بھیشم ساہنی ہندی کے مستنداورمشہورناول،افسانہ اورڈرامہ نگارتھے۔ان کاسب سے مشہورناول”تمس” تقسیم پاک وہندکی مستنددستاویز ہے۔تقسیم ہجرت اورفسادات کی کہانی نے کبھی بھیشم ساہنی کاپیچھانہیں چھوڑا۔انھوں نے اس موضوع پرمتعدد کہانیاں لکھیں لیکن جس کہانی میں یہ موضوع پوری طرح ابھرکرسامنے آیاوہ ان کاناول ”تمس” ہے۔تقریباً تیس سال تک یہ موضوع ان کواکساتارہا اورجب انیس سو چوہتر میں یہ ناول شائع ہواتویوں معلوم ہواجیسے تقسیم کاعظیم المیہ پوری طرح ادب میں محفوظ ہوگیاہے۔تمس سے پہلے ہندی ادب میں یشپال کے ناول ”جھوٹاسچ” کواس موضوع پرسب سے متاثرکن ناول سمجھاجاتاتھا، لیکن بھیشم ساہنی کے ‘تمس’ میں تقسیم کی شایدسب سے زیادہ حقیقت پسندانہ عکاسی کی گئی ہے۔اس ناول کو1975ء کاساہتیہ اکیڈمی ایوارڈبھی دیاگیا۔
بھیشم ساہنی ،ہندی کے نامورادیب تھے۔وہ 8اگست 1915ء کوراولپنڈی میں پیداہوئے۔وہ اپنے والدہربنس لال ساہنی اوروالدہ لکشمی دیوی کی ساتویں اولاد تھے ۔اپنے بڑے بھائی ،مشہوربھارتی اداکاربلراج ساہنی ہی کی طرح انھوں نے بھی گورنمنٹ کالج لاہورسے انگریزی میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اوریہیں ان کی وابستگی افسانوی ادب سے ہوئی۔ان کی پہلی کہانی ”آبلہ” گورنمنٹ کالج لاہور کے رسالے ‘راوی’ میں شائع ہوئی تھی۔جبکہ دوسری کہانی ”نیلی آنکھیں ”ہندی رسالے ”ہنس” نے شائع کی۔بھیشم ساہنی نے نوعمری ہی میں تحریک آزادی میں حصہ لینا شروع کردیاتھا۔1942ء کی ‘بھارت چھوڑدو’ تحریک کے دوران وہ جیل بھی گئے۔1947ء میں ملک تقسیم ہواتوبھیشم ساہنی کوراولپنڈی سے نئے ہندوستان ہجرت کرناپڑی۔بھیشم ساہنی کی ادبی جہتیں نہایت متنوع ہیں۔انھوں نے چھ ناول تحریر کیے ۔ جن میں ”جھروکے”،” کڑیاں”،”بسنتی”،”مایاداس کی ماڑی”،”کنتو”،”نیلو،نیلما،نیلوفر”اوران کاسب سے مشہورناول ”تمس” شامل ہیں جوہندوستان کی تقسیم پر لکھے گئے شاندارناولوں میں سے ایک ہے۔بھیشم ساہنی نے سوسے زیادہ مختصرکہانیاں تحریرکیں جوان کے نو افسانوی مجموعوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ناول اورافسانوں کے علاوہ بھیشم ساہنی نے پانچ اسٹیج ڈرامے بھی تحریرکیے جن میں ”ہانوش” ،”کبیراکھڑابازارمیں”،”مادھوی”،”معاوضے” اور”عالمگیر” شامل ہیں ۔انھوں نے بچوں کے لیے بھی متعدد کہانیاں لکھیں جوان کے مجموعے ”غلیل کاکھیل” میں شامل ہیں۔اس کے علاوہ انھوں نے اپنے بڑے بھائی،مشہورفلم ایکٹر بلراج ساہنی کے بارے میں ایک سوانحی کتاب”بلراج مائی برادر” انگریزی میں تحریرکی اورخوداپنی آپ بیتی ”آج کے اتیت” کے عنوان سے لکھی۔11جولائی 2003ء کوہندی کے اس بے مثال ادیب کاانتقال ہوگیا۔
ادب کے ساتھ بھیشم ساہنی کاتعلق محض ادب کی تخلیق کے لیے نہیں تھا،وہ ادیبوں کے اس قبیلے سے تعلق رکھتے تھے جوسامراج کے خلاف جدو جہد میں عملاً شریک تھے اورآزادہندوستان میں معاشرتی ،سیاسی اورمعاشی مساوات کی جنگ جاری رکھے ہوئے تھا۔وہ پریم چندکی ادبی روایت کے امین تھے اورادب میں حقیقت پسندی اورانسانی اقدارکے حامی تھے۔ادیب کے طورپربھیشم ساہنی کے فن پرپریم چند اوریشپال کے گہرے اثرات نظرآتے ہیں۔انھوں نے بھی زندگی کی ستم ظریفی اوربے ضابطگیوں کواپنی کہانی کاموضوع بنایا،اگرچہ پریم چند کی طرح انھوں نے دیہات کی منظرنگاری نہیں کی،لیکن مجموعی طورپرماحول اورکردارکوجس طرح انھوں نے بیان کیاہے اورعام آدمی کی جدوجہدکی جیسی تشریح کی ہے وہ انھیں پریم چندکے اسلوب سے قریب لے آتی ہے۔ان کی کہانیاں نچلے طبقے کی زندگی اوران کی جدوجہدکونمایاں طور پرپیش کرنے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کی زندگی کے تضادات اورکشمکش کوبھی بڑی خوبی سے ظاہرکرتی ہے۔ان کہانیوں میں انھوں نے جہا ں زندگی کے تلخ حقائق کابیان کیاہے وہیں عام لوگوں کی زندگی کے آدرشوںکانقشہ بھی پیش کیاہے۔یہ ان کی جمہوری تحریک سے وابستگی ہی کااثرتھاکہ ان کی تحریروں میں عام آدمی کی امیدوں،دکھوں اورجدوجہدکارنگ نمایاں نظرآتاہے۔وہ انسان دوستی کی چلتی پھرتی تصویرتھے ۔ انھوں نے اپنی تحریروں میں ہندوستان کی سیاسی ،سماجی اورثقافتی حقیقت کی واضح تصویرپیش کی۔ان کے فن کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ انھوں نے جیسی زندگی گزاری،جوجدوجہدکی،اس ہی کاجیتاجاگتانقش اپنی کہانیوں میں ابھارا۔ان کے لیے زندگی اورفن میں کوئی فرق نہیں تھا۔
بھیشم ساہنی کامشہورناول ‘تمس’ اوردوایک مختصرکہانیاں اس سے قبل اردو میں ترجمہ ہوچکی ہیں لیکن وہ اس سے کہیں زیادہ کے حقدار تھے۔ انعام ندیم کا”امرتسرآگیاہے”کے نام سے بھیشم ساہنی کی تئیس کہانیوں کے ترجمے کواسی بات نے جوازفراہم کیاہے۔انعام ندیم کہتے ہیں ۔ ”بھیشم ساہنی جیسے ادیبوں کوپڑھنے کی ضرورت آج پہلے سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ نہ توہمارے معاشرے کے تضادات ختم ہوئے ہیں اورنہ ان کہانیوں کی معنی خیزی میں کوئی فرق آیاہے۔دلی میں قیام کے دوران انھوں نے ہندی جریدے ”نئی کہانی” کی ادارت کی۔انھیں کئی زبانوں پردسترس حاصل تھی لیکن سنسکرت ،اردو،ہندی،انگریزی اورپنجابی میں خاص مہارت حاصل تھی۔ اظہارکے لیے انھوں نے ہندی کو چنا۔پنجابی کامحاورہ ان کی ہندی نثرکی نمایاں پہچان ہے۔ ادب کے ساتھ ان کارشتہ آخردم تک قائم رہا اوربڑی یکسوئی کے ساتھ لکھتے رہے۔وہ عصری ہندی افسانے کے چندسب سے متاثرکن ناموں میں سے ایک تھے،یہی نہیں ،ان کاشمارہندی کے اہم ترین ڈرامہ نگاروں میں بھی ہوتاہے۔وہ صرف کردارتخلیق نہیں کرتے تھے بلکہ انھیں اسٹیج پر،اورکبھی کبھی پردہ سیمیں پرچلتاپھرتابھی دکھاتے تھے ۔وہ نہایت عمدہ ہدایت کارتھے ۔خودانھیں بھی فنِ اداکاری سے گہرالگاؤتھا،اگرچہ اس کامظاہرہ انھوں نے کم کم ہی کیا۔تاہم انھیں سعید اختر مرزاکی فلم ”موہن جوشی حاضر ہو”میں اداکاری کرتے دیکھاجاسکتاہے۔پھروہ اپنے مشہورناول ‘تمس” پربننے والی فلم میں بھی دکھائی دیے۔ آخری باردوہزاردو میں بننے والی اپرناسین کی فلم ”مسٹراینڈمسزایئر” میں ایک بوڑھے مسلمان کے کردار میں نظرآئے جوہندومسلم فسادات کاشکارہوجاتاہے۔انھوں نے ہندوستانی سماج اورسیاست میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی،لیڈروں کے منافقانہ رویے،مذہبی شدت پسندی کے رحجان،فرقہ واریت اوراخلاقی قدروں کے زوال کے بارے میں بھی جم کرلکھا۔مارکسزم سے متاثر ہونے کے سبب وہ سماج میں پھیلی معاشی بدنظمی اوراس کے المناک اثرات کوشدت سے محسوس کرتے تھے۔وہ عام لوگوں کے کثیرالجہتی استحصال کوسماجی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتے تھے اورسرمایہ داری نظام کواس کی سب سے بڑی وجہ گردانتے تھے۔ان کاادبی اور ثقافتی نکتہ نظرنہایت سادہ اورعلمی تھا،جس میں تطہیرکاعمل جاری رہتاتھا۔ترقی پسندانہ سوچ کی وجہ سے ان کاادب ایسی اقدارکاحامل تھاجو انسانی فلاح اوربہبودکی بنیاد سمجھی جاتی ہیں۔وہ استحصال سے پاک اورمساوات پرمبنی ایک ترقی پسندمعاشرے کی تشکیل کاخواب دیکھتے تھے اوریہی خواب اپنی کہانیوں،ناولوں اورڈراموں کے ذریعے اپنے پڑھنے والوں کودکھاتے تھے۔بھیشم ساہنی نے ہندوستانی سماج کے جن مسائل پریہ کہانیاں لکھی تھیں وہ مسائل اتنے ہی پاکستان کے بھی ہیں۔ان کی اس درجہ مماثلت پرہمیں حیران نہیں ہوناچاہیے۔”
کتاب کے مترجم انعام ندیم اردوکے شاعر،ادیب اورمترجم ہیںاورکراچی میں رہتے ہیں۔انعام ندیم نے نوے کی دہائی کے ابتدائی عشرے میں شاعری کاآغازکیااوران کاپہلامجموعہ کلام”درِخواب” دوہزارتین میں شائع ہوا۔اسی برس اس مجموعے کو’عکس خوشبوادبی ایوارڈ ‘ بھی دیاگیا۔شاعری کے علاوہ انعام ندیم موسیقی کے بارے میں مضامین تحریرکرتے ہیں اورمختلف زبانوںسے شعروادب کے تراجم سے بھی شغف رکھتے ہیں۔انھوں نے ربی سنکربال کے ناول”دوزخ نامہ”کاانگریزی سے اردوترجمہ بھی کیاجوپچھلے برس کتابی صورت میں”عکس پبلی کیشنز”سے شائع ہوا۔اس ترجمے کوادبی حلقوںکی جانب سے نہایت سراہاگیا۔ ربی سنکربال کامولاناروم کے بارے میں دوسرے ناول کا ترجمہ بھی عکس سے جلدشائع ہونے والاہے۔ان کی آنے والی کتابوں میں بعض اہم ناولوں کے تراجم شامل ہیں جوجلدشائع ہوں گے۔ انعام ندیم درس وتدریس سے وابستہ ہیں اوراردوزبان وادب کے استاد کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
عکس پبلشرزنوفل اورفہدبرادرزنے کتاب کوبہت خوبصورتی سے شائع کیاہے۔پیپربیک پرعمدہ جزبندی،متاثرکن سرورق،اعلیٰ کتابت کے ساتھ تین سوبارہ صفحات کی کتاب کی قیمت چھ سوروپے صاحبِ ذوق قارئین کے لیے بہت عمدہ سوداہے۔
کتاب کاپہلاافسانہ ”پالی” ہے۔یہ ملک کی تقسیم کے وقت ہجرت کے دوران پیش ہونے والاایک المیہ ہے،جس کاخلاصہ کچھ یوں ہے ۔ ”منوہرلال اوراس کی بیوی کو ایک وقت ایساہی شائبہ ہواتھاکہ ایک بہت بڑی مشکل ٹل گئی ہے،اورزندگی میں جوالجھاؤپڑگیاتھا،وہ سلجھ گیاہے۔لیکن الجھاؤ نہ توقصہ کہا نیو ںمیں پوری طرح سلجھ پاتے ہیں،نہ زندگی میں۔جب ملک کابٹوارہ ہواتو منوہرلال اس کی بیوی کے ساتھ دوبچے بھی تھے اورسینکڑوں لوگوں کے ساتھ وہ بھی اپنابوریابستراٹھائے،پناہ گزینوں کے قافلے میں چلنے لگے تھے۔پناہ گزینوں کے قافلے بھی کسی لکیرکی جانب بڑھنے لگے تھے جوانھی دنوں ایک ملک کوکاٹ کردوملک بنانے کے لیے کھینچی گئی تھی۔چھوٹی بچی ماں کی گود میں تھی،اوربڑاچارسال کابیٹا پالی،قافلے میں باپ کے پیچھے پیچھے چلاجارہاتھا۔سڑک پرایک کے پیچھے ایک،لاریوں کی لمبی قطارانھیں سرحد کی لکیرتک لے جانے کے لیے کھڑی تھی ۔منوہرلال بھی سرپرگٹھر رکھے اوربیٹے کی انگلی تھامے ہوئے تھااوراس کی بیوی کوشلیہ بھی سرپر گٹھر رکھے اوراپنی دودھ پیتی بچی کوگود میں لیے ہوئے تھی وہ دونوں لاریوں کی طرف بڑھ رہے تھے۔پناہ گیراپنے اپنے گٹھراورصندوق پھینک رہے تھے اورکودکودکر کوچ پرچڑھ رہے تھے۔ جب منوہرلال کوعلم ہواکہ بیٹے پالی کاہاتھ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیاہے،تب تک کوشلیہ لاری پرچڑھ چکی تھی اورمنوہرلال نے گٹھرسرسے اتار کراسے پکڑادیاتھا۔منوہرلال کواس وقت زیادہ فکرنہ ہوئی،اس نے سوچا،یہیں کہیں ہوگا ۔بچے کی گرمائش بھی تک اس کی ہتھیلی پرقائم تھی۔لیکن تمامترتلاش کے باوجودپالی نہ ملا،جبکہ لاری دن کی روشنی میں منزل تک پہنچنے کے لیے سرکناشروع ہوگئی۔ان کی فریادکسی نے نہ سنی سب کولاری کے جلدنکلنے کی فکرتھی ایک بچے کے لیے اسے روکنے کے بجائے ماں باپ کو اتارنا انہیں زیادہ بہترلگتاتھا۔راستے میں ایک حملے میں ان کی بچی بھی ماری گئی جس کاعلم ماں کواندھیرے میں نہ ہوسکا۔گمشدہ پالی ایک مسلمان لاولدپھیری لگاکربرتن بیچنے والے شکور کو ملا ، جواسے اپنے گھرلے گیا۔ میاں بیوی کوہروقت دھڑکالگارہتاکہ پولیس آکربچہ نہ چھین لے،پولیس تونہ آئی محلے کامولوی آگیا۔اس نے کہا تم کافرکے بچے کوپال رہے ہو۔اس کی مسلمانی کراؤ،ورنہ رہنے نہیں دیں گے۔ختنہ کراکے اس نام الطاف حسین رکھ دیاگیا۔زینب اورشکورکواب اطمینان ہوگیاکہ ان کے الطاف کوکوئی ان سے نہیں چھینے گا۔دوسال اسی موج میں گزرگئے۔پھرتھانے سے شکوراحمدکے نام سمن آیا۔ان سے بچہ دینے کوکہاگیا۔مولوی وغیرہ کچھ دے دلاکروقت گزارتے رہے۔پانچ سال بعدایک دن منوہرلال خودآگیااس نے کہاکہ اس کی بیوی کی حالت بہت خراب ہے،ہجرت کے وقت ہماری بچی بھی نہ بچ سکی۔اس پر رحم کرو۔بچے سے بھی پوچھاگیا۔اسے کچھ کچھ یادآگیا۔تب شکوراورزینت نے اس شرط پربچہ منوہرکے حوالے کردیاکہ وہ ہرعید پرانہیں ملانے لائے گا۔ماں کوشلیہ کے پاس پہنچ کر پالی کوبہت کچھ یاد آگیا،لوگ بچہ ملنے کی مبارکباد دینے آرہے تھے۔کچھ دیربعد وہ نماز پڑھنے کھڑا ہوگیا۔منوہرصفائی دے رہاتھا،ان کااپنابچہ نہیں تھاانہوں نے اپنابچہ بناکررکھا۔لیکن محلے کاچودھری بولا۔انھوں نے بچے کومسلما ن بناکربھیجاہے اورتم ان کی صفائی دے رہے ہو۔چودھری نے نام پوچھاتوبتایا،الطاف حسین ولدشکوراحمد۔غصہ سے چودھری بولانہیں تیرانام پالی ہے،یشپال۔اسی وقت نائی اورپنڈت کوبلایاگیالڑکے کوچٹائی پربٹھاکراس کامنڈن کیاگیا اورسرپرچوٹی چھوڑدی گئی۔”
انتہائی دلگدازافسانہ ہے۔جس میں تقسیم کے المیہ کے دوران بچوں،بڑوں اورعورتوں پرگزرنے والی بپتابہت موثراندازمیں پیش کی گئی ہے۔ ان میں بعض کودونوں ملکوں میں قبول نہیں کیاجاتاتھا۔ان پرکیاگزری،یہی کہانی ہے۔
پاکستان کے نامورادیب اورنقاد محمدشاہدحمیدنے بیک پیج پرمصنف اورمترجم کاتعارف کچھ یوں کرایاہے۔”بھیشم ساہنی اوربلراج ساہنی کوگنوں سے بھرے ہوئے” پنڈی بوائز” کہہ لیجئے کہ دونوں تقسیم سے بہت پہلے بھیرہ سے راولپنڈی آکرچھاچھی محلے میں بس جانے والے شری ہربنس لال ساہنی کے گھرپیداہوئے اورکالج روڈسے متصل عالم روڈ پرواقع دومنزلہ مکان میں پلے بڑھے تھے۔تقسیم کازمانہ آیاتوانہیں اپنے گھرسے نکلناپڑا جس میں کبھی گاندھی جی بھی آئے تھے کہ پاکستان بن گیاتوپنڈی ان کے لیے پرایاہوگیاتھا۔انہیں گاندھی کے ہندوستان جانا پڑگیا تھا مگردونوں مڑمڑکرپیچھے دیکھتے رہے۔بھائیوں کی اس جوڑی کے بخت بلندتھے۔بلراج نے بالی ووڈمیں ایک ہیروکے طورپرنام کمایااور بھیشم ادب کی دنیاکاروشن ستارہ ہوا۔مڑمڑکردیکھنے کااحوال یہ ہے کہ بھیشم کے ناول ‘تمس’ میں اسی شہرکی گلیاںہیں اور کہانی تقسیم سے ذرا پہلے اس سچے واقعے کوبنیادبناتی ہے جس کے مطابق راجہ بازارکی جامع مسجدکے سامنے کسی نے سورپھینک دیاتھااورشہرمیں فسادات پھو ٹ پڑے تھے۔اس ناول ہی میں نہیں،ان کی دیگرتخلیقات میں بھی تقسیم اورہجرت تک کازمانہ اورمنظرنامہ پوری طرح ظہورکرتارہتاہے کہ یہ گزراہواوقت بھیشم کے تخلیقی حافظے میں ہمیشہ مقیم رہا۔”امرتسرآگیاہے” میں بھیشم ساہنی کے تئیس منتخب افسانوں کوانعا م ندیم نے ترجمہ کرکے اردودنیاکوفراہم کردیاہے۔بھیشم کوبجاطور پرہندی افسانے کے نمایاں ترین ناموں میں شمارکیاجاتا ہے ۔ انہوں نے سماجی،سیاسی اورثقافتی زندگی کی ایک ایک جنبش کواس خوابی سے اپنے متن میں ڈھالاہے کہ پڑھتے ہوئے ہرمنظراورایک ایک واقعہ قاری کے حسیاتی کینوس پرتصویرہونے لگتاہے۔بھیشم ساہنی کاناول”تمس” اوران کے ایک دوافسانوں کے تراجم میری نظرسے
گزرچکے ہیں تاہم یہ پہلی بارہوگاکہ ہم ان کے افسانے ایک مجموعے کی صورت پڑھیں گے۔انعام ندیم کے شعرکے توہم تب سے قائل تھے جب آصف فرخی نے ان کامجموعہ ہمیں عطاکیاتھا۔ربیسنکربال کے ناول ”دوزخ نامہ” کے ترجمے کے بعد ان کی نثرکابھی قائل ہوناپڑا کہ متن کوانگریزی سے اردومیں ڈھالتے ہوئے وہ کچھ ایساکرشمہ دکھاتے ہیں کہ تخلیق نوکاسماں بندھ جاتاہے اورکہیں بھی گماں نہیں گزرتا کہ آپ ترجمہ پڑھ رہے ہیں۔لطف یہ ہے کہ ایسے میں وہ اصل متن سے پچھڑتے بھی نہیں ہیں۔ایساہی کچھ ”امرتسرآگیاہے” میں ہواہے ۔ یقین نہیں آتاتوپڑھ کردیکھ لیجئے ۔مجھے یقین ہے آپ بھی میری طرح بھیشم ساہنی کے افسانوں کالطف اٹھاتے ہوئے انعام ندیم کی اس خو بی کے قائل بھی ہوجائیں گے۔”
”تیندوا” ایک یکسرمختلف افسانہ ہے۔یہ کہانی ہے ،چنددوستوں کی جن کامشترکہ دوست ونودکچھ دن بعدیونیورسٹی تعلیم کے لیے شہرسے دور جارہاتھا۔تودوست اسے اصرارکرکے جھیل کی سیرکے لیے لے گئے۔اسے نہانے میں بھی دلچسپی نہیں تھی،لیکن کہانی کاراوی ڈوبنے لگاتو اسے بچانے کی کوشش میں وہ خود ڈوب گیا۔مشکلوں سے لاش نکالی۔ونودکی موت کاذمہ دارسمجھتے ہوئے راوی کے لیے اس کی ماںموسی کا سامناکرنا بھی مشکل تھا۔اس نے وہاں جاناچھوڑدیا۔وہ بہت بیمارہوگیایہ دکھ اسے اندرہی اندرنوچنے لگا۔ایسے میں موسی آئی تواس نے موسی سے کہا۔” میں نے تمہیں بتایانہیں ،ونودکی موت میرے ہاتھ سے ہوئی تھی۔ وہ تومجھے بچانے کی کوشش کررہاتھا،میں ہی اسے گہرے پانی میں کھینچ لے گیا تھا۔موسی بات سنتی رہیںپھرآگے بڑھ کراپناہاتھ میرے منہ پررکھ دیا۔بس ،بس،اب چپ ہوجا،یہ توکیابولے جارہا ہے ؟ میں سب جانتی ہوں ۔تومجھے کیابتائے گا؟مجھے سب معلوم ہے،پہلے دن سے معلوم ہے۔تم جگ جگ جیوبیٹا۔وہ توچلاگیا۔جوپیچھے رہ گئے،بھگوان انھیں سلامت رکھے،انھیں لمبی عمردے۔”
دل کوچھولینے والایہ افسانہ ایک ماں کی احساسات کاترجمان ہے۔کتاب کانام افسانہ ”امرتسرآگیاہے” پررکھاگیاہے۔یہ تقسیم کے وقت ریل کے سفرکااحوال ہے۔فسادات کی وجہ سے لوگوں کارش ہے۔ مسافرعمومی رویہ کے مطابق کسی نئے مسافرکواندرگھسنے نہیں دیتے۔ وزیر آباد پرچڑھنے والے میاں بیوی اور بچی کوپٹھان افراد زبردستی نکال دیتے ہیں اس دوران برتھ پربیٹھے پٹھان کی لات بیوی کوپڑگئی۔گاڑی میں سوارایک دبلابابویہ سب خاموشی سے دیکھتارہا۔پٹھان اس سے چھیڑچھاڑبھی کرتے رہے،لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔اچانک وہ دبلا بابوچیخ کربولا۔ہربنس پورہ نکل گیا۔پٹھان بولا،اوبابوکیوں چلاتااے؟ادرتم اترے گا؟زنجیرکھینچوں؟اورکھی کھی ہنسنے لگا۔کچھ دیربعد بابو پھر چلایا۔”شہرآگیاہے۔ امرتسرآگیاہے۔” وہ اچھل کرکھڑاہوگیا،اوراوپروالی برتھ پرلیٹے پٹھان کومخاطب کرکے چیخا۔”اوبے پٹھان کے بچے! نیچے اترتیری ماں کی۔۔ہندوعورت کولات مارتاہے!تیری اس۔۔اپنے گھرمیں شیربنتاتھا۔اب بول،تیری میں اس پٹھان کی۔” گاڑی رکنے وہ نیچے اترگیاکچھ دیربعدلوٹاتواس کے ہاتھ میں لوہے کی سلاخ تھی۔لیکن اس دوران پٹھان حالات دیکھ کرڈبابدل چکے تھے۔ گاڑی پھرسرکنے لگی۔باہرکھڑاایک آدمی گڑگڑانے لگا،خداکے واسطے دروازہ کھولو۔گاڑی نکل جائے گی۔نہیں ہے جگہ اترجاؤگاڑی سے ۔ بابوچلایااوراسی لمحے لپک کردروازہ کھول دیااس کے ہاتھ میں سلاخ تھی جواس مسافرکے سرپردے ماری۔
انسان کی وحشت اوراپنے گھرمیں شیربننے والوں کی نفسیات بہت خوبصورتی سے پیش کی گئی ہے کہ جب حالات مخالف ہوں توبھیگی بلی بن جاؤ اورموافق حالات میں وہی ظلم تمہارے لیے روا ہے،جس کے خلاف تم آوازاٹھارہے تھے۔بھیشم ساہنی کاہرافسانہ انسان کے روزمرہ مسائل،پریشانیوں اوراس کی سوچ کواجاگرکرتاہے۔
”اوحرامزادے”بیرون ملک بسے ایشین شہریوں کے بارے میں ہے۔ایک ہندوستانی سیاح ایک ایسے دوردرازملک جہاں کوئی انڈین نہیں جاتا،وہاں ہیلن نامی خاتون اسے اپنے گھرچلنے کی دعوت یہ کہہ کردیتی ہے کہ اس کاشوہرلال بھی انڈین ہے اورتم سے مل کربہت خوش ہوگا ۔ لال ایک انجینئرہے جوطویل عرصے سے وہیں مقیم ہے۔جب اسے علم ہوتاہے کہ سیاح کاتعلق جالندھرسے ہے تواس کی خوشی دوبالاہوجاتی ہے۔استفسار پروہ اسے بتاتاہے کہ ایک باربیوی کولے کرجالندھرگیاتھا۔ماں باپ مرچکے تھے،بھائی کوجائیدادکے حصے کی فکرہوگئی۔لیکن اسے یہ سب بہت اچھالگا۔سڑک چلتے ہوئے کسی نے اسے ‘اوحرام زادے ‘ کہہ کرآوازدی۔جوپتہ چلااس کے بچپن کادوست تلک راج تھا ، وہ بولااوحرام زادے!باہرکیہ گیا،صاحب بن گیاتوں؟دونوں ایک دوسرے کوپہچان کرگالیاں دے رہے اورجپھیاں ڈال رہے تھے۔تلک راج نے اس کی رات گھرپردعوت کی۔اس کی بیوی بھی لال اورہیلن سے بہت پیارسے ملی،لیکن اس کی لال سے روایتی بے تکلفی ہیلن کو اچھی نہیں لگی اورلال نے دوبارہ ہندوستان نہ جانے کافیصلہ کرلیا۔رخصت کے وقت لال اسے ہوٹل تک چھوڑنے آیااس نے کہا۔”یہ مت سمجھناکہ مجھے کوئی شکایت ہے۔زندگی مجھ پربڑی مہربان رہی ہے۔مجھے کوئی شکایت نہیں ہے،اگرشکایت ہے تواپنے آپ سے۔۔پھر تھوڑی دیرخاموش رہنے کے بعدوہ ہنس کربولا،ہاں ایک بات کی چاہ دل میں ابھی تک مری نہیں ہے،اس بڑھاپے میں بھی نہیںمری ہے کہ سڑک پرچلتے ہوئے کبھی اچانک کہیں سے آوازآئے’اوحرام زادے!’ اورمیں لپک کراس آدمی کوسینے سے لگالوں۔”
ان آخری جملوں میں پوری کہانی کانچوڑبیان کیاگیاہے۔انسان اپنی اصل سے کتناہی دورچلاجائے،وہ اسے کبھی بھول نہیں سکتا۔اپنوں کی اپنائیت سے دی گالی بھی ہمیشہ دل میں جگمگاتی رہتی ہے۔اس پورے افسانے میں ان انسانی جذبات کوبھیشم ساہنی نے بہت خوبصورتی سے پیش کیاہے۔
فن اورفنکارکسی صلے کی خواہش کئے بغیرلوگوں کی ترجمانی میں اپنی زندگی گزاردیتاہے۔افسانے”جھومر” کاارجنداس بھی ایک ایساہی فنکار ہے۔جسے نوجوانی میں اسٹریٹ تھیٹرکاایک ڈرامہ پسندآیا۔ڈرامے کے بعدحسب ِ روایت فنکاروں نے چندہ جمع کیاتوایک عورت نے اپنا جھومراتارکرچندے میں دے دیا۔یہ ڈرامہ اورعورت کاجھومردیناارجنداس کوایسابھایاکہ اس نے پوری زندگی تھیٹرکی خدمت میں گزاردی ۔اس کی بیوی اسکول میں پڑھاکرگھرچلایا۔بڑی عمرمیں اسے اچانک رائیگانی کااحساس ہوتاہے۔اسے محسوس ہوتاہے کہ وہ زندگی بھراپنے بیوی بچوں کے لیے کچھ نہیں کرسکا،ایک ایسے ہی اسٹریٹ تھیٹر میں بیٹھاوہ سوچ رہاتھا کہ فن کی خدمت نے اسے کیادیاکہ اچانک دیکھتاہے کہ ایک خاتون نے اپناجھومراتارکرچندہ میں دے دیا۔وہ اس کی اپنی بیوی ہی ہوتی ہے،جس نے اپنااکلوتاجھومردیدیاتھا۔ہمارے گھر والے ہماری کتنی بڑی قوت ہوتے ہیں اوروہ ہرحال میں کس طرح ہمیں سپورٹ کرتے ہیں،اس کابیان دل میں اترجاتاہے۔
بھیشم ساہنی کے کرداربھی ہمارے اردگردہی گھومتے نظرآتے ہیں۔عام زندگی کے معمولی لوگ ان کی کہانیوں کے مرکزی کردارہیں۔ان معمولی کرداروں پرمبنی کہانیاںبڑی ہمیشہ دل میں رہنے والی ہیں۔”ساگ میٹ”کاملازم جگابھی ہمارادیکھابھالاہے،جس کی ایمانداری اورمحنت پرچند روپے دیناکافی سمجھے جاتے ہیں اوراس کی عزت سے کھیلنامعمول کی بات،چاہے وہ اسے جان ہی کیوں نہ دینی پڑے۔ماں باپ کے جھگڑے ختم کرنے میں بچے کیاکرداراداکرتے ہیںاس کی مثال”سائے” ہے۔ایک بااصول اورایماندارجج کوایمانداری کاصلہ کیاملتاہے۔”فیصلہ” پڑھ کرآنکھیں نم ہوجاتی ہیں۔
”امرتسرآگیاہے”میں شامل تئیس منتخب افسانے بھیشم ساہنی کے فن کوقارئین تک بہت عمدگی سے پہنچاتے ہیں۔”تمس ”اور”امرتسرآگیا ہے”پڑھ کرمصنف کے دیگرناولز اورکہانیاں پڑھنے کی طلب بھی ہوتی ہے۔انعام ندیم کاانتخاب بہت اچھاہے اورمجموعے میں شامل تمام افسانے ایک سے بڑھ کرایک ہیں۔ ”دوزخ نامہ” اور”امرتسرآگیاہے” کے بعدانعام ندیم کے مزید تراجم کے قارئین منتظررہیں گے۔