”ہم ،طالبان اورافغانستان” صحافی،کالم نگار اورٹی وی اینکرحبیب اکرم کی پہلی کتاب ہے۔جوطالبان اور افغانستان کے بارے میں چشم کشا اورانتہائی معلوماتی کتاب ہے۔حبیب اکرم گذشتہ چوبیس سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ سیاسیات میں ڈگری لینے کے بعدرپور ٹنگ سے آغازکیااورکم عمری میں ہی سماٹی وی کے لاہورمیں بیوروچیف مقررہوگئے۔دہشت گردی کے واقعات کی کوریج ہو،دہشت گردوں کے خلاف آپریشن ہو یا انتخابات کامعرکہ، یہ ہمیشہ میدان کارزارسے ہی رپورٹنگ کرتے ہوئے پائے گئے۔ دنیامیڈیاگروپ میں آئے تو تجزیہ کاری کے میدان میں اپنا لوہامنوایا۔پاکستانی سیاست ہویاعالمی،حکومت میں فیصلہ سازی کاعمل ہویاسیاسی حرکیات کی تفہیم، لوگ ان کی رائے سنتے بھی ہیں اورآخرکارمان بھی جاتے ہیں۔اگرچہ سینئرصحافیوںمیں شمارہوتاہے،لیکن آج بھی ایک رپورٹر کی طرح حقائق کی جستجو میں رہتے ہیں۔ہفتے میں تین دن دنیاٹی وی پر”اختلافی نوٹ” کے عنوان سے پروگرام کرتے ہیں اورروزنامہ ‘دنیا’ میں ہفتہ وارکالم لکھتے ہیں۔
کتاب کے دیباچہ میں حبیب اکرم نے لکھاہے۔” برصغیرکی سیاست میں یہ اہم سوال ہے کہ ملک ،مذہب اورقوم کا آپس میں کیاتعلق ہے؟ اس سوال کاایک جواب بھارت ہے اور دوسراجواب پاکستان۔بھارتی جواب ہمیشہ یہی رہاہے کہ جغرافیہ قوم کی تشکیل کرتاہے اس لیے ہندو ستان کی تقسیم کی ضرورت نہیں تھی۔پاکستان کاوجود بذات خوداس سوال کاجواب ہے کہ مذہب کسی قوم کی تشکیل میں اتنااہم کردارادا کرتا ہے کہ اس کی بنیاد پرجغرافیہ بھی بدل سکتاہے۔یہاں سے اگلاسوال خالصتاً پاکستان کے لیے ہے کہ اگرایک ہی جغرافیہ میں ایک ہی مذہب کے ماننے والوںکے ددملک ہوںان دونوں ملکوں میں کیاتعلق ہوگا؟ اس سوال کاجواب شایدکسی کے پاس نہیںاوریہی ابہام پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات میں اہم کردارادا کرتاہے۔یکساں تاریخ،ایک جغرافیہ اورایک ہی مذہب ہونے کے باوجودیہ دونوں ملک اپنی جداگانہ حیثیت سے دستبردارنہیںہوناچاہتے اورفطری عوامل انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہونے دیتے۔محمودغزنوی سے لے کر آج تک وہ علاقہ جوپاکستان ہے اوروہ خطہ جوافغانستان کہلاتاہے مشترکہ تہذیبی اورتاریخی ورثہ رکھتے ہیں۔”
کتاب کاذومعنی اورعمدہ انتساب” افغانستان کے ان بچوں کے نام جن کے لیے بھوک ،افلاس اورغربت سے نجات کانام ‘پاکستان’ ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
”ہم،طالبان اورافغانستان” میں حبیب اکرم نے پاکستان اورافغانستان کی مشترکہ تاریخ ،مذہب اورجغرافیہ کے باوجودان کے باہمی تضا دات کوواضح کیاہے۔ افغانستان کی تاریخ اورجغرافیہ کے مختلف پہلووں کواجاگرکیاہے ۔یہ ایک چشم کشا اورمعلومات افزاکتاب ہے جس کی بہت ضرورت تھی۔افغانستان اورطالبان کے بارے میں کئی کتابیں لکھی گئی ہیں۔لیکن ان میں اس طرح افغان مسئلہ اورطالبان کی تشکیل کی وجوہ پربحث نہیں کی گئی۔سترکی دہائی میں سوویت یونین سے جہادکرنے والے برہان الدین ربانی،گلبدین حکمت یار اوراحمدشاہ مسعود پشاورمیں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کے مہمان بنتے رہے۔ یا پاکستان کے مدارس کے طالب علم،طالبان افغانستان کی سیاست میں فیصلہ کن حیثیت اختیارکرلیتے ہیں تویہ دراصل ایک تاریخی روایت کا تسلسل ہی ہے جسے تاریخ کے تناظرمیں ہی سمجھاجاسکتاہے،تاریخ کے علاوہ نسلی ولسانی یکسانیت بھی ہے کہ پاکستان پشتوبولنے والوں کی دنیا میں سب سے بڑی آبادی کاملک ہے، جہاں ساڑھے چارکروڑ پشتون بستے ہیں اورافغانستان میں ڈیڑھ کروڑ پشتون آبادی کابڑاحصہ ہیں۔یہ تمام تفصیلات حبیب اکرم نے بہت عمدہ،سادہ اور دلچسپ پیرایے میں بیان کی ہے۔جس سے اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والا ہرفرداستفادہ کرسکتاہے۔عکس پبلشرزکے نوفل جیلانی اورمحمدفہد برادر ان نے کتاب انتہائی خوبصورت اور دیدہ زیب انداز میں شائع کی ہے۔تین سوپچاس صفحات پرمبنی کتاب کی قیمت ایک ہزارروپے بھی دورِ حاضرکے مطابق مناسب ہے۔
ہندوستان کے سابق وائسرائے اوربرطانوی وزیرخارجہ لارڈ کرزن نے 1925ء میں برطانوی سفارت خانے کی عمارت تعمیرکرائی اور اسے برطانوی عظمت کانشان قراردیتے ہوئے کہاکہ اس عمارت کودیکھنے والے یہ یاد رکھیں کی برطانیہ ،افغانستان کوبھول نہیں سکتا۔ برطانوی راج کاحصہ ہونے کی بنیاد پرپاکستان اس عمارت کودعویدارتھا۔برطانیہ نے دعویٰ تسلیم کیامگراس عمارت کاقبضہ نوے کی دہائی میں پاکستان کودیا۔اس وقت بھی کابل میں پاکستانی سفارت خانہ اسی عمارت میں قائم ہے۔شہرکے وسط میں چھبیس ایکڑ پرقائم یہ سفارت خانہ افغانستان میں کسی بھی ملک کا سب سے بڑا سفارت خانہ ہے۔افغانستان سے اس خطے کے گہرے تعلق اورتاریخی تناظرکے باوجود پاکستان نے اپنی تشکیل کے فوری بعدافغانستان کوایک پسماندہ ملک سمجھ کرنظراندازکرنے کی پالیسی اختیارکی۔یہ پالیسی اس خطے کی تاریخی پالیسی کے بالکل الٹ اورکسی حدتک غیرفطری تھی۔جس کانتیجہ یہ ہواکہ افغان حکومتوں نے پاکستان کے لیے مشکلات پیداکرناشروع کردیں۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ سوویت یونین کی بنائی ہوئی افغان حکومت ہویاامریکاکاترتیب دیاہوابندوبست، سب پاکستان کے خلاف ہی اقداما ت کیوں کرتے رہے ہیں؟آخرکیاوجہ ہے کہ دوسپرپاورز نے افغانستان پرحملہ کیااوریہ دونوں جنگیں پاکستان کی معاونت سے ختم ہوئیں؟ یہ بھی سوچناضروری ہے کہ آخرسپرپاورز کی شروع کی ہوئی جنگیں آخری تجزیے میں افغانستان کے اندرپاکستان مخالف اورپاکستان حامی قوتو ںکی باہمی چپقلش کی شکل کیوں اختیارکرگئیں؟
حبیب اکرم دیباچہ میں لکھتے ہیں۔”اس پس منظرمیں یہ سوال اوربھی اہمیت اختیارکرجاتاہے کہ سوویت یونین کے خلاف جہادکے خاتمے کے بعدتجربہ کارمجاہدین تنظیموں کے بجائے ایک بالکل نئی تنظیم طالبان کی صورت میں انجانے لوگوں کے ساتھ وجودمیں آکرکس طرح اقتدار تک پہنچ جاتی ہے؟ طالبان کی حکومت افغانستان پرپانچ سال قائم رہی اوران کے سخت گیررویے کے باوجودملک کے اندرکوئی ایسی قوت نہ ابھرسکی جوان کے لیے حقیقی چیلنج بن سکتی۔ مگرعالمی سیاست میں ان کی سخت گیری کے نتیجے میں دنیاکے ایک سوکے قریب ملک ان پر حملہ آورہوئے،دنیاکی جدیدترین ٹیکنالوجی ان کے خلاف استعمال ہوئی لیکن عالمی طاقتیں بھی انہیں اس حدتک نہیں جھکاسکیں کہ وہ ہتھیار ڈال دیں۔دودہائیوں کی جنگ کے بعدہماری نظروںکے سامنے امریکی فوجیں فرارکے انداز میں نکل رہی تھیں اورطالبان فاتحانہ کابل میں داخل ہوکراپنی حکومت قائم کررہے تھے۔آخر طالبان کے پاس وہ کونسی طاقت ہے کہ بیس برس کی مسلسل جنگ بھی افغان معاشرے سے ان کے اثرات ختم نہیں کرسکی؟
یہ بھی پڑھئے:
راحیل شریف نے جب فیلڈ مارشل بنانے کا مطالبہ کیا
بلوچستان میں فوجی جھڑپیں اوربلوچ قوم پرستوں سے مکالمہ
اگرتلہ سازش کیس، کیا حقیقت کیا افسانہ
زیرِ نظرکتاب”ہم،طالبان اورافغانستان” جدید تاریخ کے واقعات کی روشنی میں انہیں سوالات کے جواب تلاش کرنے کی کاوش ہے۔اس میں آپ کوکوئی رجزملے گانہ کوئی نوحہ،کیونکہ یہ قاری کی رائے پرمنحصرہے کہ واقعات کی ترتیب اس پرکیااثرڈالتی ہے۔دوسرا اہم نکتہ جواس کتاب کے قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتاہوں وہ بس اتناہے کہ یہ کتاب کسی مورخ کی لکھی تاریخ نہیں بلکہ افغانستان میں عوامی سطح پرمیر ے ذاتی مشاہدات اورصاحبانِ معاملہ سے بالمشافہ گفتگوکے بعد صحافیانہ انداز میں افغانستان کے سیاسی واقعات کابیان ہے۔ہاں چندجگہو ں پرایساضرور ہواہے کہ ان واقعات کے اثرات پرگفتگوہوئی ہے لیکن واقعات کوربط میں رکھنے کی ہرممکن کوشش میں میں نے اپنے تئیں مسلسل کی ہے۔اس کتاب میں اخذکردہ بعض نتائج کوجزوی یاکلی طور پررد یاقبول بھی کیاجاسکتاہے لیکن مجھے یہ اصرارضرور ہے کہ پاکستان کاتصورافغانستان کے بغیرمکمل نہیں اورافغانستان کوپاکستان کے بغیرسمجھناممکن نہیں۔”
اس طرح حبیب اکرم نے اپنے قارئین پرواضح کردیاکہ وہ افغانستان کی تاریخ نہیں لکھ رہے بلکہ ذاتی مشاہدات وملاقاتوںکی روشنی میں سیاسی واقعات کابیان ہے۔تاہم کتاب کاقاری افغانستان کی تاریخ ،جغرافیہ،آبادی،مختلف زبان کے افراد کی تعداد اورملک کی حالیہ صورت حال کے بارے میں معلومات حاصل کرسکتاہے اور ایک عام آدمی کتاب کے مطالعے کے بعدافغانستان کے حالات کوسمجھنے اوراس پربات کرنے کے قابل ضرور ہوجاتا۔کسی کتاب کی یہی سب سے بڑی افادیت ہوتی ہے کہ وہ اپنے موضوع کے بارے میں پڑھنے والے کو خاطر خواہ معلومات فراہم کردے۔
حبیب اکرم کے ”ہم ،طالبان اورافغانستان” کے آغازمیں ایک صفحے پرافغانستان کے رقبہ،آبادی اوراس کی تقسیم،صوبوں کی تعداد جیسی بنیا دی معلومات دے دی ہیں۔جس کے مطابق افغانستان کادارالحکومت کابل اورجلال آباد،غزنی،کندھار،ہرات اور مزارشریف اہم شہر ہیں ۔آبادی کبھی شمارنہیں کی گئی لیکن ورلڈبینک اوردوسرے اداروںکے اندازوں کے مطابق ساڑھے تین کروڑآبادی میں شہری تیس فیصد اور دیہی آبادی ستر فیصد ہے۔ملک میں پشتوب بیالیس، تاجک ستائیس، ہزار ہ اورازبک نو،منگول چار،ترکمان تین فیصد دیگرچھ فیصد ہیں ۔ ملک کارقبہ چھ کروڑباون لاکھ دوسوتیس مربع کلومیٹرہے۔ننانوے اعشاریہ سات فیصد کامذہب اسلام ہے جس میں سنی نوے فیصد اوراثنا عشری دس فیصدہیں۔
”سرِآغاز” میں مصنف لکھتاہے۔” کیسپین سے جبرالٹرتک کے اس علاقے میں پاکستان کونکال کرکسی ایک ملک میں بھی ایٹمی طاقت نہیں ہے، ہمارانظام تعلیم بہت براسہی لیکن حالت یہ ہے کہ دنیاکے اس حصے کی بہترین یونیورسٹیاں پاکستان میں ہیں، ترکی کوچھوڑ کرکوئی ایک بھی ایساملک اس خطے میں موجودنہیں جوشوگرمل کی مشینری بناسکے، اس قوس میں آنے والاواحدملک پاکستان ہے جہاں لمحہ موجومیں بھی جمہوری نظام ایک دستورکے تحت کام کررہاہے،ان ملکوں میں کسی کے پاس بھی پاکستان جتنی بڑی فوج موجودنہیں ہے اورکسی کے پاس ایسا میزائل نظام موجودنہیں جوایک ہزارکلومیٹرسے زیادہ مارکرسکے۔اس ہلال میں صرف پاکستان کے پاس ایسی میزائل ٹیکنالوجی موجو ہے جو ترکمانستا ن سے لیکر الجزائرتک کسی بھی حملہ آورکومصیبت ڈال سکتاہے۔ہماری فوج اس خطے کی واحدفوج ہے جوسمندرسے لے کربرفپوش پہاڑوں تک بخوبی لڑنے کی اہلیت رکھتی ہے۔ایک نسبتاً بہترنظام تعلیم،برے بھلے جمہوری نظام،غیرمعمولی جغرافیہ سے لے کرطاقتورفوج تک کی یہ خصوصیات پاکستان کواس علاقے کی ایسی مرکزی ریاست بنادیتی ہے جوکیسپین سے الجزائرتک ملکوں کواحساس تحفظ دے سکتی ہے۔ پاکستان کی اسی مرکزیت کو’تہذیبوں کے تصادم’ کے نظریے کی روشنی میں سمجھنے والے بتاتے ہیں کہ پاکستان اپنی تہذیبی،اقتصادی اورفوجی قت کی بنیاد پراس کااہل ہے کہ مسلم تہذیب کے حامل تمام ممالک کی قیادت کرے۔اس کایہ کرداربالکل ایسے ہے جیسے امریکاکامغربی تہذ یب کے حوالے سے ہے۔اگرپاکستان اتنامضبوط ہوجائے کہ اسے مسلم تہذیب کی قیادت کااہل سمجھاجائے توپھردنیاواقعتا ایک نئے بلاک کی تشکیل کانظارہ کرسکتی ہے۔پاکستان ان چندملکوں میں شامل ہونے کے باوجودجنہوں نے انیس سواکیانوے میں فوری طور پروسط ایشائی ریاستوں کوتسلیم کیاتھا اوروہاں اپنے سفارتحانے قائم کیے تھے،کوئی ایسانظام وضع نہیں کرسکاجس کے ذریعے ان ممالک کے ساتھ تعلقات کو گہرائی اوروسعت دی جاسکے۔پاکستان اوروسط ایشیائی ریاستوں کے درمیان اہم ترین رکاوٹ افغانستان کی صورت حال ہے۔افغانستا ن میں امن کی صورت ہی میں یہ ممکن ہے کہ لاہورسے لے کرتاشقندتک اورکراچی سے بخاراتک کے راستے کھل سکیں۔افغانستان کی صورتحال کے اس خطے پراثرات اتنے گہرے ہیں کہ اس نے کئی ملکوں کی منصوبہ بندی کوروک رکھاہے۔”
برصغیراورافغانستان کے تعلقات کااندازہ اس امرسے لگایاجاسکتاہے کہ دہلی میںشاہ ولی اللہ کا احمدشاہ ابدالی کوہندوستان کی مددکے لیے خط لکھنادرحقیقت کسی دوسرے ملک کے بادشاہ کوخط لکھنے کے مترادف نہیں تھا بلکہ مغلیہ سلطنت کے اندرہی ایک ابھرتی ہوئی مسلم طاقت سے ایک غیرمسلم طاقت کے خلاف مددحاصل کرناتھا۔ ان کے ذہن میں کابل مغلیہ سلطنت کاحصہ تھا،جلال آباد شہنشاہ اکبرکابسایاہواشہر،گویا ان کے لیے افغانستان ایک دوسراملک نہیں تھا۔دورِ جدید میں دیکھیں توپچھلی صدی کی دوسری دہائی تک بھی ہندوستانی مسلمان افغانستان کے امیر سے امیدلگائے ہوئے تھے کہ وہ ہندوستان پرحملہ کرے توپھرمشترکہ جدوجہدکے ذریے انگریز کویہاں سے نکالاجائے۔اس زمانے میں ہندوستان کی ایک جلاوطن حکومت بھی کابل میں بنائی گئی جس کے ایک وزیرمحمدعلی قصوری تھے جوپاکستان کے سابق وزیرخارجہ خورشیدعلی قصوری کے تایاتھے۔ہندوستان میں تحریک خلافت کے دوران جب مسلمانوں نے احتجاجاً ہجرت کرناشروع کی توافغانستان ہی ان کی منزل تھی۔اسی زمانے میں جب نادرشاہ نے آج کے پاکستان میں بسنے والے قبائل کی مددسے افغان حکومت سنبھالی تواس نے علامہ اقبال،سیدسلیمان ندوی اورسرراس مسعود کوہندوستان سے مستقبل کے بارے میںمشورے کے لیے بلایا۔اسی زمانے میں لفظ’پاکستان’کے خالق چودھری رحمت علی نے اپنے معروف کتابچے ‘ ابھی یاکبھی نہیں’ میں پاکستان کی تشکیل کے دلائل دیتے ہوئے کہاتھاکہ اس ملک کی تشکیل کے بعدمغربی ایشیاکے ممالک کے اتحادکی راہیں بھی نکلیں گی۔سوویت یونین کے خلاف جہاد میں پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے افغانوں نے اہم ترین کرداراداکیااورطالبا ن کی داغ بیل بھی انہیں لوگوںنے ڈالی جوپاکستانی مدارس کواپنی مادرعلمی قرار دیتے ہیں۔
”جدیدافغانستان کی تاریخ پرایک نظر” کے زیرعنوان مصنف نے 1743ء احمدشاہ درانی سے 1973ء میں آخری افغان بادشاہ ظاہرشاہ تک تمام افغان حکمرانوں کاسرسری جائزہ ،ان کا عرصہ اقتدار،طرزحکمرانی اورہندوستان کے ساتھ تعلقات کا مختصر ذکر بھی قارئین کے لیے معلومات افزا ہے۔ظاہرشاہ 8نومبر1933ء سے جولائی1973ء تک چالیس سال افغانستان پرحکمران رہے۔جولائی تہتر میں روسی مداخلت کے نتیجے میں ظاہرشاہ کے چچازادبھائی اوربہنوئی داؤدخان نے اس کاتختہ الٹااور خودصدر بن گیا۔پانچ سال بعدفوجی بغاوت میں صدر داؤد اوراس کے خاندان کے تیس افرادماردیے گئے اورکمیونسٹ دانشورنورمحمدترہ کئی صدربن گیا۔ اس کے بعدحفیظ اللہ امین اورببرک کارمل بھی چندماہ صدارت پرفائز رہ سکے۔روس کے افغانستان سے نکلنے کے بعد بھی ملک کوسیاسی استحکام نہ مل سکا۔افغانستان کا آخری کمیونسٹ صدرنجیب اللہ ستمبرچھیاسی سے اپریل بانوے تک برسراقتداررہا۔عبدالرحیم حاتف کوچند روزقائم مقام صدر رہ سکا۔صبغت اللہ مجددی نے چارسال حکومت کی ۔برہان الدین ربانی 2001ء تک صدررہا۔ ملاعمراکتوبر2001تک امیرالمومنین رہے۔ امریکی مداخلت کے بعدحامدکرزئی تیرہ سال تک صدارت پرفائز رہے۔اس کے بعداشرف غنی ستمبر2014ء سے اگست 2021ء تک افغانستان کاصدر رہا اورطالبان کی آمدپرجہاں امریکی فرارہوگئے۔اشرف غنی بھی جان بچاکرملک سے نکل گیا۔امریکاکے افغانستان سے نکلنے کے بعد8ستمبر2021ء کوملاہبت اللہ اورملامحمدحسن اخوندزادہ نے طالبان کی عبوری حکومت قائم کی۔ ملاہبت اللہ اس وقت افغانستان کے تیسرے امیرہیں۔حکومت سنبھالنے کے بعدانہیں افغانستان کے امیر کادرجہ بھی دیدیاگیا۔انہی کے فرمان کے مطابق ملااخوند وزیراعظم مقررہوئے اورتمام وزراء کاتقرربھی امیرکے احکامات سے کیاگیا۔ ملاہبت اللہ انتظامی معاملات پرحرفِ آخر ہیں۔روزمرہ امورمختلف قسم کے فرامین کے اجراسے چلائے جارہے ہیں جن پرکسی کے دستخط نہیں ہوتے بلکہ ان کااعلان حکومت کے ترجمان ذیبح اللہ مجاہد کے ذریعے کیاجاتاہے۔یہ تمام تفصیلات کتاب میں موجود ہیں۔ پاکستان کی صورتحال کوافغانستان کے تناظرمیں سمجھنے کے لیے ”ہم،طالبان اور افغانستان” کامطالعہ انتہائی ضروری ہے۔
”ہم ،طالبان اورافغانستان ” کوچارحصوں میں تقسیم کیاگیاہے۔ پہلاحصہ ”مجاہدین سے طالبان تک ” ہے ۔جس میں طالبان کی تشکیل سے لے کر11ستمبر2001ء تک کااحاطہ کیاگیاہے۔اسی حصے میں”طالبان اوراسامہ بن لادن”کاتفصیلی ذکرہے۔ دوسرا حصہ ”9/11کے بعد” ہے۔ اس حصہ نے نوگیارہ کے بعد، طالبان کی تنظیم نو، کندھار،پاکستان،القاعدہ،طالبان اورتحریکِ طالبان پاکستان، طالبان امریکا مذاکرات، اورکون ٹھیک تھا؟مضامین شامل ہیں۔جن میں اس دورکے حوالے سے تفصیلات دی گئی ہیں۔تیسراحصہ”سقوط افغانستان سے پہلے” کابل سے امریکا اورصدراشرف غنی کے فرارتک کے واقعات دیے گئے ہیں۔حصہ چہارم ”طالبان کاافغانستان” ہے۔ جس میں طالبان کی کابل آمد اورحکومت کے قیام کے چیدہ چیدہ واقعات اورافغانستان کی موجودہ حکومت کے بارے میں معلومات فراہم کی گئی ہیں۔ اس حصے میں ”کابل ایئرپورٹ”،” طورخم”،”کابل”،”ایک تصویر”،” پاکستانی سفارت خانہ”،” گلبدین حکمت یار”،” افغانستان کی معیشت”،” ملانورالدین ترابی”،” سقوط افغانستان۔۔ایک جھلک” ،” غلط فہمیاں،بدگمانیاں اورحقیقت”،” طالبان کے رویے”،” طالبان کے باہمی اختلاف”،” کیاطالبان بدلیں گے؟” ،” پاکستان،افغانستان اوروسطی ایشیا”اور”امید” کے عنوانات کے تحت موجودہ افغان حکومت کے دورکے حالات کوپیش کیاگیاہے۔
ان تمام عنوانات سے ہی بخوبی کتاب میں شامل مباحث کااندازہ ہوجاتاہے۔حبیب اکرم نے افغانستان کاجغرافیہ،آبادی،صوبے،افراد، معیشت،زبانیں،تاریخ، گذشتہ پانچ سوسال کے حکمران، حالیہ پچاس برس کی سیاسی کشمکش،روس اورامریکاکی مداخلت اوراس کے نتائج، طالبان کاعروج وزوال اوردوبارہ برسراقتدار آنے اوراس کے عوامل اورمستقبل کے امکانات ہرپہلوکوپیش نظررکھاہے۔یوں کتاب کا مطالعہ کے بعدقاری کے لیے اس حوالے سے کوئی تشنگی باقی نہیںرہتی۔
پہلے حصہ میں”مجاہدین سے طالبان تک” میں مصنف نے لکھا۔”1989ء میں جب روس افغانستان سے نکل گیاتوامریکانے بھی مجاہدین کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیے۔اس کے باوجود جنیوامعاہدے پردستخط کے موقعے پرروس نے ڈاکٹرنجیب اللہ کی مددجاری رکھنے کااعلان کیاتوامریکا نے بھی مجاہدین کی امدادفراہم کرتے رہنے کاعزم ظاہرکیا۔ روسی افواج کے نکلنے کے بعدپراسرار طور پر روس اورامریکا نے بیک وقت ڈاکٹرنجیب اللہ اورمجاہدین کی امدادبندکردی۔اس کے ساتھ ہی پاکستان میں اوجڑی کیمپ کاحادثہ ہوگیاجہاں افغان مجاہدین کے لیے پڑااسلحہ مکمل طور پرتباہ ہوگیا۔اس حادثے کے نتیجے میں پاکستان بھی افغانستان کی مددکرنے کے قابل نہ رہااورپاکستان کایہ ہدف کہ کابل میں ایک دوست حکومت قائم ہوجائے،مجاہدین کی آپس کی لڑائیوں میں کھوگیا۔”
”طالبان :تشکیل سے گیارہ ستمبر2001ء تک”میں حبیب اکرم صاحب نے بتایا۔” 1994ء کے موسم خزاں میں کندھار جنوبی افغانستان کے نواحی گاؤں ‘سنگیسار’کی مسجدِسفید میں ملامحمدعمرکی قیادت میں پینتالیس سے پچاس افرادنے حلف اٹھاکراقرارکیاکہ وہ افغانستان میں قیامِ امن کی خاطراپنی جانیں دینے سے بھی گریز نہیں کریں گے۔یہ سبھی افراد سوویت یونین کے خلاف جہادمیں حصہ لے چکے تھے ۔ان میں سے اکثرافغانستان یاپاکستان کے مدارس میں تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ملاعمرسمیت کئی افرادکندھاراوراس کے قرب وجوارکے مدارس میں پڑھارہے تھے یاکسی مسجدمیں امام تھے۔ان لوگوں میں یہ قدرمشترک بھی تھی کہ سوویت یونین کے خلاف جہادکے دورمیں وہ لوگ جو مجاہدین درمیان تنازعے کی صورت میں فیصلے کیاکرتے تھے دراصل ان کے فکری پیش روتھے۔یہ سب لوگ افغانستان کی اکثریتی آبادی کی طرح اسلام کے دیوبندی حنفی مسلک کے پیروکارتھے۔جب ان لوگوں نے مسجدِسفیدمیں حلف اٹھایاتواس تنظیم کاکوئی نام تھا،نہ اثاثہ۔ابتد ا ئی طور پرجن لوگوں نے اس مقصدکی خاطرمالی قربانی دی تھی ان میں ملاعبدالسلام ضعیف(پاکستان میں افغانستان کے سابق سفیر) اورملا عبدالستارکے نام سرفہرست تھے۔ان دونوں کے پاس پرانے موٹرسائیکل تھے جوانہوںنے اس نوزائیدہ تنظیم کے حوالے کردیے۔”
ان دواقتباسات سے طالبان کے ابتدائی خدوخال واضح ہوتے ہیں اوراسامہ بن لادن اورطالبان کے رابطے کے بارے میں معلومات”طالبان اوراسامہ بن لادن ”سے ملتی ہیں۔جس کے مطابق”اسامہ بن لادن سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ لینے کے لیے 1984ء میں پاکستان آیا۔اس زمانے میں پاکستان کی آئی ایس آئی اورامریکی سی آئی اے نے یہ پالیسی بنائی کہ سوویت یونین کے خلاف جہادکوایک بین الاسلام مسئلہ قرار دیکردنیابھر سے مجاہدین کوراغب کیاجائے۔اس پالیسی کے تحت سینکڑوں عرب اوردوسری قومیتوں کے نوجوانوںنے افغانستان کارخ کرلیا۔اسامہ بن لادن کی عمراس وقت صرف ستائیس برس تھی۔اس کارابطہ پشاورمیں مقیم جہادکے فلسطینی مبلغ عبداللہ عزام سے ہوگیا اوراس نے افغانستان کے اندرکچھ کارروائیوں میں بھی حصہ لیا۔بعدمیں عزام کے ساتھ اس نے پشاورمیں’مکتب الخدمت’ نامی دفتربنایاجوعرب مجاہدین کی مددکرتاتھا۔اسامہ بن لادن کی بے پناہ دولت نے عرب مجاہدین کے کام آسان کردیے اورانہیں افغان معاشرے میں محترم بھی بنادیاکہ وہ بغیرلالچ کے افغانستان کی آزادی کے لیے افغانوں کے شانہ بہ شانہ لڑرہے تھے۔1989ء میں جب پاکستان میں کمپیوٹرکااستعمال بہت ہی کم تھا،اس وقت بھی اسامہ کمپیوٹر استعما ل کررہاتھا۔اگرکسی ایک معاملے نے طالبان کی پہلی حکومت کوسب سے زیادہ نقصان پہنچایاتووہ اسامہ بن لادن سے متعلق تھا۔اسامہ کا طالبان سے تعلق اس وقت قائم ہواجب انیس سوچھیانوے میںکابل سے پہلے جلال آبادپران کے قبضے میں آیا۔اسامہ جلال آبادمیں پہلے ہی سے مقیم تھا۔جب طالبان وہاں پہنچے تواس نے ان سے معاملات طے کرلیے اور وہاں رہنے کی اجازت حاصل کرلی۔ ”
کتاب کے حصہ دوم”نوگیارہ کے بعد” میں نائن الیون کے بعدطالبان کی صورتحال اورامریکا کے رویے میں تبدیلی پرتفصیلی بحث کی گئی ہے ۔تیسرے حصے ”سقوط افغانستان سے پہلے”میں اشرف غنی حکومت کے آخری دور کے حالات پرروشنی ڈالتے ہوئے امریکااور طالبان کے درمیان ملاقاتوں اورمعاہدے کی تفصیلات ہیں۔”طالبان اورامریکاکے درمیان دوحہ معاہدہ 29فروری 2020ء کوطے پایا۔ معاہدے کی ایک شق کے مطابق چودہ ماہ بعد یعنی اپریل 2021ء تک امریکااوراس کے اتحادیوں کوافغانستان چھوڑنا تھا اورپہلے ایک سوپینتیس دن کے اندرجولائی 2020ء تک امریکی فوج کی تعدادساڑھے آٹھ ہزار تک لانے کے ساتھ ساتھ اتحادی ملکوں کی افواج کوبھی اسی تناسب سے کم کرنا تھا۔انہیں ایک سوپینتیس دنوں میں غیرملکی افواج نے افغانستان میں پانچ فوجی اڈے بھی خالی کرنے تھے۔جبکہ یکم مئی 2021ء تک تمام غیرملکی افواج نے افغانستان خالی کرناتھا۔جب یہ معاہدہ ہواتویہ امریکا میں صدارتی الیکشن کاسال تھااورصدرڈونلڈٹرمپ امریکی تاریخ کی طویل ترین جنگ ختم کرکے عوام کے پاس اس امید میں گئے تھیکہ وہ انہیں دوبارہ منتخب کرلیں گے۔لیکن ایسانہ ہوسکا اور ڈیمو کریٹ جوبائیڈن الیکشن جیت گئے۔”
آخری حصہ ”طالبان کاافغانستان” میں اشرف غنی حکومت کی آخری دنوں میں طالبان کے خلاف مکمل ناکامی اوربے بسی اورصدرکے کابل ایئرپورٹ سے فرار اورامریکی افواج کی جلدبازی میںنکلنے کے بعدطالبان کی کابل میں داخل ہونے کی تفصیلات دی گئی ہیں۔مجموعی طور پر حبیب اکرم اپنی پہلی کتاب”ہم ،طالبان اورافغانستان” میں موضوع سے انصاف اور قارئین کومکمل معلومات فراہم کرنے میں کامیاب رہے ہیںاور انہوں نے خود کااچھے کالم نگار،صحافی اوراینکر کے بعدبہترین تجزیہ کار اورمصنف بھی ثابت کردیاہے۔جس کے لیے وہ مبارک باد کے حقدار ہیں۔