”زندگی کی رہگزرپر” جمیل یوسف کی آپ بیتی ہے۔جمیل یوسف قادرالکلام شاعر،معروف سفرنامہ نگار،مستندمورخ،بہترین معلم ،عمدہ نقاد اورسابق نیک نام بیوروکریٹ ہیں۔اوراپنی ہرحیثیت میں انہوں نے اپنی پہچان بنائی ہے۔یوسف جمیل کے شعری مجموعے”غزال”، ”غزل”،”موجِ صدا”،”گریزاں” اورشہرِگماں” شائع ہوکر قارئین میں مشہورہوچکے ہیں۔یوسف جمیل کے اشعاران کی قادرالکلامی کی مثال ہیں۔
ہراک سے تیری محبت کی داستاں کہہ دی
میں یہ خزانہ چھپا کربھلاکہاں رکھتا
یہی توزیست کا سب سے عظیم سانحہ ہے
کہ رہ گئی ہے فقط داستاں ،گئے وہ لوگ
محسوس ہورہا ہے کہ دل کا معاملہ
دربارِ مصطفی سے خدا تک پہنچ گیا
جمیل یوسف کاڈنمارک کاسفرنامہ ”جل پری کے دیس میں” بہت مقبول ہوا،اس کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔پراثراورعقیدت میں ڈوباہواسفرنامہ حج ”اے اللہ میں حاضرہوں” کے عنوان سے منصہ شہود پرآیا۔اس پراظہارِ خیال کرتے ہوئے ڈاکٹرانورمحمودخالدلکھتے ہیں ۔ ”جمیل یوسف قادرالکلام شاعر،سفرنامہ نگار،نقاداورمورخ ہیں۔انہوں نے کمال کاسفرنامہ حج لکھا ہے۔میں خود دومرتبہ حج بیت اللہ سے مشرف ہوچکاہو ںاوران تمام مقامات کی زیارت کرچکاہوں جوجمیل یوسف کے مشاہدے میں آئے اوران تمام روحانی کیفیات سے گزر چکا ہوںجن سے جمیل یوسف صاحب اب بہ اندازِ دگربہرہ یاب ہوئے ہیں۔سچی بات یہ ہے کہ جمیل یوسف نے جس طرح حج کے روحانی پہلوؤں کااحاطہ کیا ہے وہ انہیں کاحصہ ہے۔انہوں نے حج کے ایام کی جوتفصیل قارئین کے سامنے پیش کی ہیں،وہ بہت کم حج کے سفرناموں میں دکھائی دیتی ہیں۔حج کے بیشترسفرنامے یکسانیت،بے رنگی اوربے کیفی کاشکارہیں بلکہ بعض توحج کی گائیڈ بک بن کررہ گئے ہیں جبکہ جمیل یوسف کے سفر نامہ میں روحانی کیفیات،جمالیاتی احساسات کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کرچلتی نظرآتی ہیں۔جمیل یوسف نے یہ حج اپنی صاحبزادی کی معیت میں کیاہے اوربیٹی کی ہمہ وقت موجودگی نے پورے سفرحج کوآب زم زم کی سی پاکیزگی عطاکردی ہے۔”
ان کی ایک اہم کتاب ”خطوط بنام یوسف جمیل” بھی شائع ہوئی ہے۔جس میں ان کے نام مشاہیراورادیبوں کے خطوط دیے گئے ہیں ۔ ”زندگی کی رہگزرپر”انتہائی دلچسپ اورانکشافات سے بھرپورآپ بیتی ہے۔جسے ختم کرنے کے بعد بھی قاری اس کے سحرسے آزاد نہیں ہوتا ۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کتاب اورمصنف کے بارے میں کہتے ہیں۔” جناب جمیل یوسف میرے پرانے احباب میں سے ہیں۔میں ان کی شخصیت اورتحریردونوں کی کاٹ کاقائل بلکہ گھائل ہوں۔جمیل یوسف معروف شاعربھی ہیں۔شاعروں کی نثربسااوقات دل نشینی سے محروم رہتی ہے مگرجمیل صاحب کے قلم نے نثرکے میدان میں بھی جھنڈے گاڑدیئے ہیں۔اُن کاسفرنامہ ڈنمارک”جل پری کے دیس میں” اور سفر نامہ حج”اے اللہ میں حاضرہوں” باہم مختلف مزاج رکھتے ہیں اوردونوں ہی جمیل صاحب نے ڈوب کرلکھے ہیں۔”بابرسے ظفرتک”، ” سرسیداحمدخان”،”مسلمانوں کی تاریخ”،”باتیںکچھ ادبی ،کچھ بے ادبی”اور”حفیظ جالندھری” ان کی قابلِ ذکرنثری تصانیف ہیں۔ان کی زیرِ نظرآپ بیتی”زندگی کی رہگزرپر” جواب آپ کے سامنے ہے،بالاقساط ماہ نامہ ‘الحمرا” لاہورمیں شائع ہوچکی ہے۔جب بھی الحمراکا تازہ شمارہ آتاتھا،میری نگاہ بے تابی سے اس آپ بیتی کی تازہ قسط کوتلاش کرتی تھی۔صرف اس لیے نہیں کہ یہ ایک دوست کی تحریر ہوتی تھی بلکہ اس لیے یہ تحریرچشم کشاحقائق پرمشتمل ہوتی اورنہایت دلچسپی کے ساتھ پڑھی جانے کے لائق ہوتی تھی۔جمیل صاحب کی شخصیت ایک شمشیربے نیام ہے،دوٹوک اورواضح ،وہ پاسبانِ عقل سے جب چاہیں رخصت لے سکتے ہیں۔ان کی طبیعت کی اساس ،جو اسلام پر پختہ ایمان اورپاکستان سے غیرمشروط محبت پراستوارہے،عالم بے خودی میں بھی متزلزل نہیں ہوتی۔یہ دونوں پہلواوروطن عزیزکی تاریخ کے بعض نانوشتہ اوراق آپ کواس آپ بیتی میں جابجانظرآئیں گے۔آپ اسے پڑھتے ہوئے زیرِلب مسکرابھی سکتے ہیں۔بے اختیارقہقہہ بھی لگا سکتے ہیں۔آبدیدہ بھی ہوسکتے ہیں اورسوچ میں ڈوب بھی سکتے ہیں۔”
جمیل یوسف چکوال کے قصبے لنگاہ میں خاندانی ریکارڈ کے مطابق 22دسمبر1938ء کوپیداہوئے۔ان کے والدین کا تعلق درس وتدریس سے تھا۔والد شیخ محمدیوسف ڈسٹرکٹ ہائی اسکول ہسولہ میں پڑھاتے تھے۔والدہ قریب ہی ایک گورنمنٹ گرلزاسکول میں تھیں۔والدہ کا تبادلہ اگلے گریڈ میں گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول چکوال ہوگیاتووالدبھی مستعفی ہوگئے اورانہیں اسلامیہ ہائی اسکول چکوال میں بطور سینئر استاد ملازمت مل گئی۔ریاضی ان کا خاص مضمون تھا۔ جمیل یوسف کوپیدائشی اورفطری طور پرپڑھنے لکھنے سے دلچسپی تھی۔ابتدائی جماعتوں میں ہی وہ اردوبڑی روانی سے پڑھنے لگے۔والد نے اسکول لائبریری سے شاہنامہ اسلام کی پہلی جلدلاکردی۔شاہ نامہ کھولاتوبے تکان پڑھتے چلے گئے۔چند ہی دنوں میں بیشتراشعاریادہوگئے۔والد نے پوچھاکتاب پڑھی یانہیں توانہیں بتایاکہ مجھے توتقریباً پوری کتاب یاد ہوگئی ہے۔ انہیں یقین نہیں آیا توشاہ نامے کے اشعارسنانے شروع کردیے۔والد نے ہیڈماسٹرسے ذکرکیا۔انہوں نے دفترمیں بلاکراشعارسنے اگلی صبح سارے اسکول کے سامنے اسمبلی میں شعرسنانے کوکہاتووہ پندرہ بیس منٹ تک اشعارسناتے چلے گئے۔اس وقت جمیل یوسف چوتھی جماعت کے طالب علم تھے۔بس اس دن سے سارے اسکول میں ان کی لیاقت کی دھوم مچ گئی۔ساتھ ہی شعرسے فطری مناسبت بھی عیاں ہوگئی۔
جمیل یوسف ساتویں جماعت میں تھے ،توان کی ایک غزل روزنامہ تعمیرکے ہفتہ وارادبی ایڈیشن میں شائع ہوگئی۔اپنانام اورغزل دیکھ کرنو عمرشاعرکوجوخوشی ہوئی وہ توظاہرہے۔شہرمیں کئی بزرگ شاعرتھے لیکن چکوال کے کسی شاعرکاکلام اخبار میں نہیں چھپاتھا۔شایدانہوں نے بھیجاہی نہ ہو۔اس کے بعد وہ ادبی وشعری محافل میں باقاعدہ شامل ہونے لگے۔شہر کے شعراء نے ان کاامتحان لینے کے لیے ایک طرحی مشاعرے کاانعقاد کیا،کیونکہ بعض کاخیال تھاکہ ان کے ہاتھ کسی گمنام شاعرکادیوان لگ گیاہے اوروہ اس میں سے غزلیں نقل کرتے ہیں ۔ تاہم ان کی غزل حاصل مشاعرہ قرارپائی اوربطورشاعران کی پہچان بن گئی۔
جمیل یوسف کے مطابق وہ انسان بہت خوش قسمت ہے،جس کوبچپن میں لائق،محنتی،شفیق اورہمدرداساتذہ میسرآجائیں۔ان کے والدکہا کرتے تھے۔”سگے بھائی سمیت دنیامیں کوئی نہیں چاہتاکہ اس کاجاننے والااس سے آگے نکل جائے،ہرشخص خودآگے نکلنے کے لیے کوشاں رہتاہے۔مگرصرف دوہستیاں ہیں جوصدق دل سے چاہتی ہیں کہ آپ ان سے زیادہ ترقی کریں۔ایک آپ کے والداوردوسراآپ کااستاد ۔یہ دونوں مبارک ہستیاں ہمیشہ آپ کی ترقی ،خوش حال اورکامیاب زندگی کے لیے دعاگورہتی ہیں۔اپنے محترم اساتذہ میں وہ پہلی جماعت کے استادحاجی امام دین کوایک ناقابلِ فراموش شخصیت قراردیتے ہیں۔حاجی صاحب کاایک عشق توفن خطاطی کاحسن اوراس کے نقش ونگارسے تھااوردوسراعشق اپنے شاگردوں کوبھی خوش نویس بناناتھا۔وہ اچھالکھ کرلانے والے کوانعام بھی دیتے تھے۔بچوں کوسزا دینے کے بجائے وہ انعام دیاکرتے تھے۔سزاتودورکی بات کبھی ڈانتے بھی نہیں دیکھا۔وہ چھٹی کے بعد بھی بچوں کی تختیوں پرنقش ونگار بنا تے رہتے۔جمیل یوسف کہتے ہیں کہ اب سوچتاہوں توحیرت ہوتی ہے کہ کیاہمیں پڑھانے کے علاوہ حاجی امام دین صاحب کوکوئی کام نہ تھا ۔ باقی دنیا کے دھندوں سے تووہ بالکل لاتعلق تھے۔
کالج کے پرنسپل معروف شاعرطاہرسعیدہارون کی والدجناب سعیدہارون تھے۔جن کی شخصیت میں کچھ ایسارُعب اوردبدبہ تھااوران کی خا موشی میں بھی ایسی دھاک تھی جوسب طلبا اوراساتذہ کے دلوں میں بیٹھی ہوئی تھی۔ایک مقتدرشخصیت جتنی کم گوہوگی اتناہی اس کے ماتحتوں پر اس کااثراورکنٹرول زیادہ ہوگا۔کالج کی ایک تقریب کے صدراورمہمان خصوصی راجہ غضنفرعلی خان تھے۔جن کے بارے میں جمیل یوسف لکھتے ہیں۔”راجہ غضنفرعلی خان بانی پاکستان قائداعظم کے نہایت قریبی اورمعتمدساتھیوں میں سے تھے۔وہ پاکستان کی پہلی وفاقی کابینہ کے وزیرتھے اوراس وقت کی ملکی صورت حال کے پیش ِ نظرسب سے مشکل اورکٹھن وزارت کاقلمدان ان کے سپردکیاگیاتھا۔وہ وزیرمہاجرین اور آبادکاری تھے۔انہوں نے اس چیلنج کوجس طرح قبول کیااورجس خوبی سے اپنے فرض منصبی سے عہدہ برآ ہوئے ،تاریخ اس کی گواہ ہے۔ وہ چونکہ بے لوث اوربے غرض قومی لیڈرہونے کے ساتھ ساتھ ایک بے باک اورنڈرمقرربھی تھے،اس لیے قائداعظم کی رحلت کے بعد حکومت نے اسی میں عافیت سمجھی کہ ان کوسفارت پرفائزکرکے بیرون ملک بھیج دیاجائے۔وہ سالہاسال تک ترکی،ایران اورروس میں پاکستان کے سفیررہے۔گورنمنٹ کالج چکوال قیامِ پاکستان کے بعد حکومت کاقائم کردہ پہلاکالج تھا۔چکوال جیسی دورافتادہ اورتعلیمی لحاظ سے پسماندہ جگہ پرکالج کاقیام بھی راجہ غضنفرعلی خان کی کاوشوں سے بنا۔دوسری جنگ عظیم میں چکوال کے ایک ہزارکے قریب جوان بے جگری سے لڑے۔انگلینڈ کاسب سے بڑاملٹری اعزاز’وکٹوریہ کراس’ بھی چکوال کے ایک سپوت کوملا۔برطانوی حکومت نے ایک خطیررقم ان سپاہیوں کے خاندانوں میں تقسیم کرنے کے لیے دی۔راجہ غضنفرعلی خان جوکابینہ کے وزیرتھے نے تجویزپیش کی کہ ایک ہزارخاندانوں میں دو،دوتین ،تین سوتقسیم کرنے کے بجائے چکوال میں ڈگری کالج کاقیام عمل میں لایاجائے۔قائداعظم نے تجویزکوپسندکی اورکالج قائم ہوگیا ۔ ”
استادبنناجمیل یوسف کی سب سے بڑی خواہش تھی۔وہ زندگی کے بہترین دن انہیں قراردیتے ہیں جب وہ لیکچرارتھے۔ان کی پہلی تقرری رحیم یارخان ڈگری کالج میں 1962ء میں ہوئی تھی۔جہاں ان کے اولین رفقائے کارمیں راناشمشاداحمدتھے جوبعد میں پاکستان کے سیکریٹری خارجہ اوراقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب جیسے اہم اورباوقارعہدوں تعینات ہوئے۔اقوام متحدہ کا مستقل مندوب سب سے پہلے گورنمنٹ کالج لاہور کے پرنسپل پروفیسراحمدشاہ بخاری پطرس کومقررکیاگیاتھا۔ان کاانتخاب خود قائداعظم نے کیاتھا۔تقرر کی تین سالہ مدت کے بعد وہ اس میں توسیع کی خواہاں تھے ،لیکن چونکہ بانی پاکستان رحلت کرچکے تھے اورزمامِ اقتدارجن لوگوں کے پاس تھی وہ نہ مردم شناس تھے نہ انہیں قومی مفادعزیزتھا۔پروفیسربخاری کوتوسیع نہ دی گئی۔وہ اپنی انگریزی دانی اورتقاریرسے اقوام متحدہ کی مقبول ترین شخصیت بن چکے تھے،اس وقت کے سیکریٹری جنرل ڈاگ ہیمرشولڈنے انہیں پاکستان نہ جانے دیاانہیں اپناانڈرسیکریٹری مقررکردیا۔گویا اب بخاری صاحب پاکستان کے نہیں اقوام متحدہ کے اعلیٰ عہدے پرفائزہوگئے،جہاںان کی تنخواہ اورمراعات کئی گنابڑھ گئیں۔ہیمر شولڈ ، پطرس بخاری سے اس قدرمتاثرتھے کہ وہ انہیں پاکستان کے بجائے دنیاکاشہری کہاکرتے تھے۔
اسی کالج میں اردوکے لیکچرارفریدجاویدبہت اچھے شاعرتھے۔ان کی شہرت ملک بھرمیں پھیلی۔ان کاایک شعرزبان زدِخاص وعام ہے۔
گفتگو کسی سے ہو تیرا دھیان رہتا ہے
ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے سلسلہ تکلم کا
افسوس فریدجاوید صرف تیس سال کی عمرمیں انتقال کرگئے۔جمیل یوسف کالج میںتاریخ کے لیکچرارمقررہوئے توطلبا کے لیے مغلیہ دورکے بارے میں کتاب ”بابرسے ظفرتک” لکھ دی۔کتاب کوطلباکے علاوہ دیگر قارئین کی جانب سے بھی بھرپورپذیرائی ملی ۔معروف ادیب اور نقاد غلام جیلانی اصغرنے انہیں خط میں لکھا۔”میں بابرسے ظفر تک ” کاسفرایک رات میں طے کرگیاہوں۔یہ میری تیزرفتاری تھی یاآپ کی خوش گفتاری کہ مسافت کی طوالت کااحساس ہی نہ ہوا ۔ عام طور پرجب قاری تاریخ کی کسی دستاویزسے فارغ ہوتاہے تواسے یوں لگتاہے کہ وہ خود پانی پت کی جنگ میں شریک تھاجسم کاعضوعضودکھ رہاہوتاہے لیکن آپ نے نگارش کاوہ جادوجگایاہے کہ تمام راستہ ہنستے کھیلتے گزر گیا۔نہ تھکن کااحساس نہ گرانباری سفر،کاش تاریخ کی تمام درسی اورغیردرسی کتابیں اسی انداز میں لکھی جائیں۔عام طور پر واقعات کی ایک غیرمربوط فہرست قاری کے ہاتھ میں تھمادی جاتی ہے اوراس میں داستان کا پہلوغائب ہوتاہے۔آپ کی کتاب میں واقعات مصدقہ پیکر میںموجود ہیں مگراس میں وقائع نگاری کا وہ فن بھی موجود ہے جوبے جان واقعات میں زندگی کی لہردوڑادیتاہے۔”
1962ء میں لیکچررکی تنخواہ ڈھائی سوروپے اورمہنگائی الاؤنس اڑتالیس روپے سمیت دوسواٹھانوے روپے تھے۔اس بارے میں جمیل یوسف لکھتے ہیں۔”جب دوماہ کی اکٹھی تنخواہ پانچ سوچھیانوے روپے ملی توسب سے پہلے کالج ہوسٹل کابل اداکرناچاہا۔پتہ چلاکہ مہینہ بھر کے کھانے پینے کابل صرف تیس روپے ہے۔شام کوباٹاکی دکان سے سب سے مہنگے بوٹ خریدے،جن کی قیمت پچیس روپے تھی۔پنڈی سے لاہورکاکرایہ صرف پانچ روپے تھا۔لاہور میں ڈبل ڈیکراومنی بس صرف دس پیسے میں کچہری سے آراے بازارلے جاتی تھی۔اس حسا ب سے ہماری تنخواہ کم نہ تھی۔”
انہوں نے اپنے دورکے پروفیسراشفاق علی خان کاذکرکیاہے۔جنہوں نے اپنے طلباکوبتایاکہ انہیں داؤد پیٹرولیم سے ڈائریکٹرپبلک ریلیشنز کی آفرملی ہے۔دوہزارروپے تنخواہ،رہائش کے لیے بنگلہ اورسواری کے لیے کارالگ۔کلاس میں کسی نے پوچھا،سرآپ کواس وقت کتنی تنخواہ مل رہی ہے۔کہنے لگے ،ساڑھے سات سوروپے ماہانہ۔طلبانے کہا۔سرآپ کویہ آفرقبول کرلیناچاہیے۔جوابا’ پروفیسراشفاق نے کہا۔”مائی ڈیئرفولز۔یوہیوانسلٹڈمی۔تم یہ بھی تودیکھ کہ وہاں مجھے کام کیاکرنا ہوگاتم چاہتے ہوئے میں پڑھنے پڑھانے کاکام چھوڑکرتیل بیچنا شروع کردوں۔”
یہ اس دورکے اساتذہ کی تعلیم سے لگاؤ اوربے پناہ محبت کاثبوت ہے۔گورنمنٹ کالج لاہورکے پرنسپل ڈاکٹرنذیراحمدنے گورنرنواب کالاباغ کے ایک طالب علم کوداخل کرنے کی سفارش مسترد کردی۔نواب امیرمحمدخان اس قسم کی بات سننے کاعادی نہ تھا۔اس کے وہم وگمان میں بھی نہ تھاکہ کوئی پروفیسریاپرنسپل اس سے اس انداز میں بات بھی کرسکتاہے۔اس کے رعب ودبدبے سے توچیف سیکریٹری اورآئی جی پولیس بھی لرزتے تھے۔ڈاکٹرنذیرکوگورنرہاؤس طلب کیاگیا،وہ نہیں گئے۔چوبیس گھنٹے میں ڈاکٹرنذیرکاتبادلہ کردیاگیا۔اسی دن طلبانے ڈاکٹرنذیر کے حق میں بہت بڑاجلوس نکالااورگورنرہاؤس تک مارچ کیا۔وہ کہہ رہے تھے کہ ان کوباپ کی شفقت سے محروم نہ کیاجائے۔یہ ہنگامہ پندرہ بیس روزجاری رہاآخرگورنرصاحب کوگھٹنے ٹیکنے پڑے۔
جمیل یوسف نے لیکچررشپ کے دوران سی ایس ایس کاامتحان بغیرکسی خاص تیاری کے آزمائشی طور پردیاتاکہ اس کاطریقہ کارسمجھ کراگلے سال کے لیے تیاری کریں۔لیکن وہ اس پہلی ہی کوشش میں نہ صرف امتحان بلکہ انٹرویو اورٹیسٹ بھی پاس کرگئے۔1964ء کی گرمیوں کی چھٹیوں میںفیڈرل پبلک سروس کمیشن سے انٹرویوکی کال آگئی۔جس میں کامیاب بھی ہوئے۔اس زمانے میں کالج لیکچراردرجہ دوم کے افسرشمارہوتے تھے۔اب درجہ اول کے افسربن گئے۔ان کاتقررملٹری لینڈاینڈکنٹونمنٹس سروس میں کیاگیا۔اس سروس میں انہیں مغربی اور ایک افسرمشرقی پاکستان سے لیاگیاتھا۔ٹریننگ کے دوران پینسٹھ کی جنگ چھڑگئی۔اس کی یادیں تازہ کرتے ہوئے جمیل یوسف لکھتے ہیں۔ ” آزادکشمیرسے مقبوضہ کشمیرکی سمت ہماری فوجی پیش قدمی جاری تھی۔اس کی کمان میجرجنرل اخترحسین ملک کے سپرد تھی جنہوں نے ایوب خان کے حکم پریہ یلغارشروع کی تھی۔ایوب خان کی خواہش تھی کہ اس کے دوراقتدارمیں کشمیرفتح ہوجائے،اورتاریخ اسے فاتح کشمیرکا خطاب دے۔ جنرل اخترملک کی اس بے مثال اورباکمال پیش قدمی سے بوکھلاکرہی بھارت نے اچانک لاہورپردھاوابول دیاتھا۔صرف بھارت ہی نہیں جنرل اخترملک کی کامیابیوں پرہمارافوجی ڈکٹیٹرصدرایوب بھی بوکھلااٹھا ۔اوراس نے اچانک جنرل اخترکوکمان سے ہٹا کر اپنے چہیتے شرابی جنرل یحیٰی خان کوتعینات کردیا۔یہ خبرکشمیرمیں برسرپیکارفوجی دستوں پربجلی بن کرگری۔ان کے حوصلے پست ہوگئے ۔ جنرل یحییٰ نئی کمان سنبھالنے کے لیے جی ٹی روڈ سے محاذجنگ کی طرف روانہ ہوا مگرراستے میں جنرل رانی کے کوٹھے پرپہنچ کراس نے اپنا رختِ سفرکھول دیا اورمیدان جنگ کے بجائے وہاں حسیناؤں کی آغوش میں دادشجاعت دیتارہا۔”
یہ ہماری تاریخ کے تلخ حقائق ہیں۔ایسے بے شمارانکشافات جمیل یوسف کی آپ بیتی”زندگی کی رہگزرپر” میں موجود ہیں۔مصنف کا طرز بیان دلچسپ،پُراثراور اسلوب سادہ ہے۔کتاب قابلِ مطالعہ ہی نہیں چشم کشابھی ہے۔1990ء میں جمیل یوسف ایک رکے ہوئے ٹی اے بل کے سلسلے میں ملٹری اکاؤنٹس دفتر میں بیٹھے تھے کہ تازہ ریٹائرافسرآیااوراپنی پنشن کاحساب کرنے لگا۔اس کی باتوں سے لگتاتھاکہ وہ پنشن اورگریجوایٹی کے قواعدوضوابط سے اچھی طرح واقف تھا۔جمیل یوسف نے ان سے گذارش کی کہ چھبیس سال کی سروس کے بعد ریٹائر منٹ لوں تومجھے کتنی پینشن اورگریجوایٹی ملے گی۔اس بھلے آدمی نے انہیں جوبتایااس کے مطابق اگروہ اپنی گریجوایٹی کی رقم مرکزقومی بچت میں جمع کرادیںتوماہانہ منافع اورپینشن سمیت اس وقت کی تنخواہ سے پانچ سوروپے زیادہ ملیں گے۔اس وقت جمیل یوسف کے ڈی جی نور الحسن خان تھے۔انہوں نے نوسال قبل ریٹائرمنٹ لینے کوکہاتوڈی جی نے کہاکہ میرے چھ ماہ رہتے ہیں مجھے ریٹائرہونے دو۔میں نہیں چاہتا کہ تمہارے ریٹائرمنٹ کے آرڈرمیرے ہاتھوں سے ہوں۔مجھے دکھ ہوگا۔بہرحال وہ اکتوبر1991ء میں جب نیاڈی جی آیاتو ریٹائر ہوگئے۔
”زندگی کی رہگزرسے”ایک معلم،ادیب،شاعراوربیوروکریٹ کے روزوشب کی انتہائی دلچسپ اورچشم کشاداستان ہے۔جس میں تعلیم کی اہمیت بھی واضح کی گئی ہے۔ایک اچھے معلم کی شخصیت وکرداراورطریقہ تعلیم کی وضاحت بھی ہے۔بطورایک نیک نام بیوروکریٹ کارگزاری کی کہانی بھی ہے۔جس میں پاکستان کی تاریخ کی کئی کہی ان کہی کہانیاں اورچشم کشاواقعات بھی بیان ہوئے ہیں۔مجموعی طورپرقابلِ مطالعہ کتاب ہے۔