نوجوان شاعر،افسانہ نگار اورناول نگارعلی اکبرناطق اوکاڑہ کے قریبی گاؤں میں 1976ء میں پیداہوئے۔گورنمنٹ کالج اوکاڑہ سے ایف اے کیا۔کمزورمعاشی حالات کی وجہ سے نوجوانی کے پندرہ سال راج مستری کاپرمشقت کام کیااورشاعرمزدوراحسان دانش کی طرح ریت اورسیمنٹ میں کرنی چلاتے،گھروں کی دیواریں چڑھاتے اورچھت کے لینٹرڈالتے گزاردیے،لیکن اس پرمشقت دورمیں بھی تعلیم کی اہمیت سے غافل نہ رہے اوربی اے کے بعد ایم اے کی ڈگری بہاؤالدین ذکریایونیورسٹی ملتان سے حاصل کی۔مطالعے کاشوق بھی جاری رکھا۔غمِ روزگاراورذوق مطالعہ ایک ساتھ پروان چڑھتے رہے۔یہی غمِ روزگارعلی اکبرناطق کو1998ء میں سعودی عرب اورمشرقِ وسطیٰ لے گیا۔کچھ آسودگی حاصل کرنے کے بعد وطن واپس آئے تووسیع مطالعہ کے بعد شعروادب ان کی شخصیت کاحصہ بن چکے تھے۔علی اکبر ناطق کے اندرچھپے شاعروادیب کوسب سے پہلے مدیر”آج“ اجمل کمال نے دریافت کیا۔ان کاپہلاافسانہ”معمارکے ہاتھ“ اسی منفرد ادبی جریدے میں شائع ہوئیں۔جس کاادب میں کوئی خاص نوٹس نہیں لیاگیالیکن جب اسی افسانے کاانگریزی ترجمہ محمدحنیف نے امریکا کے ادبی جریدے گرانٹامیں چھپوایاتواردوکے ادبی حلقوں میں بھی اس کاذکرچھڑا۔ جس کے بعد علی اکبرناطق کے پانچ افسانے”آج“ میں اوردس منتخب نظمیں آصف فرخی کے جریدے ”دنیازاد“ میں شائع ہوئیں۔یوں علی اکبرناطق کی ادب میں پہچان بنی۔2010ء میں ان کی شاعری کاپہلامجموعہ ”بے یقین بستیوں میں“ شائع ہوا۔2012ء میں ان کے افسانوں کاپہلا مجموعہ ”قائم دین“ دنیامشہوراورمقبول پبلشرآکسفرڈیونیورسٹی پریس سے شائع ہوا۔اس مجموعے کوقارئین کی جانب سے بھرپورپذیرائی ملی اوراس کے متعدد ایڈیشنزشائع ہوئے،اوراسے یوبی ایل لٹریری ایوارڈ سے بھی نوازاگیا۔اگلے سال ”آج“ نے علی اکبرناطق کادوسرامجموعہ کلام”یاقوت کے ورق“ شائع کیا۔یہ شعری مجموعہ بھی یوبی ایل ایوارڈکی نامزدگی میں شامل کیاگیا۔ناطق کی تصانیف انگریزی میں بھی ترجمہ ہوئیں اورہندوستان کے بڑے پبلشر پینگوئن نے شائع کیں۔
دوشعری اورایک افسانوں کے مجموعے سے علی اکبرناطق نے ادب میں اپنی مستندپہچان بنالی۔لیکن ان کی اصل مقبولیت2015ء میں پہلے ناول”نولکھی کوٹھی“ سے ہوئی۔برصغیرپاک وہندکی تقسیم ہمارے ادیبوں کاہمیشہ پسندیدہ موضوع رہا ہے۔سعادت حسن منٹو،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدر،عبداللہ حسین سے لے کردورِجدیدکے مصنفین نے اس موضوع پربے شمارافسانے اورناول تخلیق کیے ہیں۔علی اکبر ناطق نے ”نولکھی کوٹھی“ بھی تقسیم کے موضوع پرلکھا ہے۔اسی ناول نے قارئین کی علی اکبر ناطق سے حقیقی پہچان کروائی ہے۔ان کی تحریر کی پختگی سے بڑے بڑے ناقد حیران رہ گئے۔دیہی زندگی کاایسا پراثراورعمدہ بیانیہ بہت کم دیکھنے میں آیاہے۔ اس نے مقبولیت کے نئے ریکارڈقائم کیے اوراس کے کئی ایڈیشنزشائع ہوئے۔اس دوران علی اکبرناطق کاافسانوں کاایک اورمجموعہ”شاہ محمدکاتانگہ“ اورمحمدحسین آزاد کے بار ے میں منفرد رپورتاژ”فقیربستی میں اکیلاہے“ شاعری کامجموعہ ”سبزبستیوں کے غزال“ اورمنقبتوں کامجموعہ”درِعدالت علی“ اور شاعری کی کلیات”ریشم بنناکھیل نہیں ہے“ بھی شائع ہوکرقبول عام حاصل کرچکے ہیں۔کہاجاتاہے کہ پہلاناول اکثرمصنف لکھ لیتے ہیں۔ لیکن مصنف کی صلاحیتوں کااصل علم اس کے دوسرے ناول سے ہوتاہے۔توعلی اکبرناطق کادوسراناول”کماری والا“ بھی گذشتہ سال شائع ہو گیا۔جسے ملک بہترین اشاعتی ادارے بک کارنرجہلم نے شائع کیاہے۔اسی ادارے نے ان کی دیگرتمام کتب اپنے روایتی حسن طباعت سے مرصع کرکے شائع کی ہیں۔بک کارنرکے حسن طباعت نے ان کتب کی حسن سیرت کودوبالاکردیا۔
حال ہی میں علی اکبرناطق کی ایک اورسوانحی نوعیت کی کتاب ”کچے گھروں کی کہانیاں“ شائع ہوئی ہے۔اس کتاب میں ناطق نے اپنے بچپن،لڑکپن اورنوجوانی کادلچسپ واقعات تحریر کیے ہیں۔یہ ایک انوکھی کتاب ہے،جونہ خاکے ہیں،نہ خودنوشت۔لیکن انتہائی دلچسپ اورقابل ِ مطالعہ کتاب ہے۔علی اکبرناطق نے بہت سادہ اسلوب اپنے بچپن اورلڑکپن کی یادوں کوقارئین کے سامنے پیش کیاہے۔یہ یادیں قاری کو بہت اپنی اپنی لگتی ہیں۔یہ سب کچھ ہم سے کے گردبکھراہواہے اورایسی بہت سے حادثات اورواقعات سب کے ساتھ پیش آئے ہیں۔یہی اپنانیت اورمصنف کی سچ بیانی قاری کی مکمل توجہ حاصل کرلیتی ہے اوروہ پوری کتاب پڑھنے پرمجبورہوجاتاہے۔یہ سچ مچ کچے گھروں عام لوگوں کی کہانیاں ہیں۔ذراپس ورق پرموجودتحریرملاحظہ کریں،کیایہ میری آپ کی کہانی نہیں ہے۔”اس وقت میری عمرپانچ چھ برس ہوگی۔ہمار ے گھرکے سامنے کچھی سڑک گزرتی تھی۔سڑک کے ساتھ پانی کانالہ چلتاتھااورکنارے پردونوں جانب ٹاہلیوں کے بلند پیڑ تھے۔ ساتھ ہی یونین کونسل کادفترتھا۔اس میں بھی بے شمارشیشم اورنیم کے درخت تھے۔سڑک پرپھیری لگانے والے اکثرآوازلگاتے ہوئے گزرتے تھے۔ کھوئے کی قلفی لے لو،گڑاوربرف کاٹھنڈاگولالے لو۔لالولال متیرہ لے لو،خاص کرجب قلفی اورگولے کی آوازآتی تومیرے کان کھڑ ے ہوجاتے،بھات کرسڑک پرآجاتا۔پیسے ان دنوں نہیں ہوتے تھے۔کبھی کبھی گندم یاآتاگولے والے کودے کربرف کا گولا بنوا لیتا اورسُڑکے لگالگاکرچوستا۔اورشیشم کے درختوں کی چھاؤں تلے اورپانی کے نالے میں پاؤں ڈال کربیٹھ جاتا۔جب گولاختم ہو جاتا تو گھرلوٹتا۔اگر یہ بھی نہ ہوتاتوقلفی یاگولے والے کودورجاتے ہوئے فقط دیکھتارہتا۔جب تک وہ آنکھوں سے اوجھل نہ ہوتاگھرمیں نہ گھستا تھا۔ یونین کونسل تب مصطفٰی زیدی نے بنوائی تھی اوراس میں ایک لائبریری بھی قائم کی تھی۔تب وہ ساہیوال کے ڈی سی ہوتے تھے۔اس لائبریری میں بچو ں اوربڑوں کے لیے بہت سی کتابیں تھیں۔اکثراوقات جب مجھے گولا نہ ملتاتوبجائے گھرمیں داخل ہونے کے یونین کونسل کی لائبریری میں گھس جاتا۔وہاں ابن صفی کی عمران سیریز،ٹارزن کی جنگلی مہمیں اورکمانڈوزکہانیاں مفت میں مل جاتی تھیں جنہیں پڑھ کرواپس کرناہوتا تھا۔میں وہ گھرلے آتااوراس کے عوض چوکیدارکودوپہرکے وقت گھرسے عمدہ دودھ پتی بنواکرلاپلاتا۔یہاں میں نے وہ ساراادب پڑھاجوبچوں کوپڑھناچاہیے۔اے کاش! آج کے بچے پیداہوتے ہی جوان نہ ہوتے اورنیٹ کے بجائے کم ازکم بیس سال کی عمرتک کتاب ہی سے واسطہ رکھتے تویقین مانیے وہ آہستہ آہستہ بڑے ہوتے اوریہ بہت فطری ہوتا۔کیونکہ جلدبڑاہونے والاجلدرسواہوتا ہے۔“
”کچے گھروں کی کہانیاں“ دوسوچالیس صفحات کی مختصرکتاب ہے۔جس میں پچاس کے قریب واقعات ہیں۔عمدہ سفیدکاغذ پربہترین طباعت سے آراستہ کتاب کی قیمت چھ سوروپے ہے۔کتاب کاسادہ اسلوب ہی اس کی سب سے بڑی خوبی ہے۔علی اکبرناطق نے اپنی کسی خامی،کمزوری یاغربت کااحوال بلاجھجھک اورشرمندگی بیان کیاہے۔جس نے اس کی دلچسپی میں اضافہ کیاہے۔یہ اندازِ بیان دیکھیں۔”ایک دن گہرے بادلوں میں بھینسوں کاچارہ کاٹنے تینوں بھائی کھیتوں کی جانب گئے۔اچانک تیزبارش کے ساتھ اولے برسناشروع ہوگئے۔ اولے ہماری پشتوں پرگولوں کی طرح لگتے تھے دردسے ہماری چیخیں آسمانوں کوبلندہوتی تھیں۔ہمیں تب توہوش نہیں تھاکہ کیاہورہاہے مگر اس وقت جوواحدپکارکسی کوکی جاسکتی تھی وہ اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ہماری گدھی کوسمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس پرپتھروں کی بارش کون کررہاہے۔اس بچاری کوخبرہی نہیں تھی یہ آج کیاہورہاہے۔بھئی کچھ نہ پوچھو،ان دنوں جنرل ضیاکے مجرموں کوبھی کوڑے لگتے تھے مگران کی حیثیت ان اولو ں کے سامنے خان نہیں تھی۔ایک سے بڑھ کرایک ضرب کولہوں پرلگتی تھی اورہم چیختے تھے۔سردی ایسی تھی کہ اللہ بچائے،مجھے سب سے زیادہ فکرچھوٹے کی تھی۔اس کی توآخرمیں چیخیں بھی نکلنابندہوگئی تھیں اورمیں ایک توخود روتاتھادوسرا اس کے لیے روتاتھا۔ہمارے جسم نیلے پڑے جاتے تھے اورزبانیں بند ہوئی جاتی تھیں۔میں سب سے پہلے اٹھاپھراپنے دونوں بھائیوں کواٹھایا۔چھوٹے بھائی کے ہاتھ پاؤں کی مالش شروع کردی۔اتنے میں دورسے کیادیکھتے ہیں کہ ہماری ماں دوڑی چلی آتی ہے۔ہمیں اس کودیکھ کرکچھ حوصلہ ہوا۔سڑک کچی تھی،کیچڑ اوربرف کے سبب اس کے پاؤں ٹھیک طرح نہیں پڑرہے تھے۔مگروہ ایسے دوڑتی آتی تھی جیسے اونٹنی اپنے بچوں کے لیے بے چین ہوکربھا گتی ہے۔قریب آکراس نے ہم تینوں کوایک دم اپنے سینے سے لگالیا۔اس کی آنکھوں سے آنسوبے اختیاربہہ رہے تھے۔اس کی آوازنہیں نکل رہی تھی مگریوں لگاجیسے کہہ رہی ہو،ماں صدقے جائے،ماں مرجائے،میرے بیٹوں کے سرپراولے برسے ہیں۔“اس اقتباس میں کیانہیں ہے۔گاؤں کی زندگی اوراس کی مشکلات،ضیادورکاجبر،سخت سردموسم اورژالہ باری میں بھائیوں کاپیار اورماں کی لازوال محبت۔ اسی کتاب میں علی اکبرناطق نے خودنوشت لکھنے کاعندیہ بھی دیاہے۔تاہم ”کچے گھروں کی کہانیاں“ بھی خودنوشت سے کم نہیں ہے۔جس میں ایک سے بڑھ کرایک دلچسپ قصہ موجود ہے۔چاہے وہ ایک سوپچیس سالہ بابامہندہ کی کہانی ہو جوسانپوں اوران کے زہرکاتوڑ کرنے کاماہرتھا۔بابامہندے کی دلچسپ کہانیاں ناطق نے اپنی خودنوشت میں لکھنے کاوعدہ کیاہے۔جس کاقارئین کوانتظاررہے گا۔ کتاب میں درج کہانی بھی کم دلچسپ نہیں ہے۔ملک شرافت خان پالتوبھیڑیوں جنہوں نے اماں صالحہ کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔وہیں باباجی کے بھوت کی کہانی بھی دلچسپ ہے جنہوں نے علی اکبرناطق سے اپنامزارزندگی ہی میں بنوایاتھا۔یہ باباجی بھوت قراردیکر لوگوں کے بکرے ہڑپ کرلیتے تھے۔ایک اوردلچسپ کہانی ناطق صاحب کی دوستوں کے ساتھ طوائفوں کے محلے میں گھیرے جانے کی ہے۔وہ سائیکل پردانستہ اس محلے سے گزرتے اورکچھ شرارت بھی کرتے۔ ایک بارایک بھاری بھرکم دلال نے انہیں پکڑلیا۔نظام الدین اولیاؒ کے مزارپرگدی نشینوں کے ہرشخص سے جبراً عطیات لینا بھی دلچسپ ہے،مصنف کوغالب کی قبراپنی اپنی لگی۔نہ وہاں پیسوں کاغلہ تھا،نہ کوئی گھورنے اورڈانٹنے والاتھا۔نہ جیب سے پیسے نکالنے کے لیے بے چین تھا۔ عجب آزادمرد تھا،سب سے آزادپڑاتھا۔
ایک مراثی کامرغاصبح سویرے بانگیں دے کرلوگوں کی نیندیں حرام کرتاتھا،پھرمولوی صاحب نے جمعہ کاپوراخطبہ مرغے کی نجاست پردیتے ہوئے فتویٰ دیایہ مرغااسلام دشمن ہے۔مرغے کے مالک کے سواکوئی دوسراشخص ایسامرغاذبح کرکے کھائے تواسے حج کاثواب ملے گا۔علی اکبرناطق روزگارکے لیے سعودی عرب گئے توپیسے ان کے پاس تھے نہیں۔بھوک نے ستایاتوایک ہوٹل میں کھاناکھایااورباقی کھاناپیک کرا کے میزپررکھااورباتھ روم کاکہہ کررفوچکرہوگئے۔پیدل چلتے ہوئے ایک جگہ ویران علاقے میں پھنس گئے جہاں ایرانی کوسٹرنے لفٹ دی اور بتایاکہ یہ خطرناک علاقہ ہے،یہاں بھیڑیے ہیں جوتنہاآدمی کاتیاپانچاکردیتے ہیں۔
ہمارے اکثردوست احباب لمبی لمبی چھوڑنے کے ماہرہوتے ہیں،ایساہی ایک کردارناطق صاحب کااچھوتھا۔علی اکبراوران کے چھوٹے بھائی علی اصغرکواپنی چاربھینسوں کاچارا پوراکرنا ہوتاتھا۔گھرکے پاس ہی چراغ دین کاگھرتھا،جس کے سات بیٹے تھے۔اچھوان میں نہایت جی داراورفٹبال کابہترین کھلاڑی تھا۔اسے گالیاں دینے اورکہانیاں گھڑنے میں بھی ملکہ حاصل تھا۔علی اکبراورعلی اصغرچارہ لینے جاتے تو اچھوکوضرور ساتھ لے جاتے کہ وہ راستے میں کبھی پنجابی فلم کی اسٹوری سناتاکبھی اپنی بہادری کاقصہ۔”اس کے قصے اتنے دلچسپ ہوتے کے دوزخ جیسی گرمی میں راستہ باآسانی کٹ جاتا۔اچھوکبھی جنگل میں اپنے ساتھ شیرکے مقابلے کاقصہ سناتا،کبھی کسی ڈاکوکاافسانہ سناتااور کبھی اژدھے کے ساتھ ہونے والے معرکے کی داستان بیان کرتا۔نقشہ ایساکھینچتاکہ ہم وہ تمام معرکہ گویااپنی آنکھوں سے دیکھ لیتے۔ایک دن اس نے پدم ناگ کی کہانی شروع کی،جس میں ایک صحرامیں اچھوکالگاتارتین دن ناگ سے مقابلہ چلاتھا۔ناگ دس گزلمباتھا اور چھجلی اس کی ایک پنکھے کے برابرتھی۔اس لڑائی میں ایسی ریت اورگرداڑرہی تھی کہ صحرامیں کچھ نظرنہ آتاتھا۔سانپ کومارتومیں پہلے دن ہی دیتامگرمیں نے اسے زندہ پکڑنے کی ضدباندھ لی تھی۔خداکاکرناایساہواکہ اسی لمحے ایک ڈیڑھ فٹ کاکالاسیاہ سانپ گنے کی فصل سے نکلا اور ہمارے سامنے سڑک پرآگیا،عین اچھوکے قریب۔اب کیاہواکہ سانب کودیکھتے ہی اچھوکے ہاتھ پاؤں پھول گئے،کہانی بھول گئی اور لب خشک ہوگئے۔نہ آگے چلاجاتاہے،نہ پیچھے ہٹاجاتاہے،بولتی بند ہوگئی۔ہم دونوں بھائی حیران کہ اچھواس رسی جیسے سانپ کومارنے کے بجائے ساکت کیوں ہوگیاجب محسوس ہواکہ اچھوکی روح تویہیں کھڑے کھڑے خشک ہوجائے گی تومیں نے اورمیرے بھائی نے جلدی سے کھیت سے روڑے اٹھائے اورسانپ کی طرف پھینکے،سانپ ڈرکربھاگا،اچھوکے پاؤں کے بیچ سے نکل گیا۔اس پراس نے ایسی چیخیں ماریں کہ پہلے ہمارے فرشتوں نے بھی نہیں سنی تھیں۔ہم نے سانپ کوماردیا۔تب اس کی جان میں جان آئی۔ہم دوبارہ اپنے سفرپرروانہ ہو گئے اوراچھونے وہیں سے اپنی داستان شروع کردی جہاں سے چھوڑی تھی۔ہم نے اس سے نہیں پوچھاکہ جناب آپ توپدم ناگ کامقا بلہ کرچکے ہیں،اس ڈیڑھ فٹے سانپ سے کیوں ڈرگئے؟۔“”کچے گھروں کی کہانیاں“ علی اکبرناطق کے بچپن،لڑکپن اورنوجوانی کی یادوں پرمبنی کتاب ہے۔جس میں انہوں نے اپنے کمزورمعاشی حالا ت،گاؤں کے گھرمیں بھینسوں کوچارہ مہیاکرنے،جوانی میں راج مستری کاکام کرنے اوررزق کی تلاش میں سعودی عرب اورمشرقِ وسطیٰ جانے تجربات بلاکم وکاست بیان کیے ہیں۔مستقبل میں صف ِ اول کے شاعر،افسانہ وناول نگارکی تشکیل نظرآتی ہے۔شاعرِمزدوراحسان دانش کی مانندان تجربات نے علی اکبرناطق اورمستندشاعراورناول نگاربنانے میں اہم کرداراداکیا۔پھریہ چھوٹے چھوٹے واقعات دلچسپ ہی نہیں ہرشخص کواپنے اردگردہوتے نظرآتے ہیں،جس سے ہرواقعہ پڑھنے کے بعداگلے کی جستجوکتاب ختم ہونے تک نہیں رکتی۔یہ ریڈیبلٹی ہی ”کچے گھروں کی کہانیاں“کی سب سے بڑی خوبی ہے۔
ایک دلچسپ واقعہ”جب ہم نے ننگ دھڑنگ بارات نکالی“ ہے۔ شہری زندگی میں ایسے واقعات کاتصورنہیں کیاجاسکتا،لیکن دیہی زندگی کے معمولات میں شامل ہیں۔ناطق صاحب ان دنوں دس بارہ سال کے تھے۔گاؤں کے پاس سے دریائے بیاس گزرتاتھا۔جس میں خود اور اپنی بھینسوں کونہلاناروزمرہ کی مصروفیات میں شامل تھا۔سات آٹھ چچازاداورکچھ ہم عمروں کے ساتھ بھینسیں لے کردریاپرپہنچ جاتے۔ قمیضیں گھرچھوڑجاتے اورشلواریں دریاکنارے اتارپھینکتے۔لڑکے بالے پورے دریا میں ننگ دھڑنگ غوطہ زنیاں کرتے۔تب ننگے پن کا احساس تھانہ شعورِگناہ وثواب۔اب آگے کاقصہ مصنف کی زبانی سنیے۔”ایک دن ہم دس بارہ لونڈے حسبِ معمول شلواریں پانی سے دور پھینک کردریامیں داخل ہوئے اورنہاتے رہے۔کافی دیربعدنکلنے کاسوچامگرہوایہ کہ ہمارے گاؤں کے دوشیطان لڑکے ہم سب کی شلواریں
لے بھاگے۔ہم آوازیں لگاتے اورمنتیں کرتے ہی رہ گئے مگرانہوں نے ایک نہ سنی۔پانی میں دوتین گھنٹے ہوگئے۔آخرپانی میں بیٹھے بیٹھے ہمتیں جواب دے گئیں توسب ننگوں نے سرجوڑے،دریابیچ پارلیمنٹ اورسینیٹ کااجلاس ہوا۔ارکانِ برہنہ نے قراردادیں پیش کیں، سوچ بچارکے بعدایک قانون پاس ہوا،جس پرفوری عمل کافیصلہ ہواکہ اسی طرح ننگی پلٹن باہرنکلے اورپریڈ کرتی ہوئی کپڑے اٹھانے والوں کے گھرتک مارچ کرے۔گھرمیں داخل ہوکرزنجیرِعدل ہلائے اوردادِ عدل کے ساتھ شلواریں پائے۔لیجئے جناب! دس بارہ ننگے لونڈوں کا جلوس ہرطرح کی خارجی آلودگی اورپردے سے مبرا،الف ہوکرپانی سے نکلااورقطاراندرقطارچلاگاؤں کی طرف۔بزرگ باریش توبہ توبہ کر تے،کوئی ناری آنکھوں کوڈھانک رہی تھی توکوئی دیدہء عبرت سے تاک رہی تھی۔ہمارا بازی گردوست اچھودوڑ کراپنے گھرسے ڈھول لے آیا۔لیجئے! اب توننگوں کی بارات بن گئی۔ڈھول بجتاجاتااورہم چلتے جاتے۔آخران کے گھرکے سامنے پہنچ گئے اوردروازے پردستک دی۔شورشراباسن کرگھروالوں نے دروازہ کھول دیا اورہم اندرگھس گئے۔عجب تماشاہوگیا،بچاری عورتیں گالیاں دیتی ہوئی شرم کے مارے کمرو ں میں داخل ہوکرکنڈی لگالی۔لوگوں نے ہمیں پکڑااورزبردستی ہماری شلواریں چڑھاکرباہرنکالا۔“
ذراسلوبِ بیان ملاحظہ کریں۔دریامیں ننگوں کی پارلیمنٹ کااجلاس،ارکانِ برہنہ کی قرارداد کی منظوری،ننگوں کی پریڈاورزنجیرِ عدل ہلاکردادِ عدل پانے کی امید۔مزاح اورلطافت کے ساتھ بھی بیان کی خوبی کااعتراف کرنا ہی ہوگا۔
”میراکورٹ مارشل ہوتے ہوتے بچا“،”ہم پھنسے گلیڈی ایٹروں کے چنگل میں“۔”جب میاں صاحب نے گورکن پرسانپ سے حملہ کیا“،”جاٹوں کامفت گراوردلِ بے رحم“،”جب لوگ ہماری لاش ڈھونڈنے نکلے“،”بینڈ پروفیسراورباراتی گدھا“،”عربی گدھے،کھجوریں اورمیں“ اور”اگرہم پکڑے جاتے توشاعرکے بجائے چورہوتے“ چند دلچسپ واقعات کے عنوانات ہیں۔جن کے عنوان ہی سے ان کی دلچسپی عیاں ہے۔
”جن لڑکا“ میں دوست نمادشمن سے دور رہنے کی نصیحت کس انداز سے کی گئی ہے،دیکھیے۔”آٹھ نوسال کی عمرتھی ان وقتوں میں غریب لوگ چولہاجلانے کے لیے لکڑیاں استعمال کرتے تھے۔لکڑیاں مول لینے کی طاقت عام گھرمیں نہیں ہوتی تھی اس لیے لڑکوں کے ذمہ یہ کام ہوتا کہ لکڑیاں چن کرلاؤورنہ شام کوروٹی نہ ملے گی۔ایک دن میں اورہمسایوں کالڑکالکڑیاں چننے کھیتوں میں گئے۔کچھ دیگرمیں کافی لکڑیاں جمع ہوگئیں۔مجھے پیاس لگی میں نالے پرپانی پینے چلاگیا۔واپس آیاتومیری اوراس لڑکے کی لکڑیوں کے ڈھیرغائب تھے اوروہ وہاں بیٹھارورہا تھا۔میں نے پوچھالکڑیاں کہاں ہیں؟ توبولاایک جِن آیاتھالے گیا۔ہم دونوں روتے ہوئے واپس گھرآگئے۔ماں نے پوچھالکڑیاں کہاں ہیں؟ تواسے جِن والاقصہ سنادیا۔میری امی نے کہاچل میرے ساتھ اورمجھے اس لڑکے کے گھرلے گئی۔دیکھاتوان کے چولہے کے پاس تمام لکڑیاں پڑی ہوئی تھیں۔میں حیران ہواکہ یہ لکڑیاں جِن یہاں کیسے پھینک گیا۔میری والدہ نے کہاان میں سے اپنی لکڑیاں اٹھا۔میری امی نے بتایا،وہ جِن تیرایہی دوست ہے اورآئندہ تونے اس سے کوئی واسطہ نہیں رکھنا۔میں نے آج تک اس جِن سے سلام دعانہیں رکھی۔بلکہ اصول بنالیاکہ ہراس جِن سے دوررہوں گااوراسے اپنادوست نہیں بناؤں گا جس کے بارے میں ذرابھی شبہ ہواکہ یہ دراصل جِن
ہے۔“
علی اکبرناطق کے گریجویٹ ہونے کاقصہ بھی دلچسپ ہے۔”یہ 1998ء کی بات ہے تب میں گاؤں کے نزدیک قصبے مومن والامیں مسجدبنارہاتھا۔ان دنوں گرمی بہت تھی۔میرے کپڑے پھٹے پرانے اورسیمنٹ اورگارے سے بھرے ہوئے تھے۔پاؤں میں نائلن کے ٹوٹے ہوئے سلیپرتھے۔ایک بجے مجھے خبرہوئی کہ بی اے کانتیجہ آگیا۔تب بی اے میں لڑکے بہت فیل ہوتے تھے۔انگلش ہرایک کولے ڈوبتی تھی۔خاص کرگاؤں والوں کوتوانگلش آتی ہی نہیں تھی۔ان دنوں نیٹ وغیرہ نہیں ہوتے تھے۔مختلف بک سیلرزیونیورسٹیوں اوربورڈز سے گزٹ خریدلاتے تھے،دس پانچ روپے لے کررزلٹ بتاتھے۔مومن والاسے اوکاڑاشہردس کلومیٹرتھا۔میں نے اسی حال میں سائیکل پکڑی اورشہرکی طرف چل نکلا۔گرمی کے دن تھے،جسم تمام ریت مٹی میں لتھڑاہواتھا،جب سائیکل پرگزٹ والے کے پاس پہنچاتوحالت پیسنے کے سبب مزیدقابل ِ رحم ہوچکی تھی۔میں نے گزٹ والے سے کہامیاں ہمارابی اے کارزلٹ آیاہے،ذراگزٹ دیکھ کربتادیجئے۔اس نے غورسے میر ی طرف دیکھاجیسے یقین نہ آرہاہوکہ یہ لڑکاپڑھتابھی ہے؟ بولالائیے بیس روپے،پھرچیک کرتاہوں۔میں نے کہاچیک تو کرو،کوئی بے اعتباری ہے،بولانہیں پہلے پیسے دیجئے۔میں نے بیس روپے دیے۔اس نے میرارول نمبرپوچھ کرگزٹ دیکھناشروع کیاپھر ایک دم بولابھائی! ذرا اندرآجائیے۔یہاں پنکھے کی ہوامیں بیٹھیے بنچ پر۔ہم نے کہابھائی رزلٹ توبتاؤ،کہنے لگابتاتاہوں،آپ اندرتوآئیں۔میں اندرچھوٹی سی بنچ پربیٹھ گیا۔اس نے اپنے ملاز سے کوک منگوائی۔جوجھٹ بوتل پکڑ لایا۔اس نے بوتل میرے سامنے رکھی اورکہاپیو اور بیس روپے بھی واپس کردیے۔میری بے چینی بڑھ گئی۔وہ کہنے لگامیاں تم پاس ہواورصبح سے جتنے لڑکے رزلٹ پوچھنے آئے ہیں ان میں تم تیسرے لڑکے ہوجوپاس ہواہے۔تمہاری حالت دیکھ کرمجھے لگاکہ یقینا فیل ہوجاؤگے۔فیل ہونے والے بچے سے پیسے وصول کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے اسی لیے آپ سے پہلے لیے تھے۔لیکن اب یہ بوتل اوربیس روپے میری طرف سے آپ کوانعام ہے۔واپس آکرابا کو بتایاتووہ بھی جھوم ہی توگئے کہ ان کاغریب بیٹاگریجوایٹ ہوگیاہے۔“
کیایہ ہماری آپ کی کہانی نہیں ہے۔ایسی ہی دلچسپ اورسبق آموزکہانیاں کتاب میں شامل ہیں جنہیں پڑھ کرقاری کوایک ادیب کی گروئنگ علم ہوتاہے اوریہ بھی علم ہوتاہے کہ افسانوی مجموعوں ”قائم دین“،”شاہ محمدکاٹانگہ“ اورناولز”نولکھی کوٹھی“ اور”کماری والا“ کا مصنف اس عمدگی،جزئیات نگاری اورباریک بینی سے دیہی زندگی اور اس سے وابستہ کرداروں کابیان کس طرح کرتاہے کہ اس کی جم پل ہی گاؤں کی ہے۔اس سوانحی کتاب کے بعدعلی اکبرناطق کی خودنوشت کابھی انتظاررہے گا۔جس میں بابامہندہ جیسے بے شمارکردارموجود ہوں گے۔جیساکہ انہوں نے ”کچے گھروں کی کہانیاں“ میں ذکرکیاہے۔