خالدمعین خوش خیال شاعرہیں جن کا حال ہی میں وفور کے نام سے ایک ناول منصہ شہود پر آیا ہے۔وہ اسی کی دہائی میں منظرعام پرآنے والے شعراء میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ان کی شاعری میں شگفتگی اور خوش امیدی واضح طور پرجھلکتی ہے۔”بے موسم وحشت” ان کا پہلا مجموعہ کلام تھا ۔جوانیس سونوے میں شائع ہوا۔نوسال بعد دوسرا مجموعہ ”انہماک”اوردوہزارپانچ میں ”پس عشق” شائع ہوئے۔نئے ہزاریے میں خالد معین کاچوتھامجموعہ”ناگہاں” منظرعام پرآیا۔چارمجموعوں کے بعدوہ نثرکی جانب راغب ہوئے۔ اور”رفاقتیں کیاکیا” کے نام سے یادداشتیں تحریرکیں۔جوادبی یادوں اورہم عصر شعراء کے تذکرے پر مبنی ہے۔ ”اب سب دیکھیں گے”ٹی وی پر پیش کیے گیے ایک ایکٹ اسٹریٹ تھیٹرکی تحریروں کو شامل کیا گیاہے۔ پھر ”مصوران خوش خیال”میں خالدمعین نے کرا چی کے پانچ مصوروں کے فن وشخصیت کوموضوع بنایا۔اردومیں شفیع عقیل کے بعدمصوروں کی زندگی اورفن پرلکھنے والے خالدمعین دوسرے مصنف ہیں۔زندگی کانیا سفر شروع کرنے کے بعدان کاپانچواں مجموعہ کلام ”نئی حیرتوں کی خمار” میں منظرعام پرآیا۔جس کے نام ہی نئے ہم سفرکے ہمراہ نئے سفرکی حیرتوںکے خمارکوشاعرانہ خوش فکری سے پیش کرنے کااندازہ کیاجاسکتا ہے۔
ان تمام ادبی معرکہ آرائیوں کے بعدخالدمعین نے ناول کی دنیامیں قدم رکھااورجس طرح وہ شعری ونثری وفورسے بھرپورہیں۔ اپنے پہلے ناول کانام بھی”وفور” ہی رکھا۔ایک سوبانوے صفحات کے ناول کابیشتر حصہ بیانیہ طرز پرلکھاگیاہے۔ ایک شاعرکارومان پسند ہوناتولازمی ہے ۔رومانیت کے بغیرموثرشاعری ممکن ہی نہیں۔ یہ ناول ہزاروں میل دورپاکستان اورامریکا میں مقیم دونثرنگاروں کے افلاطونی اورٹیلی فونی عشق پر مبنی ہے۔جس کے مرکزی کردارافسانہ نگار علی جمال اور نوخیزافسانہ نگارنبیلہ جہاں کے افلاطونی عشق پرمبنی ہے۔علی جمال کے کردار میں جوانی سے ادھیڑعمری کی طرف رواں مصنف کی جھلک نظرآتی ہے، جسے شاعرکے بجائے نثرنگارکا روپ دے کرپردہ داری کی گئی ہے۔ ناول”وفور” کامرکزی خیال یہ ہے کہ ادیب اور شاعر ہمیشہ تخلیقی سرگرمیوں کے لیے تنہائی اورکامل یک سوئی کے طلب گار رہتے ہیں ۔ اس کوشش میں اگرجیون ساتھی رکاوٹ ڈالے توگھر میں اختلافات جنم لیتے ہیں اوراگروہ مصنف وشاعرکومطلوبہ یک سوئی مہیاکردے تووہ رفتہ رفتہ نظراندازہونے لگتی ہے اورلکھار ی مکمل طور پر اپنی ہی دنیامیں گم ہوتاچلاجاتاہے۔ ازدواجی زندگی میں مختلف وجوہ کی بنا پرایک دور ایسابھی آتاہے جب میاں بیوی کارشتہ رسمی نوعیت اختیارکرلیتاہے اور وہ ایک دوسرے سے بیگانہ ہونے لگتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
پی ایم ہاؤس کے آڈیو لیک کرنے والی ڈارک ویب ہے کیا؟
اسحاق ڈار کی واپسی، امیدیں اور مفتاح اسماعیل کی قربانی
مصنف نے علی جمال اور نبیلہ کاتفصیلی تعارف کچھ یوں کرایاہے۔”علی جمال ایک کھلتے ہوئے گندمی رنگت کاچوالیس برس کاآدمی ہے۔اس کا قدپانچ فٹ ،آٹھ انچ ہے۔ناک نقشہ عام ساہے۔بدن کثرتی اور چست ہے۔اس کے چہرے پرسب سے زیادہ توجہ کے لائق اس کی گہری کالی آنکھیںہیں۔ ہاتھ اوربازومضبوط،شانے چوڑے۔ اس کی ناک ستواںاورپتلی ہے۔ وہ کراچی کے نواحی علاقے ماڈل ٹاؤن ، ملیرمیں رہتاہے۔شادی شدہ اورایک بیٹے کاباپ بھی ہے۔ جب کہ نبیلہ جہاں کی رنگت دودھ سے زیادہ اجلی،چہرے کے نقوش جاذب نظر ، بال گہرے اورلمبے،آنکھیںجیسے کسی گہرے خمارمیں ڈوبی ہوں،ہونٹ گہرے گلابی،قدپانچ فٹ چھ انچ جب کہ ایڑی والی سینڈل پہن کے آٹھ انچ تک ہوجاتا،بدن کے خطوط بے حد متناسب اور پر کشش، وہ اسماٹ اورخوش لباس عورت ہے۔اس نے انگریزی ادب میں ماسٹرزکیاہواہے۔ایک زمانے سے امریکاکے مشہور شہرشگاگو میں اپنے شوہروقاراورایک آٹھ سالہ بیٹی سارہ کے ساتھ مقیم ہے۔نبیلہ کاشوہر امریکی بینک میں اعلیٰ عہدے پرفائزہے جب کہ نبیلہ ایک ایشیائی اسکول میں بچوں کوانگریزی پڑھاتی ہے۔”
علی جمال نے نبیلہ جہاں کانام بہت زیادہ نہیں سناتھااورنہ اس کی کوئی کہانی پڑھ سکا،کیوں کہ وہ ادبی منظرسے دوررہنے کی عادی تھی مگرنبیلہ جہاں،علی جمال کے نام اورکچھ کہانیوں سے ضرور واقف تھی۔ علی جمال کی دوکتابیں پرنٹ ہوچکی تھیںاوردونوں کتابیں شارٹ اسٹوریز پر مبنی تھیں مگرجیساکہ آج کل اب کی عام کتابوں سے لاتعلقی برتی جاتی ہے، ویسے ہی ان دونوں کتب کے ساتھ بھی ہواتھا۔ایک آدھ ادبی تقریب ہوئی، ریڈنگ سیشن ہوا۔فیس بک پرتھوڑا ساچرچاہوا،اخبارات میں کچھ خبریں لگیں اورچندمعروف ادبی جریدوں میں ان پرتبصرے آگئے۔ تاہم ان کتابوں کی آمد سے علی کوایک فائدہ ضرور ہواکہ افسانے کے عصری منظرنامے میں اس کانام اور پہچان سنجیدہ قارئین کے درمیان مستحکم ہوئی اورہم عصرناقدین سمیت لکھنے والوں نے اسے ایک باصلاحیت لکھاری تسلیم کرلیا۔
نبیلہ جہاں ایک خوب صورت اورکم سن لکھاری تھی۔دیارِغیرمیں مقیم تھی۔وہ فیس بک پرسوائے مخصوص دوستوں کے کہیں اوراپنی تخلیقی شخصیت کے ساتھ نظرنہیں آتی تھی۔اس کی کوئی کتاب تونہیں آئی تھی کیوں کہ وہ لکھتی بہت کم تھی اوراس کی بنیادی وجہ وقت کی کمی یااس کی مصروفیات سے زیادہ اس کا تخلیقی موڈپرایمان تھا۔
علی جمال اور نبیلہ جہاں کی گفت گوتواچانک شروع ہوئی مگریہ سلسلہ پہلے فیس بک سے آگے بڑھا۔پھربات واٹس اپ تک پہنچی۔اس کے بعد ٹیلی فونک سلسلہ شروع ہوا۔یہ بھی حقیقت ہے کہ ان دونوں کے درمیان بہت تیزی سے ذہنی قربت قائم ہوئی کیوں کہ یہ تعلق کسی منصوبہ بندی کے بجائے فطری اٹھان کے ساتھ آگے بڑھا اس لیے اس تعلق میں ابتداہی سے خوب صورتی موجودرہی۔ علی جمال اپنی فطری رومان پسندی اورنت نئی فتوحات کی تلاش میں اور نبیلہ جہاں اپنی ازدواجی زندگی کے مسائل کی وجہ سے ایک دوسرے سے قریب آتے چلے جاتے ہیں۔کہانی مکالموں اوربیانیہ کی صورت آگے بڑھتی ہے اورانہی دونوں کرداروں کے گرد ہی گھومتی ہے۔علی کی بیوی نائمہ اور نبیلہ کاشوہروقار پس منظر ہی میں رہتے ہیں۔ تاہم ناول کابیانیہ مضبوط بنانے کے لئے ان دونوں کی ذاتی زندگی کویکسرنظرانداز نہیں کیاگیا ۔ نبیلہ کے شوہر کے ذاتی المیے اوراس کے نفسیاتی مسائل کی وجہ سے وقارکاذکرکچھ زیادہ ہے ۔دیگرکردار برائے نام ہی اپنی موجودگی کااحساس دلاتے ہیں ۔ لیکن خالدمعین کی کردارنگاری بہت عمدہ ہے ،جسے ”رفاقتیں کیاکیا” میں ہم عصرشعراء اور ”مصوران خوش خیال” میں مصوروں کے فن اورشخصیت پرلکھی تحریروں سے جلاملی ہے۔علی جمال اورنبیلہ جہاں اردوادب میں زندہ رہنے والے کرداروں کے روپ میں سامنے آئے ہیں۔
خالدمعین نے علی جمال اورنبیلہ جہاں کی ذاتی زندگی کی وجہ سے ان کی داخلی کش مکش اورنفسیاتی مسائل کوبہت خوبی سے اجاگرکیاہے۔اس کے ساتھ ازدواجی زندگی کے مسائل، ذاتی خوبیوں اورخامیوں کے اس پراثرات کوبھی فنی مہارت سے پیش کیاگیاہے اورکہیں بھی وعظ و تلقین کاانداز اختیار نہیں کیاگیا۔
علی جمال اورنبیلہ جہاں کی رومانی ٹیلی فونک گفت گوناول کی جان ہے۔ان مکالموں میں مردعورت تعلقات کی بہت سے گتھیاں سلجھانے کی کوشش کی گئی ہے۔روٹھنے منانے کے قصے اوردوافراد کس طرح ایک دوسرے کے اس طرح عادی ہوجاتے ہیں کہ جدائی کاتصور بھی محال ہوتاہے۔ اس کے ساتھ اس میں کراچی کی صورت حال، کرونادورکی وحشتیں ،چائلڈ ابیوزنگ اوردیگرعوامل کوبھی مختصر لیکن موثرانداز میں بیان کرنے میں خالد معین کامیاب رہے ہیں۔جس کی وجہ سے ”وفور” کی دل چسپی میں اضافہ ہواہے اورناول یک موضوعی نہیں رہا۔ آواز پبلشرز نے ناول بہت عمدہ شائع کیاہے۔لیکن پروف کی غلطیاں بہت زیادہ ہیں کئی جگہ پروف کی غلطی کی وجہ سے جملوں کامفہوم ہی بدل جاتا ہے یاتحریرکی روانی میں فرق پڑتاہے۔دوسرے ایڈیشن میں اس جانب بھرپور توجہ دینا لازمی ہے۔
مرداورعورت کے تعلق کی نزاکتیں اورنفسیاتی عوامل خالدمعین کے تجربے اورغیرمعمولی مشاہدے کاثبوت ہے ۔جسے بہت عمدگی سے ”وفور” کی کہانی کااہم حصہ بنایاگیاہے۔” ایک عام مرد کے لیے عورت کی جانب بڑھنے میں دوچارچیزیں بڑی اہم ہوتی ہیں مثلاً عورت خوب صورت ہو،پراعتماد ہو،لباس پہنناجانتی ہو،گفت گو کے ہنرسے واقف ہو جب کہ تخلیق کارکے لیے کسی عورت میں کشش اسی وقت پیداہوتی ہے جب وہ عورت خوش گفتارہو،خوش بدن ہو، پھر ذہانت کے علاوہ اس میں کچھ نہ کچھ تخلیقی صلاحیت بھی ہوتبھی ایک تخلیق کارکسی عورت کی طرف بڑھتاہے تاہم یہ کوئی حتمی کلیہ بھی نہیں اکثراوقا ت اس کے برخلاف بھی ہوتاہے۔”
اس کادوسرا پہلوبھی دل چسپی سے خالی نہیں۔” ایک عورت کسی مردکی طرف تبھی راغب ہوتی ہے جب اس میں کوئی نہ کوئی متاثرکن بات ہو ۔عورت مردکی سحرانگیزشخصیت سے بھی متاثرہوسکتی ہے۔اس کے بینک بیلنس سے بھی ،اس کی کسی صلاحیت سے بھی اوراس کے سماجی رتبے سے بھی۔البتہ عورت کے لیے اس کا پسندیدہ مردکسی نہ کسی حیثیت میں دوسروں سے الگ اورخاص ہوناضروری ہے۔عورت کے علم میں ہوتا ہے کہ اکثرمرداس میں دل چسپی لیتے ہیںاورعام طورپرمردبھی پندرہ بیس عورتوں کے گردچکرلگاتے ہی ہیں۔اس لیے عورت محبت کے لیے ایک خاص مردکاانتظارکرتی ہے، جہاں وہ اپنے من پسندمردکے قریب آسکے ورنہ وہ بعض اوقات کئی برس تک مردکو صرف دوستی کے دائرے تک محدودرکھتی ہے اورمرد بھی کنفیوژن کاشکار ہوجانے پرکئی برس عورت کوصرف دوستی تک محدود رکھتاہے۔ لیکن جب کہیں اور بات نہیں بنتی تویہ دوستی ایک دن اچانک محبت اور شادی میں تبدیل ہوجاتی ہے۔”
نبیلہ جہاں اورعلی جمال کے ایک دوسرے سے قریب آنے کی وجوہ مصنف نے آہستہ آہستہ کھولی ہیں۔نبیلہ کاعلی سے یہ مکالمہ دیکھیں۔ ”میںتوتمھیں بہت زیادہ سنناچاہتی ہوں۔ویسے بھی تمھاری آوازمجھے بہت زیادہ پسندہے اور میں اس آواز کے حصارمیں رہنابھی چاہتی ہوں۔یہ آوازمیرے اندرجانے کیاکیاجادوجگاتی ہے۔یہ میری زندگی کاواحدتجربہ ہے کہ کسی آوازنے مجھے اس طرح اپنی رومانی گرفت میں مقیدکررکھاہے ۔حیرت ہے کہ مجھ سے پہلے تم سے کسی اورنے یہ بات نہیں کہی ہے۔اچھا آوازتوتمھاری ہے ہی خوب صورت پھرتم بولتے بھی بہت اچھاہواور میں ہمیشہ تمھیں سنناچاہتی ہوں۔مجھے نہیں معلوم جب ہم روبہ رو ہوں کے تواس آواز کاجادومجھ پر کیساسحرقائم کرے گا لیکن یادرکھومیں ہمیشہ تمھاری آواز کے خوش خمارحصارمیں رہوں گی۔تمھیں معلوم ہے کہ خودتمھاری آواز کی چھایاکتنے غضب کی ہے۔پوراتن من بھگودیتی ہے۔اس آوازمیں ساتوں سرمحسوس ہوتے ہیںاورمیں خوداس آوازکے حیران کن سحر میں گرفتارہوں۔تمھاری آواز نے مجھے تم سے قریب اوقریب ترکیاہواہے اوریہ بات تم کبھی نہیں جان سکتے کہ تمھاری آوازمیں ایساکیاہے جس نے مجھے دیوانہ بنارکھا ہے کیوں کہ میں خودبھی یہ رازابھی نہیں جانتی ۔”
دوسری جانب مردکاتصورعشق ہرپھر کروصال کی خواہش کے گردگھومتاہے۔علی جمال کی یہ گفت گوسے بھی واضح کی گئی ہے۔” اچھایہ بتاؤ کیا جب ہم ملیں گے اورکسی ایسے ماحول میں ملیں گے۔ جہاں مکمل تنہائی ہوگی توکیاوہاں ہم وصال کریں گے۔مکمل وصال جس میں ہمارے بدن اور روحیں ایک ہی تال پردھمال ڈالیں اور ہم دونوں اپنی تمام کثافتیںایک پرخمارساون میں بھیگتے ہوئے یوں دھوڈالیں کہ چہارجانب اجالا ہی اجالا بکھرجائے۔اندرکی تمام تشنگی سیرابی میں ڈھل جائے۔ہم دونوں تکمیل ذات کے انوکھے تجربے سے گزریں اوراس انتہاکوچھو لیں جوہرانتہاسے بلندہے جہاں ذات اورشخصیت، خیال اورخواب، حیرانی اورطلب ،انتظار اوراعتبار،یقین اورگمان سب کے سب ایک ہی دائرے میں ہم رقص ہوجاتے ہیں۔”
مرد اورعورت کے یہ تمام جذبے اورسوچ ان کی فطرت میں شامل ہیں اور ”وفور” کے کردار فطری تقاضوں سے ماورا نہیں۔یہ کردارجیتے جاگتے اورسانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔یہی خالدمعین کی کردارنگاری کاکمال ہے۔مختصرناول میں جزئیات نگاری بھی بے مثل ہے۔ہر کردار کواس کے مکمل پس منظرسے پیش کیاگیاہے اوراس کردارکی شخصیت اسی پس منظرسے تشکیل پائی ہے۔
نبیلہ کے کردارکے کئی پرت اس کے تحریرکردہ افسانوں کے ذریعے کھولے گئے ہیں۔خالدمعین نے اپنے مصنف اورشاعر ہونے کو”وفور” میں عمدگی سے استعمال کیاہے۔ کہیں افسانوں کے اقتباسات، آخری حصے میں نظموں کے ٹکروں سے علی جمال کی نفسیاتی کش مکش کوظاہر کیا گیاہے۔ پھرنبیلہ جہاں کاالوداعی خط پوری کہانی کانچوڑہے۔ اس قسم کے مختلف تجربے ضخیم ناولز میں بھی کم نظرآتے ہیں۔
نبیلہ اورعلی قریب آناکہیں نہ کہیں دونوں کی ناآسودہ خواہشات کے سبب تھا،پھردونوں کی تخلیقی ذہانت بھی اس تعلق کوتیزی سے بڑھاتے گئے۔جن دنوں ان دونوں نے ایک دوسرے کوجاننے کاآغازکیا،اس سے کچھ عرصہ قبل ہی کورونا کے خطرناک اورجان لیوا واراپنی تباہی کا آغاز کرچکے تھے اور پوری دنیااچانک ہی اس بے رحم اورسفاک وائرس کی زد میں آگئی تھی۔علی اورنبیلہ جہاں دنیاکے الگ الگ خطوں میں مقیم ہونے کے باوجوداس ڈراؤنی وباسے پریشان تھے کیوں کہ سوچنے ، خواب دیکھنے، جمالیاتی آب وہوامیں رہنے اورامن وسلامتی کا پیغام دینے والوں کے لیے اجتماعی اورانفرادی سطح پریہ ایک بہت بڑا شاک تھا، بہت بڑا ذہنی،جذباتی،نفسیاتی اورسماجی شاک۔علی جمال تواس اندوہ ناک صورت حال سے اندرہی اندردہل کررہ گیاتھا اورسوچنے لگاتھاکہ کیالوگ اچانک اس خطرناک وباکے شکنجے میں آکر مرجائیں گے اورپھر ایسی بے بسی کی موت مریں گے جس کاکبھی تصورتک نہیں کیاگیا۔
اس طرح کورونا کی ہولناک وباکی صورت حال کوبھی ناول کی کہانی آگے بڑھانے میں موثرانداز میں استعمال کیاگیاہے، گو اس کی زیادہ تفصیلات میں مصنف نہیں گیا۔تاہم وبائی صورت حال پرگہری نظرڈالتے ہوئے اسے عمدگی سے اجاگرکیاگیاہے۔
بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے واقعات میں دن بدن اضافہ ہورہاہے۔ بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی اور ہراسانی اوراس کے نفسیاتی مسائل ”وفور” کا اہم پہلوہے۔ اس مسئلہ کو”وفور” میں نبیلہ جہاں کے شوہروقارکے کردارکے ذریعے پیش کیاگیاہے۔ وقارامریکی بینک میں اعلیٰ عہدے پرفائز تھااوربطورشوہرچندایسی خوبیوں کامالک تھاجودیگرشوہروں میں نہیں ہوتیں۔وہ نبیلہ سے مخلص ہے،بے وفائی کامرتکب نہیں ہوتامگروہ اس پرغیرمحسوس طریقے سے شک بھی کرتاہے اوراسے اپنے سامنے کچھ بھی نہیں گردانتا،دوسرے معنوں میں وہ نبیلہ جہاں کو سونے کے پنجرے میں مقید رکھناچاہتاہے اس میں بلاکی نرگسیت ہے اور وہ ہمیشہ حاکم رہنا پسندکرتاہے۔
وقارپانچ چھ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ساتھ لاہورمیں رہتاتھا۔والدکی طرح والدہ بھی کالج پڑھانے چلی جاتیں تھیں اورکالج دورہونے کی وجہ سے انہیں واپسی میں تین بج جاتے تھے جب کہ وقارایک بجے اسکول سے گھر آجاتاتھا۔والدہ کے آنے تک وقار اورایک جوان ملازم گھر میں رہ جاتے تھے۔یہ جوان ملازم وقارکے گھرآتے ہی اس کونہانے کے لے بہانے باتھ روم لے جاتااوراس کے ساتھ بدفعلی شروع کردیتا اورکھانا کھلانے کے دوران اسے ڈراتادھمکاتااور زبان رکھنے کے لیے دھمکیاں دیتا۔یہ خوف ناک حالات کئی ماہ تک چلے یہاں تک کہ وقارکی ماں کاشک یقین میں بدل گیاکہ اس کے معصوم بیٹے کے ساتھ کچھ نہ کچھ غلط ہورہاہے۔انہوں نے جب وقارسے پوچھ گچھ کی توسکتے میں آگئیں۔
عزت کامعاملہ تھااس لیے اس ملازم کی چندلوگوں سے پٹائی توکرائی گئی لیکن پولیس کے حوالے نہیں کیاگیا۔وقارکے معصوم ذہن پراس خرافات کے بہت بھیانک اثرات مرتب ہوئے جن کاسان وگمان تک اس کے پڑھے لکھے والدین کونہ تھا۔وہ تویہ سمجھے تھے کہ چندماہ میں وقارکے ذہن اور دل سے ابیوزہونے کی تلخ یادیں مٹ جائیں گی اوروہ ایک نارمل بچے کی طرح اپنی زندگی کی نئی منزلوں کی طرف بڑھ جائے گا۔بلاشبہ وقار نے زندگی میں بہت سی کامیابیاں حاصل کیں اوربچپن کی ان تلخ یادوں کوفراموش کرکے آگے بڑھا لیکن یہ سیاہ باب آیندہ پوری زندگی ایک آسیب کی طرح اس کے دل ودماغ پرچپک کررہ گیا۔
یہی وجہ ہے کہ خوش شکل،ذہین اورپڑھائی لکھائی میں نمایاں ہونے کے باوجودمحبت سے ناآشنارہا۔وہ توصنف نازک کے لمس سے بھی واقف نہ ہوسکا۔وقارنے نبیلہ کوبتایاکہ بہت سی لڑکیاں اس کی طرف بڑھیں اوروہ سب سے معذرت کرتارہا۔کالج ،یونیورسٹی اورمحلے کی لڑکیاں اسے مغرور سمجھتی تھیں۔وقار اچھی طرح جانتاتھاکہ اس تعلق کے حوالے سے وہ خاصا ابنارمل ہے اوراسے اپناعلاج کرانے کی ضرورت ہے۔وہ ایک دونفسیاتی ڈاکٹروں کے پاس بھی گیامگراندرکی گرہ کھولے بغیرلوٹ آیا۔ ڈاکٹرمریض کاعلاج مکمل حال جانے بغیر کس طرح کرسکتے ہیں۔وقارکامسئلہ تھاکہ وہ جیسے ہی سیکس اورقربت کے بارے میں کچھ سوچتایاکسی فلم اورڈرامے میں ایسا منظردیکھتا تو اس کے پسینے چھوٹنے لگتے اوربچپن کے لرزہ خیز واقعات سرپرہتھوڑے کی طرح برسنے لگتے ۔اس کوپینک اٹیک ہونے لگتے اوروہ نیم بے ہوشی کی حالت میں چلاجاتا۔اسی وجہ سے وقارنے امریکا میں پناہ لی اوراپنی جاب میں خودکو فنا کرلیا۔
وقارنے شادی نہ کرنے کاپکاعہد کرلیاتھا اورکئی برس اس پرسختی سے کاربند بھی رہا لیکن ماں کے مرنے کے بعدباپ کی آخری خواہش پوری کرنے کے چکر میں نبیلہ سے رشتہ جوڑ بیٹھا۔تاہم اس نے شادی کرنے سے پہلے اورنبیلہ کوامریکابلانے سے قبل اپنامسئلہ اس سے ڈسکس ضرور کرلیاتھا۔نبیلہ کاخیال تھاکہ وہ اس اپ سیٹ صورت حال کوکسی نہ کسی طرح قابوکرلے گی اوروقارکی ساتھ اس کی زندگی کچھ عرصے میں نارمل ہوجائے گی ۔مگریہ اس کی خام خیالی ثابت ہوئی۔وقارنے خود بھی چاہاکہ وہ نارمل زندگی گزار سکے جبکہ نبیلہ کی اس کوپوری سپورٹ حاصل رہی تاہم وہ ایک نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوسکا۔نبیلہ نے اسے کچھ ماہرین نفسیات سے بھی ملایا،دوائیں بھی استعمال کیں، سائیکوتھراپی بھی کی گئی مگروہ نارمل نہ ہوسکا۔ہربات قربت کے لمحات میں اس کے دل ودماغ پرشدیدخوف، گھبراہٹ،اکتاہٹ،بے دلی اورجانے کیاکیامنفی کیفیات حملہ آورہوجاتیں۔وہ نبیلہ سے ایک خاص فاصلے پررہتاتوٹھیک رہتا۔لیکن جیسے ہی نبیلہ کاہاتھ بھی اسے چھوجاتا تووہ گھبراجاتا اورپھراس پرپینک اٹیک شروع ہوجاتا۔
نبیلہ کے مطابق وقارنے اسے ایک بھرپور معاشی اورمعاشرتی اسٹیٹس دیا۔لیکن قریبی دوست احباب کے بچوں کے بارے میں سوالات سے تنگ آکرانہوں نے امریکی قوانین کے مطابق یتیم خانے سے رابطہ کیا۔دونوں میاں بیوی اعلاتعلیم یافتہ اورسلجھے ہوئے تھے۔اس لیے انہیں ایک مسلم گھرانے کی سواسالہ لڑکی نصیب ہوگئی۔جس کے ماں باپ روڈایکسیڈنٹ میں ہلاک ہوگئے تھے۔
اس تمام پس منظر کوخالدمعین نے ایک منجھے ہوئے لکھاری کی طرح پیش کیاہے۔نبیلہ جہاںکے ناآسودہ جذبات اس کی علی جمال سے ذہنی قربت میں ڈھل گئی اوریہ اس رشتے کی ایک مضبوط بنیاد بن گئی۔اس کے ساتھ چائلڈابیوز سے ہولناک نتائج بھی انتہائی ہنرمندی سے بیان کیے گئے ہیں۔جس کے نتائج کئی افراد کوزندگی بھر بھگتنا پڑتے ہیں۔وقارکے والدین کس کرب اوراحساس جرم کے ساتھ زندگی بسر کر تے رہے۔ اس تمام بیان میں ”وفور” کامصنف ایک کامیاب ماہرنفسیات نظر آتاہے۔ انہوں نے بطور شاعراپنی اور دوسرے شعراء کے کلام کوبھی خوب صورتی سے استعمال کیاہے۔جیسے جون ایلیااور اداجعفری کے ان اشعارنے علی جمال اورنبیلہ جہاں کے جذبات کوکیازبان دی ہے۔
میں تمہارے ہی دم سے زندہ ہوں
مرہی جاؤں جو تم سے فرصت ہو
کس طرح چھوڑ دوں تمھیں جاناں
تم مری زندگی کی عادت ہو
اور
روداد سفر کی پوچھتے ہو
میں خواب میں جیسے چل رہی تھی
شبنم سی لگی جو دیکھنے میں
پتھر کی طرح پگھل رہی تھی
مرداورعورت کے حسن طلب کی نزاکتیں اورنفسیاتی محرک مصنف کوایک سرتاپاعاشق کے روپ میں پیش کرتے ہیں۔جس کی پوری حیات ہی اس تجربے میں بسر ہوئی ہو۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔” عورت کے لیے مردکی آواز بہت خاص ہوتی ہے۔اسی آواز کے سہارے کوئی مرد بڑی آسانی سے کسی عورت کے دل میں اترسکتاہے جب کہ مرد کے لیے عورت کاحسن اوراس کادیداربڑا خاص ہوتاہے۔اسی بنیادپروہ عورت کی طرف راغب ہوتاہے اور جیسے جیسے وہ عورت کے ظاہری حسن سے آشناہوتاجاتا ہے، ویسے ویسے وہ اپنا دل ہارتاجاتاہے۔”
”وفور” محض ایک رومانی ناول اورشاعر کے تخیل کاشاخسانہ نہیں ۔بلکہ اس میں زندگی کے حقائق اورمختلف صورت حال میں انسانوں کاردعمل ،نفسیاتی کجیاں حتیٰ کہ ادیب وشاعر کے لاابالی پن کے ان کی ازدواجی زندگی اوربچوں پراثرات کابھی احاطہ کیاہے اوریوں یہ ایک بھرپور ناول کے طور پرسامنے آیاہے۔ خالدمعین بطور شاعراورنثرنگاراپنی صلاحیتیوں کالوہا منواچکے ہیں اوراپنے پہلے ناول میں بھی انہوں نے قارئین کومایوس نہیں کیا۔تاہم ناول کے بارے میں کہاجاتاہے کہ ایک ناول ہرانسان کی زندگی میں ہوتاہے اس لیے ایک ناول ہرشخص لکھ سکتاہے۔مصنف کی صلاحیتوں کاعلم دوسرے ناول سے ہوتاہے۔”وفور” خالدمعین کازندگی نامہ ہویانہ ہو،اس کے پلاٹ میںبہت کچھ اپنی زندگی سے اخذکیاگیاہے۔ قارئین اب ان کے دوسرے ناول کے منتظرہیں۔
خالدمعین نے ٹی وی پراسٹریٹ تھیٹرکے تجربے کوبروئے کارلاتے ہوئے”وفور” کی تقریب اجرا کوبھی منفردانداز دیا۔جس میں روایتی انداز میں مختلف افراد کی صاحبِ کتاب کے فن اورشخصیت پرتقاریرکے بجائے، دوفنکاروں نے ناول کے کچھ مکالمے ڈرامائی انداز میں سنائے۔عمران شیرانی نے ناول کے ایک حصہ کوخوب صورتی سے پڑھا۔سیدکاشف رضا نے اپنے عمدہ اندازناول کی فنی خوبیوں کوبیان کیا اورپھرخالدمعین کاانٹرویو معروف ٹی وی اینکر نے لیا۔جنہوں نے مصنف سے وہ تمام سوال پوچھے جوان کے بارے میں قارئین کے ذہن
میں ابھرتے ہیں۔