حالیہ برسوں میں ریلوے سے متعلق کئی عمدہ اور دلچسپ کتب شائع ہوئی ہیں۔جن سے قاری کوریلوے کاآغاز،ترقی وفروغ اوراس کی تاریخ کے بارے میں علم ہوتاہے۔ریل ایک اہم ذریعہ سفرہے اورہرشخص زندگی میں کئی بارریل کے سفرسے لطف اندوزہوتاہے۔اس لیے ریل کے بارے میں جاننے میں دلچسپی ہوتی ہے۔ اس سلسلے کی پہلی کتاب بی بی سی اردوسے شہرت حاصل کرنے والے رضاعلی عابدی کی”ریل کہانی” تھی۔ اس کہانی کوعابدی صاحب نے بی بی سی لندن کے پروگرام کے لیے پشاور سے کلکتہ تک ریل کے سفر،اسٹیشنز اورمسافروں کے تاثرات کوہنرمندی سے پیش کیا ہے۔جسے بعد میں عابدی صاحب نے کتابی شکل دی۔
فضل الرحمٰن نے اپنی اور والدکی ریلوے کی طویل ملازمت کی یادوں کو”روداد ریل کی”کے عنوان سے پیش کیا۔محمدحسن معراج نے ”ریل کی سیٹی”کے نام سے پنڈی سے اچ شریف تک کے ریل کی پٹری کے ساتھ سفرکیا۔ریل کے ساتھ ساتھ جودریابہتے ہیں،اورجوگاؤں،قصبے ،شہرآباد ہیں،مصنف نے ان سب کی صدیوں پرپھیلی تاریخ وتہذیب کے اندرسفرکیا۔اس تاریخ میں جتنے اہم کردار اورواقعات تھے،جوان علاقوں پراثراندازہوئے،ان سب کااحاطہ کیاگیاہے۔ان تاریخی واقعات اورکرداروں نے یہاں کے باسیوںکی سیاسی،معاشی ،ثقافتی اورنفسی وتخلیقی زندگی پرجواثرات مرتب کیے ،ان کی طرف بھی معنی خیزاشارے کیے۔یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ مصنف نے پاکستانی پنجاب کے ثقافتی لاشعورکی بازیافت کی ہے۔
مصنف کے مطالعے کی وسعت حیران کن اوراسے اختصارسے بیان کرنے کاسلیقہ متاثرکن ہے ،حسن معران کی خوبصورت نثرنے کتاب کی دلچسپی میں بے پناہ اضافہ کیاہے۔ ریل کے حوالے سے ان تین کتابوں کے بعدگذشتہ برس معروف ادیب محمدسعیدجاویدقارئین کے لیے اپنی چوتھی کتاب ”ریل کی جادونگری” لے کرآئے۔جوریل کی تاریخ،برصغیرمیں آمد،ریلوے کے تمام عملے،اسٹیشن ،ریل کے ہرحصے کے بارے میں بھرپور تحقیقات پرمبنی ہے۔یہ انتہائی دلچسپ اورقابل مطالعہ کتاب ہے۔
حال ہی میں نذیراحمدخواجہ کی آپ بیتی” میں کہاں کہاں سے گزرگیا” شائع ہوئی ہے۔نذیراحمدخوانہ۔فرزندسیالکوٹ ،ایک عام گھرانے کے فردہیں۔سیالکوٹ کے گلی کوچوں میں پلے بڑھے،ابتدائی تعلیم سے لے کرکالج تک اورپنجاب یونیورسٹی سے ماسٹراورقانون کی تعلیم حاصل کرکے عملی زندگی میں داخل ہوئے۔کالج لیکچرار،لوکل کونسل سروس میں جاب کی اورپھر مقابلے کاامتحان پاس کرکے ریلوے کی کمرشل ٹرانسپورٹیشن سروس میں طویل عرصے تک رہے۔کچھ وقت گھی کارپوریشن میں ڈیپوٹیشن پراورکوآپریٹیوہاؤسنگ سوسائٹی کاطویل ترین تجربہ بھی انہیں حاصل ہے۔ملازمت کا بیشتر وقت ریلوے کے اہم ترین عہدوں پرفرائض کی انجام دہی میں گزارا۔بھرپور انداز میں زندگی کے مختلف شعبوں میں حصہ لیا۔بچوں کے اصرار پرکروناسے ملنے والی فراغت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے اپنی سلگتی سسکتی یادوں کو”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” میں ‘اپنی کہانی،اپنی زبانی’ لکھ ڈالی۔جس میں غیررسمی انداز میں ،لگی لپٹی رکھے بغیر،اپنی یادوں کوقارئین کی نذرکردیا۔نذیراحمدنے سرکاری ملازمت کے دوران ریلوے کے مختلف عہدوںپررہے اوراس کی تمام معاملات سے بخوبی واقف ہیں،اس لیے آپ بیتی ریلوے کے متعلق ہی ہے۔
نذیر احمد خواجہخواجہ صاحب ‘تعارف’ میں لکھتے ہیں۔”صاحبِ کتاب ہونے کادعویٰ بہت مبالغہ آمیزہوگا کیوں کہ نہ توعرف عام میں لکھاری ہوں،نہ کالم نگار،نہ ادیب اور نہ کوئی مشہور،مقبول شخصیت۔ایک عام پڑھالکھاپاکستانی، جوعام گلی محلوں میں رہنے والا، اپنے والدین کے سنہری خوابوں کو سجانے کی کوشش میں۔ ٹاٹوں کے اسکول سے پڑھ کریعنی ‘ٹاٹیئن’ بن کرمختلف مراحل سے گزرتے گزرتے ‘ایچی سونئن’ کامقابلہ کرکے مقا بلے کے امتحان سی ایس ایس میں کامیاب ہوکرسول سرونٹ بن گیااور وہ بھی پاکستان ریلوے جیسے عوامی ادارے میں ایک عامی افسربن گیا۔ منزل پرپہنچنے میں کئی سال لگے اوراب آخری منزل کی ڈھلوان سے پھسلتے پھسلتے گزرے دوربلکہ عمررفتہ کوکگھی آواز میں بلانااور اس کا لبیک کہنامشکل دکھائی دیتاہے۔کبھی کبھارڈائری نماکچھ نوٹ لکھاکرتاتھا۔بے ربط اورلمحاتی قسم کی وارداتیں،مشاہدات اور تجربات۔آخر میرے جیسے کامنزکاقیمتی سرما یہ یادوں کے علاوہ ہوبھی کیاسکتاہے۔ان میں ماسوائے فیملی ممبرزاورکچھ دوستوں کے،کسی اور کی دلچسپی بھی
کیاہوگی! تاہم اس میں کچھ باتیں تجربے میرے جیسے ہی عامی لوگوں کے لیے ضرور دلچسپ ہوں گے کیوں کہ کئی پہلوؤں سے عامیوں کوانھی حالات سے گزرنا پڑتاہے اورانھیں منزل تک پہنچنے تک ۔’آہ کوچاہیے اک عمراثرہونے تک’ کامعاملہ بن جاتاہے۔مجھے یقین ہے کہ نئے زمانے میں بھی آپ میری پرانی باوں سے کچھ نہ کچھ ضرور سیکھیں گے۔”
آتش فشاں کے پبلشر اورمصنف،انٹرویونگاراورمحقق منیراحمدمنیرنے ”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” کا”پیش لفظ”تحریرکیاہے۔”نذیراحمد خواجہ ادیب ہے نہ رائج معانی میں لکھاڑی،تاہم طرزِ اظہاردلچسپ اور دل آویز،اس لیے کہ اپنی ہستی کی ماننداس کاقلم بھی تکلف ،تصنع،بناو ٹ،روک ٹوک اورنقالی سے پاک،اس کاوش کی ہرجہت پیروی اور مکھی مارتحریر سے مبرا۔تذبذب سے کوسوںدور۔ یہ وصف کسی تحریر کوشان عطاکرتااورشوکت بڑھاتاہے۔جوسوچ میں آیالکھ ڈالا۔یہ خوداعتمادی بھی کسی طرزِنوکی موجد۔”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” اس خوش نمائی سے اٹا اٹ۔ابلاغ کوبااثراور پختہ بنانے کابھی یہی باعث۔ اسی کارن نذیرکاقلم پنجابی الفاظ انڈیلنے میں ذرانہیں ہچکچاتا،بلکہ کئی جگہ اردو الفاظ کی ابلاغی توانائی واضح اورموثرکرنے کے لیے بریکٹوں میں پنجابی لفظ جڑدیتاہے، جیسے انگشتری میں نگ۔میرے لیے توبعض لفط الہ دین کے چراغ کی رگڑ بن گئے،کہ انہوں نے آناًفاناً سیالکوٹ،حاجی پورہ،کی ان گلیوں میں پہنچادیاجوہماری اٹکھیلیوںکی امانت دارہیں۔ مثلاً،ابلاغی لحاظ سے اگرچہ زورکی بارش کے لیے لفظ موسلادھار بہ ذاتِ خود جبروتی وجلالی،مضبوط،کامل اورزوردارہے،پھربھی نذیربریکٹو ں میں اسے ‘ٹناٹن والی’ لکھنے سے بازنہیں آتا۔ان یادوں میں وہ اپنے طویل کیریئر،ریلوے ملازمت کے پربہارواقعات ہی بیان نہیں کرتا ،ریلوے کی تباہ پرکے عوامل پرسخت دکھی بھی ہوجاتاہے۔
نجیب الطرفین نذیراپنی بے باک اوربے لاگ سرشت کے تحت صرف مرض کی نشاند ہی نہیں کرتا،اس کے لیے دواداروبھی تجویز کرتاہے۔”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” ایسی بلبلِ ہزارداستان قومی بے راہ روی پرجس کی سلگتی اور سسکتی یادیں بھی ہویدا۔اگرحکام اس قیمتی اور اہم قومی اثاثے ،ریلوے، پرسے تباہی ٹالنے میں مخلص ہیں توانہیں اس کتاب کے ان مندر جات پردیانت داری سے غور کرنا ہوگا،کہ اس اجاڑ کی وجوہ کے ساتھ علاج بھی تجویزکیاگیاہے۔جویقیناتیربہ ہدف ہوگا،کہ وہ نہ ایلوپیتھی ہے نہ ہومیوپیتھی،خالص دیسی ٹوٹکاہے۔ویسے تومصنف ریلوے ہی نہیں سب قومی رویوں اورسوچ پرمحض شاہدِ حال ہی نہیں چارہ پرداز اورچارہ گربھی۔مسلکی تعصبات،مقامی حکومتوں،نظامِ تعلیم اور کوآپریٹوہاؤسنگ سوسا ئٹیزسے متعلق اس کے مشاہدات فکرانگیزاور توجہ طلب ہیں۔”
آتش فشاں پبلشرزنے پاکستانیات اورقائداعظم کے بارے میں بہت عمدہ کتابیں شائع کی ہیں۔پبلشرمنیراحمدمنیرانٹرویولینے کے ماہر ہیں ۔ انہوں نے تحریک ِ پاکستان اورملک کی سیاسی،فلمی ،ادبی اورانتظامی عہدوں پرفائزشخصیات کے یادگارانٹرویوزپرمبنی کتب شائع کی ہیں ۔ ادارے سے چھپنے والی ہرکتاب ایک انفرادیت رکھتی ہے۔ ”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” بھی ایسی ہی ایک آپ بیتی ہے۔بہترین طباعت، عمدہ کاغذ، شاندارکمپیوٹرکتابت سے مرصع تین سوچھپن صفحات پرمبنی کتاب کے چوبیس آرٹ پیپرپررنگین تصاویربھی شامل ہیں اوراس کی قیمت ہزار روپے ہے۔
بچپن اورتعلیم کے مراحل سے گزرنے کے بعدخواجہ نذیراحمدنے کامیاب ازدواجی زندگی گزاری اوراس کے بارے میں ایک باب ”میراگھر میری جنت” کے عنوان سے لکھا،جوہرشادی شدہ جوڑے کے لیے کارآمدہے۔” سب سے پہلے توہمارے دین کے کے دوکلمات ِ حسنہ ہمیشہ میرے پیشِ نظررہے۔’دنیاکی سب سے بڑی نعمت نیک بیوی ہے اورمیاں بیوی ایک دوسرے کالباس ہیں۔’ دنیاکے کسی بھی لٹریچر میںمذہبی یاسیکولر،ایسی جامع اورخوبصورت نصیحتیں نہیں مل پائیں گی۔
ان کی روح تک اگرہم پہنچ کرعمل پیراہوجائیں توگھرجنت،وگرنہ دوزخ بقدرِعمل۔ایک اجنبی شخصیت یعنی بیوی ،زندگی کے سب سے بڑے معاہدے پردستخط کرکے خاوندکے گھر میں قدم رکھتی ہے تونئے رشتوں،نئے ماحول، بلکہ خاوندبیوی کابھی قریب ترین جسمانی اورذہنی رشتہ۔آخرکچھ وقت توچاہئے اسے سمجھنے اورعادی ہونے کے لیے۔ اب یہاں پرکمپرومائزیامصالحت، دونوں طرف سے سب مسئلوں کاحل ہے۔آئیڈیل صرف شاعری اورافسانوی باتیں ہیں۔لہٰذاکسی ایک کواگر دوسرے کی کوئی چیزبری لگے تووہ اس کی اچھی چیزیں یادکرکے خوش ہوجائے۔انشااللہ مزیدخوشیوکاراستہ کھل جائے گا۔
شروع میں خاوند کوبیوی کے ماں باپ کے گھرجانے پرسخت پابندیاں نہیں لگانی چاہئیں۔ایک اہم بات جواب آہستہ آہستہ ختم ہونے کوہے کہ دونوں گھروں کے بزرگ وہ مالِ غنیمت ہیں جن کاکوئی نعم البدل نہیں اوران کوخوش کرنامشکل بھی نہیں۔ان کوتھوڑا وقت دیناان کی سب سے اہم ضرورت ہے اوراگران کی کچھ باتیں/عادتیں ناگواربھی ہوں توان کوبرداشت کرنا اتنی بڑی قربانی نہیں۔ان کی معمولی سی خدمت ان کادل جیتنے کے لیے کافی ہے۔ان سے گھرسے باہرجاتے ہوئے بتادینایاسرسری سی اجازت لینا،ان کوخوشیوں سے مالامال کردے گااور وہ دعاؤ ںکے ساتھ آپ پرسب کچھ نچھاورکردیں گے۔”
خواجہ صاحب نے عملی زندگی کاآغازآبائی شہرسیالکوٹ کے علامہ اقبال کالج سے بحیثیت انگریزی لیکچرارکیا۔اس کالج کے پرنسپل تحریک ِ پاکستان کے دوران ‘پاکستان کامطلب کیالاالہ الااللہ ترانے کے خالق’ معروف شاعرمحمداصغرسودائی اور وائس پرنسپل پروفیسر محمدیوسف تھے ۔لیکن شعبہ تعلیم کوانہوں نے مستقل پیشہ نہیں بنایا۔اس حوالے سے انہوں نے کیاخوب حقیقت بیانی کی ہے۔”یہ دونوں اساتذہ میرے والدمحترم کے شاگرد اورمیں جناح اسلامیہ کالج میں ان دونوں کے شاگرد۔کالج کاماحول بڑاخوش گواراوردوستانہ تھا ۔زیادہ تراساتذہ نوجوان اورمحنتی تھے مگربشمول میرے ان میں سے کوئی بھی اس پیشے میں مستقل نہیں رہنا چاہتاتھا۔سب ‘اچھے مستقبل’ کی تلاش میں اس سے بھاگناچاہتے تھے۔
ہمارے اکنامکس کے لیکچرارتوپولیس میں اے ایس آئی یاایس آئی کی نوکری ملنے پربھاگ گئے۔میں اگرچہ فطرتاً اس شعبہ کوپسندکرتاتھا،مگرمحلہ داراورخاندان والے’لوجی والدصاحب اسکول ماسٹرتھے اورنذیر صاحب ایناں پڑھ لکھ کے کالج دے۔ایسے ریمارکس کافی تھے کہ مجھے اس پیشہ کوخیربادکہناہوگا۔بات واضح تھی کہ تعلیم کے شعبے میں شعوری طورپراہل لوگ جب مستقل طور پرنہیں آئیں گے،ملک کی تعلیمی بنیادکمزوررہے گی اورجہالت اور جاہلیت کی وجہ سے ملک تاریکیوں میں ڈوبارہے گا۔کسی بھی سطح پرہم نے جوہرقابل کواس پیشہ کے لیے پرکشش نہیں بنایا۔نہ اچھی تنخواہ، نہ ضروری سہولتیں،مراعات، نہ ترقی کے یکساں مواقع اورپھرسب سے بڑھ کرمعاشرہ میں کمتراسٹیٹس۔لہٰذاحقیقی معنوں میں ‘استادکوعزت دو’ جب تک ہمارے تعلیمی نظام کاجزو لاینفک نہیں ہوگاجوہرقابل اس شعبہ میں کشش محسوس نہیں کرے گااور جہالت اورجاہلیت ہمارا مقدربنی رہے گی۔”
تعلیم کبھی ہماری ترجیحات میں شامل نہیں رہی۔اسی لئے تعلیمی معیارروزبروز گرتاجارہاہے۔خواجہ نذیراحمد کی اس حوالے سے تجاویز قابل غور ہیں۔جن پرعمل کیاجاناچاہیے۔”میں کہاں کہاں سے گزرگیا”میں جن اداروں اور شعبوں میں مصنف نے کام کیا۔ان کے بھرپور تجزیہ کیاگیاہے اوربہتری کی تجاویز بھی پیش کی گئی ہیں۔جس سے کتاب کی افادیت میں کئی گنااضافہ ہوگیاہے۔ضرورت ان تجاویز کوپڑھ کران پرعمل کرنے کی ہے۔
خواجہ نذیراحمدنے عملی زندگی کابیشتروقت ریلوے کے محکمے میں گزارا۔اس محکمے نے انہیں ایک پہچان عطاکی۔سی ایس ایس میرٹ پران کا نام ملٹری اکاؤنٹ میں آجاتا، لیکن انہوں نے ریلوے کوترجیح دی۔ریل کے اہم عہدوں پرانہیں کام کرنے کاموقع ملا۔ ریلوے کی مختلف ڈویژنوں میں اسسٹنٹ آفیسرسے ڈویژنل سپرینٹنڈنٹ تک کے عہدوں پررہے۔ریل کے مختلف شعبوں ٹرانسپورٹیشن،کمرشل،پرسنل، اور ایگزیکٹیو،انتظامی پرذمہ داریاں نبھائیں۔ملک کاکونہ کونہ بھی دیکھا اورغیرممالک میں ٹریننگ اورسیرسے بھی فیض یاب ہوئے۔
یکم دسمبر 1972ء میں والٹن ٹریننگ اسکول سے ابتدائی ٹریننگ لی۔اوراتفاق سے اختتام ملازمت بھی بحیثیت ڈائریکٹرجنرل ریلوے اکیڈمی، دس ستمبر2006ء کویہی ہوئی۔اس طویل عرصہ ملازمت میں ریلوے کے اس بنیادی ادارے کی جودرگت دیکھنے کوملی، وہ انتہائی قابل افسوس ہے ۔ اس بڑے ادارے میں اس بڑے ورثہ کی عظیم روایات کوفروغ دینے کے بجائے انھیں روبہ زوال پایا۔اس تمام صورت حال کاانتہائی درد مندی سے انہوں نے اپنی آپ بیتی میں جائزہ لیاہے ،جوچشم کشاہے۔
مصنف کے اس تجزیے کونظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔”والٹن ٹریننگ اسکول جوہمارا وہ بنیادی ادارہ ہے جہاں سے ہرسطح کے لیے ریلوے مین تیارکیے جاتے ہیں۔اگرپیدائش کاعمل ہی ناقص ہو تو اس کوچلانے والے لڑکپن اورجوانی میں کیاجوہردکھائیں گے۔کسی بھی ٹریننگ کے لیے اچھے ٹرینرلازم ہیں،جب آپ کوتربیت دینے والے ،خودبغیرکسی مناسب تربیت کے،اور وہ بھی زیادہ ترلاہوررہنے کے مقصداور سخت فرائض سے بچنے کی خاطر، آپ کے ٹرینر بن جائیںتوہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کاجنازہ تونکلنالازمی ہے۔اسی لیے ہمارے ریلوے میں یہ ہیومن ریسورس ،خودروپودوں کی طرح پھلتے پھولتے ہیں اورحقیقی مستند،تجربہ کارماہرکارکن اورافسروں کی کھیپ تیارہونہیں پاتی۔
ریلوے کے جنرل منیجر،چیئرمین یاوزیر،ماسوائے تقریباتی مواقع کے،والٹن اکیڈمی کارخ نہیں کرتے اورادارے کی اہمیت اوراصل ضروریات پوری کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔چائنیزٹیکنالوجی کی ہمارے دورمیں ابتداہوچکی تھی۔مگروالٹن ٹرینرزکوجنھیں اس صدقہ جاریہ کوجاری رکھناہ،اس فارن ٹریننگ کے مواقع نہیں دیے گئے اور جولوگ ٹریننگ کے لیے چین گئے ان میں سے شایدہی کسی کی پوسٹنگ والٹن میں ہوئی ہو۔”
ٹریننگ کے معیارکاایک عبرت انگیزواقعہ نذیراحمدنے تحریرکیاہے۔” میں ڈی جی والٹن تھاتوانجن ڈرائیورزکوڈیزل انجن ٹریننگ کے لیے کرا چی بھجوایاگیا۔وہ واپس آئے تومیں نے انسٹرکٹرسے کہاکہ ان کا ٹیسٹ لوکہ کیاسیکھ کے آئے ہیں؟ کچھ دیربعدوہ ڈرائیور ،ٹرینرہاتھ باندھے میرے دفترحاضر ہوگئے کہ وہ ٹسٹ نہیں دیں گے کیونکہ وہ رشوت دے کرکامیاب ہوئے ہیں۔میں یہ سن کربے حدحیران ہوگیاکہ ہم ریلوے کی قیمتی ترین مشینری کس قدرنااہل لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں اور کتنے ہی ایسے لوگ قبل ازیں پاس ہوئے ہوں گے جواب تک اس مشینری کی جان سے کھیل رہے ہوں گے۔میں نے اسسٹنٹ مکینکل انجینئرکراچی کومعطل کرادیا،پھربعدمیں کیاہوا۔وہی جوہر انکوائری میں ہوتاہے۔اگرہم مرسیڈیزکارکوٹریکٹرڈرائیورکے حوالے کردیں گے تومنفی نتائج توکسی نہ کسی شکل میں پورے ادارے کوبھگتنے پڑیں گے۔”
اس واقعے کوریلوں کے حادثات کی روشنی میں دیکھیں تواس کی سنگینی میں کئی گنااضافہ ہوجائے گا۔اسی طرح ہمارے ایک تجربہ کارسابق وزیر ریلوے شیخ رشیدتواپنے دور میں ایک ایک ٹرین کے دو،دوحصہ کرکے نئے ناموں سے چلاتے رہے،بلکہ یہاں تک کہ ایک ہی ٹرین کا ایک سے زیادہ اسٹیشنوں پرافتتاح بھی ہوتارہا۔یہ اورکتنے ہی ڈرامے ریلوے کی تباہی کاباعث بنے۔ اس امرکویقینی بنایاجائے کہ مستقبل میں ایسے کام نہ ہوسکیں۔
خواجہ نذیراحمدنے ریلوے کے ایک محنتی اوردیانتدارافسرکی حیثیت سے لگ بھگ بتیس سال کام کیا۔اپنی آپ بیتی میں انہوں نے بے شمار اچھے افسروں کاذکرکیاہے ،جن کے ساتھ انہیں کام کرنے کاموقع ملا۔یہاں یہ سوال پیداہوتاہے کہ بیسیوں محنتی اورایماندارافسربھی اپنے محکمے کو بہتربنانے کے لیے کچھ نہ کرسکے اور نہ ہی والٹن اکیڈمی کی بہتری، معیاری ٹیسٹ،مختلف ناموں سے ٹرینوں کوچلانے جیسے کاموں کو روک سکے اورریلوے قعرمذلت میں گرتاچلاگیا۔اس میں ذمہ داری ان آفیسران پربھی عائدہوتی ہے ،جوہرقسم کے قانونی اورغیرقانونی احکا مات کی تعمیل کرتے رہے۔جیسے وہ لکھتے ہیں۔” المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہی افسران محمدرفیق ڈوگر،اسداللہ، علی عارف،عبدالجبار،نسرین حق اور میں خود تودوسرے محکموں میں جاکراپنی منفردخصوصیات سے انھیں نوازتے رہے مگراپنامحکمہ ان کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھاپایا۔اسی طرح ہم نے حمیدرازی اورزبیرشفیع غوری جیسے افسروں کوضائع کیا۔افسروں کی وفات پرلمبے چوڑے تعزیتی پیغامات اورمرثیہ گوئی اپنی جگہ لیکن کاش ان کی زندگی میں ان کی قدرکی ہوتی۔”
یہ جوہرِقابل کی قدرناشناسی توہمارا قومی المیہ ہے۔لیکن وجیہ الدین پرویز،اسلم انور،اسدسعید،ایس ڈی ملک،لال دین تارڑ،معروف بٹ ،چودھری محمدشریف،اللہ نواز،حضوربخش پاشا،مختاراحمدباجوہ،ظفراللہ قریشی جیسے کئی افسران کاذکرنذیراحمدصاحب نے بہت اچھے الفاظ میں کیاہے، اگران کی غیرمعمولی کارکردگی کے بارے میں بھی کچھ تذکرہ کردیتے توقارئین کوبھی علم ہوتاکہ ریلوے کی بہتری کے لیے کن لوگوں نے کیاکیاکیاہے۔یہ افرادریلوے کے لیے اپنی خداداد صلاحیتوں کے مطابق کیوں فیضیاب نہ کرسکے؟ اس کی وجہ خواجہ صاحب یوں بیان کرتے ہیں۔
” میرے خیال میں ایک بنیادی وجہ تویہ رہی کہ ہم مسلکوں کی طرح بٹے رہے۔سول انجینئر،مکینیکل انجینئر،اورٹریفک،کمرشل افسربن کرایک دوسرے کوبنانے،ہٹانے اورگرانے میں لگے رہے ۔ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے رہے۔ہم نے آڈٹ اینڈاکاؤنٹس سروس ،اورسول سروس سے چیئرمین /سیکریٹری ریلوے بہ خوشی قبول کیے اورن کوپڑھانے،سکھانے بلکہ بہلانے اورپھسلانے میں لگ گئے اور ایک دوسرے کی خامیاں بتاکراپنے نمبربڑھانے اوران کے درباری بننے میں کوشاں رہے اورظلم یہ کیاکہ اپنی سروس(ریلوے) کے بندوں کوناقابل قبول گردانااورایک دوسرے سے لڑکریانیچادکھاکرریلوے کے زوال پذیرہونے میں حصہ ڈالتے رہے۔
مزیدبرآں میجرڈیپار ٹمنٹ تومیجرمائنرڈیپارٹمنٹ بھی اپنی زیادہ اہمیت منواکربڑوں کی دوڑ میں شریک ہوگئے۔ ریلوے بورڈجس کے تحت اب بھی دنیابھرمیں زیادہ ترریل کانظام چل رہاہے،کے اختیارات چھنتے چلے گئے اورہم نے اسے صحیح معنوں میں خودمختاربناکرچلانے کی کوشش ہی نہیں کی۔پھر فوج کے لوگوں کامختلف سطحوں پردخول،محکمہ کے،سوشل سٹرکچرکوتباہ کرنے کے علاوہ اوپرسے نیچے تک فرسٹریشن کاباعث بنتاہے۔ میرٹ اورپروموشن کامجروح ہوناتولازم ہے۔
ظفراللہ قریشی کے حوالے سے ایک سبق آموزواقعہ لکھاہے۔”میں ایک فائل لے کرقریشی صاحب کے دفترمیں حاضر ہوا ۔کچھ افسران ان سے مصروفِ گفتگوتھے۔ماحول کچھ گرم ساتھا۔قریشی صاحب ان سے غصے میں مخاطب ہوئے کہ وہ انکے خلاف سازشیں نہ کریں کیوں کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے۔میں اگراس کرسی پربیٹھاہوں تواپنی طاقت کے بل بوتے پر۔یہ کرسی بہت مضبوط ہے۔میں وہیں اوراسی حالت میں چھوڑ کرواپس اپنے دفترآگیا،مگرمیں ذوالفقارعلی بھٹوکے تقریباً انہی الفاظ کویادکرتااورڈرتاگھرلوٹ آیا۔گھرپہنچنے کے تھوڑی دیر بعدخبرملی کہ انھیں دل کادورہ اسی کرسی پرپڑا اور وہیں فوت ہوگئے۔”
”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” کاچھٹاباب ”یاراں نال بہاراں” ہے۔جس میں خواجہ نذیراحمدنے دوستوں اورزندگی کے مختلف ادوار میں ملنے والی شخصیات کے مختصر اوردلچسپ خاکے تحریر کیے ہیں۔۔آتش فشاں کے پبلشرمنیراحمدمنیران کے بچپن کے دوست ہیں۔ان کے بارے میں لکھتے ہیں۔” منیراحمدمیرے بڑے بھائی کاہم نام۔جوبعدمیںمنیراحمدمنیربن کرشعبہ صحافت کادرخشا ں ستارہ اور پرائڈآف پرفارمنس پاکربابائے قوم قائداعظم پرمنفردانداز میں لکھنے والاایک مستندنام بنا۔
منیرکورسالے اورپرانی کتابیں اکٹھی کرنے کاشوق تھا۔ خود نمائشی سے عاری، اپنے مقصدکی لگن میں مست اورگم سم،منزلیں طے کرتے ہوئے کبھی نوائے وقت،جاوداں، زندگی وغیرہ پھر’آتش فشاں’ کی شکل میں ذہنی خفتہ آتش فشاں پھٹ پڑا اوربڑے بڑے لوگوںکے نہاں خانوں میں سے طویل انٹرویوزکی صورت میں وہ دلچسپ واقعات اوررازاگلوائے جوانہیں کاکام تھا۔منیراحمدمنیرایک سیلف میڈشخص۔کسی بھی صحافتی ورثہ سے خالی،مزاجاً سیدھاسادھا،بناوٹ سے دور ،ٹھیٹھ سیالکوٹی اورپاکستانی،انتہاپسندی کی کسی بھی شکل سے ناآشنا،خیالات میں کھراسچااورسب سے بڑی با ت یاروں کایار۔”
مختصراورکم الفاظ میں منیراحمدمنیرکامرقع پیش کردیا۔ارشدجاویدمحمدایوب، محمدسرور،جاویداقبال کارٹونسٹ،ممتازاحمداور محمدسلیم چھیماجیسے کئی اور دوستوں کے دلچسپ خاکے بھی خواجہ صاحب کی آپ بیتی کی دلچسپی میں اضافہ کرتے ہیں۔مستقبل میں خواجہ صاحب شخصی خاکوں کی کتاب بھی تحریرکرسکتے ہیں۔
کتاب کاساتواں باب”سفرنامے/سیرسپاٹے” ہے۔جس کاموضوع عنوان ہی سے واضح ہے ۔ نذیراحمدصاحب نے امریکا،برطانیہ، کینیڈا،بھارت،سعودی عرب،ترکی،ایران،چین اوردیگرممالک کے سرکاری اورغیرسرکاری سفرکرنے کے مواقع ملے۔ممالک غیرمیں مقیم بچوں سے ملنے کے لیے بھی وہاں گئے۔ حج وعمرہ اورزیارتو ںکاشرف بھی حاصل ہوا۔اس باب میں بیرون ملک ان اسفار کے مشاہدات بڑ ے دلچسپ اورشگفتہ اندازمیں قلم بندکیے ہیں۔
”ٹرانٹوجھیلوں کاشہرہے،لہٰذازیادہ ترتفریح گاہیں جھیل کے کناروں پرآبادہیں۔تاہم وہاں بھی کروناکی فرماروائی نے ان کی رونق کوتہس نہس کررکھاہے۔ریل میوزیم دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ اگرکسی نے ماضی کی یادگارکوزندہ حالت میں ابھی بھی دیکھناہوتووہ آج بھی پاکستان ریلوے کودیکھ لے۔کئی سال قبل وہ ہماری جیسی بوسیدہ ریل کوخیربادکہہ کرماڈرن ریل سسٹم دورمیں داخل ہوچکے ہیں۔ان کی انڈرگراؤنڈریل بھی خوب صورت،تیزرفتار اورآرام دہ ۔سردیوں سے محفوظ یعنی برف باری کی صو رت میں بچنے کے تمام ترانتظامات،ٹکٹوں کاخودکارنظام۔اربن بس سسٹم کے ساتھ بھی منسلک سہولتیں موجود۔
ایک اہم ٹرانسپورٹ جوآپ کوچلتی پھرتی نظرآتی ہے وہ ہے سائیکل۔ایک ماڈرن شہرمیں اس کااستعمال عجوبے سے کم نہیں۔جگہ جگہ ا ن کی حفاظت کے لیے سائیکل اسٹینڈاورلاک کرنے کی سہولتیں میسرہیں۔لڑکے لڑکیاں اپنے بیگ لٹکائے تیزی سے گھومتے پھرتے اپنے کاموں میں مگن۔ورزش کی ورزش،ماحول کی پاکیزگی اورسستی ٹرانسپورٹ۔یہ سوچ ہے جس سے قومیںترقی کرتی ہیںنہ کہ نقالی اوربھیڑ چال سے۔ہمارے ہاں سائیکل کوغریب کی سواری اورکم ترسمجھ کرموٹرسائیکل کوپروموٹ اورمقبول بنایاجارہاہے حالانہ اس کے بہت سے منفی اثرات واضح طور پرنظر آرہے ہیں۔”
ایک اوردلچسپ اقتباس ملاحظہ کریں۔” برسبیل تذکرہ یہ بات بتاتے ہوئے شرم محسوس ہوتی ہے کہ ہم پاکستانی نہ معلوم اپنے ملک کے ایئر پور ٹ پرکس قدرٹھیٹھ بلکہ ڈھیٹ پاکستانی ہوتے ہیں ۔ہرقانون اورڈسپلن سے آزاد۔نہ قطارنہ اپنے کاؤنٹرپرکھڑے ہونا،ہرجگہ توتکار اورشور شرابہ،جبکہ دوسرے ملکوں کے ایئرپورٹ پرپہنچتے ہی باادب باملاحظہ،مہذب اورمتوازن۔قطاربنانے میں بھی اورکاؤنٹرپرپہنچنے سے پہلے ہی گھڑی،بیلٹ،جوتوں اورجیکٹ سے آزاد اورمکمل تواضع کے ساتھ قانون کی پابندی۔اپنے ملک کی سرحدچھوڑتے ہی یہ اچانک مثبت تبدیلی کیوں کر؟کاش نمازپڑھنے سے یاکم ازکم جاننے والے لوگوںمیں ڈسپلن اورقواعدکی پابندی کاشعوربیدارہوتاتویہ دوعملی ختم ہوجاتی۔”
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے دوفکرانگیزپہلوکی نشاندہی کرتے ہوئے خواجہ صاحب لکھتے ہیں۔”خاندانی نظام کی توڑپھوڑ اوراردو زبا ن سے دوری۔مغربی تہذیب یادجالی اقداراس کے درپے ہیں۔اگرنکاح سے وجودمیں آنے والے رشتے ختم ہوگئے توسمجھیں کہ اخلاقی اقداراور توازن قائم رکھنے والاسب سے بڑا محرک ختم ہوگیا۔اس نظام کوبچانااورقائم رکھنا بہت ضروری ہے۔مغربی معاشرے کی بے حیائی اور فحاشی روکنے اورمستقبل میں مکمل جنسی انارکی سے بچنے کے لیے سرتوڑ کوششیں ہونی چاہئیں۔اسی طرح زبان بھی اپنی تہذیب اوراقدار کی پہچان ہوتی ہے۔پاکستانی بچے اگرٹوٹی پھوٹی اردوبول اورسمجھ لیتے ہیں تویہ بھی غنیمت مگرکچھ خاندانوں میں بچے اس سے بالکل نابلد۔اس کے برعکس سکھ قوم اس بارے میں قطعی طور پرحساس ہے اورانھوںنے توکینیڈا میں اسے سرکاری زبان کے طور پربھی منوایا۔ہمیں بھی اس بار ے میںضرورحساس ہوناچاہئے اوربولنے،سمجھنے اورپڑھنے لکھنے کے لیے ذاتی اوراجتماعی کوششیں کرنی چاہئیںتاکہ ہماری ذاتی اورثقافتی تہذ یبی شناخت برقرار رہے۔”
سفرنامہ حجازمقدس کوخواجہ نذیراحمدنے ”سفرِہدایت” کانام دیاہے۔اس بارے میں ان کاکہناہے ۔” سیرسپاٹوں کے بیانیہ تلے سفرحجازکولانا کچھ بے ادبی محسوس ہوتی ہے کیوںکہ سفرِ حج ہویاعمرہ یازیاراتِ مقدسہ۔یہ ہوتے ہی سفرِہدایت ہیں جن میں رب ِ جلیل کی طرف سے برکتیں ہی برکتیں اورعظمتیں ہی عظمتیں عطاہونالازم۔ مجھے اورمیری فیملی کواللہ پاک اوراس کے حبیبۖ نے ایک بارنہیں ،کئی بارعمرہ کی سعادت سے نوازا۔حرم ِ پاک،مسجدنبوی اورروضہ رسول معظمۖ کی زیارات کابارہا موقع فراہم کیا۔کاش اس سعادتِ عظیم کوالفاظ میں بتا سکتا۔’سفرنامہ حجاز’ کوانتہائی محتاط اورمختصرالفاظ میں آپ کی نظرکروں گاتاکہ محبت کاپیمانہ ادب چھلک نہ پڑے۔مسجدنبوی میں داکلہ اور روضہ مبارک تک ایک ایک قدم۔ ایک تڑپ تھی۔
بارگاہِ رسالت میں حاضری کا،یقین نہیں آتاتھاکہ میں واقعتا اس درپرپہنچ گیاہوں،جہاں بے طلب ہی ملتاہے اوراسی بات کاثبوت ہے کہ میں یہاںپرہوں،لبیک یارسول اللہ،لبیک یاحبیب اللہ،لبیک یاخاتم النبین،لبیک یاشفیع المذنبین اورلبیک یارحمتہ اللعالمین۔حاضری پائی،خوش نصیب ہوا۔حج 2006ء میں نصیب ہوا۔ریٹائرمنٹ کے فوراً بعد۔تاہم حج سے قبل دودفعہ بیگم اوربعدازاں بچوںکے ساتھ اورحض کے بعدشیخ حامدسعیدکے ساتھ عمرہ میں بھی رحمتوں اوربرکتوںکانزول رہا۔”
ایک عربین افطاری میں قارئین کومصنف نے شریک کیاہے۔” احمدکے دوست فیصل کے گھرپرافطاری۔سعودی کلچرکامنفردتجربہ حاصل ہوا۔ گھر پرخاندان کے چھوٹے بڑے لوگوں کاجمِ غفیر، اورپرتپاک خیرمقدم۔آخر چاربیویوں کے شیخ کاخاندان،آپ خوداندازہ لگاسکتے ہیں۔ ماشااللہ سولہ بچے ہیں،شیخ صاحب کے۔پٹھان بھائیوں کی طرف فرشی نشست،درمیان میںدسترخوان اوردیوارکے ساتھ ،سائیڈوالے سخت تکیے،بازواورسائیڈکے ٹیک لگانے کے لیے۔ادب آداب اپنی جگہ تاہم ایک صف میں کھڑے ہوگئے محمودوایاز۔ افطاری کاپہلاحصہ ،کھجوروںکی مختلف اقسام کے ساتھ عربی کافی۔گاڑھاساگرم سوپ جوتھوڑا تھوڑا کرکے پیالیوں میں دیاجاتاہے اورحاضرین مزے لے کر پیتے ہیں ہم بھی بے مزہ نہیں ہوئے۔اس کے ساتھ سموسے،تلی ہوئی چیزیں،پھل،جوس،رول اورکھجورکی بنی مختلف چیزیں۔وقفہ برائے نماز ، واپس پہنچے تودسترخوان کھانوں سے بھرپورطریق سے سجاتھا۔زیادہ ترعربی ڈشیں۔مٹن سوپ،جوپیالے بھربھرکر،میرے انکارکے باوجود ،مٹن شوربہ سالن،سب سے نمایاں ڈش،ایک معصوم دنبے کی سری جودوٹکڑوںمیں روسٹ کی گئی تھی جلدسمیت۔یہ تومیرے ساتھ بیٹھے شرکا نے بھرپورمزے سے کھائی مگران کے اصرار کے باوجودمیں ہاتھ بڑھانے کی جرات نہ کرسکا۔”
”میں کہاں کہاں سے گزرگیا” کاآخری باب”شامِ زندگی۔ریٹائرمنٹ۔آخری” ہے۔جس میں خواجہ نذیراحمدنے ریٹائرمنٹ کے بعدکی مصروفیات کاذکرکیاہے۔مجموعی طور پرخواجہ صاحب کی آپ بیتی انتہائی دلچسپ اورقابلِ مطالعہ کتاب ہے۔جس میں مصنف کے مشاہدات کے ساتھ بہتری اوراصلاحات کی قابلِ عمل تجاویز،پیش کی گئی ہیں۔کتاب کے قاری کوآپ بیتی،جگ بیتی، خاکہ نگاری،سفرنامہ اورحج و عمرہ کے بیان کالطف آئے گا۔ایک اور بہترین کتاب شائع کرنے پرمنیراحمدمنیرکوبھرپورمبارک باد۔