”انکل سام کے دیس سے” ایک پاکستانی امریکی سلمان خالد کادلچسپ سفرنامہ ہے۔جوسیئٹل سے سوانہ تک کے سفرکی قابل مطالعہ داستان ہے، رنگین تصاویر اور بک کارنرجہلم کی بے مثال پرنٹنگ نے کتاب کوچارچاندلگادیے ہیں۔کتاب کی تمام آمدنی ‘اخوت یونی ورسٹی’ کے نام وقف کرکے انہوں نے اپنی تحریرکوبامقصدبنادیاہے۔ قارئین کو سلمان خالدنے پیغام دیاہے۔”کچھ سفرباہرکے ہوتے ہیںاورکچھ سفر اندر کے ہوتے ہیں۔یہ کتاب محض باہرکاسفرنامہ نہیں ہے بلکہ یہ آپ کواندرکے سفرپربھی آمادہ کرے گا۔یہ کتاب اوراس پرآپ کی خرچ کردہ تمام تررقم اخوت فاؤنڈیشن کے مستحق طلباکودورِ رفتہ کے جدیدتقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی زیورسے آراستہ کرنے میں استعمال کی جائے گی۔
مصنف وناشرین کے نزدیک’اخوت ‘ جیسے عظیم مشن کاہم سفربنناکتابِ زندگی کے کسی سرسبزخوب صورت پڑاؤجیساہے چنانچہ اس سفرنامے کی سوفیصدآمدنی اخوت یونی ورسٹی کی تعمیری اساس میں شامل چندمبارک اینٹوںکے لیے وقف کی گئی ہے۔ایک اینٹ بھی کچھ بنناچاہتی ہے اورہم توپھربھی انسان ہیں۔میں اس کتاب کے ذریعے اخوت یونی ورسٹی کے لیے ایک کروڑ روپے کافنڈجمع کرناچاہتاہوں جو صرف آپ کے تعاون سے ممکن ہے۔آئیے،ہم مل کراخوت یونی ورسٹی کی زیادہ سے زیادہ اینٹیں رکھنے میں اپناکرداراداکریں۔خدا آپ کا حامی وناصر ہو۔”
یہ بھی پڑھئے:
کالا قانون؛ جس کی کوکھ سے کالے فیصلے جنم لیتے ہیں
جہاں کوئی کرتا نہیں بد زبانی: مدینہ مدینہ مدینہ
کامرانی ٹیسوری: کیا انھیں حافظ نعیم کا راستہ روکنے کے لیے لانچ کیا گیا؟
کتا ب کاانتساب بھی منفردہے، ملاحظہ کریں۔”سن 1970ء کی کل دہائی اسودی،احمری،رومی اوراوقیانوسی پانیوں کوچیرتے ہوئے لائل پوری سندباد، یاروں کی یار، ہمہ وقت بااخلاق وخوش گوارمسکراہٹ سجائے رکھنے والے ابوجی داگریٹ! چوہدری محمدخالد(مرحوم) کے نام جو کارگوبحری جہاز کے کپتان کامعتمدترین اورعرشہ سے انجن روم تک دوڑلگانے والاتیزترین اوربھروسہ مندرکن عملہ تھا۔”
سلمان خالدایک پاکستانی امریکی آئی ٹی کنسلٹنٹ اور معروف سوشل میڈیالکھاری ہیں۔دسمبر1981ء کوشہرخوش باش لائل پور(فیصل آباد) میں پیداہوئے اوروہیں سے کمپیوٹرسائنس کے ابتدائی اورگریجوایشن مراحل مکمل کیے۔ دوہزارچار میں لاہورکامسیٹس یونی ورسٹی کے فارغ التحصیل اوائلی صفِ طلباکے ساتھ کمپیوٹرسائنس میں ہی ماسٹرزڈگری حاصل کی۔بطور پہلی ملازمت جی سی یونی ورسٹی کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالو جی کے تدریسی شعبہ سے وابستہ رہے اوربعدازاں نادراپاکستان کے سینئرڈویژنل وزونل قیادت میں رہتے ہوئے اقوام متحدہ کے کئی پراجیکٹس کے کوآرڈینیٹربھی رہ چکے ہیں۔
گزشتہ دہائی کے آغاز میں امریکہ آنے سے قبل آئی ٹی کے شعبہ میں رہتے ہوئے کوئی پانچ برس کارپو ریٹ بینک کاری کی مشق سخن بھی جاری رہی۔امریکی سرزمین پرخوابوں کاتعاقب کرتے ہوئے کئی فارچون ہنڈرڈکمپنیوں کے علاوہ دنیاکے بہترین ہیلتھ کیئراورفنانشل اداروں میں اپناپیشہ ورانہ سفرِ زیست جاری رکھے ہوئے ہیں۔گھریلوماحول میں والدہ،خالہ اورہمشیرہ کے شعبہ لائبریری سائنس کی پروفیسری وکتاب داری نے سلمان خالدکی ادبی نمواورآب یاری میں اہم کرداراداکیا۔2019ء میں ان کی ابتدائی تحاریرمختلف مووی ریویوزکی صورت میں آن لائن نمودارہوئیں جنھیں سوشل میڈیاپلیٹ فارم پہ قارئین کی بہت پذیرائی ملی ۔ 2020ء میں ”جاؤدنیاکوبوسہ دے دو!” کے زیرِ عنوان پہلے تحریری ترجمہ کے علاوہ سیلف ہیلپ،علمی،ادبی،اصلاحی،امریکی تاریخ اوربیاضِ عمری کے اسباق پہ مشتمل کئی نگارشات سوشل میڈیاپلیٹ فارم اور پاکستان کے موقرقومی اخبارات وجرائدکی زینت بن چکی ہیں۔ ساڑھے تین ہزارمیل پہ مشتمل ایک امریکی پاکستانی کی چشمِ تصورسے مزین زیرنظرقلمی وتصویری سفرنامہ ان کی پہلی کتاب ہے۔
اخوت کے روح رواں ڈاکٹرامجدثاقب، مصنف اورکتاب کے بارے میں لکھتے ہیں۔” سلمان خالدکاتعلق فیصل آبادسے ہے جوکبھی لائل پور کہلاتاتھا۔ان کے اطوارمیں لائل پورکی تہذیب،روایت اورشگفتگی بدرجہ اتم موجودہے۔ان کی سوچ،فکراورتحریرمیں ایک قدیمی دانش کی جھلک بھی دکھائی دیتی ہے۔وہ ان اہلِ نظرمیں سے ہیں جونئی بستیاں ڈھونڈتے ہیں،نئے افق کی تلاش،نئے زمانوں کی کھوج”انکل سام کے دیس سے” طرزکاایک انوکھاسفرنامہ ہے جوکمال دلآویزی سے امریکی ریاستوں،درودیواراورمکینوں سے روشناس کراتاہے اورسطور اور بین السطورمیں کچھ کہتے،کچھ نہ کہتے ،بہت کچھ کہہ دیتاہے۔درمندی،گدازاوراخلاص،اس تحریرکاخاصاہے۔’انکل سام کے دیس سے’ ایک پاکستانی کی کہانی ہے۔مقام اورموقع محل بدل جاتے ہیں،محبت قائم رہتی ہے۔اس کتاب سے بھی وہی مہک پھوٹتی ہے جس کانام پاکستان ہے۔”
”انکل سام کے دیس سے” اس اعتبارسے بھی منفرد ہے کہ یہ کسی پاکستانی کے سفرامریکاپرمبنی نہیں، بلکہ امریکی شہریت کے حامل پاکستانی کا امریکاکی ایک ریاست سے دوسری ریاست کے سڑک کے راستے سفرکااحوال ہے اس سفر میں سلمان خالدکے ساتھ ان کی بیوی اوربچے بھی تھے۔اس طویل بائی روڈسفر میں انہوں نے امریکی معاشرت ،تہذیب،راستوں کی سہولیات، ہوٹلزکا رویہ، شاہراہوں کی حالت کاچشم کشاجائزہ ہے۔ جس کاموازنہ اپنیت ملک س کریں تودل خون کے آنسورونے پرمجبورہوجاتاہے۔
ولاگ رائٹرحسنین جمال کیاخوب لکھاہے۔” سلمان خالدکایہ سفرنامہ ایک اچھے فیملی مین اورشریف انسان کے ان دس دنوں کی کہانی ہے جوہم سب چاہتے ہیں کہ ہماری زندگی میں بھی اسی طرح آئیں لیکن اپنی عادتوں کی وجہ سے ہم اپنے ایسے دنوں میں بھی وہ رنگ نہیں بھرسکتے جوسلمان خالد نے پینٹ کیے۔ہرقدم پہ خداکاشکراداکرتا،کھانے انجوائے کرتا،بیگم بچوں کوسیرکراتا سلمان خالدوہ دیسی ہے جوامریکہ جاکر نہیں بدلا۔اگرآپ سفرناموں میں اچھاکھاناانجوائے کرتے ہیں،رواں نثرپڑھناچاہتے ہیں اورقدم قدم پہ بہت زیادہ انگریزی الفاظ سے نہیں گھبراتے توبسم اللہ کیجیے ،پسندآئے گا۔”
”پیش لفظ ” میں عارف انیس لکھتے ہیں۔”سلمان خالدلائل پوریے ہیں اوراب خیرسے امریکی لائل پوریے ہیں،جنھوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنی مہارت کاسکہ سلیکان ویلی میں منوالیاہے۔جس شخص کے مقدر میں آبلہ پائی لکھی ہو،اس کے سفراورطرح کے ہوتے ہیں ۔ پاکستان سے باہرقدرم رکھنے والے اوربیرون وطن پاکستانی کہلانے والے اورطرح کے مسافرہوتے ہیں۔یہ سفرباہرسے توان نئی سرزمینو ںکاہوتاہے اورساتھ ہی اندرکابھی ہوتاہے۔اندرکے جنگل ،بیلے اوربوٹے بھی اس آہنگ کاحصہ بن جاتے ہیں۔سلمان خالدمیں لائل پور کی جگت،مختارمسعوداورشکیل عادل زادہ کی نثراورایک ڈیجیٹل صوفی کی برکات،تمام ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں۔سلمان خالدکی ڈکشن بہت کمال ہے اورکئی اعتبارسے لاثانی ہے۔جب انھوں نے امریکہ کے ساڑھے تین ہزارمیل سفرکی ایک رودادلکھی تومحسوس ہواکہ جوکچھ انھوں نے لکھاہے وہ اردومیں اپنی نوعیت کا پہلا تجربہ ہے۔وجہ صاف ظاہرتھی۔اردومیں امریکہ کے سفرکی رودادملتی ہے، وہ ایک مسافرکازاویہ نظر ہے۔اسی لیے اس میں گہرائی کم ہے اوربس امریکی معاشرے اورمعاشرت کاایک عمومی جائزہ ہے۔سلمان خالدکالکھاایک امریکی پاکستانی کا اظہارتھاجواس وطن اورمعاشرت میں رچ بس چکاتھا اوراس حوالے سے شایدامریکہ کوپہلی مرتبہ کھوجاگیاہے۔اکیسویں صدی میں امریکہ کوسمجھنے کے لیے اردومیں ایسی تحریرکی مثال نہیں ملتی۔”
عارف انیس نے جیسے لکھاہے کہ یہ کسی پاکستانی کانہیں بلکہ امریکی پاکستانی شہری کاامریکہ کے اندرسفرکاقصہ ہے۔جس میں اس ملک کی تاریخ وتہذیب کوکھوجنے کی جستجو اور دوران سفرسبزہ وگل، دلکش مناظر،شاہراہوں،افراد، مسافروں کے لیے رہائشی ودیگرسہولیات کاذکراور بیوی بچوں کی نازبرداری کے دلچسپ بیان پر مبنی ہے۔ سلمان خالد کی نثرسادہ ،شستہ اور رواں ہے۔جسے بے ساختہ پن اورفطری شگفتگی مزید دلکش اور قابل مطالعہ بنادیتی ہے۔انہوں نے سفرنامے کوکہیں بھی غیرضروری تفصیلات سے بوجھل نہیں کیا،قاری ان ریاستوں ،لینڈ اسکیپ، ہوٹلز ،انواع اقسام کے کھانوں اورقدرتی مناظر مصنف کے ساتھ ساتھ دیکھنے لگتاہے۔
”عرضِ حال” کے عنوان سے سلمان خالدلکھتے ہیں۔” زیرِنظرسفرنامہ کسی پردیسی کی بجائے امریکی دیسی کے زاویہ نظرسے لکھاگیاہے، جس میں قاری کوامریکی ثقافت ۔سماجی تنوع، روزمرہ اصلاحات کاموازنہ، امریکی معاشرت سے منسلک دلچسپ معلومات، تاریخی حقائق،مشہور سفری لینڈمارکس کااحاطہ، مصنف کے ذاتی محسوسات اوربہت کچھ انوکھاپڑھنے کوملے گا۔راقم سخن وری وسخن شناسی کادعوے دارتوہرگزنہیں مگر سخن فہمی کاایک ادنیٰ طالب علم رہنے کاوہم لاحق ہے۔ خاک سارکوئی ‘بگ شاٹ’یا’ٹاپ گن’ بھی نہیں مگربقاکی جنگ لڑتے ہوئے ایڑیو ںکے بل کھڑے رہنے کی جاگتی تڑپ کوقلم طرازکہکہشاؤں کی خواب فروشی میں بدلنے کادھنی ہے۔تخیل ،یاس، قیافہ وتصورکے دشتِ ظلمت میں امیدوں کے چمکتے سراب تلاش کرتے اس گمشدہ مسافرکوواہمہ ہے کہ وہ جھولی میں کرائے کی کہانیاں اٹھائے پھرتاہے۔ایک راہ گیر، جسے چندمستعارالفاظ واپس لوٹانے کاہنرسیکھنے کی تمنا،طلب اورجستجوہے۔دائم آبادرہنے والی پاک سرزمین اورسرسبزپرچمِ ستارہ وہلال کے عشق میں مبتلا یہ مصنف عرصہ بیس برس سے سافٹ ویئرانجیئرنگ کے شعبے سے وابستہ رہنے کے علاوہ انکل سام کے دیس میں گزشتہ دہائی سے فارچون ہنڈریڈکمپنیوںمیں سینئرانفارمیشن ٹیکنالوجی کنسلٹنٹ کی خدمات اداکرنے کاکامیاب تجربہ رکھتاہے۔”
”انکل سام کے دیس سے” دس مختصرابواب پرمشتمل ہے۔ مصنف سلمان خالدنے ہرباب کواپنے کسی دوست کے نام کیاہے۔پہلا باب ”ریاست واشنگٹن سے روانگی” کوانہوں نے ”تحریک ِ سفردینے والے ریاست واشنگٹن میں میرے واحددوست جاسم خان یوسف زئی کے نام” کیاہے۔نومبر2016ء تک سلمان خالد سیئٹل کے باسی تھے۔جس کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ”سیئٹل کی وجہ شہرت دنیاکی معروف ترین کمپنیوں کے ہیڈکوارٹرکایہاں واقع ہوناتھا۔جس میں ایمازون،ایکسپیڈیا،مائیکروسافٹ،کاسٹکو،ٹی موبائیل،اسٹاربکس، گیٹی امیجز،الاسکاایئرلائن، نین ٹینڈو،زیلوگروپ جبکہ کمرشل ہوابازی کی صنعت کاسب سے بڑا نام’بوئنگ کارپوریشن’ کاہیڈکوارٹراوردنیاکی بلحاظ رقبہ سب سے بڑی فیکٹری ہماری رہائش گاہ سے چندمیل دوری پرواقع تھی۔یہاں کے مشہورمقامات میں، ماؤنٹ رینیئر،ایک خاموش آتش فشاں پہاڑ،لی مے اولڈکارمیوزیم، مشہورزمانہ واشنگٹن جھیل،سی ہاکس، امریکی فٹبال ٹیم اوران کامعروف سنچری لنک اسٹیڈیم۔ دنیا کی پہلی سٹاربکس کافی شاپ، پائیک پلیس پبلک مارکیٹ ومچھلی منڈی، بحرالکاہل سمندراورساحلی پٹی، ٹیولپ پھولوں کاسالانہ میلہ،ایفل ٹاور کی طرح مشہوردھاتی ڈھانچہ سپیس نیڈل ،شیشہ گری کاشاہکارعجائب گھر چوہولی گارڈن اورڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پرواقع کینیڈابارڈرسے ملحقہ ایک اور خوبصورت ترین شہروینکووربھی ہے۔”
سیئٹل میں مقیم سلمان خالدکودوست کے ذریعے جارجیامیں ہوابازی کی صنعت اورپرائیویٹ جہازوں کی سب سے بڑی کمپنی”گلف سٹریم ایرواسپیس کارپوریشن” میں سینئرکنسلٹنٹ کی خالی نشست پُرکرنے کاپیغام ملا۔کمپنی پرائیویٹ لگژری جہازبنانے کے ساتھ امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسااورامریکی فوج کے جنگی ٹرانسپورٹ طیاروں کی اوورہالنگ کے علاوہ بہت ساخلائی تحقیقی کام بھی کرتی ہے۔اس کے بنائے چندپرانے جہازپاکستان کے بھی زیراستعمال ہیں جواکثراوورہالنگ کے لیے امریکہ آتے رہتے ہیں۔معاملات طے ہوگئے ،سلمان نے اپنے اکلوتے پاکستانی دوست جاسم خان کوبتایاتوانہوں نے کہاکہ چندبرس پہلے کنیٹی کٹ سے براستہ روڈواشنگٹن آئے تھے۔سواب سیئٹل چھوڑنے کافیصلہ کرہی لیاہے توتواپنی زندگی کایہ اچھوتاتجربہ کرکے دیکھ لے۔سامان اورگھرکی تمام اشیاکوپیک کرواکے شپنگ کمپنی کو جمع کروااورگاڑی سے سفرکوانجوائے کرتانکل کھڑا ہو۔بات دل میں کھب گئی اورایساہی کیاگیا۔چندماہ قبل ہی اللہ نے ایس یووی ٹرک دیا تھا، فوراً تیل پانی اورتسلی بخش سروس کروانے کے بعدکاٹھی ڈال دی۔ایک کارگوکمپنی سے مول تول کے بعدگھرکاسامان پیک کیاگیا اور سلمان خان اپنی ایس یووی میں بیوی اوردوبچوں کے ساتھ بائی روڈ نکل کھڑے ہوئے۔”انکل سام کے دیس سے” اسی سفرکی دلچسپ روداد ہے۔
پوری روداد میں امریکی معاشرے کی خوبیاں اور خامیاں بے ساختہ بیان ہوتی چلی جاتی ہیں۔ملاحظہ کریں۔” ہم دونوں نفوس مل کرگھرکی باقاعدہ صفائی کی،کارپٹ کومشین سے دھویا،واش رومزاورکچن کے چولہے اورڈش واشرپہ جمے داغوں کومحلول سے چمکایا، سینٹرل اے سی کی ڈکٹس کے ہوادانوںکی جالیوں کوجھاڑا،غیرضروری کوڑے کواپارٹمنٹ کمپلیکس کے مرکزی کوڑے دان کی زینت بنایااورمرکزی استقبالیہ دفتر جاکرکمپلیکس منیجرکوبلواکرتفصیلی معائنہ کروایاتاکہ وہ کرایہ سے قبل لیے جانے والے ایک ماہ کے پیشگی ایڈوانس اورسیکورٹی ڈیپازٹ رقم کو ہمارے بینک اکاؤنٹ میں لوٹاسکیں۔ اس معائنہ میں آپ کواپنے رہائشی اپارٹمنت کوکرایہ پرلینے سے قبل والی اصل حالت میں خالی کرنا ہوتاہے۔ دوران رہائش کسی بھی قسم کی توڑ پھوڑ،حتیٰ کہ دیوارمیں کوئی تصویربھی آویزاں کرنے کے لیے اگرکوئی کیل بھی گاڑی گئی ہوتوآپ کو اس چھیدکوبھی پلاسٹر آف پیرس سے بھرکردوبارہ اصل پینٹ کرناہوگا۔آپ کی موجودگی میں اس قدرباریک بینی سے جائزہ لیاجاتاہے کہ دھڑکنیں فشارِخون کے سبب کنپٹی میں محسوس ہوتی ہیں۔
کرایے داراورمالک مکان کے درمیان تعلقات اورمسائل کم وبیش ہر ملک اورمعاشرے میںیکساں ہوتے ہیں، لیکن ترقی یافتہ معاشروں میں یہ احساس ِ ذمہ داری معمول کاحصہ بن جاتی ہے۔جبکہ ہمارے ہاںکہیں کرایہ دارگھرخالی کرنے پربہت چیزیں توڑپھوڑجاتے ہیں تو کہیں مالک ناروارویہ کامظاہرہ کرتے ہوئے ایڈوانس لی ہوئی رقم سے کٹوتی کرتاہے۔ پھروہاں ایک ماہ ایڈوانس کرایے کے برعکس چھ ماہ سے سال تک ایڈوانس لیاجاتاہے۔
کتاب کادوسراباب”لائل پور،لسوڑی شاہ کے استاذنصرت فتح علی خان کے نام” معنون ہے۔ بیرونی کے ساتھ اندرکے سفرکابھی کیا احوال بیان کیاہے۔” سلمان خالدگاڑی کروزکنٹرول کے سپرد کر کے اسی میل فی گھنٹہ رفتارسے محوسفرتھے۔زمان ومکان اورکسی دوسری کہکشاں کا دیوتا استاذ نصرت فتح علی خان،اپنے دھیمے سروں سے ڈھلتی شام کے مہیب سایوں اور پگھلتی اداس پرچھائیوںکو مزید گہرا کرتا چلا جا رہا تھا ۔
دم مست قلندرمست مست، دم مست قلندر مست
دم مست قلندرمست مست، دم مست قلندرمست
آہ !کیاظالم لے تھی۔میں نے ایک نگاہ بیک مررمیں سوئے ہوئے بچوں اورساتھ بیٹھی اہلیہ پہ ڈالی جوآنکھیں موندے استراحت افروزتھیں اور دوسری نگاہ سامنے موجودسڑک پرڈالی اورپھرونڈشیلڈ’دھندلا’ گئی،میں خودکوروک نہیں پایا۔عارض وگلفام ، روح میں اترنے والی خدائی عطاکے چشموںسے سیراب ہوچکے تھے۔میں مالکِ یزداں کے شکرسے مجسم مسجود بن چکاتھا۔ارضِ مقدس پاکستان کاایک غیراہم، لاابالی، بے پروا لونڈاآج دنیاکے اک شاندارخطہ میں خداوندعظیم وبرتر، شہنشاہوں کے شہنشاہ،اپنے عالی شان آقا،بزرگ وبرترکی عنایت کے سبب آج دنیاکی بہترین نعمتوںسے مستفیدہوتاچلاجارہاتھا۔چندخلوتی مواقع پہ آپ کاقلب تجلیات کواترتامحسوس کرتاہے اورانسان ان انوارکوجذب کرتے ہوئے بے خودی کاسراپابن کرجھومنے لگتاہے۔مجھے اس ساعت اللہ تعالیٰ پرپہ بہت پیارآیا۔میں دل ہی دل میں اپنے اللہ کوبچوں کی طرح مخاطب کرتے ہوئے اسے بتاناشروع ہوگیاکہ میں تیراشکرگزاربندہ ہوں۔”
اطاعت اوراللہ کی نعمتوں کی شکرگزاری کاجذبہ سلمان خالد میں کوٹ کوٹ کربھراہے۔جس کابے اختیاراظہارقاری کوایک انوکھی لطافت سے ہمکنارکرتاہے اوروہ صرف نظاروں گم نہیں ہوتابلکہ ان نظاروں کے خالق ومالک کی حمدوثنامیں ڈوب جاتاہے۔پھرکھانے پینے کاذکر جس طرح سلمان خالدنے کیاہے ،وہ پڑھنے والے کی اشتہابھی بڑھادیتی ہے۔ملاحظہ کریں۔” راقم نے میدہ ملی سفیداورگندم اورجوسے بنی بھوری ڈبل روٹیوں کاانتخاب کرکے انھیں ٹوسٹر میں دومنٹ ٹائم لگاکرسنہری ہونے کاانتظارکیااور دھواں اٹھتے پنیری آملیت سمیت دھنیااوراٹالین سیزننگ والے بھنے ہوئے آلو، چھوٹی پیکنگ میں شہد،اسٹرابیری جیم، مکھن،میپل سیرپ،تازہ پھلوں کے برتن سے انناس، تربوز،انگور،کشمش،فروٹ بیریز،خربوز ے کی چندچھوٹی قاشیں اورایک ابلے ہوئے انڈے سے پلیٹ کوبھرااورتین اقسام میں ہاؤس بلینڈ کوتام چینی کے سفیدمگ میں بھاپ اڑاتی تازہ دم کافی سے لبالب بھرلیا۔ایک طرف موجودسنگترے کے جوس سے ڈسپوزیبل کپ کوبھی شادابی کاموقع فراہم کیاگیا۔جبکہ دوسری نکڑسے دوعدد کافی کریمراوربراؤن شوگرکے ساشیزسے خوشبودارکافی کی رنگت کونکھارنے کے بعدایک میزپرفیملی سمیت براجمان ہوگئے۔”
ایک طرف نت نئے مناظراوردوسری جانب مزے مزے کے کھابوکاذکر،ساتھ اللہ کی شکرگزاری قاری کوسفرنامے سے جوڑے رکھتی ہے۔ ساتھ امریکی شاہراہوں ،ہوٹلز،قیام وطعام، انٹرنیٹ اوردیگرسہولیات کی معلومات سفرکی مہمیز دیتی ہے۔امریکی ریاستوں کی تاریخ،اہم واقعات وشخصیات کاتذکرہ بھی اختصارلیکن جامعیت کے ساتھ ہوتارہتاہے۔ بلحاظ رقبہ امریکہ کی تیرہویں بڑی ریاست ‘آئیڈاہو’ کاذکر ملا حظہ کریں۔” ایک خاتون ایماایڈورڈگرین کی جنبشِ قلم سے 3جولائی1890ء میں 43ویں امریکی ریاست کا درجہ پانے والی شمال مغربی ریاست’آئیڈاہو’ کی جغرافیائی ہمسائیگی میں واشنگٹن، مونٹینا، نیواڈا،وائیومنگ، یوٹہااور اوریگان ریاستیں واقع ہیں۔ مختلف اقسام کے نادر یاقوت وجواہرات اورسونے کے خزینوں سے مالامال ہونے کے باعث اسے ‘جیم اسٹیٹ’ بھی کہاجاتاہے۔مشہورجغرافیائی مقامات میں ہیو نزگیٹ وسٹاجہاں آپ تین ہمسایہ ریاستوں واشنگٹن،اوریگان اورمونٹیناکوایک ہی طائرانہ نگاہ سے روح میں سمیٹ سکتے ہیںجبکہ سوشون آبشارکومغربی نیاگرافالزہونے کالقب بھی حاصل ہے۔اس کے علاوہ نیومیکسیکوکی گرینڈکینینزکی طرزپہ ہیلزکینینزبھی یہیں واقع ہیں اور قریباً چھیالیس لاکھ مربع ایکڑکاریاستی رقبہ جنگل وبیلے پرمشتمل ہے۔”
اس منظرنامے کوپڑھتے ہوئے کون ساقاری اس کاحصہ نہ بنناچاہے گا۔” ہماری ایس یووی اس وقت واشنگٹن اورآئیڈاہوکوملانے والے ایک پل سے گزررہی تھی۔اس پل کی بلندی کے سبب بادلوں کی ٹکڑیاں اس کے نیچے سے گزررہی تھیں۔رفتارکوآہستہ کرتے ہوئے میں نے بٹن دباکرکارکے شیشے نیچے گرادیئے اورسماں خیزٹھنڈک اورلطافت کوخوش آمدیدکہا۔سامنے چیڑاورچلغوزے کے ہرے بھرے درختوں سے لدے کوہ ساروں پہ ایک الگ ہی نشاط وکیف کی رتیں فراوانیوں سے بکھری ہوئی تھیں اورشمس وماہتاب کوشرق وغرب میں ایک ساتھ دیکھنا فطرت کی دلپذیری کومزیدچندھیارہاتھا۔یوں لگاکہ زمین ہلکورے لیتے ہوئے مائل بہ تنفس ہے۔ایک پہاڑپہ سورج کی کرنیںتودوسرے پہ بادلوں کاسایہ، شجروانہارکے ملاپ سے نکلتے ہوئے چھوٹے چشموں نے کہیں کہیں توبرلبِ شاہراہ ،پگڈنڈیوں اورآبی رقص سے لہکتے ندی نالوں کوجنم دیاہواتھا۔یہ خزاں کاموسم تھااوراس دم موسم،ہرٹہنی، ہرپتہ،ہربرگ وگل اپنی شادخلقت کے ترانے باآوازِ بلندگنگنارہاتھا۔
میں نے جاناکہ خامشی ہی بس ایسی زبان ِ عالی شان ہے جوقدرت کے شاہ کاروںکوبیان کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔میں گنگ ومبہوت عالم ِ ملکو ت میں باوضوہاتھ باندھے کھڑاتھا اورمیرامادی وجود اس یزدانی حسن کے حضورریختہ ریختہ ،پارچہ پارچہ ہورہاتھا۔کائناتی جزئیات کاسحر یہاں فسوں خیزی کی جولانیوں کوپیہم،دم بہ دم بڑھارہاتھا۔ایک صدائے کُومیرے قلبِ اسودمیں روشنی کے نقطے کی طرح پیوست ہورہی تھی ، سومیں جوں جوں آگے گیا، نوربڑھتاگیا۔خدائے ذولجلال وبرترمجھ سے مخاطب تھا! میری خالی جھولی اورشرمندہ روح اپنی نحیف گردن جھکا ئے مسجود ازخاک تھی۔میں نے اپنے مالک وخالق کی انعام افزائی اوربہجت خیزی سے بے خود ہوکرچلتی ہوئی کار کے اسٹیرنگ وہیل پہ ایک علامتی سجدہ کردیا۔سبحان اللہ!اگریہ دنیاہے،توجنت کیسی ہوگی۔”
کاؤبوائے اسٹیٹ کے نام سے معروف ریاست”وائیومنگ” دوہزاربیس کی مردم شماری کے مطابق امریکہ کی سب سے کم آبادی والی ریاست ہے جبکہ بہ لحاظ رقبہ یہ دسویں بڑی ریاست گنی جاتی ہے۔خواتین کوووٹنگ کاحق سب سے پہلے اسی ریاست نے مہیاکیا۔یہاں کی قابل ذکراجناس میں مکئی، جوباجرا اورآلوہے۔امریکہ میں قریباً ہر قسم کے ٹیکس سے آزاد اورسب سے کم سیلز ٹیکس بھی یہیں لاگوہے۔مشہور سیاحتی مقام ییلواسٹون نیشنل پارک ہے۔جس کی وجہ شہرت ابلتے پانیوں کے چشمے اورسات دیگرپارکوں کے علاوہ ڈیولز ٹاور نامی چٹان ہے جسے مقامی امریکی قبائل مقدس مانتے ہیں۔مشہورمقامی امریکی قبائل میں شائین،کرو،اپاچی،شوشون، بلیک فٹ،کی اووا ہیں۔ یہ قبائل کسی حدتک نیم خودمختارطریقے سے جرگہ اسٹائل میں اپنی روایات برقرار رکھتے ہوئے مقامی ضابطے بناسکتے ہیں اوراپنی جاگیرمیں نمائندگی وحقِ استصواب رائے بھی رکھ سکتے ہیں۔
”انکل سام کے دیس سے”کے ہرباب میں ایسی معلومات بھری ہوئی ہیں۔رواں دواں اورسادہ نثرمیں شگفتگی کاہلکا ساتڑکا تحریرکوقابل مطالعہ بناتاہے اورامریکی ریاستوں کی تفصیل معلومات کے شائق قارئین کی دلچسپ میں اضافہ کرتی ہیں،اب یہ منفردتفصیلات اورکہاں ملیں گی۔” سنہر ے روشن کوہساروں اور دنیاکی آخری بہترین قیام گا ہ کے مترادفات سے مروف ومزین”مونٹینا” ریاست کانام ہسپانوی زبان کے لفظ ‘ماؤنٹین’ سے نکلاہے۔جاپان سمیت پانچ امریکی ریاستوں سے بھی بڑی یہ بلحاظ رقبہ چوتھی اوربلحاظ آبادی والیسویں بڑی ”لینڈ لاکڈ” امریکی ریاست ہے۔اس قدرتی حسن ِ بکثرت سے مالامال شاہ کارمیں سات ریاستی فاریسٹ،ترپن ریاستی پارک اوربحراوقیا نوس اوربحرالکاہل کوملانے والے آبی ذخیر ہڈسن بے کی گزرگاہ بھی واقع ہے۔سردیوں میں یخ بستگی کے ریکارڈبھی یہیں قائم ہوئے ہیں یعنی پندرہ انچ قطرکے برفانی گالے بھی چشمِ کہن نے یہیں اترتے دیکھے ہیں۔ ”
ایک ٹائم زون سے دوسرے میں داخل ہونے کی دلچسپ صورتحال کوسلمان خالدکے الفاظ میں دیکھیں۔” ایک ٹائم دوسرے میں داخل ہوتے ہی یکایک ساٹھ منٹ آپ کی زندگی سے حذف ہوجاتے ہیں۔ایساہوناکبھی اداسی اورکبھی خوشی کی ملی جلی کیفیات کامرکب بن جاتا ہے۔مجھے آج بھی یادہے کہ سیئٹل سے شاذونادرہی سات گھنٹے کی ڈائریکٹ فلائٹ اورزیادہ تر ایک سے دواسٹاپ والی سستی فلائٹس لے کر جب راقم ریاست ورجینیامیں مقیم اپنے بچوں اوراہلیہ سے ہفتہ وارہوائی سفرکرتاتھا، تو اس دوران کوئی پچیس تیس ریاستوں کے ایئرپورٹس پہ ایک ٹرمینل سے دوسرے ٹرمنل تک بہت دوڑلگائی۔بعض اوقات ایک فلائٹ سے اترکردوسرے ٹرمینل پہ کھڑے جہازتک پہنچنے میں آدھ گھنٹہ اوربعض اوقات توبیس منٹ سے بھی کم وقت مل پاتاتھا۔”
ایک عجیب وغریب مقام کے بارے میں وہ کچھ یوں بتاتے ہیں۔” ٹینیسی سے جارجیاریاست میں داخل ہوتے وقت ایک دلچسپ پہاڑی سلسلہ کانظارہ ہوتاہے۔آپ کودور پہاڑوں پہ سفید اورنیلا سادھواں اڑتانظرآتاہے۔یہ دھوں ان سرسبزکوہساروں پہ اگے ہوئے گھنے ترین جنگلات کے درختوں میں بارش اورشبنم کے پانی اسٹورہوجانے کے سبب بطورایک قدرتی ایکو سائیکل کی صورت وجودمیں آتاہے۔آپ اسے درختوں کے کاربن ڈائی آکسائیڈاورآکسیجن میں بدلنے کانظامِ تنفس سمجھ لیجیے جونامیاتی بھاپ کوچھوٹے چھوٹے بادلوں میں بدل کر واپس انہی پہاڑوں پہ بارش بن کربرستاہے اورپھراسی برساتی پانی سے واپس بادلوں کاسفرجاری رہتاہے۔اسی مناسبت سے ٹینیسی کے اس پہاڑی سلسلے کو Smoky Mountains کانام بھی دیاگیاہے۔یہ بہت سے پکنک اسپاٹس اورریزارٹس کی بدولت ایک معروف امریکی سیاحتی مقام ہے۔”
”انکل سام کے دیس سے” کانواں باب سلمان خالد نے ” میرے عشق ٹاؤن سوانہ کے نام، مضطرخیرآبادی کے نام، عمرخیام نیشاپوری کے نام، کیاہے۔ سوانہ واپسی انہیں سوانہ کسی روٹھی ہوئی عروسہ کی طرح مضطرخیرآبادی کی طویل بحرمیں لکھے گئے مصرعہ کی نغمگی میں کچھ یوں شکوہ کناں محسوس ہوا۔یہ انوکھا اورمنفردمصرعہ پیش ہے۔
” بس اسی دھیان میں ہم تھے کہ ہوئی پاؤں کی آہٹ نظراٹھی تویہ دیکھاکہ چلاآتاہے وہ زہرہ جبیں ماہ مبیں طرفہ حسین پردہ نشیںدُرِثمیں دل کا مکیں ساتھ مگرکوئی نہیںدھک سے ہوادل کہ یہ اس وقت کیااس نے اس نے جوپوچھاکے بتاخیرتوہے کیوں ادھرآیاتوجواب اس نے دیا ہنس کے کہ یونہی ،تجھے کیاکام جوتوپوچھ رہاہے کوئی قاضی ہے کہ مفتی ہے آکے پھربیٹھ گیامیرے پاس وہ داب کے زانوبس ادھردیکھ ادھر دیکھ میرے دل کوٹٹولاپروہاں دل کاپتہ کب تھا جوملتااس نے ناچار کہامجھ سے کہ کیوں جی کوئی اوربھی دل ہے؟ ہمیں عادت ہے ستانے کی جلانے کی دکھانے کی مٹانے کی اگردوتوبڑاکام کرو سن کے یہ بات کہامیں نے کہ کچھ خیرتوہے؟ ایک دل تھاسوتولے ہی گیادوکہیں ہوتے بھی اس دنیامیں جو تولینے کوآیاتو وہ بولاکہ اجی جاؤذرا جی کوتوشرماؤبڑا حکم اٹھایا،کہے دیتے ہیں جواب ایساٹکاسا،ارے توبہ ارے توبہ چلوبیٹھے رہوباتیں نہ بناؤ تم یونہی منہ سے کہتے تھے ہٹوجاؤمحبت کابھلانام ڈبویا۔”
اردوکے اس بے مثل مصرعہ کاتوجواب ہی نہیں۔ جاپانی شیف کی منفردڈشزکاذکرسلمان خالد کی زبانی پیش ہے۔” جاپانی ریستورانو ں میں آپ کو توانماگرل کے اردگردبیٹھناہوتاہے جہاں شیف آپ کی میزپہ آکرآپ کے سامنے مینوآئٹم درمیانی توے پہ گرل کرتاہے۔عرف عام میںاسے ”ٹیپن یاکی” یا”ہیباچی گرل” بھی کہتے ہیں۔جاپانی نژاد شیف کسٹمرزکے انتخاب کے مطابق درمیانی توپہ ہی مختلف مزاحیہ،کسی حد تک خطرناک اوردلچسپ کرتب بھی دکھاتے ہیں۔جہاں کئی انواع واقسام کی ڈشزتیارکرتے ہوئے ماہرشیف کچے انڈے کوہوامیں اچھال کراسٹیل کے چمچ سے بناٹوٹے کیچ کرتاہے،گول کاٹے ہوئے پیازوں کے دائروں کواہرام مصرکی طرح ایک دوسرے پررکھ کرسرکہ نمامحلول چھڑک کرآگ بگولہ بناتاہے اورمچھلی یاجھینگوں کوسفید یابھورے چاولوں میں فرائی انڈے شامل کرکے ،مشروم ،بروکلی،اسپریگس،آلو،گاجر، شکرقندی ،پیاز،بندگوبھی ،گوبھی،مٹر،فرائی کدواوردیگرسلادی آئٹمزکے ساتھ براہ راست گاہک کی پلیٹ میں ڈالتاجاتاہے۔”
سلمان خالد کامنفردسفرنامہ ”انکل سام کے دیس سے” اتنادلچسپ ہے کہ قاری اسے ایک ہی نشست میں ختم کیے بغیرچھوڑنہیں سکتااورایسی مزید تحریروں کے منتظررہیں گے۔اس عمدہ تحریر پرمصنف کوبھرپور مبارک باد پیش ہے۔بک کارنرجہلم کے امرشاہد اورگگن شاہدبرادران نے اس سفرنامے کوآفسٹ پیپرپر خوبصورت اندازسے شائع کیاہے۔ اڑتالیس صفحات پر سینکڑوں تصاویر میں کتاب کوقابل قدربنادیا ہے۔ ایک اورشاندار پیش کش پردلی مبارک باد کے مستحق ہیں۔