”ریل کی جادونگری” محمدسعیدجاویدکی چوتھی تصنیف اور انتہائی دلچسپ اورمعلومات افزاکتاب ہے۔یہ کتاب دراصل ریل کی ایجاد،برصغیر اورپاکستان میں آمدسے لے کراس پٹریوں ،ڈبوں،ملازمین وماہرین اورجدیدترین میگلیوٹرین کاجامع انسائیکلوپیڈیاہے ۔محمد سعید جاوید کا تعلق فورٹ عباس کے ایک روایتی اورمتوسط گھرانے سے ہے۔بچپن اورلڑکپن کراچی میں گزارا اورجامعہ کراچی سے تعلیم مکمل کرکے اسی شہرمیں اپنی عملی زندگی کا آغازکیا۔پھرحبیب بینک میں منیجرکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اگلے پچیس برس ریاض میں قائم سعودی عرب کے ہسپتال میں مالیا ت کے ایک شعبے کی سربراہی کی۔پاکستان واپسی پرلاہورکے ڈاکٹرزہسپتال کے انتظامی امورسنبھالے اور چار برس تک وہاں بطورسینئرایڈ منسٹریٹرذمہ داریاںنبھائیں۔ریٹائرمنٹ کے بعدقلم سے ناطہ جوڑااورآغاز اپنی خودنوشت”اچھی گزرگئی” سے کیا۔
”اچھی گزرگئی” محمدسعیدجاویدکی پہلی تصنیف ایک جامع اوربھرپورزندگی کاعمدگی سے احاطہ کرتی ہے،جسے زبان وبیان کی خوبصورتی اور سادگی کی وجہ سے بے حدپذیرائی ملی۔کتاب کوکئی ایوارڈزکابھی حقدارقراردیاگیا۔پاکستان بھرکے ادبی جریدوں اورناقدین نے کتاب کو بہت سراہا اوراس پردلچسپ اورعمدہ تبصرے کیے۔مرحوم ادیب اورنقادڈاکٹرانورسدید اورکئی دوسرے سینئرادیبوں نے ”اچھی گزرگئی” کو ملک کے تعلیمی اداروں اورپبلک لائبریریوں کاحصہ بنانے کی سفارش بھی کی۔
خودنوشت کے بعدسعیدجاوید نے”مصریات” کے نام سے مصرکاسفرنامہ تحریرکیا۔جس میں انہوںنے دورِجدیدکے مصریوں اورازمنہ قدیم کے فرعونوں کے ساتھ گزارے ہوئے خوشگوارلمحات کوانتہائی شگفتہ اوردلچسپ پیرائے میں اس طرح پیش کیاکہ قاری لمحے بھرکوبھی بیزارنہیں ہوتا اوراپنے آپ کواسی معاشرے کاایک حصہ سمجھنے لگتاہے۔سنی سنائی کہانیوں سے متاثرہوئے بغیرمصنف حقیقت کی کھوج میں خودمصرمیں جابجاپھیلے ہوئے فراعین کے اہراموں،مندروںاورزیرِزمین مقبروں میں اترگیا،پھرقارہرہ کے قدیم وجدیدبازاراورعجائب گھرچھان مارے،دریائے نیل کنارے بنی ہوئی طرب گاہوں میں بھی جھانکااورجب ان معلومات کوایک جگہ سمیٹاگیاتویہ دلچسپ کتاب وجودمیں آئی جوبے حدمقبول ہوئی کیونکہ اس سے پہلے مصرکاسفرنامہ کبھی اس اندازسے تحریرہی نہیں ہواتھا۔
محمدسعیدجاویدنے تیسری کتاب”ایساتھامیراکراچی” تحریرکی۔جس میں مصنف نے کراچی کے سنہری دورکے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے جب یہ شہردلفگاراپنے امن،خلوص ومحبت،اورغریب پروری کی وجہ سے سارے پاکستان میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ اس وقت کویادکرکے اب بھی وہاں کے پرانے باسیوں کی آنکھوں کے گوشے بھیگ جاتے ہیں۔کراچی کے ابتدائی دورکی روزمرہ زندگی کے پس منظرمیں تحریرکی گئی کتاب کاشمارمسلسل کئی ماہ تک شہرکراچی پرلکھی گئی بہترین کتابوں میں ہوتارہا۔
تین بہترین کتابیں تحریرکرنے پربھی محمدسعیدجاوید کاقلم تھکن کاشکارنہیں ہوا اورانہیں نئے موضوع کی تلاش ہوئی،توانہوں نے اپنے بچپن کے پیارریل اوراسے جڑیں بے شماریادوں اورباتوں کوچنا۔کتاب کانام قارئین سے رائے لیکر ”ریل کی جادونگری” طے ہوا۔ریل کے بارے میں اردومیں تین بہترین کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ پہلی رضاعلی عابدی کی ”ریل کہانی ”ہے جوبی بی سی لندن کے گروپرام کے لیے پشاور سے کلکتہ تک ریل کے سفر،اسٹیشنز اورمسافروں کے بیان پرمبنی ہے۔جسے بعد میںعابدی صاحب نے کتابی شکل دی۔فضل الرحمٰن نے اپنی اوروالدکی ریلوے کی طویل ملازمت کی یادوں کو”رودادریل کی”کے عنوان سے پیش کیا۔محمدحسن معراج نے ”ریل کی سیٹی”کے نام سے پنڈی سے اچ شریف تک کے ریل کی پٹری کے ساتھ سفرکیا۔ریل کے ساتھ ساتھ جودریابہتے ہیں،اورجوگاؤں،قصبے ،شہرآباد ہیں،مصنف نے ان سب کی صدیوں پرپھیلی تاریخ وتہذیب کے اندرسفرکیا۔اس تاریخ میں جتنے اہم کردار اورواقعات تھے،جوان علاقوں پراثراندازہوئے،ان سب کااحاطہ کیاگیاہے۔ان تاریخی واقعات اورکرداروں نے یہاں کے باسیوںکی سیاسی،معاشی ،ثقافتی اورنفسی وتخلیقی زندگی پرجواثرات مرتب کیے ،ان کی طرف بھی معنی خیزاشارے کیے۔یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ مصنف نے پاکستانی پنجاب کے ثقافتی لاشعورکی بازیافت کی ہے۔مصنف کی مطالعے کی وسعت حیران کن،اوراسے اختصارکے ساتھ پیش کرنے کاسلیقہ متاثرکن ہے۔ان تین بہترین کتب کے بعدسعیدجاویدکا”ریل کی جادونگری”لکھنا،کسی امتحان سے کم نہ تھا۔لیکن وہ اس امتحان میں بھی سرخرورہے۔کتاب کے پیش لفظ میں سعیدجاویدلکھتے ہیں۔”ریل گاڑی،اس کے دیوہیکل سیاہ انجن اوراس کی آزردہ سی سیٹی سے میراعشق قدیم اوربھرپور ہے۔ شاید تاریخ کی کتابوں میں دفن محبتوں کے مارے ہوئے عشاق سے بھی زیادہ۔ یہ عشق گوکچی عمرکاتھامگرکچاہرگزنہیں تھاکیوں کہ بعدازاں یہ پکاہوکرساری زندگی میرے ساتھ ہی چلتارہاہے۔قسامِ رزق نے ایک طویل عرصہ وطن سے دوررکھ کردردرکی خاک چھنوائی۔ملکوں ملکوں گھوما،تب بھی اسے بھلانہیں پایا۔دیارِغیر میں بھی میری کوشش یہی رہی کہ سفر جہا زوں کے بجائے ریل گاڑی میں سے ہی طے کیا جائے ۔ جہاں بھی موقع ملاایئرپورٹ سے نکل کراسٹیشن کی طرف چلاآیااورپھردوڑ کرریل کے ڈبے میں جاچڑھا،حتیٰ کہ یورپ،کچھ امریکااور کینیڈا کے ساتھ ساتھ مصرکی سرسبزوادی نیل اورسعودی عرب کے صحراؤں کوبھی انھی آہنی پٹریوں پرسفرکرتے ہوئے گزرا۔عملی زندگی سے فراغت پا کر گوشہ عافیت میں آن بیٹھاتوخیال آیاکہ کیوں نہ کئی دہائیوں کومحیط اپنی محبت کا قر ض چکادیاجائے۔خیال سیدھاجاکردل میں پیوست ہوااورریل کے سفرکی کئی بھولی بسری یادیں ذہن میں عود کرآئیں۔سوچاان کوصفحہ قرطاس پراتارنے میں وقت ہی کتنالگے گا۔کچھ داستانیں سناؤں گا۔چھک چھک کرتے ہوئے اپنے چہیتے اسٹیم انجن کی پھنکاراوراس کی اداس کردینے والی سیٹیوں کے چندقصے بیان ہوں گے اور پھر ڈبوں میں بیٹھے مسافروں کے عارضی پیارومحبت کی داستانیں اوربحث وتکرارکی کہانیاں۔تو بس کتاب مکمل۔جب دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر منصوبے پرکام شروع کیاتوہکابکارہ گیا۔بات اتنی سادہ بھی نہیں تھی،جتنامیں نے سمجھ لیاتھا ۔یہاں توایک مکمل جہان آبادتھا۔ چیختے ، دہاڑتے اورپھنکارتے ہوئے رنگ برنگے انجن،ان کی کان پھاڑدینے والی سیٹیاں اوروسل،بھا نت بھانت کی گاڑیاں اورڈبے، اسٹیشنوں اورپلیٹ فارم پردوڑتے بھاگتے کچھ سرکاری اورغیرسرکاری کردار۔اطلاعی گھنٹیاں،ہٹوبچوکی صدائیں،غرض ہرطرف ہاہاکارمچی ہوئی تھی جس کوگھیرگھارکرتحریرکے احاطے میں لاناتھا۔ذاتی تجربات رقم کرنے کے ساتھ ریلوے سے متعلق موضوعات پرہلکی پھلکی تحقیقات بھی شروع کی جووقت کے ساتھ شدید گہری ہوتی چلی گئی۔ اس موضوع پرچھوٹی سی کتاب نہیں بلکہ سینکڑوں ضخیم کتب بھی تحریرکردی جائیں تو حق ادا نہ ہو اوراس تحریرکاکیافائدہ کے قارئین کواپنے بنیادی سوالات کاجواب ہی نہ ملے اوران کی تشنگی بھی باقی رہے۔غوروخوص کے بعدطے کیاکہ اپنے قصے کہانیاںسنانے کے بجائے اسے ایک ترتیب سے تحریرکیاجائے اوربیچ میں کہیں کہیں اپنی آپ بیتیاں سنانے کی بھی گنجائش نکال لی جائے۔نتیجتاًایک ایسی کتاب وجود میں آئی جس میں،میں نے بھاپ کے ابتدائی نسل کے بھدے اوربیہودہ انجن سے ایک تھکی ماندی چھکڑاسی گاڑی چلواکراسے دورِجدیدکی بغیرپہیوں والی میگلیوٹرین تک پہنچادیا۔ریل کے کسی بھی شعبے کی دقیق قسم کی تاریخی،جغرافیائی اورتکنیکی پیچیدگیوں میں جائے بناان معلومات کوسیدھی سادھی زبان میں وہاں تک ہی محدود رکھاجہاں تک یہ عام قاری کی سمجھ میں آجائے۔کتاب کی تیاری کی خاطرمجھے کئی اجڑے اسٹیشنوں اورٹوٹی پھوٹی پٹریوں کوبھی جاکردیکھناپڑا ،جن کومیں نے جیتی جاگتی اوررواں دواں حالت میں دیکھاتھااوریوں پاکستان میں ریلوے کی بربادی کی داستان بھی یہاں رقم ہوئی۔جو جان لیواحادثات ہوتے رہے ہیں،ان کاذکربھی ایک تواترسے کیاہے۔ریلوے کے ہرمحکمے کی کارکردگی کاتنقیدی جائزہ اس اندازسے لیا کہ اسے پڑھ کرکسی کا مزاج برہم نہ ہواوراس عظیم مگرقریب المرگ ادارے کانوحہ بھی لکھاجاسکے۔”
”ریل کی جادونگری” محمدسعیدجاویدکے قلم کاشاہکارہے۔جس میں ریل اوراس کے محکمے سے متعلق ہرقسم کی معلومات اس طرح یکجاکردیا گیا ہے کہ کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی ۔یہ اس موضوع پرمنفردہی نہیں ضخیم کتاب ہے۔بڑے سائزکے ساڑھے پانچ سوصفحات کے عمدہ سفید کاغذ اورآرٹ پیپرپرچالیس صفحات کی رنگین تصاویرسے مزین کتاب بک ہوم کے راناعبدالرحمٰن نے انتہائی خوبصورت طباعت سے آراستہ کی ہے۔کتا ب کی بائیڈنگ بہترین اورکتابت دیدہ زیب ہے۔اس عمدہ کتاب کی اشاعت پربک ہوم مبارک بادکے حقدارہیں۔
ضخیم کتاب کاانتساب بھی ذومعنی اوردلچسپ ہے۔ ”ریل گاڑی کے نام۔۔دوچاربرس کی بات نہیں یہ دوصدیوں کاقصہ ہے کہ چندلوگ کاندھوں پربیلچے دھرے اورہاتھوں میں وزنی ہتھوڑے تھامے ہوئے ریل کی جادونگری میں داخل ہوئے اورپھروہ خود وہاں نکل سکے نہ ہی نئے آنے والوں کواندرآنے سے روک سکے۔میں اپنی یہ کتاب دنیابھرکے ان ہزاروں لاکھوں ریلوے ملازمین اورریل گاڑی کے مداحوں کے نام منسوب کرتاہوں جن کی شب وروزکی انتھک محنت اوربے پایاں محبت اورلگن کے باعث ریل گاڑی کاپہیہ گھومااورپھرگھومتاہی رہا۔ یہاں تک کہ نقل وحمل کی دنیامیں ایک انقلاب آگیااوریوں چھ کلومیٹرفی گھنٹہ سے اپنے سفرکاآغازکرنے والی گاڑی کی رفتارچھ سوکلومیٹرفی گھنٹہ ہوگئی۔”
ضخیم ”ریل کی جادونگری” کونوحصوں اورہرحصے کوکئی ذیلی ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ان حصوں کی فہرست ہی چودہ صفحات پرمبنی ہے۔جس سے قارئین بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ محمدسعیدجاویدنے موضوع پرکس جانفشانی سے تحقیق کی ہے اورایک جامع کتاب پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان کادلنشین اندازتحریراورسادہ اورشگفتہ اسلوب کہیں پڑھنے والے کی دلچسپی کم نہیں ہونے دیتا۔انتہائی دلچسپ اور حیران کن انکشافات قاری کودم بخود کردیتے ہیں۔انگریزکے قائم کردہ ریلوے کے محکمے کے ساتھ پاکستان میں کیاسلوک کیاگیااور بھارت میںاس نے کتنی اورکیسی ترقی کی۔یہ سب کچھ چشم کشاحقائق ہیں جو”ریل کی جادونگری”میں سامنے آتے ہیں۔
”ریل کی جادونگری”کے نوحصوں اوران کے ابواب اورذیلی عنوانات سے کتاب کے موضوعات کی وسعت اورہمہ گیری کااندازہ بخوبی کیا جا سکتاہے۔ حصہ اول”تاریخیات وتخلیقات” ہے جس کاپہلاباب”ریل چلتی ہے”،”ابتدا” اور”اورانجن چل پڑا” ہیں۔جس میں بھاپ کی طاقت کاادراک،اس کے انجن کی ایجاداور بہتری کی کوششیں اوربالآخر ریل کی پٹریوں پردوڑنے کے آغازکاہرپہلوبیان کیا گیا ہے ۔ دوسر اباب، ”ریل گاڑی ہندوستان بھی آپہنچی”۔تیسراباب،”پاکستان بھی توآناتھا”،”دریائی سفر،انڈس فلوٹیلا”اور”گاڑی آتی ہے” میں برصغیراور پھر پاکستان میں ریل کی آمدکے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
حصہ دوم”ایجادات وتکنیکیات” ہے۔جس کاپہلاباب،”کھیل پٹریوں کا”ذیلی موضوعات”نئی ریلوے لائن”،”نئی پٹری کی بچھوائی”،” پٹریوں کے گیج”،”پٹریوں کی دیکھ بھال”ہیں۔دوسرے باب،”ریلوے لائن” کے تحت مختلف لائنوں،”سنگل لائن”،”ڈبل لائن،” ریک لائن”،کیچ لائن/کھڈے لائن”،”بفرز”،” شنٹنگ لائن” ،”واشنگ لائن”اور”ٹرن ٹیبل لائن،انجن کی سمت بدلنے والی پٹری”کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں۔باب تین،”ریلوے انجن ” میں ”اسٹیم انجن”،”ڈیزل انجن”،”ڈیڈمین سوئچ”،”پاکستانی ڈیزل انجن”،” بادشاہ کون ٹھہرا؟”،”برقی انجن” ،”شمسی توانائی (سولرپاور( انجن ” اورمیگلیوٹرین” کی معلومات فراہم کی گی ہیں۔چوتھاباب ،”ریل گاڑیاں” ہے ۔جس کے ذیلی عنوانات میں ”گاڑیوں کی قسمی”،”میل گاڑی”،”سپرایکسپریس گاڑی” ایکسپریس گاڑی”،”پسنجرگاڑی”،” ریل کار”،”خصوصی گاڑیاں”،” مینٹی نینس ٹرین”،” ریلیف ٹرین”،”ہارس اینڈکیٹل ٹرین” اورآرمی ٹرین ”شامل ہیں۔اس حصے کا پانچواں باب ”بوگیاں ،ڈبے،کوچز،کمپارٹمنٹ ،اوران کی درجہ بندی ہے۔جن میں” بوگیوںکی قدیم درجہ بندیاں” اور”پاکستان ریلوے کی نئی درجہ بندی ” ہے۔چھٹاباب ،”کچھ اورڈبے” میں ”پاوروین”،” بریک وین/گارڈکیبن”،”ریفروین”،” پولیس وین”،” ڈائننگ کار ” ،”ڈائننگ کارکے بیرے”،”وی آئی پی کوچ”،” پوسٹل وین۔ڈاک کاڈبہ”،”مسافرگاڑیوں میں ڈبوں کی تعداد” اورباب سات ”مال گاڑی” میں ”عام ویگن”،” کنٹینرویگن” ،”ٹینکرویگن”،”اجناس لے وانے والی ہوپرویگن”،”کول ویگن”،”آرمی ویگن”،” ریلوے ویگن ”،”بریک ویگن۔کبوس”اورمال گاڑی میں ویگنوں کی تعداد” کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان تمام خشک تفصیلات کیلیے مصنف کا اسلوب ایسا دلچسپ ہے کہ پڑھنے والاکہیں بورنہیں ہوتا۔اقتباس ملاحظہ کریں۔”ریل گاڑیاں نئی نئی آئی تھیں توان پٹریوںکوبچھانے کاکام افرادی قوت سے لیاجاتاتھا۔درجنوں مزدورپٹری کے بھاری بھر کم گارڈرکورسوں کی مدد سے کاندھوں پراٹھاکرلاتے اورتنصیب کی جگہ پٹخ دیتے۔وہاں پہلے لکڑی کے سلیپرترتیب سے رکھے جاتے پھران پر پٹری کومتوازن کرکے سلیپروں کے ساتھ جوڑ کروہاں نٹ بولٹ کس دیے جاتے تھے۔پاکستان میں براڈگیج پٹری کے گارڈرکی اوسط لمبائی چالیس فٹ ہوتی ہے جوپچھلے ڈیڑھ سوبرس سے ہی چلی آرہی ہے۔لیکن یورپ اورامریکامیں مسلسل تجربات سے نتیجہ اخذکیاگیاکہ ایک پٹری جتنی طویل ہوگی اتناہی بہترہے۔وہاں اب گارڈرکی طوالت چارسوفٹ سے زیادہ بھی ہے۔یعنی ہماری پٹری سے دس گناطویل۔نتیجتا ً جہاں ایک جوڑپانچ سیکنڈبعدآتاہے وہاں طویل پٹری پروہ پچاس سیکنڈبعدآئے گا۔دورِجدیدمیں توپٹری کی تعمیرکے لیے ایسی ایسی خودکار مشینیں آگئی ہیں کہ ان کاکام کرتادیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ مشین بذات ِخودایک لمبی سی ریل گاڑی کی شکل کی ہوتی ہے مقام تنصیب پرآتے وقت یہ گاڑی تعمیرمیں استعمال ہونے والاساراضروری سازوسامان اورآلات ساتھ لے کرہی فیکٹری سے نکلتی ہے ۔اس میں درجنو ںکے حساب سے پٹریوں اورسلیپروں کے مکمل اورتیارسیٹ ایک لمبی ٹرالی میں تریب کے ساتھ اوپرنیچے رکھے ہوتے ہیں۔مجوزہ مقام پر پہنچتے ہی وہ پٹری کاایک بنابنایامکمل سیٹ جس میں گارڈراورسلیپرپہلے سے ہی نصب کیے ہوئے ہوتے ہیں،ایک خودکارطریقے سے اپنے اوپر سے اتارکرہموارجگہ پرانتہائی نفاست اورترتیب سے رکھتی جاتی ہے کمپیوٹرخود ہی نوک پلک درست کرتاہے،پھرکمپیوٹرکی ہی مدد سے مشین طے شدہ فاصلے پرزمین میں سوراخ کرکے سلیپروں کی تنصیب کردیتی ہے۔خودکارمشینوں سے ہی نٹ بولٹ کسے جاتے ہیں اورپھر اسی مشین کے ساتھ چلتے ہوئے ایک ڈبے میں سے دھڑدھڑسینکڑوں ٹن چھوٹے چھوٹے پتھرنکل کرپٹریوں کے بیچ اوراس کے اردگردبکھر جا تے ہیں اورخودکارنظام کے تحت ان پتھروںکوسلیپروں کے نیچے دھکیل دیااورپٹری کے اندرباہرپھیلادیاجاتاہے۔ان پتھروں کابوجھ اتنا زیادہ ہوتاہے کہ وہ پٹری کے گارڈروں اورسلیپروں پراپنادباؤبنائے رکھتے ہیںاوراسے اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیتے۔”
حصہ سوم”افرادوخدمات ” ہے۔جس کے باب ایک میں گاڑی کاعملہ، ڈرائیور،اسسٹنٹ ڈرائیور،ٹرین گارڈ،بریک مین،میکنک اورالیکٹر یشن،ٹکٹ چیکر/ٹی ٹی بابابو،ریلوے پولیس،آزردہ روحیں،ڈائننگ کارکاعملہ،جبکہ دوسرے باب ”اسٹیشن کاعملہ” میںہالٹ اسٹیشن کاعملہ، مستقل اورعمومی اسٹیشن کاعملہ،سپراسٹیشن کاعملہ، تکنیکی عملہ، پانی بھرنے والاعملہ،بکنگ اورانکوائری کاعملہ،دفتری عملہ،متفرق عملہ اورقلی کے عنوا نات سے ریلوے کے تمام عملے کابھرپورتعارف کرایاگیاہے۔
ان بظاہرغیردلچسپ امورکے لیے محمدسعیدجاویداندازِبیان ملاحظہ کریں۔” بفرزکابڑا استعمال جوسب نے دیکھاہوگا،وہ ریلوے اسٹیشن پرہوتاہے،جب پلیٹ فارم پرکھڑی کسی بھی گاری کے آگے انجن کولگاناہوتاہے،یاڈبوں کوآپس میں منسلک کرنا ہوتاہے۔یہ ایک دلچسپ منظرہوتاہے جس کودیکھنے کی خاطرپلیٹ فارم پرکھڑے بہت سارے مسافر’جائے وقوعہ’ پرپہنچ جاتے ہیں تاکہ اس نظارے سے محروم نہ رہ جائیں۔انجن آہستہ آہستہ الٹے قدموں مستانی سی چال چلتاہواآتاہے اوراس کے بفر گاڑی کے سب سے اگلے ڈبے والے ساتھیوںسے آن ٹکراتے ہیں۔پوری گاڑی کوایک ہلکاساجھٹکالگتاہے،دونوں پسٹن ایک خوبصورت دھماکے سے اندردھنس جاتے ہیں اورمحبت بھرے دلوں کی طرح ایک دوجے کے بہت قریب ہوجاتے ہیں۔نیچے ریلوے لائن پرکھڑاہوالائن مین اس موقع سے فائدہ اٹھاتاہے اوربجلی کی سی پھرتی سے انجن کے ساتھ لٹکی ہوئی ایک مضبوط فولادی زنجیرپچھلے ڈبے کے آنکڑے میں پھنساکردونوںکوآپس میں جوڑکرجلدی سے زنجیر کے لیورکومروڑ کرپورے طورپرکس کے انھیں ایک عرصے تک کے لیے وصل آشناکردیتاہے۔ انجن کے پیچھے آنے والے ڈبوں کوآپس میں جوڑنے کی خاطراس زنجیرکی صحیح طریقے سے تنصیب ہونابہت ضروری ہے۔اگریہ زنجیرڈھیلی رہ جائے یاٹوٹ جائے توڈبوں کاوہ حصہ وہیں رہ جاتاہے اورگاڑی انھیں بھٹکتاچھوڑکرآگے نکل جاتی ہے اوربسااوقات توڈرائیورکوبھی میلوں دورجاکراس بات کاعلم ہوتاہے کہ وہ اپنے کچھ قیمتی اثاثے توراہ ہی میں چھوڑآیاہے۔ایسے یتیم اورمسکین ڈبے کچھ دورتک توگاڑی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اورپھرا ن کی رفتارکم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے اوروہ وہی بیچ میدان میںپہیے پسارے چپ چاپ اس آس میں کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جن ان کویوں چھوڑ کر جانے والی گاڑی کوان کی کمی محسوس ہوگی تووہ الٹے قدموں لوٹ آئے گی۔”
”کیاآپ کویہ علم ہے کہ انجن میں کوئی بیت الخلانہیں ہوتا۔اگرڈرائیوریااسسٹنٹ کے ساتھ کچھ ایساویساہوجائے تووہ جتنامرضی دوڑکرلے اس کوانجن کی حدتک توکوئی منزل مرادنظرنہیں آتی اوراسے بہرحال اگلے اسٹیشن کاانتظارکرناپڑتاہے،جہاں پہنچ کروہ انجن سے اترکرساتھ ہی لگے ہوئے پہلے ڈبے کے بیت الخلاکی طرف دوڑ لگادیتاہے یاپھراسٹیشن پراسی مقصدکے لیے بنی ہوئی عمارت میں حاضری دے کرکچھ سکون پاتاہے۔محکمے والوں نے ان پراتناکرم کیاہواہے کہ خدانخواستہ کسی بھی اسٹیشن پرگاڑی روک کروہاں اپنی حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ آپ جب کسی ڈرائیوریااسسٹنٹ کوانجن سے اترکراسٹیشن کی طرف دوڑ لگاتادیکھیں توسمجھ لیں کہ وہ اس وقت حالت اضطراب میں ہے۔”
ریلوے انجنوں نے کس طرح بھاپ کے ابتدائی انجن سے جدیدترین میگلیوٹرین تک دنیابھرمیں ریل کی ترقی اورمغربی ممالک سے پاکستان کاموازنہ انتہائی چشم کشا اورعبرتناک ہے۔ہم نے کس طرح انگریزکی بنائی ہوئی ریلوں اورپٹریوں کوتباہ وبربادکیا۔ہندوستان میں چونتیس کلومیٹرسے شروع ہونے والی ریل کی پٹری کواگلے تیس برس میں چودہ ہزارکلومیٹرتک پہنچادیاگیا اورتقسیم ہندتک ہندوستان میں ریل کی پٹریوں کی مجموعی لمبائی سترہزارکلومیٹرتک پہنچ چکی تھی۔1947ء میں جب پاکستان وجودمیں آیاتواس کے حصے میں بھی کوئی آٹھ ہزار کلو میٹرطویل ریلوے لائن آئی تھی،جوپاکستانی قوم کی نالائقیوں،ناکام پیش بندیوں اوربدعنوانی کے سبب تہتربرس گزرجانے کے باوجودآج بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔جبکہ ہندوستان نے اپنی باسٹھ ہزارکلومیٹرپٹریوں کومسلسل بڑھایااوراس مدت میں دوگناکرلیاہے۔آج وہاں ریل کی پٹریوں کی لمبائی ایک لاکھ پچیس ہزارکلومیترتک پہنچاکرانھوں نے اپنے ریلوے نظام کواتناوسیع وعریض اورمضبوط کرلیاہے کہ اب وہاں روزانہ تیرہ ہزارکے قریب مسافرگاڑیاں اورلگ بھگ نوہزارمال گاڑیاں مختلف اطراف میں چلتی ہیں۔بھارت میں ریلوے کے ساڑھے سات ہزاراسٹیشن ہیں اورڈھائی کروڑمسافرروزانہ ان گاڑیوں پرسفرکرتے ہیںاورکروڑوں ٹن سامان کی نقل وحمل ہوتی ہے۔بھارتی ریلو ے میں چودہ لاکھ ملازمین ہیں اوریہ اب روس اورچین کے بعددنیاکی تیسری سب سے بڑی ریلوے بن چکی ہے۔
دوسری طرف تقسیم ہند میں پاکستان کے حصے میںآنے والی میل،ایکسپریس اورپسنجرگاڑیوں کی تعدادپانچ سوکے قریب تھی۔جب جگہ جگہ سڑکیں تعمیرہوئں اندرون ملک سفرآسان ہواتولوگ ریل گاڑی کے بجائے بس کے سفرکوترجیح دینے لگے اوربرانچ لائنوں پرچلنے والی گاڑیا ں منافع بخش نہ رہیں اوراسے خسارے کوجوازبناکربہت سی لائنیں بندکردی گئیں۔اس جبری بندش کے بعدملک میں ریل گاڑیاںڈھائی سو رہ گئیں۔جواب صرف ایک سوبیس گاڑیوں تک محدود ہے،جوبھارت میں چلنے والی گاڑیوں کاایک فیصد بھی نہیں ہے۔اس سے پاکستان ریلوے کی زبوں حالی کااندازہ کیاجاسکتاہے۔
محمدسعیدخالدکس طرح بھاپ کے انجن سے جدیدترین میگلیوٹرین تک قاری کولے کرآئے۔”ریل کوچلانے کاساراکھیل کم سے کم لاگت میں انجن کومطلوبہ طاقت پہنچاناہے اورجیسے بھی ہواسے مزیدتوانابناناہے،جب انجن چل پڑتاہے تومعصوم سی گاڑی توبچاری خود ہی کسی دلہن کی طرح شرمائی لجائی اس کے پیچھے لگ کرچلنے لگتی ہے۔اس کے لیے بھاپ کے بعدڈیزل،بجلی کے بعدسولریعنی سورج کی توائی استعمال کرنے کی بھی کوشش کی گئی،جوکچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی،تاہم اس پرمسلسل کام جاری ہے۔ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعدٹرین جدیدترین میگلیوٹرین تک پہنچی۔یہ مکمل طورپرایسی گاڑی ہے جس میں کوئی پہیے نہیں ہوتے۔پریشان ہوگئے ناآپ؟ سوچتے ہوں گے کہ پہیوں کے بغیربھلاکوئی ریل گاڑی کیاخاک بھاگے گی،بالکل جناب یقین کریں ایساہی ہے۔ اس کومیگلیوٹرین یعنی میگنیٹک لیویٹیشن کہتے ہیں۔اس کوچلانے کے لیے دوطاقتورمقناطیسوں کاسیٹ درکارہوتاہے۔جس میں ایک تواپنامقناطیسی میدان بناکرگاڑی کوپٹری سے اوپر اٹھائے رکھتاہے اوردوسرااس کوتیزرفتاری سے آگے یاپیچھے دھکیلتاہے چونکہ گاڑی کے اوپراٹھ جانے سے اس کاپٹری یابنیادسے کوئی رابطہ نہیں رہتااس لیے وہ کسی چیزسے رگڑنہیں کھاتی اورہواؤں میں تیرتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہے۔برقی مقناطیسوں کی مددسے چلنے والی یہ گاڑ ی نہ صرف روایتی برقی ریل سے زیادہ تیزچلتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تورفتارمیں یہ ہوائی جہازسے بھی مقابلے پراترآتی ہے۔اس ساری کہانی میں مزیداربات یہ ہے کہ اس گاڑی میں سوائے گاڑی کے اورکوئی حرکت کرنے والاکل پرزہ یاحصہ نہیں ہوتا۔میگلیوٹرین پہلے سے بنی ہوئی مقناطیسی پٹریوں پرفراٹے بھرتی ہوئی چلتی ہے اوراس پرنہ توکوئی جھٹکالگتاہے اورنہ ہی دوسری گاڑیوں کی طرح اس کے چلنے سے کوئی آوازآتی ہے۔سب سے بڑھ کریہ کہ اس کی رفتارعام بلت ٹرین جیسی جدیدگاڑی سے دوگناہوتی ہے۔اس کی رفتارچارپانچ سوکلو میٹرفی گھنٹہ تواس گاڑی کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔جاپان والے توایسی طاقتورگاری بناچکے ہیں جس کی رفتارچھ سوکلومیٹرتک جاپہنچی ہے ۔رفتارکی سوئی ابھی اورآگے جانے کوبے چین تھی کہ اسے وہیں روک دیاگیا۔عام الفاظ میں یوں سمجھیں کہ میگلیوٹرین پرلاہورسے کراچی تک بارہ سوکلومیٹرفاصلہ محض دوگھنٹے میں طے ہوجائے گا۔پچھلی صدی کے بھاپ کے انجن والی گاڑیاں دوتین دن اورآج کل کی تیزرفتار ڈیزل گاڑی یہ فاصلہ اٹھارہ گھنٹے میں طے کرتی ہے۔”
”ریل کی جادونگری” کایہ سفرانتہائی دلچسپ اورچشم کشاہے۔محمدسعیدجاویدکاسادہ اورپرلطف اسلوب اوراندازِ بیان اس کی دلچسپی میں ہر صفحے کے ساتھ اضافہ کرتاہے اورقاری پوری کتاب پڑھ کرریل اوراس کے سفر،مختلف انجنوں،ڈبوں اورویگنوں،ریلوے ملازمین،ادارے میں کام کرنے کے طریقہ کار،اس میں ہونے والی ترقی اورجدیدٹرینوں کے بارے میں ہرضروری تفصیل سے آگاہ ہوجاتاہے اورتفصیلات محض خشک اعداووشمارنہیں بلکہ دلچسپ اورقابل مطالعہ ہیں۔اسی لیے راقم نے اسے ریل کے بارے میں جامع انسائیکلوپیڈیاقراردیاہے۔
کتاب کاحصہ چہارم”عمارات وتنصیبات ” ہے۔جس کاباب اول”ریلوے اسٹیشن” میں ”اسٹیشنوں کی اقسام”،”ہالٹ”،”عمومی اسٹیشن” ، ”بڑے اسٹیشن اورجنگشن”پرمبنی ہے۔باب دوم ”پلیٹ فارم” میں ”بڑے اسٹیشن کاپلیٹ فارم”،”چائے گرم اے”،”ٹھنڈاپانی”،” پلیٹ فارم پرعمومی سرگرمیاں”،”ریلوے ٹائم ٹیبل”،”چھوٹے اسٹیشن کاپلیٹ فارم”،”پلیٹ فارم پرسزاوجزا” اور”انتظارگاہیں”کے تحت معلوما ت ہیں۔باب سوم”دنیاسے دورایک اوردنیا”کے ذیلی موضوعات میں”اسٹیشن کی گھنٹی”،” کیش بکس”،”اسٹیشن ماسٹر۔ذمہ داریاں ذرا ہٹ کے”،”انٹرلا گنگ،سگنل کیبن”،” سگنل سسٹم”،”ٹوکن سسٹم”،” لیول کراسنگ”ہیں۔باب چہارم”اسٹیشن سے باہرنکلیں” کے ذیلی عنوا نات میں”اسٹیشن سے باہرکاماحول ” اور”کھمبے ہی کھمبے” ہیں۔
حصہ پنجم”جغرافیات وسفریات ” ہے۔جس کاپہلاباب”مرکزی لائن۔کراچی،کوٹری،لاڑکانہ،سکھر اورروہڑی” ہے۔جس میں ”تاریخ” ، ”مبارک،سلامت”،”کوٹری،لاڑکانہ،سکھر،روہڑی”،”اب کیاکریں؟”،”لینس ڈاؤن برج”،”ہے جمالو”،” ایوب برج” مضامین شامل ہیں۔دوسراباب”مرکزی لائن۔ایم ایل 1پہلاحصہ ” ہے جس میں کراچی لاہورلائن کے اہم مقامات کی تفصیل ہے۔تیسراباب ”لاہورجنکشن” چوتھا”لاہورتاپشاورایم ایل 1دوسراحصہ” اورپانچواں باب”لاہورتاپشاور،شہرشہر” ہے ۔جس میں مختلف شہروں کی خصوصیا ت، وہاں کی مشہورچیزیں وغیرہ کی تفصیلات ہیں۔چھٹاباب”مرکزی لائن ایم ایل2” اورساتواں”مرکزی لائن ایم ایل 3حصہ اول” ہے ۔اسی طرح ملک بھرکے مشہوراورگمنام اسٹیشنوں ،شہروں اورقصبوں کی معلومات ہیں۔کتاب کاحصہ ششم ”سماجیات وثقافیات” جس میں ریل کے سفرکی روداد،ہم سفروں کی تعلقات،گپ شپ اوردیگردلچسپیاں موجودہیں۔حصہ ہفتم ”احساسات ومشاہدات” میں ”گاؤں کی ریل گاڑی” ،”ننھی منی گاڑیاں” ،”سعیدریلوے” اور”ماڈل ریلوے”ماڈل ریل ،کھلوناریل اورریل سے متعلق کھیل تماشے ہیں۔حصہ ہشتم ”متفرقات وعمومیات” میں پاکستان ریلوے کے ماتحت ادارے،عمومی معلومات،پاکستان ریلوے کے اعدادوشماراورکچھ اوردلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔جبکہ ”ریل کی جادونگری” کانواں اورآخری حصہ ”مستقبلیات وتوقعات” ہے۔جس کے تحت ”پاکستان ریلو ے کامستقبل”،”مستقبل کے منصوبے”اوردیگرتفصیلات ہیں۔غرض محمدسعیدجاوید نے ریل کی ایجادسے لے کرہندوستان اورپاکستان میں آمداورپاکستان ریلوے سے متعلق کوئی پہلونہیں چھوڑاہے۔
”ریل کی جادونگری” جیسی غیرمعمولی ،دلچسپ اورقابلِ مطالعہ کتاب تحریرکرنے پرمحمدسعید جاویدکودلی مبارک باداوریہ دعاکہ ”اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ۔
ریل کی جادونگری،ایجادسے لیکرجدیدترین میگلیوٹرین تک کاجامع انسائیکلوپیڈیا
تحریر:نعیم الرحمٰن
”ریل کی جادونگری” محمدسعیدجاویدکی چوتھی تصنیف اور انتہائی دلچسپ اورمعلومات افزاکتاب ہے۔یہ کتاب دراصل ریل کی ایجاد،برصغیر اورپاکستان میں آمدسے لے کراس پٹریوں ،ڈبوں،ملازمین وماہرین اورجدیدترین میگلیوٹرین کاجامع انسائیکلوپیڈیاہے ۔محمد سعید جاوید کا تعلق فورٹ عباس کے ایک روایتی اورمتوسط گھرانے سے ہے۔بچپن اورلڑکپن کراچی میں گزارا اورجامعہ کراچی سے تعلیم مکمل کرکے اسی شہرمیں اپنی عملی زندگی کا آغازکیا۔پھرحبیب بینک میں منیجرکی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اگلے پچیس برس ریاض میں قائم سعودی عرب کے ہسپتال میں مالیا ت کے ایک شعبے کی سربراہی کی۔پاکستان واپسی پرلاہورکے ڈاکٹرزہسپتال کے انتظامی امورسنبھالے اور چار برس تک وہاں بطورسینئرایڈ منسٹریٹرذمہ داریاںنبھائیں۔ریٹائرمنٹ کے بعدقلم سے ناطہ جوڑااورآغاز اپنی خودنوشت”اچھی گزرگئی” سے کیا۔
”اچھی گزرگئی” محمدسعیدجاویدکی پہلی تصنیف ایک جامع اوربھرپورزندگی کاعمدگی سے احاطہ کرتی ہے،جسے زبان وبیان کی خوبصورتی اور سادگی کی وجہ سے بے حدپذیرائی ملی۔کتاب کوکئی ایوارڈزکابھی حقدارقراردیاگیا۔پاکستان بھرکے ادبی جریدوں اورناقدین نے کتاب کو بہت سراہا اوراس پردلچسپ اورعمدہ تبصرے کیے۔مرحوم ادیب اورنقادڈاکٹرانورسدید اورکئی دوسرے سینئرادیبوں نے ”اچھی گزرگئی” کو ملک کے تعلیمی اداروں اورپبلک لائبریریوں کاحصہ بنانے کی سفارش بھی کی۔
خودنوشت کے بعدسعیدجاوید نے”مصریات” کے نام سے مصرکاسفرنامہ تحریرکیا۔جس میں انہوںنے دورِجدیدکے مصریوں اورازمنہ قدیم کے فرعونوں کے ساتھ گزارے ہوئے خوشگوارلمحات کوانتہائی شگفتہ اوردلچسپ پیرائے میں اس طرح پیش کیاکہ قاری لمحے بھرکوبھی بیزارنہیں ہوتا اوراپنے آپ کواسی معاشرے کاایک حصہ سمجھنے لگتاہے۔سنی سنائی کہانیوں سے متاثرہوئے بغیرمصنف حقیقت کی کھوج میں خودمصرمیں جابجاپھیلے ہوئے فراعین کے اہراموں،مندروںاورزیرِزمین مقبروں میں اترگیا،پھرقارہرہ کے قدیم وجدیدبازاراورعجائب گھرچھان مارے،دریائے نیل کنارے بنی ہوئی طرب گاہوں میں بھی جھانکااورجب ان معلومات کوایک جگہ سمیٹاگیاتویہ دلچسپ کتاب وجودمیں آئی جوبے حدمقبول ہوئی کیونکہ اس سے پہلے مصرکاسفرنامہ کبھی اس اندازسے تحریرہی نہیں ہواتھا۔
محمدسعیدجاویدنے تیسری کتاب”ایساتھامیراکراچی” تحریرکی۔جس میں مصنف نے کراچی کے سنہری دورکے بارے میں تفصیل سے لکھا ہے جب یہ شہردلفگاراپنے امن،خلوص ومحبت،اورغریب پروری کی وجہ سے سارے پاکستان میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھاجاتاتھا۔ اس وقت کویادکرکے اب بھی وہاں کے پرانے باسیوں کی آنکھوں کے گوشے بھیگ جاتے ہیں۔کراچی کے ابتدائی دورکی روزمرہ زندگی کے پس منظرمیں تحریرکی گئی کتاب کاشمارمسلسل کئی ماہ تک شہرکراچی پرلکھی گئی بہترین کتابوں میں ہوتارہا۔
تین بہترین کتابیں تحریرکرنے پربھی محمدسعیدجاوید کاقلم تھکن کاشکارنہیں ہوا اورانہیں نئے موضوع کی تلاش ہوئی،توانہوں نے اپنے بچپن کے پیارریل اوراسے جڑیں بے شماریادوں اورباتوں کوچنا۔کتاب کانام قارئین سے رائے لیکر ”ریل کی جادونگری” طے ہوا۔ریل کے بارے میں اردومیں تین بہترین کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ پہلی رضاعلی عابدی کی ”ریل کہانی ”ہے جوبی بی سی لندن کے گروپرام کے لیے پشاور سے کلکتہ تک ریل کے سفر،اسٹیشنز اورمسافروں کے بیان پرمبنی ہے۔جسے بعد میںعابدی صاحب نے کتابی شکل دی۔فضل الرحمٰن نے اپنی اوروالدکی ریلوے کی طویل ملازمت کی یادوں کو”رودادریل کی”کے عنوان سے پیش کیا۔محمدحسن معراج نے ”ریل کی سیٹی”کے نام سے پنڈی سے اچ شریف تک کے ریل کی پٹری کے ساتھ سفرکیا۔ریل کے ساتھ ساتھ جودریابہتے ہیں،اورجوگاؤں،قصبے ،شہرآباد ہیں،مصنف نے ان سب کی صدیوں پرپھیلی تاریخ وتہذیب کے اندرسفرکیا۔اس تاریخ میں جتنے اہم کردار اورواقعات تھے،جوان علاقوں پراثراندازہوئے،ان سب کااحاطہ کیاگیاہے۔ان تاریخی واقعات اورکرداروں نے یہاں کے باسیوںکی سیاسی،معاشی ،ثقافتی اورنفسی وتخلیقی زندگی پرجواثرات مرتب کیے ،ان کی طرف بھی معنی خیزاشارے کیے۔یہ کہناغلط نہ ہوگاکہ مصنف نے پاکستانی پنجاب کے ثقافتی لاشعورکی بازیافت کی ہے۔مصنف کی مطالعے کی وسعت حیران کن،اوراسے اختصارکے ساتھ پیش کرنے کاسلیقہ متاثرکن ہے۔ان تین بہترین کتب کے بعدسعیدجاویدکا”ریل کی جادونگری”لکھنا،کسی امتحان سے کم نہ تھا۔لیکن وہ اس امتحان میں بھی سرخرورہے۔کتاب کے پیش لفظ میں سعیدجاویدلکھتے ہیں۔”ریل گاڑی،اس کے دیوہیکل سیاہ انجن اوراس کی آزردہ سی سیٹی سے میراعشق قدیم اوربھرپور ہے۔ شاید تاریخ کی کتابوں میں دفن محبتوں کے مارے ہوئے عشاق سے بھی زیادہ۔ یہ عشق گوکچی عمرکاتھامگرکچاہرگزنہیں تھاکیوں کہ بعدازاں یہ پکاہوکرساری زندگی میرے ساتھ ہی چلتارہاہے۔قسامِ رزق نے ایک طویل عرصہ وطن سے دوررکھ کردردرکی خاک چھنوائی۔ملکوں ملکوں گھوما،تب بھی اسے بھلانہیں پایا۔دیارِغیر میں بھی میری کوشش یہی رہی کہ سفر جہا زوں کے بجائے ریل گاڑی میں سے ہی طے کیا جائے ۔ جہاں بھی موقع ملاایئرپورٹ سے نکل کراسٹیشن کی طرف چلاآیااورپھردوڑ کرریل کے ڈبے میں جاچڑھا،حتیٰ کہ یورپ،کچھ امریکااور کینیڈا کے ساتھ ساتھ مصرکی سرسبزوادی نیل اورسعودی عرب کے صحراؤں کوبھی انھی آہنی پٹریوں پرسفرکرتے ہوئے گزرا۔عملی زندگی سے فراغت پا کر گوشہ عافیت میں آن بیٹھاتوخیال آیاکہ کیوں نہ کئی دہائیوں کومحیط اپنی محبت کا قر ض چکادیاجائے۔خیال سیدھاجاکردل میں پیوست ہوااورریل کے سفرکی کئی بھولی بسری یادیں ذہن میں عود کرآئیں۔سوچاان کوصفحہ قرطاس پراتارنے میں وقت ہی کتنالگے گا۔کچھ داستانیں سناؤں گا۔چھک چھک کرتے ہوئے اپنے چہیتے اسٹیم انجن کی پھنکاراوراس کی اداس کردینے والی سیٹیوں کے چندقصے بیان ہوں گے اور پھر ڈبوں میں بیٹھے مسافروں کے عارضی پیارومحبت کی داستانیں اوربحث وتکرارکی کہانیاں۔تو بس کتاب مکمل۔جب دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر منصوبے پرکام شروع کیاتوہکابکارہ گیا۔بات اتنی سادہ بھی نہیں تھی،جتنامیں نے سمجھ لیاتھا ۔یہاں توایک مکمل جہان آبادتھا۔ چیختے ، دہاڑتے اورپھنکارتے ہوئے رنگ برنگے انجن،ان کی کان پھاڑدینے والی سیٹیاں اوروسل،بھا نت بھانت کی گاڑیاں اورڈبے، اسٹیشنوں اورپلیٹ فارم پردوڑتے بھاگتے کچھ سرکاری اورغیرسرکاری کردار۔اطلاعی گھنٹیاں،ہٹوبچوکی صدائیں،غرض ہرطرف ہاہاکارمچی ہوئی تھی جس کوگھیرگھارکرتحریرکے احاطے میں لاناتھا۔ذاتی تجربات رقم کرنے کے ساتھ ریلوے سے متعلق موضوعات پرہلکی پھلکی تحقیقات بھی شروع کی جووقت کے ساتھ شدید گہری ہوتی چلی گئی۔ اس موضوع پرچھوٹی سی کتاب نہیں بلکہ سینکڑوں ضخیم کتب بھی تحریرکردی جائیں تو حق ادا نہ ہو اوراس تحریرکاکیافائدہ کے قارئین کواپنے بنیادی سوالات کاجواب ہی نہ ملے اوران کی تشنگی بھی باقی رہے۔غوروخوص کے بعدطے کیاکہ اپنے قصے کہانیاںسنانے کے بجائے اسے ایک ترتیب سے تحریرکیاجائے اوربیچ میں کہیں کہیں اپنی آپ بیتیاں سنانے کی بھی گنجائش نکال لی جائے۔نتیجتاًایک ایسی کتاب وجود میں آئی جس میں،میں نے بھاپ کے ابتدائی نسل کے بھدے اوربیہودہ انجن سے ایک تھکی ماندی چھکڑاسی گاڑی چلواکراسے دورِجدیدکی بغیرپہیوں والی میگلیوٹرین تک پہنچادیا۔ریل کے کسی بھی شعبے کی دقیق قسم کی تاریخی،جغرافیائی اورتکنیکی پیچیدگیوں میں جائے بناان معلومات کوسیدھی سادھی زبان میں وہاں تک ہی محدود رکھاجہاں تک یہ عام قاری کی سمجھ میں آجائے۔کتاب کی تیاری کی خاطرمجھے کئی اجڑے اسٹیشنوں اورٹوٹی پھوٹی پٹریوں کوبھی جاکردیکھناپڑا ،جن کومیں نے جیتی جاگتی اوررواں دواں حالت میں دیکھاتھااوریوں پاکستان میں ریلوے کی بربادی کی داستان بھی یہاں رقم ہوئی۔جو جان لیواحادثات ہوتے رہے ہیں،ان کاذکربھی ایک تواترسے کیاہے۔ریلوے کے ہرمحکمے کی کارکردگی کاتنقیدی جائزہ اس اندازسے لیا کہ اسے پڑھ کرکسی کا مزاج برہم نہ ہواوراس عظیم مگرقریب المرگ ادارے کانوحہ بھی لکھاجاسکے۔”
”ریل کی جادونگری” محمدسعیدجاویدکے قلم کاشاہکارہے۔جس میں ریل اوراس کے محکمے سے متعلق ہرقسم کی معلومات اس طرح یکجاکردیا گیا ہے کہ کوئی تشنگی باقی نہیں رہتی ۔یہ اس موضوع پرمنفردہی نہیں ضخیم کتاب ہے۔بڑے سائزکے ساڑھے پانچ سوصفحات کے عمدہ سفید کاغذ اورآرٹ پیپرپرچالیس صفحات کی رنگین تصاویرسے مزین کتاب بک ہوم کے راناعبدالرحمٰن نے انتہائی خوبصورت طباعت سے آراستہ کی ہے۔کتا ب کی بائیڈنگ بہترین اورکتابت دیدہ زیب ہے۔اس عمدہ کتاب کی اشاعت پربک ہوم مبارک بادکے حقدارہیں۔
ضخیم کتاب کاانتساب بھی ذومعنی اوردلچسپ ہے۔ ”ریل گاڑی کے نام۔۔دوچاربرس کی بات نہیں یہ دوصدیوں کاقصہ ہے کہ چندلوگ کاندھوں پربیلچے دھرے اورہاتھوں میں وزنی ہتھوڑے تھامے ہوئے ریل کی جادونگری میں داخل ہوئے اورپھروہ خود وہاں نکل سکے نہ ہی نئے آنے والوں کواندرآنے سے روک سکے۔میں اپنی یہ کتاب دنیابھرکے ان ہزاروں لاکھوں ریلوے ملازمین اورریل گاڑی کے مداحوں کے نام منسوب کرتاہوں جن کی شب وروزکی انتھک محنت اوربے پایاں محبت اورلگن کے باعث ریل گاڑی کاپہیہ گھومااورپھرگھومتاہی رہا۔ یہاں تک کہ نقل وحمل کی دنیامیں ایک انقلاب آگیااوریوں چھ کلومیٹرفی گھنٹہ سے اپنے سفرکاآغازکرنے والی گاڑی کی رفتارچھ سوکلومیٹرفی گھنٹہ ہوگئی۔”
ضخیم ”ریل کی جادونگری” کونوحصوں اورہرحصے کوکئی ذیلی ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ان حصوں کی فہرست ہی چودہ صفحات پرمبنی ہے۔جس سے قارئین بخوبی اندازہ کرسکتے ہیں کہ محمدسعیدجاویدنے موضوع پرکس جانفشانی سے تحقیق کی ہے اورایک جامع کتاب پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ان کادلنشین اندازتحریراورسادہ اورشگفتہ اسلوب کہیں پڑھنے والے کی دلچسپی کم نہیں ہونے دیتا۔انتہائی دلچسپ اور حیران کن انکشافات قاری کودم بخود کردیتے ہیں۔انگریزکے قائم کردہ ریلوے کے محکمے کے ساتھ پاکستان میں کیاسلوک کیاگیااور بھارت میںاس نے کتنی اورکیسی ترقی کی۔یہ سب کچھ چشم کشاحقائق ہیں جو”ریل کی جادونگری”میں سامنے آتے ہیں۔
”ریل کی جادونگری”کے نوحصوں اوران کے ابواب اورذیلی عنوانات سے کتاب کے موضوعات کی وسعت اورہمہ گیری کااندازہ بخوبی کیا جا سکتاہے۔ حصہ اول”تاریخیات وتخلیقات” ہے جس کاپہلاباب”ریل چلتی ہے”،”ابتدا” اور”اورانجن چل پڑا” ہیں۔جس میں بھاپ کی طاقت کاادراک،اس کے انجن کی ایجاداور بہتری کی کوششیں اوربالآخر ریل کی پٹریوں پردوڑنے کے آغازکاہرپہلوبیان کیا گیا ہے ۔ دوسر اباب، ”ریل گاڑی ہندوستان بھی آپہنچی”۔تیسراباب،”پاکستان بھی توآناتھا”،”دریائی سفر،انڈس فلوٹیلا”اور”گاڑی آتی ہے” میں برصغیراور پھر پاکستان میں ریل کی آمدکے بارے میں معلومات دی گئی ہیں۔
حصہ دوم”ایجادات وتکنیکیات” ہے۔جس کاپہلاباب،”کھیل پٹریوں کا”ذیلی موضوعات”نئی ریلوے لائن”،”نئی پٹری کی بچھوائی”،” پٹریوں کے گیج”،”پٹریوں کی دیکھ بھال”ہیں۔دوسرے باب،”ریلوے لائن” کے تحت مختلف لائنوں،”سنگل لائن”،”ڈبل لائن،” ریک لائن”،کیچ لائن/کھڈے لائن”،”بفرز”،” شنٹنگ لائن” ،”واشنگ لائن”اور”ٹرن ٹیبل لائن،انجن کی سمت بدلنے والی پٹری”کے بارے میں تفصیلات دی گئی ہیں۔باب تین،”ریلوے انجن ” میں ”اسٹیم انجن”،”ڈیزل انجن”،”ڈیڈمین سوئچ”،”پاکستانی ڈیزل انجن”،” بادشاہ کون ٹھہرا؟”،”برقی انجن” ،”شمسی توانائی (سولرپاور( انجن ” اورمیگلیوٹرین” کی معلومات فراہم کی گی ہیں۔چوتھاباب ،”ریل گاڑیاں” ہے ۔جس کے ذیلی عنوانات میں ”گاڑیوں کی قسمی”،”میل گاڑی”،”سپرایکسپریس گاڑی” ایکسپریس گاڑی”،”پسنجرگاڑی”،” ریل کار”،”خصوصی گاڑیاں”،” مینٹی نینس ٹرین”،” ریلیف ٹرین”،”ہارس اینڈکیٹل ٹرین” اورآرمی ٹرین ”شامل ہیں۔اس حصے کا پانچواں باب ”بوگیاں ،ڈبے،کوچز،کمپارٹمنٹ ،اوران کی درجہ بندی ہے۔جن میں” بوگیوںکی قدیم درجہ بندیاں” اور”پاکستان ریلوے کی نئی درجہ بندی ” ہے۔چھٹاباب ،”کچھ اورڈبے” میں ”پاوروین”،” بریک وین/گارڈکیبن”،”ریفروین”،” پولیس وین”،” ڈائننگ کار ” ،”ڈائننگ کارکے بیرے”،”وی آئی پی کوچ”،” پوسٹل وین۔ڈاک کاڈبہ”،”مسافرگاڑیوں میں ڈبوں کی تعداد” اورباب سات ”مال گاڑی” میں ”عام ویگن”،” کنٹینرویگن” ،”ٹینکرویگن”،”اجناس لے وانے والی ہوپرویگن”،”کول ویگن”،”آرمی ویگن”،” ریلوے ویگن ”،”بریک ویگن۔کبوس”اورمال گاڑی میں ویگنوں کی تعداد” کی تفصیلات دی گئی ہیں۔ ان تمام خشک تفصیلات کیلیے مصنف کا اسلوب ایسا دلچسپ ہے کہ پڑھنے والاکہیں بورنہیں ہوتا۔اقتباس ملاحظہ کریں۔”ریل گاڑیاں نئی نئی آئی تھیں توان پٹریوںکوبچھانے کاکام افرادی قوت سے لیاجاتاتھا۔درجنوں مزدورپٹری کے بھاری بھر کم گارڈرکورسوں کی مدد سے کاندھوں پراٹھاکرلاتے اورتنصیب کی جگہ پٹخ دیتے۔وہاں پہلے لکڑی کے سلیپرترتیب سے رکھے جاتے پھران پر پٹری کومتوازن کرکے سلیپروں کے ساتھ جوڑ کروہاں نٹ بولٹ کس دیے جاتے تھے۔پاکستان میں براڈگیج پٹری کے گارڈرکی اوسط لمبائی چالیس فٹ ہوتی ہے جوپچھلے ڈیڑھ سوبرس سے ہی چلی آرہی ہے۔لیکن یورپ اورامریکامیں مسلسل تجربات سے نتیجہ اخذکیاگیاکہ ایک پٹری جتنی طویل ہوگی اتناہی بہترہے۔وہاں اب گارڈرکی طوالت چارسوفٹ سے زیادہ بھی ہے۔یعنی ہماری پٹری سے دس گناطویل۔نتیجتا ً جہاں ایک جوڑپانچ سیکنڈبعدآتاہے وہاں طویل پٹری پروہ پچاس سیکنڈبعدآئے گا۔دورِجدیدمیں توپٹری کی تعمیرکے لیے ایسی ایسی خودکار مشینیں آگئی ہیں کہ ان کاکام کرتادیکھ کرعقل دنگ رہ جاتی ہے۔یہ مشین بذات ِخودایک لمبی سی ریل گاڑی کی شکل کی ہوتی ہے مقام تنصیب پرآتے وقت یہ گاڑی تعمیرمیں استعمال ہونے والاساراضروری سازوسامان اورآلات ساتھ لے کرہی فیکٹری سے نکلتی ہے ۔اس میں درجنو ںکے حساب سے پٹریوں اورسلیپروں کے مکمل اورتیارسیٹ ایک لمبی ٹرالی میں تریب کے ساتھ اوپرنیچے رکھے ہوتے ہیں۔مجوزہ مقام پر پہنچتے ہی وہ پٹری کاایک بنابنایامکمل سیٹ جس میں گارڈراورسلیپرپہلے سے ہی نصب کیے ہوئے ہوتے ہیں،ایک خودکارطریقے سے اپنے اوپر سے اتارکرہموارجگہ پرانتہائی نفاست اورترتیب سے رکھتی جاتی ہے کمپیوٹرخود ہی نوک پلک درست کرتاہے،پھرکمپیوٹرکی ہی مدد سے مشین طے شدہ فاصلے پرزمین میں سوراخ کرکے سلیپروں کی تنصیب کردیتی ہے۔خودکارمشینوں سے ہی نٹ بولٹ کسے جاتے ہیں اورپھر اسی مشین کے ساتھ چلتے ہوئے ایک ڈبے میں سے دھڑدھڑسینکڑوں ٹن چھوٹے چھوٹے پتھرنکل کرپٹریوں کے بیچ اوراس کے اردگردبکھر جا تے ہیں اورخودکارنظام کے تحت ان پتھروںکوسلیپروں کے نیچے دھکیل دیااورپٹری کے اندرباہرپھیلادیاجاتاہے۔ان پتھروں کابوجھ اتنا زیادہ ہوتاہے کہ وہ پٹری کے گارڈروں اورسلیپروں پراپنادباؤبنائے رکھتے ہیںاوراسے اپنی جگہ سے ہلنے نہیں دیتے۔”
حصہ سوم”افرادوخدمات ” ہے۔جس کے باب ایک میں گاڑی کاعملہ، ڈرائیور،اسسٹنٹ ڈرائیور،ٹرین گارڈ،بریک مین،میکنک اورالیکٹر یشن،ٹکٹ چیکر/ٹی ٹی بابابو،ریلوے پولیس،آزردہ روحیں،ڈائننگ کارکاعملہ،جبکہ دوسرے باب ”اسٹیشن کاعملہ” میںہالٹ اسٹیشن کاعملہ، مستقل اورعمومی اسٹیشن کاعملہ،سپراسٹیشن کاعملہ، تکنیکی عملہ، پانی بھرنے والاعملہ،بکنگ اورانکوائری کاعملہ،دفتری عملہ،متفرق عملہ اورقلی کے عنوا نات سے ریلوے کے تمام عملے کابھرپورتعارف کرایاگیاہے۔
ان بظاہرغیردلچسپ امورکے لیے محمدسعیدجاویداندازِبیان ملاحظہ کریں۔” بفرزکابڑا استعمال جوسب نے دیکھاہوگا،وہ ریلوے اسٹیشن پرہوتاہے،جب پلیٹ فارم پرکھڑی کسی بھی گاری کے آگے انجن کولگاناہوتاہے،یاڈبوں کوآپس میں منسلک کرنا ہوتاہے۔یہ ایک دلچسپ منظرہوتاہے جس کودیکھنے کی خاطرپلیٹ فارم پرکھڑے بہت سارے مسافر’جائے وقوعہ’ پرپہنچ جاتے ہیں تاکہ اس نظارے سے محروم نہ رہ جائیں۔انجن آہستہ آہستہ الٹے قدموں مستانی سی چال چلتاہواآتاہے اوراس کے بفر گاڑی کے سب سے اگلے ڈبے والے ساتھیوںسے آن ٹکراتے ہیں۔پوری گاڑی کوایک ہلکاساجھٹکالگتاہے،دونوں پسٹن ایک خوبصورت دھماکے سے اندردھنس جاتے ہیں اورمحبت بھرے دلوں کی طرح ایک دوجے کے بہت قریب ہوجاتے ہیں۔نیچے ریلوے لائن پرکھڑاہوالائن مین اس موقع سے فائدہ اٹھاتاہے اوربجلی کی سی پھرتی سے انجن کے ساتھ لٹکی ہوئی ایک مضبوط فولادی زنجیرپچھلے ڈبے کے آنکڑے میں پھنساکردونوںکوآپس میں جوڑکرجلدی سے زنجیر کے لیورکومروڑ کرپورے طورپرکس کے انھیں ایک عرصے تک کے لیے وصل آشناکردیتاہے۔ انجن کے پیچھے آنے والے ڈبوں کوآپس میں جوڑنے کی خاطراس زنجیرکی صحیح طریقے سے تنصیب ہونابہت ضروری ہے۔اگریہ زنجیرڈھیلی رہ جائے یاٹوٹ جائے توڈبوں کاوہ حصہ وہیں رہ جاتاہے اورگاڑی انھیں بھٹکتاچھوڑکرآگے نکل جاتی ہے اوربسااوقات توڈرائیورکوبھی میلوں دورجاکراس بات کاعلم ہوتاہے کہ وہ اپنے کچھ قیمتی اثاثے توراہ ہی میں چھوڑآیاہے۔ایسے یتیم اورمسکین ڈبے کچھ دورتک توگاڑی کے پیچھے دوڑتے رہتے ہیں اورپھرا ن کی رفتارکم ہوتے ہوتے ختم ہوجاتی ہے اوروہ وہی بیچ میدان میںپہیے پسارے چپ چاپ اس آس میں کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جن ان کویوں چھوڑ کر جانے والی گاڑی کوان کی کمی محسوس ہوگی تووہ الٹے قدموں لوٹ آئے گی۔”
”کیاآپ کویہ علم ہے کہ انجن میں کوئی بیت الخلانہیں ہوتا۔اگرڈرائیوریااسسٹنٹ کے ساتھ کچھ ایساویساہوجائے تووہ جتنامرضی دوڑکرلے اس کوانجن کی حدتک توکوئی منزل مرادنظرنہیں آتی اوراسے بہرحال اگلے اسٹیشن کاانتظارکرناپڑتاہے،جہاں پہنچ کروہ انجن سے اترکرساتھ ہی لگے ہوئے پہلے ڈبے کے بیت الخلاکی طرف دوڑ لگادیتاہے یاپھراسٹیشن پراسی مقصدکے لیے بنی ہوئی عمارت میں حاضری دے کرکچھ سکون پاتاہے۔محکمے والوں نے ان پراتناکرم کیاہواہے کہ خدانخواستہ کسی بھی اسٹیشن پرگاڑی روک کروہاں اپنی حاجت روائی کرسکتے ہیں۔ آپ جب کسی ڈرائیوریااسسٹنٹ کوانجن سے اترکراسٹیشن کی طرف دوڑ لگاتادیکھیں توسمجھ لیں کہ وہ اس وقت حالت اضطراب میں ہے۔”
ریلوے انجنوں نے کس طرح بھاپ کے ابتدائی انجن سے جدیدترین میگلیوٹرین تک دنیابھرمیں ریل کی ترقی اورمغربی ممالک سے پاکستان کاموازنہ انتہائی چشم کشا اورعبرتناک ہے۔ہم نے کس طرح انگریزکی بنائی ہوئی ریلوں اورپٹریوں کوتباہ وبربادکیا۔ہندوستان میں چونتیس کلومیٹرسے شروع ہونے والی ریل کی پٹری کواگلے تیس برس میں چودہ ہزارکلومیٹرتک پہنچادیاگیا اورتقسیم ہندتک ہندوستان میں ریل کی پٹریوں کی مجموعی لمبائی سترہزارکلومیٹرتک پہنچ چکی تھی۔1947ء میں جب پاکستان وجودمیں آیاتواس کے حصے میں بھی کوئی آٹھ ہزار کلو میٹرطویل ریلوے لائن آئی تھی،جوپاکستانی قوم کی نالائقیوں،ناکام پیش بندیوں اوربدعنوانی کے سبب تہتربرس گزرجانے کے باوجودآج بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔جبکہ ہندوستان نے اپنی باسٹھ ہزارکلومیٹرپٹریوں کومسلسل بڑھایااوراس مدت میں دوگناکرلیاہے۔آج وہاں ریل کی پٹریوں کی لمبائی ایک لاکھ پچیس ہزارکلومیترتک پہنچاکرانھوں نے اپنے ریلوے نظام کواتناوسیع وعریض اورمضبوط کرلیاہے کہ اب وہاں روزانہ تیرہ ہزارکے قریب مسافرگاڑیاں اورلگ بھگ نوہزارمال گاڑیاں مختلف اطراف میں چلتی ہیں۔بھارت میں ریلوے کے ساڑھے سات ہزاراسٹیشن ہیں اورڈھائی کروڑمسافرروزانہ ان گاڑیوں پرسفرکرتے ہیںاورکروڑوں ٹن سامان کی نقل وحمل ہوتی ہے۔بھارتی ریلو ے میں چودہ لاکھ ملازمین ہیں اوریہ اب روس اورچین کے بعددنیاکی تیسری سب سے بڑی ریلوے بن چکی ہے۔
دوسری طرف تقسیم ہند میں پاکستان کے حصے میںآنے والی میل،ایکسپریس اورپسنجرگاڑیوں کی تعدادپانچ سوکے قریب تھی۔جب جگہ جگہ سڑکیں تعمیرہوئں اندرون ملک سفرآسان ہواتولوگ ریل گاڑی کے بجائے بس کے سفرکوترجیح دینے لگے اوربرانچ لائنوں پرچلنے والی گاڑیا ں منافع بخش نہ رہیں اوراسے خسارے کوجوازبناکربہت سی لائنیں بندکردی گئیں۔اس جبری بندش کے بعدملک میں ریل گاڑیاںڈھائی سو رہ گئیں۔جواب صرف ایک سوبیس گاڑیوں تک محدود ہے،جوبھارت میں چلنے والی گاڑیوں کاایک فیصد بھی نہیں ہے۔اس سے پاکستان ریلوے کی زبوں حالی کااندازہ کیاجاسکتاہے۔
محمدسعیدخالدکس طرح بھاپ کے انجن سے جدیدترین میگلیوٹرین تک قاری کولے کرآئے۔”ریل کوچلانے کاساراکھیل کم سے کم لاگت میں انجن کومطلوبہ طاقت پہنچاناہے اورجیسے بھی ہواسے مزیدتوانابناناہے،جب انجن چل پڑتاہے تومعصوم سی گاڑی توبچاری خود ہی کسی دلہن کی طرح شرمائی لجائی اس کے پیچھے لگ کرچلنے لگتی ہے۔اس کے لیے بھاپ کے بعدڈیزل،بجلی کے بعدسولریعنی سورج کی توائی استعمال کرنے کی بھی کوشش کی گئی،جوکچھ زیادہ کامیاب نہیں ہوئی،تاہم اس پرمسلسل کام جاری ہے۔ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعدٹرین جدیدترین میگلیوٹرین تک پہنچی۔یہ مکمل طورپرایسی گاڑی ہے جس میں کوئی پہیے نہیں ہوتے۔پریشان ہوگئے ناآپ؟ سوچتے ہوں گے کہ پہیوں کے بغیربھلاکوئی ریل گاڑی کیاخاک بھاگے گی،بالکل جناب یقین کریں ایساہی ہے۔ اس کومیگلیوٹرین یعنی میگنیٹک لیویٹیشن کہتے ہیں۔اس کوچلانے کے لیے دوطاقتورمقناطیسوں کاسیٹ درکارہوتاہے۔جس میں ایک تواپنامقناطیسی میدان بناکرگاڑی کوپٹری سے اوپر اٹھائے رکھتاہے اوردوسرااس کوتیزرفتاری سے آگے یاپیچھے دھکیلتاہے چونکہ گاڑی کے اوپراٹھ جانے سے اس کاپٹری یابنیادسے کوئی رابطہ نہیں رہتااس لیے وہ کسی چیزسے رگڑنہیں کھاتی اورہواؤں میں تیرتی ہوئی آگے بڑھتی جاتی ہے۔برقی مقناطیسوں کی مددسے چلنے والی یہ گاڑ ی نہ صرف روایتی برقی ریل سے زیادہ تیزچلتی ہے بلکہ بعض صورتوں میں تورفتارمیں یہ ہوائی جہازسے بھی مقابلے پراترآتی ہے۔اس ساری کہانی میں مزیداربات یہ ہے کہ اس گاڑی میں سوائے گاڑی کے اورکوئی حرکت کرنے والاکل پرزہ یاحصہ نہیں ہوتا۔میگلیوٹرین پہلے سے بنی ہوئی مقناطیسی پٹریوں پرفراٹے بھرتی ہوئی چلتی ہے اوراس پرنہ توکوئی جھٹکالگتاہے اورنہ ہی دوسری گاڑیوں کی طرح اس کے چلنے سے کوئی آوازآتی ہے۔سب سے بڑھ کریہ کہ اس کی رفتارعام بلت ٹرین جیسی جدیدگاڑی سے دوگناہوتی ہے۔اس کی رفتارچارپانچ سوکلو میٹرفی گھنٹہ تواس گاڑی کے بائیں ہاتھ کاکھیل ہے۔جاپان والے توایسی طاقتورگاری بناچکے ہیں جس کی رفتارچھ سوکلومیٹرتک جاپہنچی ہے ۔رفتارکی سوئی ابھی اورآگے جانے کوبے چین تھی کہ اسے وہیں روک دیاگیا۔عام الفاظ میں یوں سمجھیں کہ میگلیوٹرین پرلاہورسے کراچی تک بارہ سوکلومیٹرفاصلہ محض دوگھنٹے میں طے ہوجائے گا۔پچھلی صدی کے بھاپ کے انجن والی گاڑیاں دوتین دن اورآج کل کی تیزرفتار ڈیزل گاڑی یہ فاصلہ اٹھارہ گھنٹے میں طے کرتی ہے۔”
”ریل کی جادونگری” کایہ سفرانتہائی دلچسپ اورچشم کشاہے۔محمدسعیدجاویدکاسادہ اورپرلطف اسلوب اوراندازِ بیان اس کی دلچسپی میں ہر صفحے کے ساتھ اضافہ کرتاہے اورقاری پوری کتاب پڑھ کرریل اوراس کے سفر،مختلف انجنوں،ڈبوں اورویگنوں،ریلوے ملازمین،ادارے میں کام کرنے کے طریقہ کار،اس میں ہونے والی ترقی اورجدیدٹرینوں کے بارے میں ہرضروری تفصیل سے آگاہ ہوجاتاہے اورتفصیلات محض خشک اعداووشمارنہیں بلکہ دلچسپ اورقابل مطالعہ ہیں۔اسی لیے راقم نے اسے ریل کے بارے میں جامع انسائیکلوپیڈیاقراردیاہے۔
کتاب کاحصہ چہارم”عمارات وتنصیبات ” ہے۔جس کاباب اول”ریلوے اسٹیشن” میں ”اسٹیشنوں کی اقسام”،”ہالٹ”،”عمومی اسٹیشن” ، ”بڑے اسٹیشن اورجنگشن”پرمبنی ہے۔باب دوم ”پلیٹ فارم” میں ”بڑے اسٹیشن کاپلیٹ فارم”،”چائے گرم اے”،”ٹھنڈاپانی”،” پلیٹ فارم پرعمومی سرگرمیاں”،”ریلوے ٹائم ٹیبل”،”چھوٹے اسٹیشن کاپلیٹ فارم”،”پلیٹ فارم پرسزاوجزا” اور”انتظارگاہیں”کے تحت معلوما ت ہیں۔باب سوم”دنیاسے دورایک اوردنیا”کے ذیلی موضوعات میں”اسٹیشن کی گھنٹی”،” کیش بکس”،”اسٹیشن ماسٹر۔ذمہ داریاں ذرا ہٹ کے”،”انٹرلا گنگ،سگنل کیبن”،” سگنل سسٹم”،”ٹوکن سسٹم”،” لیول کراسنگ”ہیں۔باب چہارم”اسٹیشن سے باہرنکلیں” کے ذیلی عنوا نات میں”اسٹیشن سے باہرکاماحول ” اور”کھمبے ہی کھمبے” ہیں۔
حصہ پنجم”جغرافیات وسفریات ” ہے۔جس کاپہلاباب”مرکزی لائن۔کراچی،کوٹری،لاڑکانہ،سکھر اورروہڑی” ہے۔جس میں ”تاریخ” ، ”مبارک،سلامت”،”کوٹری،لاڑکانہ،سکھر،روہڑی”،”اب کیاکریں؟”،”لینس ڈاؤن برج”،”ہے جمالو”،” ایوب برج” مضامین شامل ہیں۔دوسراباب”مرکزی لائن۔ایم ایل 1پہلاحصہ ” ہے جس میں کراچی لاہورلائن کے اہم مقامات کی تفصیل ہے۔تیسراباب ”لاہورجنکشن” چوتھا”لاہورتاپشاورایم ایل 1دوسراحصہ” اورپانچواں باب”لاہورتاپشاور،شہرشہر” ہے ۔جس میں مختلف شہروں کی خصوصیا ت، وہاں کی مشہورچیزیں وغیرہ کی تفصیلات ہیں۔چھٹاباب”مرکزی لائن ایم ایل2” اورساتواں”مرکزی لائن ایم ایل 3حصہ اول” ہے ۔اسی طرح ملک بھرکے مشہوراورگمنام اسٹیشنوں ،شہروں اورقصبوں کی معلومات ہیں۔کتاب کاحصہ ششم ”سماجیات وثقافیات” جس میں ریل کے سفرکی روداد،ہم سفروں کی تعلقات،گپ شپ اوردیگردلچسپیاں موجودہیں۔حصہ ہفتم ”احساسات ومشاہدات” میں ”گاؤں کی ریل گاڑی” ،”ننھی منی گاڑیاں” ،”سعیدریلوے” اور”ماڈل ریلوے”ماڈل ریل ،کھلوناریل اورریل سے متعلق کھیل تماشے ہیں۔حصہ ہشتم ”متفرقات وعمومیات” میں پاکستان ریلوے کے ماتحت ادارے،عمومی معلومات،پاکستان ریلوے کے اعدادوشماراورکچھ اوردلچسپ معلومات فراہم کی گئی ہیں۔جبکہ ”ریل کی جادونگری” کانواں اورآخری حصہ ”مستقبلیات وتوقعات” ہے۔جس کے تحت ”پاکستان ریلو ے کامستقبل”،”مستقبل کے منصوبے”اوردیگرتفصیلات ہیں۔غرض محمدسعیدجاوید نے ریل کی ایجادسے لے کرہندوستان اورپاکستان میں آمداورپاکستان ریلوے سے متعلق کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑاہے۔
”ریل کی جادونگری” جیسی غیرمعمولی ،دلچسپ اورقابلِ مطالعہ کتاب تحریرکرنے پرمحمدسعید جاویدکودلی مبارک باداوریہ دعاکہ ”اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ۔