لتامنگیشکرکی تلاش میں،برصغیرکی عظیم گلوکارہ کے بارے میں بے مثال کتاب
تحریر:نعیم الرحمٰن
لتامنگیشکر چھ فروری 2022ء کی صبح اس جہانِ فانی کوچھوڑگئیں۔ جس کے ساتھ برصغیر میں گلوکاری کا سنہری دورختم ہوگیا۔لتابلاشبہ برصغیرکی عظیم ترین گلوکارہ تھیں۔جنہوں نے سات دہائیوں تک پرستاروں کے دلوں پرراج کیا اور ان کے گائے ہوئے چھتیس زبانوں میں تیس ہزار سے زائدگانے انہیں ہمیشہ زندہ رکھیں گے۔لتاکے بارے میں جاننے کی فن کی شیدائیوں کوہمیشہ جستجورہی ہے لیکن وہ بہت کم ذاتی زندگی کے بارے میں بات کرتی تھیں۔اسی لیے ان کی بانوے سالہ زندگی کے بارے میں بہت کم کتب لکھی گئیں۔ان کی سب سے عمدہ اورمستندسوانح ہریش بھیمانی نے ”In Seach Of Lata Mangeshkar” کے نام سے تحریرکی۔اس کتاب کاترجمہ لیفٹینٹ کرنل غلام جیلانی خان نے کیا۔
یہ بھی دیکھئے:
لتامنگیشکرکی عالمگیرشہرت کے باوجود ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں معلومات اوران کی باضابطہ سوانح بہت کم لکھی گئی ہیں۔تاہم عظیم لتا کی زندگی میں شائع ہونے والی ہریش بھیمانی کی کتاب”لتامنگیشکرکی تلاش میں” کوان کی مستندسوانح قرار دیاجاتاہے۔ہریش بھیمانی دنیا کے تمام براعظموں میں دوعشروں سے زائد لتاکے کنسرٹس کے کمپیئرکے طور پران کے ہمراہ جاتے رہے۔ان دوروں کے دوران انہیں لتا سے بات چیت میں ان کی نجی زندگی کے کئی پوشیدہ اور اہم گوشوں میں دور اوردیرتک جھانکنے کاموقع ملا۔وہ لتا کوبتائے بغیرکہ وہ ان کی سوانح لکھ رہے ہیں،اس ذاتی گفتگوکی تفاصیل ڈائری کی صورت میں قلمبند کرتے رہے اوریہی تفاصیل”لتامنگیشکرکی تلاش میں” کی صورت میں منظرعام پرآئیں۔مختلف ممالک اورشہروں میں صرف گیارہ کنسرٹس کایہ احوال لتاکی سوانح کا پس منظراور پیش منظرفراہم کرتاہے اورقاری کو لتاکی امارت سے غربت اورپھرفاقہ زدگی سے ثروت واقبال کی بلندیوں پرپہنچنے کی داستان بیان کرتاہے۔اسی دوران مصنف نے ان سے کئی ذاتی سوالات بھی کیے، مثلاً انہوں نے شادی کیوں نہیں کی؟ کیاکسی نے ان سے عشق کیا؟ ان کی کرشماتی آوازکی اصل کیاہے؟ کن کن اساتذہ فن سے انہوں نے اکتساب فیض کیا؟ ان کے تعصبات اورکئی فنکاروں سے لڑائی جھگڑوں کے اسباب کیاتھے؟کیاکبھی ان کومامتا کے دردکااور اس کی کسک بھی محسوس ہوئی؟یہ اوران جیسے کئی اورسوالوں کے جوکافی اورشافی جواب لتانے دیے وہ واقعی پڑھنے کے قابل ہیں۔مصنف انسانی فطرت کاگہرانباض ہے۔اس کی تحریرمیں ایجازواختصارکاعالم یہ ہے کہ وہ کسی خاص منظریاکیفیت کوبیان کرنے کے لیے جس لفظ کاانتخاب کرتاہے وہ پوری جامعیت کے ساتھ ان کے سامنے دست بستہ کھڑا نظرآتاہے۔ اسلوب تحریرمیں کہیں کوئی جھول ،لغز ش یاتہذیب سے گرا ہوامحاورہ،ضرب المثل یاروزمرہ دکھائی نہیں دیتا۔بعض اوقات ایک مختصرجملہ،بلکہ ایک دولفظ ایک طویل داستان کے شارح اورترجمان کہے جاسکتے ہیں۔ہریش بھیمانی جب بھی کسی شہرمیں جاتاہے، تو وہاں کی جغرافیائی،تاریخی ،ثقافتی،تمدنی اورانسانی اقدار کی عکاسی بھی ساتھ ساتھ کرتاجاتاہے،گویااس نے سفرنامے اورسوانح حیات کوآپس میں شیروشکرکردیاہے۔
ہریش بھیمانی ایجوکیشن کے مضمون میں ایم بی اے ہیں۔انہوںبطور مصنف،براڈکاسٹر، صدابندی اورصداکاری میں بین الاقوامی شہرت حاصل کی جہاں آج تک کوئی کوئی اورفنکار نہ پہنچ سکا۔’مہابھارت ‘نامی رزمیے نے جو’سمے’ کے نام سے نشرہوا،ان کی شہرت گھرگھر پھیلا دی ، وہ ایسے براڈکاسٹرہیں جنہوں نے ان گنت بیرون ملک سفرکیے اورساری دنیامیںتقریباً تمام بڑے بھارتی فنکاروں کے کنسرٹس کی کمپیئرنگ کی ۔ وہ دنیاکے واحدبراڈکاسٹرہیں جنہیں ہزماسٹروائس کی طرف سے طلائی ڈسک بطور ایوارڈمل چکی ہے۔بہترین انٹرویو کرنے والوں میں ان کا نام اورمقام کسی تعارف کامحتاج نہیں۔لتاکی تلاش ویسے تولاکھوں افرادکے دماغوںمیں اور لتاکے ہزارہا یادگارنغمات کے جلومیں شروع ہو ئی ہوگی،لیکن اس موضوع پرلتاکی گمبھیرخاموشی اورزبان بندی ان کی شخصیت کوسمجھنے کی راہ میں حائل رہی۔مصنف کی یہ ‘تلاش’ ان کے اس پروفیشنل ربط وارتباط اوررفاقت کاحاصل ہے جوچودہ برس تک لتاکے کنسرٹس کی صورت میں ان کے حصے میں آئی۔یہ رفاقت اکیس ممالک، ترپن شہروں اورایک سوتئیس پروگراموں تک محیط رہی۔کتاب کاآغاز ایک سفری ڈائری کے طور پرہوا اورپھرجلد ہی ایک سوانح عمری میں ڈھل گیا۔مصنف نے مختلف موضوعات کوبڑے ماہرانہ اورتجزیاتی نقطہ نظرسے بھی دیکھاہے اوربڑے مشفقانہ اورہمدردانہ زاویہ نگاہ سے بھی پرکھاہے۔ایک ایسازاویہ نگاہ اورایک ایسی قربت جوکسی دوسرے کومیسرنہ ہوسکی۔یہی وجہ ہے کہ کتاب کوپڑھتے ہوئے لتاکی آس پاس موجودگی اوران کی شخصیت کی گرم جوشی کااحساس ہونے لگتاہے۔ہریش بھیمانی کواعتراف ہے کہ ”میری لتاجی کے ساتھ رفاقت ایک مسلسل اورطویل انکشافاتی عمل ہے جومجھے مسحورکرتارہتاہے۔” یہ کتاب ایک ایسی دستاویز بھی ہے جوآنے والی نسلوں کے لیے معلومات کا خزانہ ہوگی،ہندوستانی سوانح نگاری کے باب میں ایک بے مثال اضافہ شمارہوگی اورموسیقی کی نابغہ روزگار شخصیت کوسمجھنے میں بہت معاون ہوگی۔
کتاب کے مترجم لیفٹیننٹ کرنل غلام جیلانی خان نے پاکستان آرمی کی ایجوکیشن کورمیں کمیشن حاصل کیا۔آرمی کے پروفیشنل میگزین” پاکستان آرمی جنرل” اردوکے بانی ایڈیٹر اوربارہ برس تک اس کی ادارت کے اضافی اوراعزازی فرائض انجام دیے۔ملٹری تاریخ اور دفاعی موضوعات ومضامین کی اردومیں نشرواشاعت کے زبردست مبلغ بھی رہے۔انہوں نے ”انفنٹری ۔ملکہ جنگ”،”ایس ایس جی ،تاریخ کے آئینے میں”،” این ایل جی ،تاریخ کے آئینے میں” بلوچ رجمنٹ، ایک مختصرتاریخ”،”جنگ عظیم دوم کے عظیم کمانڈر”،”شمشیروسناں اول” اورمیجرجنرل جے ایف سی فلرکی تصنیف ”کنڈکٹ آف وار” لیفٹننٹ کرنل پاپسکی کی ”پرائیویٹ آرمی”، فیلڈمارشل ولیم سلم کی ”شکست سے فتح تک” جنرل کے ایم عارف کی ”ضیاالحق کے ہمراہ” اور ”خاکی سائے” میجرجنرل ابوبکرعثمان مٹھاکی” بمبئی سے جی ایچ کیو تک” کرنل الجرنن درانڈکی ”سرحدوں کی تلاش” کے تراجم کیے۔مصنف نے عسکری موضوعات پرہی قلم اٹھایا اورانہیں کے تراجم کیے۔ ”لتا منگیشکر کی تلاش میں”عسکری موضوعات سے یکسرمختلف کتاب ہے جس کاانہوں نے ترجمہ کیا۔اسکی کہانی بھی دلچسپ اورجذباتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے:
پندرہ فروری: آج اردو کے سب سے بڑے شاعر غالب کی برسی ہے
ریڈیو کا عالمی دن اور ہمارا ریڈیو
مرد عورت ، ذہانت و معاشرتی ترقی
مصنف نے بیان کیا۔” بہت سال پہلے کسی دوست نے مجھے یہ کتاب دی تھی۔وہ کسی نجی کام سے بھارت گئے تھے اور وہاں بک اسٹال پرجب یہ تصنیف نظرپڑی تومیرے لیے خریدلی۔ان کو پتہ تھاکہ مجھے بھارتی گلوکاروں میں لتامنگیشکر،محمدرفیع اور طلعت محمود بہت پسندہیں ۔کتاب میں نے جستہ جستہ پڑھی اورپھروہ گم ہوگئی۔تیس جون دوہزاردس کومیری اہلیہ کاانتقال ہوگیا۔ریڑھ کی ہڈی پراچانک چوٹ لگنے کے باعث وہ سات آٹھ برس تک صاحب فراش رہیں۔اپنی وفات سے دس بارہ روزپہلے انہوں نے کہا”جیلانی صاحب !لتاکاوہ گاناسناؤ جومجھے بہت پسندہے”۔فلم آہ کاگانا’یہ رات کی تنہائیاں ایسے میں تیراغم” ان کو بہت پسندتھا۔وہ جب بستر پرلیٹے لیٹے تنگ آجاتی تھیں تو میں ان کولانگ ڈرائیو پرلے جاتااورگاڑی میں وہ کیسٹ آن کردیتاجس پرصرف یہی گیت ریکارڈکیاہواتھا۔اس روزبھی میں نے ٹیپ ریکارڈ پروہی کیسٹ آن کردی۔وہ سنتی رہیں اورروتی رہیں۔میں بڑا حیران ہواکہ آج تک اگرچہ بارہا،انہوں نے یہ گاناسنااورخود بھی گنگنایا۔لیکن رونے کی دھونے کی نوبت نہیں آئی تھی۔گاناختم ہواتو وہ معاً بولیں’کسی نے آپ کولتاکی سوانح عمری بھی بھیجی تھی اورآپ کاکہنا تھا کہ یہ بہت اچھی اورمعلوماتی کوشش ہے۔”میں نے کہا،ہاں!لیکن پتہ نہیں،وہ کتاب پنڈی سے لاہورشفٹ ہوتے ہوئے کہیں آگے پیچھے ہوگئی” بولیں’وہ اگرکہیں مل جائے تواس کااردو ترجمہ مجھے سنانا۔لتاکے بعض گیت میری بیماری کی کیفیت کے ترجمان ہیں۔’مرحومہ کی وفات کے چارپانچ ماہ بعدایک دن اتفاقاً یہ کتاب مل گئی اوران کی وہ آرزو بھی نگاہوں تلے پھیل گئی کہ اس کااردوترجمہ مجھے سنانا۔ یہ ترجمہ میں نے انہی کی تکمیل تمناکے لیے کیاہے لیکن اب اس کا ایک لفظ بھی ان کاسنانہیں سکتا۔”
”لتامنگیشکرکی تلاش میں” کاترجمہ دوہزار بارہ میں دوست پبلی کیشنزاسلام آباد نے بڑی خوبصورتی ،بہترین کتابت اورجلدبندی کے ساتھ شائع کیاتھا۔تصاویرسے مزین پانچ سواٹھائیس صفحات کی اس کتاب کی قیمت ساڑھے سات سوروپے ہے۔جولتاکے پرستاروں کے لیے بہت معمولی ہے۔ کتاب شائع ہوئے دس سال ہوگئے اوراب یہ مارکیٹ میں دستیاب نہیں۔دوست پبلی کیشنز سے درخواست ہے کہ لتاکی اس مستندسوانح کانیاایڈیشن شائع کریں۔
امجدپرویز نے ”لتامنگیشکرکی تلاش میں” کے تعارف میں لکھاہے۔” ماسٹرغلام حیدر،کھیم چندپرکاش،ایس ڈی برمن،نوشادعلی، انیل بسواس ، سلیل چودھری،شنکرجے کشن، خیام، جے دیو اور1960ء کے عشرے کے دیگرمنجھے ہوئے موسیقاروں کی دھنیں گاگاکرجومیلوڈی اور بعض اوقات کلاسیکل راگوں پرمبنی ہوتی تھی،لتامنگیشکرکی آواز میں نکھار پیدا ہوتا چلاگیا۔اگرایک طرف فلم ہم دونوں کابھجن” اللہ تیرونام، ایشور تیرونام” ہمیشہ زندہ رہنے والی کمپوزیشن بنی،تو دوسری طرف فلم گائیڈکے گیت”آج پھر جینے کی تمناہے” نے لتاکی آوازمیں ایک نیاچنچل پندریافت کیا۔اب وہ دورآیاجب لتانے کلیان جی آنندجی کافلم سرسوتی چندرکاگیت”چھوڑدیں ساری دنیاکسی کے لیے ” اورموسیقارلکشمی کانت پیارے لال کاگیت”ستیم ،شوم ،سندرم اورانہی کافلم میرے ہمدم میرے دوست کے لیے گایاہوا”چلوسجناجہاں تک گھٹا چلے” گاکراپنی آوازکے سریلے پیچ وخم اورسروں کے پھیلاؤ کاجادوجگاناشروع کیا۔موسیقارمدن موہن کی وہ دھنیںجوکسی فلم میں استعمال نہیں کی گئی تھیں،فلم ویرزارا کے لیے لتاجی کوگواکربہت عمدہ کام کیا گیاہے۔مثلاً وہ گیت” تیرے لیے ہم ہی جئے” وغیرہ۔یہ کتاب ”لتامنگیشکرکی تلاش میں” لتاکے کنسرٹس پر مشتمل ہے، جن میں ہریش خود لتاکے ہمراہ بطورکمپیئرموجودتھے ،مصنف کوپڑھ کرپہلی بات جوقارئین کومعلوم ہوتی ہے کہ لتااپنے کنسرٹس پرروانگی سے قبل کئی کئی ریہرسلیں کیاکرتی تھی۔مصنف نے محسوس کیاکہ وہ جس طرح گفتگوکرتی ہیں،اسی آواز میں گاتی بھی ہیں۔یہ خوبی سب گلوکاروں میں نہیں ۔مثلاً مہدی حسن کی آوازگفتگوکرتے ہوئے بھاری ہے،جبکہ گاتے ہوئے بہت ملائم ہے ۔ایک اورخصوصیت جوان سفرناموں سے واضح ہوتی ہے،وہ لتاکی حسِ مزاح ہے جووہ اپنے برجستہ جملوںسے ظاہرکرتی ہیں۔مصنف نے وہ واقعات بھی بیان کیے ہیں،جن کے ہاتھوں مجبور ہوکرلتاکوتھیٹراورپھرفلموں میں اداکاری کرناپڑی، جس کی طرف ان کارحجان بالکل نہیں تھا۔”
”اظہارتشکر” میں ہریش بھیمانی لکھتے ہیں۔”اس کتاب کوتحریرکرتے ہوئے مجھے سات برس سے زیادہ عرصہ لگا۔اس دوران مجھ پریہ عاجزا نہ صداقت آشکارہوئی کہ ملٹی میڈیاکے میدان میں کوئی بڑی کمرشل کامیابی حاصل کرنا ایک بات ہوتی ہے جبکہ آنے والی نسلوں کے لیے کوئی یادگارکام کرجانا،زندگی میں ایک بار ہی نصیب ہوتاہے۔اگرمیں اس بات پرخداکاشکراداکرنا چاہوں کہ اس نے مجھے لتامنگیشکرکے ساتھ ایک طویل اورثمرآورروابط کاموقع عطاکیاتومیں شاید براہ راست ایسانہ کرسکوں۔ میں ان بے ساختہ لمحات کے علاوہ اورکس کاشکریہ اداکر سکتاہوں کہ جن کے دوران لتامنگیشکرنے میرے ساتھ بہت سے موضوعات پرکھل کرباتیں کیں اورایساکرتے ہوئے کسی ہچکچاہٹ اور رو رعایت کوملحوظِ خاطرنہ رکھا؟ سالہاسال تک ہم دونوں اس حقیقت سے بے خبررہے کہ جن الفاظ کاہم باہمی تبادلہ دورانِ گفتگوکررہے ہیں، وہ کبھی میرے کانوں سے نکل کر(اس کتاب کی شکل میں) دوردور تک پھیل جائیں گے۔مجھے پختہ یقین ہے کہ میں نے ان سے جوانٹرویو کیے، اگروہ پہلے سے سوچ بچاراورپلاننگ کرنے کے بعدکیے جاتے تولتااس برجستگی اوربے ساختہ پن سے ان سوالوں کے جواب نہ دیتیں جوانہوں نے دیے۔”
لتاجی کی پہلی ریہرسل پرہریش بھیمانی نے ان سے کہاکہ ”لتاجی !میں چاہوں گاکہ آپ کی تمام ریہرسلوں میں شرکت کروں۔ وہ جواب دینے سے پہلے چندثانیوں کے لیے رکیں اورکہا: مجھے خوشی ہے کہ آپ نے خودہی یہ تجویزدے دی۔یہی شرائط توتھیں جومیں خودآپ کے سامنے رکھناچاہتی تھی۔” انہوں نے گویا سب کچھ مجھ پرچھوڑدیا۔اب میرے لیے یہ ناممکن تھاکہ میں اس مشکل کاکماحقہ ادراک کرسکوں جو ”لتاکی تلاش میں” نکلتے ہوئے میرے اس پہلے سفرمیں درپیش تھی۔میرے ذہن میں یہ خیال بھی آیاکہ مجھے ان دوچارغزلوں کی ازبس ضرو رت پڑے گی جوموسیقاراعظم نوشاد نے چند روز پہلے میرے ریڈیوانٹرویو میں لتاکی تعریف میں سنائی تھیں۔میں نے نوشاد صاحب کانمبر ڈائل کیا ،یہ میری خوش قسمتی تھی کہ وہ فون پرمل گئے اورمیں نے ان سے یہ غزلیں طلب کرلیں۔نوشاد صاحب کے منہ سے فوراً ہی آبداراشعا رکی آبشارپھوٹنے لگی۔
راہوں میں ترے نغمے محفل میں صد ا تیری۔۔کرتی ہے سبھی دنیا تعریف لتا تیری
دیوانے ترے فن کے انساں توپھرانساں ہیں۔۔ حد یہ ہے کہ سنتا ہے آواز خداتیری
تجھے نغموں کی جان اہلِ نظریوں ہی نہیں کہتے۔۔ ترے گیتوں کودل کا ہمسفریوں ہی نہیں کہتے
سنی سب نے محبت کی زباں آواز میں تیری۔۔ دھڑکتا ہے دلِ ہندوستاں آواز میں تیری
ہریش بھیمانی لکھتے ہیں۔ ”جب میں نوشاد صاحب کے یہ اشعارنوٹ کررہاتھا تومجھے کچھ خبر نہ تھی کہ جب میں ان اشعارکوبیرون ملک سامعین کے سامنے پڑھوں گاتو’ واہ واہ’ اور ‘سبحان اللہ’ کی صداؤںسے ساری محفل گونج اٹھے گی اورسامعین کی تعریف وتحسین کی صداؤں کے درمیان لتاجی اگلاگیت سنانے سے پہلے اپنی عینک کے شیشوں کے اوپر سے جھانکتے ہوئے پوچھیں گی۔”خداکے لیے مجھ کوبھی بتاؤیہ سب کچھ آپ نے کہاں سے لیاہے؟”
اوران سب سے ہریش بھیمانی کی اپنی کام سے لگن بھی آشکارہوتی ہے۔جہازمیںلتاجی اپنی بزنس کلاس نشست چھوڑ کرمصنف کے پاس آگئیں۔انہوں نے لکھا۔” میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا: نمستے لتاجی!۔ انہوں نے ہمیشہ کی طرح اپنے ہاتھوں کواوپر اٹھاتے ہوئے جوڑا،آگے کوجنبش دیتے ہوئے تھوڑی سی گردن جھکائی اورچہرے اورآنکھوں میں اپنائیت کی گرمائش بھرتے ہوئے کہا: ”نمشکار” ان کے اس نمشکارمیں جوعجزاور انکساری پائی جاتی ہے اس نے ہمیشہ ہی مجھے پریشان رکھاہے۔ان کے اس ایک لفظ میں خلوص کی بے پناہ مٹھاس اورتپش کی بے انداز فراوانی ہوتی ہے۔میراتجزیہ ہے کہ ان کانمستے کے جواب میں مبالغہ آمیزی کی حدوں کوچھوتاہوا انکساری کایہ مظہرخدائے بزرگ وبرتر کے حضوران کی بے پناہ کامیابیوں پراپنے عجزکااعتراف ہے۔ بہت برس بعدجب میں نے ان سے اپنی اس قیاس آرائی کااظہارکیاتوان کاردعمل یہ سوالیہ جملہ تھا۔آپ نے کیسے یہ اندازہ لگایا؟”
اس طرح چھوٹے چھوٹے واقعات کے ذریعے مصنف لتاکی فطرت اورسادگی کااظہارکرتے رہتے ہیں۔پہلے شومیں ہریش بھیمانی نے کہا۔”جب بھی لتاکے کسی شوکااعلان ہوتاہے،ان کے پرستارمہنگی سے مہنگی ٹکٹ خریدکردیوانہ وارشومیں شرکت کرتے ہیں۔لتاکی شخصیت ایسی نہیں کہ اپنی گذشتہ کامیابیوں کی دھوپ سینکتی رہے اوران کی چھاؤں میں سستاتی رہے، ان کامیابیوںکی دھوپ اورچھاؤںکہ جنہیں آج پینتالیس برس ہوچکے ہیں۔(لتاکی پیدائش1929ء کی ہے انہوں نے چھ برس کی عمرمیں یعنی 1935 ء میں پہلاگاناگایاتھا،اور یہ کنسرٹ 1980ء میں منعقد ہورہاتھا اس لیے مصنف نے ان کی کامیابی کوپینتالیس برس کاکہا۔” یوں مصنف نے لتاکے فنی زندگی کے ہر پہلوپربھرپور کام کیااوراسی اعتبارسے وہ ان کے شوز کی کمپیئرنگ کرتے تھے۔
ابتدامیں مصنف کوتوقع تھی کہ لتابھی ان کے ہوم ورک کوجاننے کے لیے بے تاب ہوں گی۔لیکن وہ اپنے ہوم ورک کے لیے زیادہ بے تاب تھیں۔جیسے کوئی طالب علم پہلی بار بورڈکے امتحان میں شریک ہورہاہو۔لتاجب کسی کوکوئی ذمہ داری سونپ دیتی ہیں توپھراس کی نوک پلک کی درستی کی بھی اسے کھلی آزادی دیتی ہیں۔ان کے لیے اہم تربات’نتیجہ خیزی” ہے۔ لیکن اگرکوئی شخص اس کارکردگی میں ان کی توقعات پر پورا نہیں اترتاتووہ اسے دوسراچانس دینے کی عادی نہیں۔
لتامنگیشکرکتنی پرفیکشنسٹ تھیں۔اس کااندازہ اس واقعے سے کریں۔پہلے شوسے قبل لتانے مصنف سے کہا، ہریش جی !آپ نے بہت اچھا تعارف لکھاہے لیکن میں؟ اپنی کارکردگی سے مطمئن نہیں ہوں۔میں نے آپ کاتحریرکردہ تعارف ریکارڈ توکرلیاہے لیکن آپ ذراسنیں اورپھر مجھے بتائیں کہ کیایہ ریکارڈنگ صحیح ہوئی ہے؟۔میں نے نوٹ کیاکہ ان کے تعارفی کلمات کے درمیان وقفوںکادورانیہ نسبتاً زیادہ تھا اور ان کی آواز میں سانس لینے کی آواز بھی سنائی دے رہی تھی۔میں نے سوچاانہوں نے ہزاروں گیت گائے ہیں لیکن ان میں سانس لینے کی آوازکی کوئی نہایت مدھم سی لہربھی کانوں تک نہیں پہنچتی۔ لیکن ان دوپیراگرافوں میں یہ لہر نمایاں تھی۔یہ صرف ایک منٹ کی ریکارڈنگ تھی۔ لتانے کہا۔یہ سب کچھ مجھے عجیب سالگتاہے اورپسندنہیں۔کیاآپ مجھے بتائیں کہ مائیک میں بولناکس طرح ہے؟ اب مجھے عجیب سالگ رہا تھاکہ میں لتاکویہ درس دے سکتاتھاکہ مائیک میں کس طرح بولناچاہئے۔لیکن جس چیز نے مجھے چاروں شانے چت گرادیاوہ ان کی حدسے بڑھی ہوئی سادگی تھی۔میں سوچ سوچ کرحیران تھاکہ یہ خاتون جس کافلم انڈسٹری کے اس شعبے میں کوئی مقابلہ ہی نہیں وہ اپنے اسٹیٹس اور مرتبہ بلندسے کتنی بے خبرہے۔کیایہ تجاہل ِ عارفانہ تھا۔میں نے اپناتحریرکردہ کاغذ منگوایاا ورٹیپ آن کردیا۔اسے سننے کے بعدمیں نے پانچ مختلف نکات کی نشاندہی کی۔مثلاً وقفہ کہاں لیناہے،کہاں دوبارہ سانس اندرکھینچناہے،کہاں سانس لیے بغیرمختصر وقفہ کرناہے،نیافقرہ شروع کرنے سے پہلے آوازکی لے کوکیسے اوپراٹھانااورفقرے کے خاتمے پراس لے کوآہستہ آہستہ کم کیسے کرناہے۔لتانے یہ سب سنااوردوبارہ ریکارڈکرواچکیں تومیں نے ٹیپ ریوائنڈکرکے چلایا۔میں یہ سن کرہکابکارہ گیا۔جوجوکچھ میں نے بتایاتھا،وہ تمام کاتمام عین مین اس ریکارڈنگ میں موجودتھا۔
ہمارا خاندان بنجاروں کاخاندان تھا۔لتاکی چھوٹی بہن میناکھادیکرنے ہریش کوبتایا(مینا،آشا،اوشا اورہری دیناتھ سے بڑی اورلتاسے چھوٹی بہن ہیں)جہاں جہاں بابا کاتھیٹرجاتاتھاہم بھی ساتھ ساتھ چلے جاتے تھے۔دراصل انہوں نے خانہ بدوشی کی یہ زندگی اس وقت اختیارکی تھی جب سے ‘کرلوسکارسنگیت منڈلی’ نامی تھیٹرجوائن کیاتھا۔ منکیشکروں کاخاندانی نام ہری دیکارتھااور یہ لوگ گواکے رہنے والے تھے۔ان کے آبا واجداد نے پرتگیزی نوآبادکاروں کے ظلم واستبدادسے اپنی عبادت گاہوں کو بچاتے ہوئے جانیں قربان کی تھیں۔اس لیے ‘ابھیشکی ‘ کہلاتے تھے۔(مندرمیں کسی بت کوغسل دیاجاتاہے تواس کوابھیشیک کہتے ہیں چونکہ منگیشکرخاندان نے بتوں کوبچانے کے لیے انہیں اپنے لہوسے غسل دیاتھااس لیے اس خاندان کوابھیشکی کہاجاتاتھا)ان کے مردوں کے نام کے آگے’بھٹ’ کالاحقہ لگایاجاتاتھا۔لتا کے دادا بھیکم بھٹ ابھیشکی بہت کٹربرہمن تھے۔لتاکے چچا’بالوکاکاابھیشکی’ مندرمیں پروہت تھے۔لتاکے والددیناناتھ بطوراداکارگلوکار چودہ سال کی عمرشہرت کے زینے پرقدم رکھ دیا۔وہ اپنے پروفیشن اپنی الگ شناخت بناناچاہتے تھے۔اس لیے انہوں نے روایتی ذات پات اور گوت سسٹم کوخیربادکہااورایسانیانام اپنے نام کے ساتھ جوڑاکہ اس کاکوئی تعلق ماضی سے نہیں تھا۔ان کے آبائی گاؤں کانام منگیشی تھااور ان کاخاندان جس دیوی کی پوجاکرتاتھااس نام بھی منکیش دیوی تھا۔دیناناتھ نے مذہب اوراسلاف کی جائے پیدائش کوپیش نظررکھتے ہوئے اپنے نام کے ساتھ ‘منگیشکر” کالاحقہ جوڑ لیا۔(سنسکرت میں’ کر’کامطلب ہاتھ ہے اورمنگیشکرکے معنی’منگیش کاہاتھ’ بنتاہے) ۔ اس طرح دیناناتھ ابھیشک،دیناناتھ منگیشکربن گئے۔یہ نیانام وہ اب ڈاماکمپنیوں کے ہمراہ بطورصداکار اوراداکارجانے لگا۔
دیناناتھ نے اٹھارہ سال کی عمرمیں الگ تھیٹرکمپنی کھول لی جس کانام ‘بلونت سنگیت منڈلی ‘رکھا۔جب لتاپیداہوئی توماسٹردیناناتھ اپنے کیریئرکے عروج پرتھے۔وہ مرہٹی اسٹیج کے سب سے معروف اورہردلعزیز سنگرایکٹرتھے۔ان کا تیرہ کمروں کامحل نماڈبل اسٹوری گھر تعمیر کیا گیاتھا،ان کی امارت وثروت کاکااندازہ اس بات سے لگائیں کہ ناگپورسے خاندیش تک ہرشہر میں ان کے ذاتی بینک اکاؤنٹ تھے،ان کے ایک ڈرامے کی پروڈکشن کی لاگت اس دور میں بھی سترہزارروپے تھی۔انہوں نے گوامیں آم اورکاجوکے کئی باغات مول لے رکھے تھے۔ماسٹردیناناتھ نے یہاں پوری ایک پہاڑی خریدرکھی تھی۔جس کی مالیت دولاکھ روپے تھی۔ہر عروج کوزوال کے پیش نظر’بلونت سنگیت منڈلی’ کوبھی اسی انجام سے دوچارہوناپڑا جواکثرشراکت دارڈرامہ کمپنیوںکادرپیش ہوتاہے، کلہاٹکرجوکمپنی کے ایک بڑے اداکارتھے،کمپنی چھوڑ گئے جس کی وجہ اسے اسپانسرنے ایک اہم ٹھیکہ منسوخ کردیا،کمرشل کمپنیوں کاالمیہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی بیلنس شیٹ کمپنی کے مالک کی محنت ،لگن،دیانت اورعزم صمیم جیسے اوصاف کی کچھ پروانہیں کرتی۔جنگ عظیم دوم کی کسادبازار ی نے ماسٹردیناناتھ کے جوش وخروش اورعزم ِ صمیم کوپاش پاش کرڈالا۔ایک ایساشخص جس نے دولت کے انباردیکھے تھے،قرضوں کے انبارمیں دبنے لگا۔کیمرہ بھی گروی رکھناپڑا۔
ماسٹردیناناتھ کی غیرمعمولی کامیابی اورخوشحالی کاکریڈت لتاکی دنیامیں آمد کودیاجاتاہے۔جب لتاکی عمرصرف چھ ماہ تھی،توان دیناناتھ کو بیٹی کے گلے میں بلبل ہزارداستان کی سی خوش الحانی کی جھلک دیکھنے کاموقع ملا۔ایک روز وہ سارنگی بجارہے تھے کہ ان کی نگاہ ننھی لتاپرپڑی جو منہ میں مٹی ڈال رہی تھی ،دیناناتھ نے اپنی سارنگی لہراتے ہوئے لتاکوڈانٹا،لیکن یہ دیکھ کران کی حیرت کی انتہانہ رہی کہ بچی نے مٹی چباتے چباتے ایک دم گلاصاف کیااورموسیقی کاوہ ٹکڑااپنی توتلی آوازمیں دہرادیاجوایک لمحہ پہلے انہوں نے سارنگی پربجایاتھا۔دیناناتھ نے بے ساختہ کہا،یہ بچی ایک عجوبہ ہے۔
دیناناتھ جب بھی ریاض کرتے،لتاان کے ساتھ بیٹھ جاتی اورجب وہ اپنے شاگردوںکوسبق دینے لگتے تولتابھی بالواسطہ تحصیلِ فن پرکمر بستہ ہوجاتی۔ایک روز دیناناتھ درس کے دوران شاگردوں کوسبق جاری رکھنے کاکہہ کرباہرچلے گئے۔پانچ چھ برس کی لتاوہیں کھیل رہی تھی ۔شاگرد،پوریادھنیشری راگ کی مشق کررہے تھے۔لتانے محسوس کیاکہ راگ کے دوچارسرآگے پیچھے اورشاگردبے سرے ہورہے ہیں۔ انہوں نے کھیل بندکرکے شاگردوں کوبتانے لگیں کہ انہوں نے کہاں غلطی کی ہے۔اتنے میں دیناناتھ بھی واپس آکرچپکے سے لتاکے پیچھے کھڑے ہوگئے۔وہ یہ سن اوردیکھ کرحیران رہ گئے کہ ان کی بیٹی نے اس راگ کوکس فنی پختگی سے گایاہے۔چنانچہ اگلے روز سے باقاعدگی سے لتاکی تربیت شروع ہوگئی۔
دیناناتھ اور لتاکی ماں کی شادی کی کہانی بھی کافی دلچسپ ہے۔”تھالز دریائے تاپی کے کنارے ایک چھوٹاساقصبہ تھا،سیٹھ ہری داس لاڈ قصبے کاسب سے خوشحال زمینداروار تاجر تھا۔ہری داس کی چاربیٹیاں جمنا،نرمدا،شیوانتی اورگلاب تھیں۔وہ بہت ٹھنڈے مزاج کاآدمی تھا جبکہ اس کی بیوی خاصی گرم مزاج تھی۔ وہ اپنی سگی بیٹیوں سے بھی امتیازی سلوک کرتی تھی۔شیوانتی دوسری بہنوں کے مقابلے میں گہری سانولی تھی اس لیے ماں نوکروں کی موجودگی میں بھی گھرکاسارا کام شیوانتی سے کراتی اس کے ذمے چھوٹی بہن گلاب کی نازبرداری بھی تھی ۔نرمداکے ماموں کی بیٹی اوراس کے شوہرنے دیناناتھ کولڑکی دکھائی تووہ اس سے منگنی پرتیارہوگیاجبکہ نرمداکے والدین کوخبربھی نہیں تھی۔بڑی بی کوخبرہوئی تووہ بہت سٹپٹائیں لیکن آخرکارمان گئیں۔شیوانتی کے پاس توڈھنگ کی ساڑھی بھی نہیں تھی اوررنگ بھی سانولا تھا۔ منگنی کے موقع پروہ ایک کمرہ میں چھپ گئی۔دولہاسے دلہن کے خاندان کاہرفرد سے تعارف کرایاگیا۔کسی کزن نے پوچھاشیوانتی کہاں ہے تو اسے ڈھونڈکرزبردستی لایاگیا۔جب دیناناتھ کی نظرشیوانتی پرپڑی توسنگرایکٹر دیناناتھ کادل،مظلوم شیوانتی کے لیے دھڑکنے لگا۔اس نے شیوانتی کوپیغام دیاکہ نرمدانہیں تم میرے دل کی آواز ہو،وہ اپنی ماں کے سنگدلانہ رویے سے واقف تھی ،اس لیے انکارکردیا۔ماں اورنرمدا کوعلم ہواتوشیوانتی کی خوب خبرلی گئی۔دیناناتھ اورنرمداکی شادی ہوگئی۔اس وقت نرمداکی عمرانیس اوردیناناتھ کی بائیس سال تھی۔ شادی کے چارسال بعد نرمداکے ہاں بیٹی پیداہوئی۔ڈاکٹروں نے کہاکہ شایدبچی نہ بچ سکے لیکن شیوانتی کی جان توڑدیکھ بھال سے بچی تو بچ گئی لیکن نرمداکونہ بچایاجاسکا۔آنجہانی نرمداکے باپ ہری داس،اپنے دامادکے گھرگیااوراپنی پگڑی اس کے پاؤں میں رکھ کرکہاکہ میری نومودنواسی کوصرف شیوانتی بچاسکتی ہے اور اگرکوئی ہستی شیوانتی کواس کی ماں کے مظالم سے محفوظ رکھ سکتی ہے تووہ تم ہو۔دیناناتھ نے کہا کہ وہ شیوانتی کواپنانے کوتیار ہے،وہ میری شریک حیات اورمیرے گھر کی ملکہ بن کے رہے گی۔
دیناناتھ اورشیوانتی کی شادی انیس سوستائیس میں بغیرکسی نمودونمائش کے ہوئی۔اور28ستمبر1929ء کوہفتے کے دن رات ساڑھے دس بجے لتامنگیشکرنے جنم لیا۔جب لتاگیارہ سال کی تھیں توفلم ‘خزانچی’ کے پروڈیوسر نے ایک مقابلہ موسیقی منعقد کرایا جس میں لتاکودومیڈل اور ایک دلرباساز انعام میں ملے۔ایک دن لتاکے والدیہ ساز بچارہے تھے کہ ایک چوہانکل کربھاگا۔انہوں نے بے خیال میں دلرباکی کمان اسے دے ماری اوراس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے۔لتاکواس کابہت افسوس ہوا۔لتاکہتی ہیں۔”میری اداسی کانوٹس لیتے ہوئے بابانے کہا،بیٹی آپ کارنج بجاہے کہ یہ ساز آپ کوانعام میں ملاتھا۔لیکن آپ کی ناراضی کے معنی یہ ہیں کہ آپ نے اپنی کامیابی کودل میں مستقل جگہ دے دی ہے۔یہ بری بات ہے کیونکہ آنے والے وقت میں آپ کوبہت سے انعام واکرام ملیں گے۔آپ نے اپنی شہرت اورکامیابیو ں کودل میں نہیںبٹھانا اورنہ ہی آپ کے دماغ میں ان کاسوداسماناچاہیے۔اس کے بعدمجھے جب بھی کوئی ایوارڈ ملتاتوباباکی ناقابل فرامو ش نصیحت یادآجاتی تھی۔”
ٍ”لتامنگیشکرکی تلاش میں”میں برصغیرکی عظیم گلوکارہ کی زندگی کے بے شمارپوشیدہ گوشے عیاں ہوئے ہیں۔قارئین کواپنی فیورٹ سنگرکی بہت سے ان کہی جاننے کاموقع ملتاہے۔بعض اوقات پلک جھپکنے میں انسان کی زندگی یکسرتبدیل ہوجاتی ہے۔ماسٹردیناناتھ کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوئیںتولتاکی خوش خرامیوں کادورِ طفلی پیٹ کی آگ بجھانے کی محنت ومشقت کی نذرہوگیا۔باپ کی وفات کے صرف ایک گھنٹہ بعدلتانے اپنی مغموم والدہ سے پوچھا۔”ماں! کیااب مجھے کوئی نوکری بھی تلاش کرنی پڑے گی؟ آنجہائی دیناناتھ کی آخری رسوم پر پچھہترروپے خرچ کرنے کے بعدگھر میں صرف چاردن کاراشن تھا۔دردناک سوال یہ تھاکہ پانچویں روزچھ افراد کایہ کنبہ کیاکھائے گا؟ یہ سوال تیرہ سالہ لتا اوران کے بتیس سالہ والدہ کوایک کربناک اذیت میں مبتلاکرگیا۔ماں کازیورایک عرصہ ہوا،گروی رکھے کیمرے کوچھڑوا نے پربک گیاتھا۔بلونگ فلم کمپنی کایہ کیمرہ بھی جلدہی دوبارہ بیچناپڑا۔اس کے بعد گھرکی ایک ایک کرکے ساری چیزیں بک گئیں۔ایسے بھی دن آئے کہ پاس پڑوس سے بچاکچھاکھانامانگ کربچوں نے کھایا۔ایک بار ماں کی نظراس کھانے پرپڑی تواس نے سب کھاناباہرپھینک دیا اور کہا۔”میرے بچو، یادرکھوبھوک تمہیں جان سے ماردے گی لیکن گداگری مارے بغیربرباد کرکے رکھ دے گی۔”
لتاکاشوق موسیقی ان حالات میں کسی کام کانہ تھا۔پلے بیک گانے کے لیے ابھی لتاکی آوازاتنی پختہ نہ تھی کہ اس دور کے ادھیڑ عمرہیروئنوں پر موزوں آتی۔اس لیے سوائے اداکاری کے ،کوئی دوسرامتبادل شعبہ ناپید تھا۔تیرہ سالہ لتاکوکسی سماجی اسٹیٹس کی فکرنہ تھی۔فکریہ تھی کہ ہرصبح چھ افراد کے کنبے کاپیٹ کیسے بھرے گا۔دیناناتھ کے اچھے وقتوں کے رفیقِ کار،شری پادجوشی نے ایک فلم پروڈکشن کمپنی بنائی ہوئی تھی،ان کی وساطت سے لتاکوبطورچائلڈایکٹرس اس کمپنی میں ملازمت مل گئی۔یہ لتاکے پروفیشنل کیریئرکا آغاز تھا۔
”لتامنگیشکرکی تلاش میں” لتامنگیشکرکے بارے میں جاننے کے خواہش مندوں کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ہریش بھیمانی نے لتاکی زندگی کے مختلف گوشوں سے بہت خوبصورتی سے پردہ اٹھایاہے۔یہ ایک بہترین کتاب ہے۔جسے قاری باربارپڑھناچاہے گا۔