‘حاضرسائیں” محمدعارف جمیل کی پہلی کتاب ہے۔جوسفرِعمرہ کادل گدازسفرنامہ ہے۔محمدعارف جمیل اوران کی اہلیہ نجیبہ عارف تصوف اوربزرگان دین یاعرف عام بابوں سے ربط خاص رکھتے ہیں۔نجیبہ عارف کئی کتابوں کی مصنفہ ہیں۔انہوں نے اپنے مرشدپربے مثال کتاب ”راگنی کی کھوج میں” تحریرکی۔جبکہ نجیبہ کی والدہ ہدیہ ظفرنے انہی کی تحریک پراپنی دلچسپ آپ بیتی ”جیون دھارا”سترسال سے زیادہ عمرمیں تحریرکی۔محمدعارف جمیل بھی نجیبہ کی تحریک پرمصنف بنے۔اس کی داستان بھی کافی دلچسپ ہے۔حال ہی میں شاعر ارشد ملک کا سفرنامہ حج بھی”حاضراللہ سائیں” کے نام سے شائع ہواہے۔
”حاضرسائیں” اپنے منفردانتساب ہی سے قارئین کی توجہ مرتکزکرلیتی ہے۔جوکچھ یوں ہے۔
”اس ” کے ڈر، ان ۖ کے در کے نام!
اپنے رب، اپنے سب کے نام!
اور کچھ اُن کے نام !
اپنے سب کچھ کے نام!
امی ابو، میرا وجود، میری سانسیں
نجیبہ عارف، میراگھر، میری عزت
مومنہ ،محمد، میرا آج اور کل
یہی تومیراسب کچھ ہے
اپنے اسی سب کچھ کے نام!
عارف جمیل نے پیش لفظ کو”اعتراف ”کاعنوان دیاہے،جس میں لکھتے ہیں۔”آپ کے ہاتھوں میں یہ کتاب”حاضرسائیں” اس کمزور پودے کی نرم ونازک ٹہنی پرکھلاوہ پہلاسبزپتہ ہے،جس کابیج برسوں پہلے نجیبہ نے ایک ویران بیابان،نوکیلی کنکریوںسے بھری،بنجر،کلرزدہ زمین میں بویاتھا۔کب موسم کی نرمی چاہیے ہوگی،کب سورج کی گرمی اچھی ہوگی،کب بارش کی نمی سے مٹی نم ہوگی،کب خشک رہنے سے سوچ کے پھول کھلیں گے،کیسے تیزوتندجھکڑوں سے بچاناہے،کب بہتی ہواؤں کے سنگ گنگناناہے،دھوپ چھاؤں کاکیاپیمانہ رکھناہے، نجیبہ نے ان باتوں کاخیال رکھاتھاتوبنجرزمین میں ذراسے زرخیزی آئی تھی۔تب کہیں یہ بیج پھوٹاتھااورزنگ آلودذہن میں سوچ کی نئی کونپلیں زندگائی تھیں۔مزے کی بات تویہ تھی کہ نجیبہ نے کبھی مجھے ہوابھی نہیں لگنے دی تھی کہ انھوں نے میری ادبی تربیت کابیڑا خود اٹھارکھا ہے۔مجھے ذراسابھی شک وشبہ ہوتاکہ نجیبہ کس مہم پرہیں تومیں کبھی ان کوایسانہ کرنے دیتا،بس لاعلمی میں ہی علم کی چھترچھاؤں تلے گھسیٹ لیاگیا۔مشکل میں ہوں،ہردم اپنی کم علمی اورنالائقی کاخوف چھپائے پھرتاہوں۔میری ادبی نابلدی توتھی ہی اوراردووکیبلری کافقدان بھی، اردورسم الخط میں ٹائپنگ زندگی بھرنہیں کی تھی۔لاہورسے قصورتک کااپنا پہلامختصرسفرنامہ لکھ کرڈرتے ڈرتے نجیبہ کودکھایاتوان کاپہلاری ایکشن یہ تھا۔”بہت اچھالکھا ہے،کمال لکھاہے،آپ اگراپنی اردوٹائپنگ اوراملاپرتھوڑی سی توجہ دے لیں تویہ کسی ماہرادیب کالکھافن پارہ ہی لگتاہے۔آپ لکھ سکتے ہیں اوراچھالکھ سکتے ہیں۔آپ لکھاکریں۔کسی بھی تحریرمیں اپنی محنت اورکوشش سے اسلوب کوتوبہترکیاجاسکتاہے لیکن تاثیرخدادادہوتی ہے ۔جولکھنے والے کوعطاہوتی ہے۔آپ کی تحریراثررکھتی ہے۔”پچھلے سال عکسی صاحب کے ساتھ عمرے پرجانے کا موقع ملاتوعمرے سے واپسی پر سب دوستوں کااصرارتھاکہ میں ان کواپنے عمرے کے دنوں کے بارے میں بتاؤں ۔اللہ کے گھرمیں اس کے پیارے نبیۖ کے شہرمیں مہمان بن کررہناکیسالگا،وہاں ہمارے شب وروزکیسے کٹے،کیادیکھا،کیسامحسوس کیا ۔وہ یہ سب جاننا چاہتے تھے۔گروپ ممبرزکی انتہائی دلچسپی اورپذیرائی کے باعث عمرے کے بارے میں لکھے میرے مختصرکمنٹ،پیراگراف اورپھرمضمون کی شکل اختیارکرتے چلے گئے اوران سب کامجموعہ اس کتاب کی صورت آج آپ دیکھ رہے ہیں۔”
نامورادیب اوردانشور محمدحمیدشاہدنے کتاب کے بیک پیج پرکیاخوب مختصرتبصرہ کیاہے۔”حاضرسائیں” محض عمرے کی سفرگزشت نہیں،ایک عشق نامہ ہے۔ایک عاشق کے قلم سے نکلی حاضری اورحضوری کی دلکش داستان۔محمدعارف جمیل نے حاضرسائیں،حاضرسائیں پکارتے ہوئے ، اس داستان میں محض اپنامچلتاہوادل نہیں رکھا،تڑپتاہواپوراوجودبھی رکھ دیاہے۔کہنے کویہ تحریرایک عاشق کے قلم کااعجازہے مگرعارف ،نجیبہ اورعکسی کے عشق نے ایک کہانی میں تحلیل ہوکراسے سہ آتشہ بنادیاہے۔یہ تینوںیہاں وہاں مکالمہ کرتے ہیں توہرایک کی منفردشخصیت کی مہک پڑھنے والے کوکلاوے میں لیتی ہے۔ان کے ہاں یہ سفرمحض رسم نہیں ایک تاہنگ ہے۔دکھاوانہیں،بے پناہ تجسس اور دیکھنااوردیکھتے ہوئے وجود کی جھولی میں حیرتیں سمیٹناہے۔عارف نے لکھتے ہوئے ان حیرتوںسے انسان خدااورکائنات کے درمیان تعلق کو کشید کیاہے اورعبادت اورعشق کے معنی سمجھائے ہیں۔ان کااسلوب ایساہے کہ پڑھتے ہوئے ہم ساتھ ہولیتے ہیں،جی،ان کی انگلی تھام کر۔وہ مسجدنبوی میں ایک مجرم کی طرح اپنے ہاتھ باندھے اپنی خطاؤںکویادکریں توہمیں اپنے گناہ یادآتے ہیں۔وہ ریاض الجنة کے ہرے رنگ کے قالین پرعاجزی سے کھڑے ہوجائیں توہم نیت باندھ کرسجدہ ریز ہوجاتے ہیں۔وہ روضہء رسول پرحاضری دے رہے ہوںتومحبت کے آنسوہماری آنکھوں سے امڈ کرپلکوں پرڈھلک پڑتے ہیں۔ادھروہ جنت البقیع کی بھربھری مٹی پرقدم رکھتے ہیں،ادھرہمارا دل اس مٹی کوچوم لیتاہے۔اورپھرجب وہ مدینہ سے مکہ اللہ کے گھرپہنچتے ہیں اورکعبے کاکالاغلاف ان کی نگاہوں کوگرفتارکیے ہوتا ہے تو ہماری پیشانی کے سجدے مچل رہے ہوتے ہیں۔میں نے کہانا،یہ صرف طواف کعبہ کاقصہ نہیں،عشق نامہ ہے،پور ے وجودکی حاضری اور حضوری والاعشق نامہ۔مجھے یہ یقین ہے کہ ان کایہ سفرقبولیت والاتھا اورمجھے یہ بھی یقین ہے کہ جتنے اخلاص اورمحبت سے انہوں نے اسے لکھاہے یہ پڑھنے والوں میں بھی مقبول ہوگا۔”
ڈاکٹرضیاالحسن نے ”حاضرسائیں” کادیباچہ ”چشم ہوتو۔۔”کے عنوان سے لکھاہے۔”آج سے پہلے محمدعارف جمیل کی ادبی حیثیت یہ تھی کہ وہ نجیبہ عارف کے شوہرہیں لیکن ”حاضرسائیں” کے بعدوہ اپنی آزادادبی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔اگرچہ سفرنامہ شاعری اورفکشن کی طرح مکمل صنف ادب نہیں ہے لیکن عارف صاحب نے اپنے زبان وبیان سے اسے ایک مکمل تخلیقی صنف بنادیاہے۔وہ اپنی نجی زندگی میں دولوگوں سے زیادہ قریب ہیں،نجیبہ عارف اورعکسی مفتی؛لیکن ان کے اظہارکی تاثیران دونوں کے ادبی اظہارسے زیادہ طاقتوراورانسا نی روح میں سرایت کرنے والی ہے۔دونوں اپنی مستند ادبی شناخت رکھتے ہیں اوربلاشبہ اعلیٰ درجے کے نثرنگارہیں لیکن عارف صاحب اپنی پہلی ہی کتاب میں ایسی نثرلکھنے میں کامیاب ہوئے ہیںجوبے شماردیگرمستندادیبوں سے زیادہ اثرانگیزی رکھتی ہے۔عارف جمیل کے سامنے ایسے کوئی معیارات نہیں تھے جوان کے تخلیقی تجربے کی راہ میں شعوری یالاشعوری رکاوٹ بنتے۔کتاب کے مطالعے کے دوران مجھے بالکل محسوس نہیں ہواکہ انھوں نے کوئی لفظ یافقرہ اضافی لکھاہویاان کے تخلیقی باطن سے نہ نکلاہو۔وہ چوں کہ ادیب نہیں تھے،اس لیے اس تصنع سے بچ نکلے جوادیب ہونے کاتصورپیداکرتاہے۔کتاب کے ایک ایک حرف اورایک ایک سطرسے محمدعارف جمیل چھلکتاہے جوہر شے سے بے نیازاورکسی بھی دنیاوی اعزازسے آلودہ نہیں ہے۔وہ وہاں ہیں جہاں ان کے دومحبوب رہتے ہیں یعنی خدااوراس کے عاشق محمد الرسول اللہ ۖ ۔ان کے لیے ان دوہستیوں کے سامنے ساری دنیااورخود ان کااپناوجودبھی ہیچ ہے۔چناں چہ اس سفرمیں جہاں پہنچ جاتے ہیں اسے عطاسمجھتے ہیں اورجہاں نہیں پہنچ پاتے اسے تقدیر۔انھیں نہ پہنچ پانے کی اہمیت کااندازہ ہے اورنہ پہنچ نہ پانے کی کمی کااحساس ہے ۔حج اورعمرے کے سفرنامے عقیدت کااظہارہوتے ہیں اس نرالے سفرنامے میں اگرکہیں عقیدت ہے بھی توعقیدت مندکواس کی خبرنہیں کیو ں کہ وہ توکہیں موجودہی نہیں ہے،اگرکچھ موجود ہے توبس محبوب۔انھیں کچھ بھی خبرنہیں ہے کہ ان کے ساتھ یااردگردکیاہورہاہے۔وہ تو خود سپردگی کی کیفیت میں ہیں۔انھیں معلوم ہے کہ وہ بلائیں گے تووہ خود پہنچ جائیں گے ورنہ جتنابھی بھاگیں ،جتنابھی کوشش کریں،ریاض الجنة پہنچ کربھی نہیں پہنچ پائیں گے اورکہیں راہ میں ہی رہ جائیں گے۔دوسروں کوروندکرآگے جاتے ہوؤں اورسکون سے انتظارکرتے ہوئے راضی بالرضا اوراذن باریابی کے منتظروں کافرق کتناواضح ہے۔پہنچتے دونوں ہی ہیں،ایک اپنی کوشش سے اوردوسرااس کی اجازت سے۔یہ تواپنااپناانتخاب ہے کہ کوئی کیسے پہنچنے کوترجیح دیتاہے۔یہ سفررسوم کی ادائی کے لیے نہیں ہوناچاہیے بلکہ ذہن ودل اورروح وبدن کی ادائی کے لیے ہوناچاہیے۔اگراس سفرمیں دوران بھی ہمیں اپنانفع ونقصان،کاروبار،عزیزرشتے داریاد رہتے ہیں،اگرہمیں اپناوجودنظرآتا ہے،اگرہم کچھ مانگنے جاتے ہیں،کچھ حاصل کرنے جاتے ہیں توکیاجاتے ہیں،دے تووہ گھربیٹھوں کوبھی دیتاہے۔وہاں تومحبت کی آنکھو ں اوردل کے پیروں سے چل کرجاناچاہیے۔وہاں جاتے ہوئے تواپنی حاجات اوراحتیاجات کوبھول جاناچاہیے۔ان کے سامنے پہنچ کر ہمیں کچھ نظرآتاہے،کچھ بھی اورنظرآتاہے تویہ آنکھیںکس کام کی ہیں اوراگران کے علاوہ کوئی اورخواہش،کوئی آرزو،کوئی تمنا،کوئی طلب دل میں پیداہوتی ہے تووہ دل تونہ ہوگا،کسی بنیے کابہی کھاتہ ہوگا۔اس کتاب کی ایک اورخصوصیت یہ ہے کہ ہمارے مصنف جس جس مقام پر جاتے ہیں، چشم ِ تصورمیں اسے پندرہ سوسال پہلے کی حالت اورکیفیت میں بھی دیکھ لیتے ہیں۔یہ محض تاریخ کابیان نہیں ہے۔یہاں بھی دیکھنے والے دل کی واردات کااظہارہواہے جومنبررسول ۖ پررسولِ محبوب کوبیٹھے ہوئے اورخطبہ دیتے ہوئے اورنوربکھیرتے ہوئے دیکھ لیتاہے۔یہ حضوری جسمانی توہے ہی،باطنی و روحانی بلکہ وجودی ہے۔اس کی وجہ سے اس سفرنامے کی ایک جہت حقیقت موجودکابیان بن جاتی ہے اوردوسری جہت حقیقت دائمی کوپیش کرتی ہے۔”حاضرسائیں” میں افسانہ نگاری کی تمام خصوصیات کااظہارہواہے اس میں پلاٹ بھی ہے،کرداربھی ہیں،واقعات بھی ہیں،مکالمے بھی ہیں اورمنظرنگاری بھی۔تحریر کی روانی میں کئی افسانے بھی بیان ہوگئے ہیں۔”
محمدعارف جمیل کی نثربہت رواں،سادہ اورپراثرہے۔وہ ان مقامات مقدسہ کاذکرپورے جذب وشوق سے کرتے ہیں،خودبھی ڈوب جاتے ہیں اورقاری کوبھی ان کیفیات میں بھگودیتے ہیں۔یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔”رکوع کے بعدسجدے میں جانے لگاتومیراپورا جسم کانپ رہاتھا۔سجدے میں گیاتومیراچہرہ میرے ہی آنسوؤں سے ترتھا،آوازمیں لرزہ تھا،مجھے یاد ہی نہیں آرہاتھاکہ نمازمیں سجدے کی وقت کیاپڑھتے ہیں،بس مجھے یہ یادہے کہ میں سجدے کے وقت بارباراس جگہ کوچوم رہاتھا۔پتانہیں میری یہ کون سی نمازتھی جس میں سجدے ہی سجدے تھے۔نمازسے فارغ ہواتووہ شخص جس نے مجھے یہاں نمازکے لیے کھڑاکیاتھااورخودبھی میرے ساتھ ہی نمازپڑھ رہاتھا،اب وہا ں نہیں تھا۔میرے دائیں بائیں کوئی بھی نہیں تھا۔ اس وقت مجھے کچھ ہوش نہیں تھاکہ میں کیاسوچ رہاہوں،کیاپڑھ رہاہوں،کس طرف کوجا رہاہوں۔سجدے کے بعدجب جماعت دوسری رکعت کے لیے کھڑی ہوئی تومجھے یادآیاکہ یار! آج تومیراروزہ تھا،میں اپناافطارہی نہیں کیااورنمازشروع کردی ہے۔میں نے نمازکے دوران ہی اپنی جیکٹ کی جیب سے ان بزرگ کی دی ہوئی کھجورنکالی،جلدی سے ایک ہلکی سی بائٹ لی اورکھجورواپس جیب میں رکھ لی۔ایساکرنے سے بس میرے منہ میں کھجورکاذائقہ آگیا اوراپنی طرف سے میں نے اپناروزہ افطارکر لیا۔کیایہ شرعی طریقہ تھا،مجھے ایساکرناچاہیے تھایانہیں،مجھے کچھ معلوم نہیں۔مجھے توبس یہ پتاہے کہ ایساکرنے سے پہلے میں نے سوچابھی نہیں تھاکہ مجھے ایساکرناہے،یہ سب بس ہورہاتھا،اس میں میری مرضی شامل نہیں تھی اوراس وقت میں جس جگہ کھڑاتھا،جس کامہمان تھا، یہاں توسب اس کی مرضی سے ہوتاہے۔بس میں نے نمازکے دوران میں روزہ افطارکرلیا۔نمازبھی اللہ کی تھی اورروزہ بھی اللہ کا،کھجوربھی اللہ کی، میں خود بھی اللہ کااوردربھی اللہ کے محبوب کا۔یہاں توہرطرف اللہ ہی اللہ تھااورکچھ تھاتواس کامحبوب کانورتھااوربس۔”
محمدعارف جمیل کے اندازِبیان میں بہت روانی اوربہاؤہے اوران کااسلوب افسانہ نگاری سے قریب ہے۔”حاضرسائیں” میں جگہ جگہ مختصر افسانے بکھرے ہوئے ہیں،قاری کوکئی جگہ محسوس ہوتاہے کہ سفرنامے کی تیکنیک میں کوئی افسانہ پڑھ رہاہے،پھرجابجادعائیں بھی ہیں،منا جاتیں بھی ہیں،شرمندگی بھی ہے اورآنسوبھی ہیں ایک ایساکیف ہے جوروزمرہ زندگی سے جداکرکے ایک سرمستی میں ڈبودیتاہے اوردل درد اورآنسوؤں سے بھرجاتااورہمیں پاک کردیتاہے۔یہ سب کچھ اس سرمستی،سرشاری اورکیفیت کی دین ہے جومصنف کے وجود کواپنے حصارمیں لیے ہوئے ہے۔قاری کویہ کتاب باوضوہوکرپڑھناچاہیے۔ ذراجذب وکیف کی کیفیت دیکھیں۔
”پیچھے مڑکردیکھناتھا،میرادل رُک گیاہو،آنکھیں جیسے سکتے میں آگئی ہوں،پہلی بارروضہ رسول ۖ کے سبزگنبدپرنظرجوپڑی تھی۔رات کے اجالوں کاضامن،وہ ہراگنبد،پوری آب وتاب سے چمکتامیری نظروں میں تھا۔میری نظروں میں جی بھردیکھنے کی تاب نہ تھی اورنہ ہی میری ٹانگوں میں کھڑے رہنے کی طاقت۔ میں وہیں مسجدکے صحن میں بیٹھ گیااوراپنی نم آنکھوںکواپنے ہاتھوں سے ڈھانپتے ہوئے لرزتے ہونٹوں سے حضورکاشکریہ اداکرنے لگا۔”
عارف جمیل مدینہ میں گھومتے ہوئے خود کوحضورۖ کے دورمیں محسوس کرتے ہیں۔”مجھے پہلی بارروضہ مبارک کاہراگنبددھوپ کی سنہری روشنی میں نہایاہوانظرآیا۔میں دل کی زبان سے درودپڑھا،آنکھیں جھکاکراپناسلام پیش کیااورحضورکی اجازت سے ان کے شہر،ان کے محلے کی سیرکے لیے چلا۔میں جس جگہ کھڑاتھایہ اب تواسی مسجدکاحصہ تھالیکن اس زمانے میں تومدینہ شہرتھا۔موجوددور میں مسجدنبوی کی توسیع کرتے ہوئے سعودی حکومت نے اس وقت کاسارے کاسارامدینہ شہراس مسجدکاحصہ بنادیاہے۔میں نے ذہن کے دریچوںسے جھانکتے ہوئے،دل میں یہی نیت رکھی کہ میں حضورکے اسی پرانے شہرمیں ہوں اوران کی اجازت سے ان گلیوںاوربازاروں میں گھوم رہاہوں۔”
وہ مقدس ہستیاں آج بھی اپنے پروانوں کاکس طرح خیال کرتی ہیں۔نجیبہ عارف تین جمادی الثانی کوفاطمہ الزہرا کے یوم پیدائش پران کی قبرپرفاتحہ پڑھناچاہتی تھیں۔لیکن جنت البقیع میں خواتین کوداخلے کی اجازت نہ تھی۔نجیبہ اورعارف نے گھوم پھرکرکسی ایسی جگہ سے فاتحہ پڑھنے کاارادہ کیا،جہاں سے سب مقابرنظرآسکیں۔چلتے ہوئے ا نہیں جنگلے کے درمیان ایک دروازہ نظرآیاجوجنت البقیع میں کھلتاتھا۔یہ دروازہ بھی لوہے کی گرل سے بناہواتھااوراس پربھی تالاپڑاتھا۔اس دروازے سے وہ اندرتونہ جاسکتے تھے لیکن اس کی دہلیز کھڑے ہو کر پوری جنت البقیع کوایک نظردیکھاجاسکتاتھا۔نجیبہ نے بہت شوق سے گرل کوہاتھوں میں تھام کے اندردیکھااوراپنی آنکھوں کی پیاس بجھائی۔ نجیبہ نے سلام پڑھناشروع کیاتوعارف ہٹ کرکھڑے ہوگئے۔اچانک سڑک پرایک بڑی سی گاڑی آکرکھڑی ہوئی اورگاڑی کاشیشہ نیچے کرتے ہوئے کسی نے انہیں زورزورسے پکارناشروع کیا۔قریب جانے پرایک عرب جوڑے نے انھیں ٹھنڈے پانی کی دوبوتلیں پکڑا دیں ۔نجیبہ دعاوسلام سے فارغ ہوئیں توانھوں نے پانی کی ٹھنڈی بوتل پیش کی۔نجیبہ نے بوتل کھولتے ہوئے پوچھا،یہ ٹھنڈاپانی آپ کے پاس کہاں سے آیا،توجواب دیاکہ جب تم دروازے پرکھڑی سلام پڑھ رہی تھیں توایک گاڑی رکی جس میں نوجوان عرب جوڑابیٹھاتھاانھو ںنے ہی یہ پانی مجھے دیا۔نجیبہ حیران رہ گئیں۔انھوں نے کیا۔عارف یہ کیاہورہاہے!پتہ ہے میں نے ابھی دعامیں کیاکہاتھا؟ میں نے بی بی فاطمہ کے حضورمودبانہ درخواست کی تھی کہ اگرمیرایہ سلام آپ تک پہنچ گیاہے اورآپ نے اسے قبول کرلیا ہے تومجھے کوئی نشانی دکھادیں ۔پھرمیں نے سوچاتھاکہ بھلاکیانشانی ہوسکتی ہے؟ اورخود ہی جواب دیاکہ کوئی مجھے کچھ دے ہی جائے،جس سے مجھے یہ معلوم ہوکہ آپ نے میراسلام قبول کرلیاہے۔بلاشبہ ”یہ بڑے کرم کے ہیں فیصلے یہ بڑے نصیب کی بات ہے۔
”حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پرکھڑے ہوکرعارف جمیل کوخیال آیا۔”ترکوں نے کس عقیدت اورمحبت سے مسجدنبوی کی توسیع وتعمیرکی تھی۔فنِ تعمیرات ،نقش ونگار،خطاطی،خوش نویسی،ہرشعبے کے اعلیٰ ترین ماہرلوگوں کوجمع کیاگیاتھاترک حکومت نے ان سے کہاتھاکہ وہ اپنے اپنے شعبے میں ایک ایک نوجوان کواس کام میں ماہرومشاق کریں اورہم ان نوجوانوں کوساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی بنائیں گے۔اس طرح ہنرمندوں اور ماہروں کی ایک فوج تیارہوگئی جوحافظ قرآن بھی تھی اوراپنے اپنے تعمیراتی ہنرمیں ماہرمشاق بھی۔اس تیار ی میں پچیس سال سے زیادہ عرصہ لگا لیکن مسجدنبوی کی توسیع وتعمیرکرنے والے سب ہاتھ باوضوہونے کے ساتھ ساتھ حافظ قرآن بھی تھے۔حضورۖ کے آرام کااس قدرخیا ل رکھاجاتاتھاکہ تعمیرمیں استعمال ہونے والے سب پتھروں اورلکڑی کی کٹائی کاکام مدینہ شہرسے دورکیاجاتاتھاتاکہ مدینے میں شورنہ ہو۔ پھر ان تراشے ہوئے پتھروں کومسجدلایاجاتاتھااوراگرکبھی اس پتھرکوتھوڑابہت ہتھوڑے سے چوٹ لگانے کی ضرورت ہوتی تواس پرکپڑے کی کئی تہیں رکھ کرلکڑی کے ہتھوڑے سے چوٹ لگائی جاتی تھی تاکہ کم سے کم شورپیداہو۔”
ایسی حیران کن معلومات ”حاضرسائیں” کے علاوہ کسی حج یاعمرے کے سفرنامے میں نہیں دی گئیں۔ ایسی منفردمعلومات قاری کودوران ِ مطا لعہ خود سے جکڑے رہتی ہیں اوروہ ایک تحیرکی کیفیت میں پڑھتاچلاجاتاہے اورکتاب ختم ہونے پرایک افسوس کی کیفیت اس پرطاری ہوجاتی ہے۔
پاکستانی زائرین کارویہ سنجیدہ افراد کوشرمندگی میں مبتلاکردیتاہے۔اس بارے میں مصنف نے لکھاہے۔”عصراورمغرب کے درمیان بچوں نے پلاسٹک کے لمبے لمبے دسترخوان صفوں کے بیچ بچھادیے اوراب ہرکاغذکی پلیٹوںمیں ساتھ لائے شاپرزسے کھجوریں اورروٹیاںنکال کر رکھ دیں۔مسجد میں رکھے آبِ زم زم کے کولرزسے پانی بھرکرساتھ ہی رکھے پلاسٹک کے گلاسوں میں ہرایک پلیٹ کے ساتھ رکھ دیا۔یہ سب اہتمام مسجدمیں موجود روزہ داروں کاروزہ کھلوانے کے لیے کیاگیاتھا۔مجھے شرمندگی کااحساس اس وقت ہواجب کچھ پاکستانی دوستو ں نے مغرب کی اذان سے پہلے ہی کھجوریں اٹھاکراپنے منہ میں ڈالناشروع کردیں۔اس وقت تومیری شرمندگی مزیدبڑھ گئی جب مغرب کی اذان ہوئی اورسب روزہ داروں نے کھجور،روٹی اورآب زم زم سے روزہ کھولا۔وہی پاکستانی بھائی جواذان سے پہلے ہی کھجورکھارہے تھے اب دوسروں کی نظربچاکرسامنے پڑی کھجورکی پلیٹوںکواپنے ہاتھ میں پکڑے جوتیاں رکھنے کی شاپرمیں الٹ رہے تھے اوراس کوشش میں تھے کہ زیادہ سے زیادہ کھجوریںاورروٹی کے ٹکڑے سمیٹ لیں۔پتہ نہیں یہ کھجوروں کی طمع تھی،تبرک کالالچ تھایااندرکی بھوک تھی جوان کو ایسا کرنے پراکساتی تھی ۔پران کاعمل پوری پاکستانی قوم کے لیے باعث شرمندگی بنتاتھا۔ ”
اس قسم کے عبرت ناک واقعات حساس قاری کے دل کودکھ سے بھردیتے ہیں۔مسجدنبوی کی وی آئی پی کارپارکنگ میں ایک بڑاکمرہ ہے جس میں لگ بھگ سوافرادکے بیٹھنے کی گنجائش ہے۔اس کمرے میں قدیم مسجد اوراس کی توسیع وتعمیرکے مراحل کی تصاویررکھ کراسے میوزیم کادرجہ دیاگیاہے۔عارف جمیل وہاں پہنچے توکمرہ کھچاکھچ بھراہواتھا،پروجیکٹرپرکوئی فلم چل رہی تھی اورایک سعودی عالم عربی زبان میں اس چلتی فلم کے ساتھ ساتھ لیکچردے رہے تھے،پروجیکٹراسکرین کی دوسری جانب ایک شخص اس عربی لیکچرکااردومیں ترجمہ کررہاتھا۔یہ لیکچربھی بدعت اورشرک کے بارے میں تھا۔قبروں کوسجدہ کرنے اوران پرچڑھاوے چڑھانے کے بارے میں بتایاجارہاتھاکہ یہ گناہ ہے،ہمیں صر ف اللہ کے آگے ہاتھ پھیلانے چاہیں،اس لیکچرکے دوران عارف جمیل کواپنے پاکستانی ہونے پرایک بارپھرشرمندگی کاسامناکرناپڑاجب ایک دستاویزی فلم میں پاکستان کی مسجدوںمیںفلمائے کچھ ایسے منظردکھائے گئے جن میں ایک مولاناصاحب سامنے منبرپربیٹھے ہیںایک ایک کرکے لوگ آتے ہیں اوران کے سامنے سجدہ ریزہوتے رہتے ہیں۔ایک فلم میں توسعودی شیخ نے باقاعدہ پاکستان اورطاہرالقادری کا نام لے کرسب حاضرین کوبتایااوردکھایا کہ طاہرالقادری کسی جگہ ایک کرسی پربیٹھے ہیں اورسامنے ایک لائن میں لوگ کھڑے ہیں،لائن میں سے ایک ایک بندہ ان کے سامنے آتاہے اوربیٹھے ہوئے طاہرالقادری کے پیروںمیں اپناسرسجدے کی صورت رکھتاہے،جواب میں طاہر القادری ہاتھ کے اشارے سے اس آدمی کی کمرتھپتھپاتے ہیں۔یہ سلسلہ یونہی کافی دیرجاری رہتاہے۔
پاکستان کے علماء کی اس قسم کی حرکتوں کی وجہ سے سعودی عرب اوردیگرملکوں میں پاکستانی زائرین کوطنزواستہزاء کاسامناکرنا پڑتاہے۔ عارف جمیل کے ذہن میں ہرمقام پرکچھ خیالات گردش کرتے ہیں،یہ اقتباس ملاحظہ کریں۔”نمازتومیں نے جماعت کے ساتھ ہی پڑھی لیکن دھیان میرا کہیں اوربھٹکتارہا۔اس جماعت میں کیاصرف زندہ انسان ہی نمازاداکررہے ہیں؟ شہیدبھی توزندہ ہی ہوتے ہیں ناں،کیا حضرت حمزہ بھی آج اس جماعت میں شامل ہوں گے؟ کیامعلوم میر ے پہلو میں کھڑے یہ بزرگ ایک صحابی ہوں،حضورکے روزے پراللہ کے حکم سے فرشتے بھی توحاضری دیتے ہیں،کیاوہ بھی آج اس جمعے کی نمازمیں اس جماعت کاحصہ ہوں گے؟میں نے سناتھاکہ فرشتے بھی انسانو ںکے روپ میں اس جگہ آتے ہیں۔پوری نمازمیں اسی طرح کے خیالات میرے ذہن میں گھومتے رہے۔”
یہ خیالات بے معنی نہیں ہیں،انہیں پڑھتے ہوئے قاری بھی ایک عجیب سنسنی سے دوچارہوتاہے۔ عمرے پرآنے سے پہلے عکسی مفتی نے اپنی کتابAllah-Measuring The Intangibleمکمل کی تھی۔اس کتاب میں عکسی نے سائیکالوجی اورفلاسفی کے علم کی روشنی میں اللہ اوربندے کے رشتے کوسمجھانے کی کوشش کی ہے۔ان کامانناہے کہ جس طرح کائنات میں ہرچیزمادے کے ایک سوتین عناصرمیں سے کسی ایک عنصریاایک سے زیادہ عناصرسے مل کربنی ہے،اسی طرح روحانی دنیامیں ہرشے اللہ کے ننانوے ناموںمیں سے کسی ایک یاایک سے زیادہ ناموں کا مظہر ہے۔وہ یہ بتانے کی کوشش کررہے ہیں کہ پریوڈک ٹیبل میںکاربن ڈائی اوکسائیڈاورآکسیجن ایک دوسرے کے متضادرہتے ہوئے بھی نسل انسانی کے لیے بہت ضروری اورمفیدہیں،اسی طرح اللہ کے نام الر حمان الرحیم اورالقہاروالجباربھی ایک دوسرے کی ضدہونے کے باوجودروحانیت کے لیے نہایت ضروری اوراہمیت کے حامل ہیں۔عکسی صاحب کی یہ کتاب جہاں دنیامیں موجودکھلی آنکھ سے نظرآنے والی چیزوں کومزیدنکھارکردکھاتی ہے وہاں ان چیزوں سے بھی آگاہی دیتی ہے جوسامنے ہوتے ہوئے بھی آنکھ سے اوجھل رہتی ہیں اورنظرنہیں آرہی ہوتیں۔سائنس اورروحانیت کے باہمی رشتے کونبھاتی یہ ایک فکر ی کتاب ہے۔جس کااردوترجمہ نجیبہ عارف نے”تلاش اللہ:ماوراکاتعین” کے نام سے کیادانش وروں اورادبی حلقوں میں بہت مقبولیت بھی پائی۔نجیبہ کے خیال میں عکسی مفتی کی یہ کتاب آنے والے وقتوں کی کتاب ہے اوریہ کتاب مستقبل میں جامعات کی تدریسی کتب میں شامل ہوگی۔”حاضرسائیں” میں اس کتاب کامختصرتعارف اسے پڑھنے کی ترغیب بھی دیتاہے۔
سعودی عرب میں لوگوںخصوصاًغیرملکی محنت کشوں کوکس طرح دباکررکھاگیاہے،اس کاذکرکرتے ہوئے عارف جمیل لکھتے ہیں۔”عکسی صا حب مجھ سے کہنے لگے۔عارف صاحب پھردیکھاآپ نے اس ملک میں کیاہورہاہے،لوگ کام کرنے کے بعدبھی اپنی تنخواہوں سے محروم ہیں، پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اپنے بال بچوں کی ذمہ داری پوری نہیں کرپارہے اورحرم کے اندرخودکشیاںکررہے ہیں۔ان کے لیے آواز اٹھانے والابھی کوئی نہیں ہے۔باہرکی دنیامیں کسی کوخبرہی نہیں ہوتی کہ اس شخص نے خودکشی کیوں کی ہے،یااس جگہ کوئی ایساواقعہ ہوابھی ہے کہ نہیں۔ایک طرف حکومت کے پاس مزدوروں کی تنخواہیں دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں اوردوسری طرف وہ اربوں ڈالرزکے جنگی سازوسا مان خریدنے کے معاہدے کررہے ہیں۔سارہ پیسہ حکومت نے سیریااوریمن کی جنگ میں جھونک دیاہے۔حرم کی توسیع ہورہی تھی لیکن وہ کام بھی بیچ میں روک دیاگیاہے۔اطراف میںعمارت کے ڈھانچے کھڑے ہیں اوربڑی بڑی کرینیں بندپڑی ہیں۔اس توسیع پراٹھنے والے اخراجات پورے کرنے کے پیسے نہیں ہیں ان کے پاس۔اپنے ڈیولپمنٹ فنڈزبھی یہ لوگ جنگی اخراجات پورے کرنے پرخرچ کر رہے ہیں۔ایک امریکابہت سے اسلامی ملکوں کوآپس میںلڑواکران سب کوالگ الگ اپناجنگی اسلحہ اورسازوسامان بیچ رہاہے اوروہ اپنی چا ل میں کس قدرکامیاب ہے،ہم مسلمان ملکوں کواس کی سمجھ ہی نہیں آتی۔”
اس قسم کی چشم کشا باتیں قارئین کوکسی اورکتاب میںہرگزمیسرنہیں آتیں،محمدعارف جمیل نے اپنی کتاب میں لکھی ہیں۔”حاضرسائیں”سفر نامہ عمرہ ہے۔جومحمدعارف جمیل نے اپنی اہلیہ نجیبہ عارف اورعکسی مفتی کے ساتھ کیا۔کتاب کانصف سے زیادہ حصہ مدینہ کے ذکرسے بھرا ہے کہ وہ باہمی مشورے سے پہلے مدینہ گئے اورزیادہ وقت وہاں گزارکرعمرہ کرنے مکہ پہنچے۔عکسی کے والدممتازمفتی نے بھی قدرت اللہ شہاب اوران کی بیگم عفت کے ساتھ حج کیااوراس کابے مثال سفرنامہ ”لبیک ”تحریرکیا۔ممتازمفتی کے انوکھے اسلوب اورفکرمیں ڈوبی تحریر کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی اورلبیک کے اب تک بیسویں ایڈیشن مختلف پبلشرزشائع کرچکے ہیں۔عارف جمیل کی”حاضرسائیں” بھی ایسی جذب وکیف میں ڈوبی تحریرہے،جوپڑھنے والے کے دل پراثرکرتی ہے۔اس کی ایک ایک سطرعشق اورجذبے میں لتھڑی ہے اوراس میں کسی قسم کی آلودگی نہیں۔
ممتازمفتی لکھتے ہیں۔”حرم شریف اللہ کاگھرہے۔جس طرح اللہ بے نیازہے اسی طرح حرم شریف کی فضابھی بے نیازہے۔وہاں کوئی پابند ی نہیں،کوئی پوچھنے والانہیں کہ میاں کیاکررہے ہو۔چاہے آپ کالے ہیں،گندمی ہیں،سانولے ہیں یاگورے،کوئی آپ کی طرف نگاہ اٹھا کرنہیں دیکھے گا۔چاہے آپ یورپی ہیں،چینی ہیں یاامریکی،کوئی تجسس محسوس نہیں کرے گا،چاہے آپ شیعہ ہیں یاوہابی،کچھ فرق نہیں پڑتا ۔جس طرح جی چاہے نمازپڑھئے۔دونوں ہاتھ باندھ کر یاایک ہاتھ باندھ کریادونوں ہاتھ کھلے چھوڑکر۔چاہے نمازکے وقت آپ الگ ہو کربیٹھ جائیے،کوئی نہیں کہے گاکہ آپ نمازمیں شامل کیوں نہیں ہوئے۔”
محمدعارف جمیل لکھتے ہیں۔”جب جذبے سچے ہوں،کسی بھی لالچ اورفائے سے پاک ہوں اورصرف اورصف اپنے اللہ کی خوشنودی کے لیے ہوں توننھے بچے کے زمین پرایڑیاںرگڑنے سے بھی زمین سے میٹھے پانی کے نہ ختم ہونے والے چشمے پھوٹ پڑتے ہیں اورجب جذبے میں ہی کھوٹ ہواورجذبے ہی دکھاوے کے ہوں،ملاوٹ شدہ ہوں،طمع اورمفادکی ملاوٹ سے اٹے ہوں،توبے شک ہم اپنی پیشا نیاں اورماتھے رگڑرگڑ کالے بھی کرلیں ،کچھ نہیں ہونے والا،نہ ہی زمین پرنہ ہی ہمارے دلوں کے اندر۔اگربی بی حاجرہ اس روزاپنے ہاتھو ں سے مٹی کی چھوٹی چھوٹی ڈھیریاں بناکراس پانی پربندنہ باندھتیں اوراسے زم زم کَہ کرنہ روکتیں تویقینا یہ بہتاپانی کسی لامحدودحد تک بہتا ہی رہتا۔بی حاجرہ نے اس وقت اس پانی کوزم زم کَہ کراسی جگہ ٹھہرادیاجوسینکڑوںسال بعدآج بھی چشمے کی صورت جاری وساری ہے لیکن اسی جگہ ٹھہراہواہے۔ان کے ننھے اسماعیل کی پیاس کے صدقے آج تک ان گنت لوگوں کی پیاس بچھاچکاہے اوراب بھی مسلسل بجھارہا ہے ۔”
”حاضرسائیں” انتہائی معلومات افزا،دلچسپ اورکیف ومستی میں شرابورکتاب ہے۔جسے پڑھ کرہرگزیہ محسوس نہیں ہوتاکہ یہ محمدعارف جمیل کی پہلی کتاب ہے اورپڑھنے والے کے دل سے بے اختیارنکلتاہے ۔اللہ کرے زورقلم اورزیادہ۔