے باہران کے محلات،جاگیریں ، جائیداد اوربینک بیلنس بناتے ہیں جوہمارے کندھوں پرقرضوں کے بوجھ کی صورت مسلط ہیں۔کاش!مصری غلاموں کی مانندہم نے بھی اپنے حکمرانوں کے مدفن بنائے ہوتے نہ کہ ان کے محلات۔”
‘کالم’ ‘طرزحکومت کااچاراورہانگ کانگ ” میں لکھتے ہیں۔ ”ہانگ کانگ پرانگریز نے سوسال حکومت کی ہے۔بنیادی طور پریہ چین کاہی حصہ ہے برطانیہ کے قبضے کے دوران ہانگ ایک اقتصادی مرکزکے طورپرسامنے آیا۔نیویارک اورلندن کے بعدہانگ کانگ دنیاکاتیسرا بڑا اقتصادی مرکز ہے۔پورے ایشیاکے لیے قائم بین الاقوامی تجارتی کمپنیوں،بینکوں،بزنس ہاؤسز،صنعتی کمپنیوں،سروس انڈسٹریزاورالیکٹرا نک میڈیاوغیرہ کے نوے فیصدسے زائدہیڈکوارٹرہانگ کانگ میں ہیں۔ایک عرصے تک ہانگ کانگ چین اورباقی دنیاکے درمیان تجارتی واسطے کاسب سے بڑا مرکزتھا۔آج وہ چین کی تجارت کابراہ راست سب سے بڑا مرکزہے۔ ہانگ کانگ سے کولون جاتے ہوئے سمندر سے نیچے سے گزرنے والی سرنگ میں سفرکے دوران کسی نے پوچھاہانگ کانگ میں طرزحکومت کیاہے؟ جواب آیاکہ لوگوں کوطرزحکومت سے تب تک زیادہ دلچسپی نہیں ہوتی جب تک خوش حالی ہواوریہاں خوش حالی ہے۔اگربدحالی ہوتوہرطرزحکومت ناکام ہوجاتاہے۔پیٹ میں روٹی نہ ہو،تن پرکپڑانہ ہو اوررہنے کے لیے مکان نہ ہوتوبھلاطرزحکومت کوچاٹناہے؟تف ہے ایسی جمہوریت پرجس میں بندہ بھوکا سو ئے،مائیں غربت سے تنگ آکربچوں سمیت نہرمیں کودیں۔ہمیں کوئی غرض نہیں کہ کون ساطرزحکومت ہے۔لوگ خوشحال ہیں۔روزگارلگا ہواہے۔چھٹے سے ملک کے پاس ین سوپچیس ارب ڈالرکے زرمبادلہ ذخائرہیں۔یہاں کبھی بجلی نہیں جاتی۔کاروباربندنہیں ہوتے۔کم ازکم غربت اوربھوک سے کوئی خودکشی نہیں کرتا۔ہم نے طرزحکومت کااچارڈالناہے؟”
خالدمسعودکاہرسفری کالم سوچ کے نئے دروا کردیتاہے۔وہ ہرصفحے پرایک نیاسوال اٹھاتے اورمعلومات کے دریابہاتے ہیں۔”نیپال میں دنیاکی آٹھ اورپاکستان میں پانچ بڑی چوٹیاں ہیں۔لیکن پہاڑوں کے علاوہ جوکچھ پاکستان میں ہے نیپال میں اس کاعشرعشیربھی نہیں اس کے باوجودسالانہ بیس لاکھ کے لگ بھگ سیاح نیپال کارخ کرتے ہیں۔اس کی دووجوہات دوایسی ہیںجن کااہتما م کریں توپاکستان میں سیاحت فرو غ پاسکتی ہے۔پہلی امن وامان اوردوسری پاکستان میں موجودبے شمارسیاحتی مقامات کے بارے میں عالمی سطح پرمعلومات کی منا سب فرا ہمی۔لیکن ہماری بیوروکریسی اورسرکاری ادارے اس سلسلے میں مکمل ناکام ہیں۔”
”سفردریچے” کے فکرانگیزسفرانچے اتنے دلچسپ ہیں کہ کتاب شروع کرنے کے بعدمکمل کیے بغیرچھوڑناممکن نہیں ہے۔پاکستان کے اسفار پرتحریرکردہ کالم ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔کہیں بے پناہ حسن کابیان اورکہیں ناقص حالات کانوحہ۔”اسلام آباد سے بشام کاسفرتقریباً آٹھ گھنٹوں پرمشتمل ہے۔کسی زمانے میں یہ پانچ چھ گھنٹوںمیں طے ہوتاتھا مگراب یہاں بھی معاملہ قومی ترقی معکوس سے منسلک ہے۔دنیابھر میں فاصلے سمٹ رہے ہیں۔مگرہمارے ہاں معاملہ الٹ ہے۔چندسڑکوں اورموٹروے کے علاوہ ہرجگہ براحال ہے۔قراقرم ہائی وے جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کاشکارہے۔اس پرسفرکرتے ہوئے کہیں یہ شائبہ نہیں ہوتاکہ یہ ہائی وے ہے۔لیکن اب معاملہ سڑک کی حالت سے زیادہ امن وامان کاہے۔”
خالدمسعودخان کے سفری کالموں کے مجموعے ”سفرکے زائچے” اور”سفردریچے” انتہائی دلچسپ اورقابل مطالعہ ہیں۔قاری کسی کالم کا مطا لعہ شروع کرے تواس کالم تک محدودرہنااس کے اختیارمیں نہیں رہتا اور وہ ایک نشست میں کئی کالم پڑھ ڈالتاہے۔ریڈایبل ہونے کے ساتھ ان کالمز میں بے شمارمعلومات اورمختلف ممالک کے ساتھ پاکستان کاموازنہ اس کی دلچسپی میں اضافہ کرتی ہے۔اس شاندارکتاب کی اشاعت پرخالدمسعودخان کودل کی گہرائیوں سے مبارک باد۔ان کی مزیدنثری تحریروں کاانتظاررہے گا۔