اقبال نظرکے ادبی کتابی سلسلہ”کولاژ” نے بہت کم وقت میں اہم مقام حاصل کرلیاہے۔”کولاژ” کاشمارہ نمبرچودہ حال ہی میں منظرعام پرآیا ہے اوراس نے دھوم مچادی۔ کیونکہ یہ عام شمارہ ہوکربھی خاص اہمیت کاحامل ہے۔اقبا ل نظریوں تو”کولاژ” کے ہرشمارے کونثروشعرکی بہترین تخلیقات سے مزین کرتے ہیں اورہرشمارے میں کوئی منفردتحریرپرچے کی زینت بناتے ہیں۔لیکن تازہ ‘کولاژ’میں نظم ونثرکی کہکشاں شامل ہے ۔جس نے عام شمارے کوخاص بنادیاہے۔ان خصوصی تحریروں میں معروف بھارتی اداکارہ دیپتی نول کانیاروپ ادیب وشاعرکی حیثیت سے سامنے آیاہے۔جبکہ بھارت کے مشہورناول وافسانہ نگارمشرف عالم ذوقی مرحوم کاطویل ناولٹ”مردہ مچھلیاں”طاہرہ اقبال کے نئے ناول”ہڑپہ” کاایک باب اوراقبال نظرکے بھائی جاویدنظرکااسٹیج ڈرامہ”چپڑاسی”شامل ہیں۔
‘کولاژ’ کاآغازحسب معمول حمدونعت سے ہواہے۔جمیل نقوی کی خوبصورت حمدباری تعالی کاایک بندملاحظہ کریں
یہ چمکتے ہوئے تارے یہ فلک سیر نجوم ابروباران و سبک گام، باد ِ سموم
کرسی و لوح و قلم، حکمت واسماء و علو م ساز و آواز کے پردو ں میں مقیدمفہوم
عقل حیراں ہے کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
وجد ہے روح کو یہ نغمہ گری کس کی ہے
محترم سلیم کوثرکی نعت پاک کے چنداشعار
کھلا ہے شہرِ عقیدت میں شعبہ ء نعت طواف کرنے لگی مجھ میں روحِ نغمہ ء نعت
میں شہرِ حمد کاباسی ہوں اور مرا اعزاز عطا ہواہے یہیں پر مجھے اقامہ ء نعت
نہیں ہے کچھ بھی میرے کاسہ ء عمل میں سلیم میں اپنے ساتھ لیے جارہا ہوں ہدیہء نعت
سلیم کوثرکاشمارموجودہ دورکے بہترین شعرامیں کیاجاتاہے۔وہ ان دنوں سخت بیمارہیں۔ان صحت یابی کی دعاکی درخواست ہے۔
‘کولاژ’ کااداریہ ہمیشہ ایک خاص معنویت کاحامل ہوتاہے۔اس باراقبال نظرنے اداریے کو”ہے جرمَ ‘مدیری’ کی سزامرگِ مفاجات ” کا دلچسپ عنوان دیاہے۔جس کاایک اقتباس پیش ہے۔
”دیپتی نول نے تخلیق کے مختلف زاویے کے ساتھ جلوہ نمائی کی توآنکھیں چکاچوند ہوگئیں۔پلک جھپکانے کے لیے ضروری تھاکہ اس ہمہ جہت فنکارہ کے کام کاکلی طورپرنہ سہی جزوی طورپرہی احاطہ کرلیاجائے تاکہ شمارے کی رنگارنگی دوچند ہوجائے۔موقعے اورحالات کی نزاکت کودیکھتے ہوئے ان سب گراں مایہ تخلیقات کوتبصرے اورتاثرات کے حصے میں لے لیا۔تواہل دوسراشمارہ جوحیثیت اورمرتبے کے اعتبارسے اصل شمارے سے کسی طرح کم نہ تھا، وجودپاگیا۔دل میں خیال توآیاکہ ایک کوروک لوں یوں شمارہ نمبر15بنابنایامل جائے گاہرچند کے یہ فیصلہ اطمینان بخش اورقابل عمل تھالیکن میں نے دونوں حصوں کویکجاکرکے رسالے کی ضخامت کوآنکھوں میں تولا توحالت اس کبوترجیسی ہوگئی جوبلی کودیکھ کرآنکھیں بندکرلیتاہے۔میں نے خودکواب ضخامت کے تیزدھارے پرچھوڑدیا۔ قلم کی صورت ہاتھ میں تھامے ہوئے چپوایک طرف رکھ دیئے۔کیونکہ۔ گلزار صاحب،جوہروقت آنکھوں میں رہتے ہیں ان سے صرفِ نظرکرناناممکن ہے۔اخلاق احمدجوخیال کے کینوس پرالفاظ کے موتی ٹانکتاہے، اسے کیسے بھول جاؤںطاہرہ اقبال کی ساحرانہ نثرکے حصارسے کیسے باہرنکلوں،مشرف عالم ذوقی کاناولٹ جسے پڑھنے کے بعدانسان اسی کی بودوباش اختیارکرلیتاہے اسے کیسے ترک کردوں،اورپھرحاذق الخیری صاحب کی خلاقی ،تحقیقی اورتخلیقی اپچ کوشامل جریدہ نہ کرنابالکل ایسا ہے جیسے مدیرسے مدیرکہلانے کااستحقاق چھین لیاجائے،جب رسالے کی بنایہی ہے اورپھرسرورعالم رازصاحب جن کے مضامین نقد و نظراردوزبان وادب کے لیے سرمائے کی حیثیت رکھتے ہیں۔میں اس شعرپرگفتگوکااختتام کرتاہوں:
جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے”
شمارے کی ابتدامطالعہ خصوصی میں سرورعالم رازسرورکے ”رباعی کے رموز” سے ہوئی ہے۔رباعی اردوکی مقبول صنف رہی ہے۔لیکن غزل کی بے پناہ مقبولیت کے بعدکئی اصناف اہل اردوکے حافظے سے غائب ہوگئیں۔نظم ،قطعہ اوررباعی اب بھی کہی جارہی ہیں۔اکثر شاعرتوقطعہ اوررباعی سے بہت کم واقف ہیں۔محمدارشادصاحب نے چندسال قبل اپنی عمدہ کتاب”رباعی” کے ذریعے اس صنف ادب کا بہت شاندارتعارف کرایاتھا۔سرورعالم صاحب کامضمون بھی اس ضمن میں بہت اچھی کوشش ہے۔اس مضمون میں اختصاراورجامعیت کے ساتھ عروضی مسائل،اردوالفاظ کی آوازوں اوررباعی کے اوزان،اصول اورقواعدکوفانی بدایونی،شیخ امام بخش ناسخ،امیرمیائی، فراق گھورکھپوری،میری تقی میر،رازچاندپوری،جوش ملیح آبادی اورقتل شفائی کی رباعیات کی مثالوں کے ساتھ پیش کیاہے۔لکھتے ہیں۔”رباعی عربی شاعری میں موجود نہیں تھی۔یہ اہل ایران کی ایجاد ہے۔انہوں نے ہی اس کے اوزان،اصول اورقواعدمرتب کیے ہیں۔اردوشاعری کاخمیر فارسی سے ہی اٹھاہے۔جملہ اصناف سخن کی طرح رباعی بھی اردومیں فارسی ہی کے توسط سے آئی ہے اورفارسی رباعی کے تمام اصولوںکی پابندہے۔اردوکے ماہرینِ عروض نے علم عروض میں اردوکے تقاضوں کی روشنی میں کوئی قابل ذکرتبدیلی نہیں کی چنانچہ اردورباعی بھی فارسی رباعی کے تمام اصول وقواعدکی پابندہے۔اردوشاعروں نے عام طورسے رباعی کہنے سے احترازکیاہے اورجن شعرانے اس باب میں فکرکی ہے انہوں نے بھی اپنی رباعی گوئی کوصرف تین چاراوزان تک ہی محدود رکھاہے،حالانکہ رباعی چوبیس اوزان میں کہی جاسکتی ہے۔”
انورشعورکی تازہ غزل اورگلزارکی منفردنظم کے بعداخلاق احمدکاطویل افسانہ”بی بی اکیلی ہے”شامل ہے۔اخلاق احمدکے افسانے علامت اور جدیدیت سے پاک اوران میں کہانی پن موجودہوتاہے۔”بی بی اکیلی ہے” کاموضوع والدین کے جھگڑوں کااولادپراثراور تنہائی کادرد ہے۔بینش حسین اپنے شعبے کی کامیاب خاتون لیکن ذاتی زندگی میں ناکام ہے۔اس نے اپنی زندگی کاالمیہ ایک پیراگراف میں بیان کیاہے ۔”ہوسکتاہے،کامیابی کویاترقی کوہی خوشی کہتے ہوں۔میں تواب یہ بھی نہیں جانتی کہ خوشی کیاہوتی ہے اورکامیابی کس چیزکانام ہے۔ایک وقت تھا جب میں سمجھتی تھی،خوشی کامطلب یہ ہے کہ اپناگھرتوڑڈالنے والے میرے باپ پھرسے ایک ہوجائیں اورہماری زندگیاں نارمل ہو جائیں۔پھرلندن میںتعلیم حاصل کرنا،کامیابی کااورخوشی کابینچ مارک بن گیا۔پھرمیں نے چھوٹے چھوٹے بچوں کی ہنسی سے گونجتے گھر کے خواب کوخوشی کاپیمانہ بنالیا۔پھرایک کیریئرکو۔پھردن رات محنت سے اعلیٰ عہدوںکو۔لیکن ہے ناکیسی عجیب بات،کہ آج میںیقین سے نہیں کہہ سکتی ،خوشی کیاہوتی ہے۔اے فورٹی ایٹ ایئراولڈکنفیوزڈوومن۔اڑتالیس برس بعدبھی خالی ہاتھ۔بالکل اکیلی۔ہرامتحان میں کامیا ب۔،گرزندگی کے امتحان میں فیل۔”
اقبال نظرکاافسانہ”گھنے جنل میں بارش کاغبار” میں ازدواجی زندگی کی انہونی محبت کوپیش کیاگیاہے۔بارش اورطوفان کے دوران فورسٹ آفیسرگھنے جنگل کے رہائش گاہ میں پھنس جاتاہے،اس کے پاس چائے اوردیگراشیاء ختم ہورہی ہیں۔ملازم نیازاوراس کی بیوی صفیہ کاآنا بھی دشوارہے۔ایسے میں صفیہ ہاتھوں میں دوتھیلے لیے پہنچ جاتی ہے۔بارش کی شدت سے اس کی واپسی نہیں ہوپاتی اورایسے موسم اورتنہائی میں وہ ہوتاہے جونہیں ہوناچاہیے۔لیکن مردکویہ جان کرحیرت ہوتی ہے کہ پانچ سالہ شادی شدہ زندگی کے باوجودصفیہ کنواری تھی۔وہ اسے شادی کی پیش کش کرتاہے۔ایسے میں نیاز،صفیہ کی تلاش میں اس بھپرے موسم میں آوازیں دیتاپہنچ جاتاہے اورصفیہ بے اختیاراس کی آواز پرلپکتی ہے اوردونوں شدیدطوفانی بار ش میں ندی میں ڈوب جاتے ہیں۔دل کوچھولینے والاافسانہ ہے۔
دوطویل افسانوں کے بعدسیدخرم حسین کاافسانچہ”گڈمارننگ” بھی بہت عمدہ ہے۔جس کے بعدجسٹس(ر) حاذق الخیری کی مطبوبہ آپ بیتی ”جاگتے لمحے” سے ایک مختصراوردلچسپ اقتباس دیاگیاہے۔طاہرہ اقبال تواترسے بہت عمدہ افسانے اورناول لکھ رہی ہیں۔ان کاسفر نامہ بنگلہ دیش بھی بہت پسندکیاگیا۔طاہرہ اقبال کے نئے ناول”ہڑپہ” کاایک باب’ کولاژ’کے تازہ شمارے کی دلچسپیوں میں اضافہ کرتاہے ۔طاہرہ اقبال نے دیہی زندگی کواپنے ناول اورافسانوں میں بہت عمدگی سے پیش کیاہے اوردورحاضرمیں دیہات نگاری میں طاہرہ اقبال کامنفرداسلوب ہے۔ان کی پنجابی آمیززبان بھی اپناالگ مزہ رکھتی ہے۔”ہڑپہ” کاایک باب پڑھ کرقارئین کومکمل ناول کی بے چینی سے انتظاررہے گا۔
مرحوم نظرامروہوی کے تینوں بیٹے اپنے فن میں یکتاہیں۔اقبال نظرنے نثروشعرکے ساتھ ”کولاژ” کاادبی جریدہ لے کرآئے۔توانجم ایاز مصورومجسمہ سازہیں۔ان کے اسکلپچرزکی نمائش حال ہی میں آرٹس کونسل کراچی میں ہوئی۔جاویدنظرآسٹریلیامیں مقیم کرکٹ کوچ ہیں لیکن علم وادب سے ناطہ شعرونثرکی صورت قائم رکھے ہوئے ہیں اورآسٹریلیامیں ‘کوچہ ثقافت’ سجاکر بھی پاکستانی تہذیب وثقافت کوپیش کرتے رہتے ہیں۔جاویدنظرکولاژ14میں ڈرامہ”چپراسی” کے ساتھ شامل ہیں۔جس کاموضوع ہمارے معاشرے میں موجودمفافقت ہے۔ایک ایم اے پاس نوجوان معاشی مجبوری کے تحت خود کومیٹرک ظاہرکرکے بینک میں چپراسی کی ملازمت حاصل کرلیتاہے،لیکن جب میرٹ پر آفیسرگریڈکاموقع ملتاہے تواسے جھوٹ بولنے کی پاداش میں نوکری ہی سے برخواست کردیاجاتاہے۔
”کولاژ14” کااہم ترین حصہ دیپتی نول کے بارے میں ہے ۔معروف اداکارہ ،مصورہ،شاعر،افسانہ وخاکہ نگارہے،یہ قارئین کے لیے دلچسپ انکشاف سے کم نہیں ۔دیپتی نول کے بارے میں اقبال نظرلکھتے ہیں۔”ایک دن اتفاقی طور پرامریکاسے شائع ہونے والے مجلہ پر نظرپڑی توانکشاف ہواکہ دیپتی نول دل موہ لینے والی شاعری بھی کرتی ہے ،ٹوہ لگ گئی۔گلزارصاحب سے نمبرلیا،دیپتی نول سے رابطہ ہوا اورجب اس کے مختلف جہتوں میں کیاہواتخلیقی کام درجہ بہ درجہ سامنے آیاتوخوشگوارحیرت کے درکھلتے چلے گئے۔دیپتی نے اداکاری ، شاعری ،افسانہ نویسی،تصویرکشی،اسٹیج ڈرامے اورٹی وی ایکٹنگ تمام شعبوں میں گھسے پٹے اندازکی عام ڈگرسے ہٹ کرتخلیقی کام کیاہے۔کچھ نیا کرنے کی جستجواوراس کومنفرداندازمیں پیش کرنے کاشوق دیپتی کی شخصیت کالازمہ ہے۔وہ بارشوں سے حسن کشیدکرلیتی ہے اوردورتک پھیلے ہوئے دل فریق لینڈاسکیپ کواپنے ذہن کی چھلنی میں ڈال کروہ رعنائی نکال لیتی ہے جوحاصلِ منظرہوتی ہے۔یہ نظمیں پڑھ کرہم سوچتے ہیں کاش منظراوروسعت خیالی کی اس واردات کاورود ہم پربھی ہوتا۔تصوراوراس کی فنکارانہ تجسیم اتنی حسین ہے کہ منظراس کا ریپلیکامعلوم ہوتاہے۔دیپتی کے افسانے مشاہدے سے مملو،شاعری احساس کابرملااظہاراوراداکاری حقیقت کا وہ اظہارہے جوکسی بھی فن کار کوعام ڈگرسے ہٹ کرجینوئن تخلیق کارکادرجہ عطاکرتاہے۔”
آرٹ پیپرکے چارصفحات پردیپتی نول کی نوتصاویر،”بلراج ساہنی ایک یاد”خاکہ اوردوافسانوں ”تھلی” کاترجمہ استاداور مصنفہ تنویررؤف نے کیے ہیں۔افسانہ ”پاگل تبتی” اور”پرندے” کے تراجم معروف ناول وافسانہ نگار خالدفتح محمدکے قلم کے شاہکارہیں۔افسانہ ”بمبئی سینٹرل” ناول وافسانہ نگاراورمترجم نجم الدین احمد اور”پیانوٹرینر” منصوراحمدکے کیے ہوئے ہیں۔جس کے بعددیپتی نول چودہ نظمیں بھی شامل ہیں اوراس گوشے نے کولاژکے عام شمارے کوخاص بنادیاہے۔
سرورعالم رازکے دوسرطویل اتنقیدی مضمون”فیض احمدفیض کی غزلیہ شاعری”دلچسپ اورمعلومات افزاہے۔ان کااسلوب سادہ ، دلنشین اورعام فہم ہے۔”کولاژ14”کے عام شمارے کوخاص بنانے والی دوسری تحریرمشہوربھارتی افسانہ وناول نگارمشرف عالم ذوقی کاناولٹ ” مردہ مچھلیاں” ہے۔کروناوباکے دوران مشرف عالم ذوقی اچانک انتقال کرگئے۔ان کی وفات کے اگلے ہی روزان کی اہلیہ تبسم کابھی انتقال ہوگیا۔ذوقی صاحب نے بہت عمدہ ناول اورافسانے لکھے ہیں۔گذشتہ سال سے ان کے پانچ ناول ”پوکے مان کی دنیا”،”بیان”،”مردہ خانے میں عورت ”،”مرگ انبوہ”اور” نالہ شب گیر”پاکستان سے بھی شائع ہوئے اورپاکستانی قارئین اس بے مثال ناول نگارکی سحرسے آشناہوئے۔مشرف عالم ذوقی نے بتایاتھاکہ ناول”مرگ انبوہ” کے چارحصوں پرمبنی ہے۔ناول کادوسراحصہ”مردہ خانے میں عورت” بھی پاکستان سے شائع ہوچکاہے۔تیسراحصہ”ہائی وے پرکھڑاآدمی” مکمل ہوگیا اورذوقی صاحب کے انتقال کے بعدحال میں بھارت میں اشاعت بھی ہوگئی۔پاکستان میں بھی یہ ناول شائع ہونے والاہے۔ناول کاچوتھاحصہ”گوگاندھی گو” مشرف عالم ذوقی کے زیرتحریرتھا یہ علم نہیں کہ مکمل ہوایانہیں۔اقبال نظرنے پاکستانی قارئین کے لیے ذوقی صاحب کی تحریروں کو ”کولاژ” میں پیش کیا۔ناولٹ”مردہ مچھلیاں” بھی مشرف عالم ذوقی کوخراج تحسین ہے اوریہ تازہ شمارے کااختصاص ہے۔
راقم کے تحریرکردہ گلزارکی تازہ کلام پرمبنی دوکتب”چلولمحے چھیلیں” اورٹیگورکی نظموں کے تراجم ”باغبان اورنندیاچور”پرتبصرے بھی اس شمارے میں شامل ہیں۔
علی تنہانے ممتازناقد،محقق،مدیرشب خون اورتخلیق کار”شمس الرحمٰن فاروقی کویادکرتے ہوئے”میں مرحوم کی یادوں کوتازہ کیاہے۔شمس الرحمٰن فاروقی اکتوبر2020ء میں کروناکے مرض میں مبتلاہوکرانتقال کرگئے تھے۔وہ پچاس کی دہائی سے ایک ذہین نقاداورمحقق کے طورپر ادبی دنیامیں مشہورہوئے۔اس کے بعدانہوں نے شاعری اورفکشن کی دنیامیں قدم رکھا۔شاعری کے چارمجموعے اورکلیات شائع ہوئی۔ پھر ”شب خون” کے نام سے منفردادبی جریدہ چالیس سال تک شائع کیااورچالیس سالہ نمبرکے بعداسے ازخود بندکریا۔1999ء میں اجمل کمال کے بے مثل کتابی سلسلہ ”آج” ان کاافسانہ ”سوار” شائع ہوا۔پلاٹ،اسلوب،تکنیک،زمان ومکان اورہندوستان کی اٹھارویں صدی کامنظرنامے میں،ان کایہی افسانہ دیگرتین افسانوں کی بنیادبنا۔فاروقی صاحب کے یہ افسانے دیگرناموں سے شائع ہوئے لیکن پھر’آج ‘ نے ہی ”سواراوردوسرے افسانے” کے نام سے انہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے نام سے شائع کیا۔انہوں نے تراجم بھی کیے۔جن کامجموعہ حال ہی میں اشعرنجمی نے بیک وقت پاکستان اوربھارت سے شائع کیاہے۔ان کے ناول ”کئی چاندتھے سرِآسماں” اور”قبضِ زما ں” بھی بہت مشہورہوئے۔”کئی چاندتھے سرِآسماں” مرزاداغ دہلوی کی والدہ کافسانہ غم ہے۔علی تنہانے فاروقی صاحب کی ساٹھ سالہ ادبی زندگی کااجمالی تنقیدی جائزہ پیش کیاہے۔
مشہورافسانہ وناول نگار،نقاداورمحقق مرزاحامدبیگ کامضمون”منٹوصاحب کاافسانوی اسلوب” بھی دلچسپ اورمعلومات افزاہے۔اس کا اقتباس سے اندازہ کریں کہ منٹوکومرزاحامدبیگ نے ایک الگ نظرسے دیکھاہے۔”سعادت حسن منٹواردوکے ایک ایسے افسانہ نگارتھے جن کی زبان اورطرزِبیان ہمیشہ محل نظررہے۔رموزِاوقاف سے بے پروا،قواعدسے آزاداوراردومحاورے سے دور،ان کاتخلیقی تجربہ ،مروج لفظی سانچوں کاپابنددکھائی نہیں دیتااوراملاکی اغلاط اس کے علاوہ ہیں۔اسے پگلے کی پیغمبری کہیں یاکوئی اورنام دیں لیکن بزعم خود،لفظوں کی عنانان کے ہاتھ میں تھی،جنھیں وہ اپنی مرضی سے دوڑاتے،ٹھہراتے اورجب جی چاہتادلکی چال چلتے۔منٹوصاحب کاکہناتھاکہ جب ان کے ہاتھ میں قلم نہیں ہوتاتووہ محض سعادت حسن ہوتے ہیں۔جب قلم ہاتھ میں لیتے ہیں تومنٹوبن جاتے ہیں اورقلم کوپرلگ جاتے ہیں۔”
آخرمیں افسانہ وناول نگاردردانہ نوشین خان کاڈاکٹرفریداللہ صدیقی کے ناولٹ کے مجموعے”امرت” پرتبصرہ شامل ہے۔مجموعے میں پانچ ناولٹ شامل ہیں۔جن کااجمالی جائزہ پیش کیاگیاہے۔مجموعی طورپر”کولاژ14” صوری اورمعنوی حسن سے آراستہ جس میں بہترین تخلیقات شامل ہیں۔مدیراقبال نظراس عمدہ شمارے کی اشاعت پربھرپورمبارک بادکے مستحق ہیں۔