عرفان شہودکے ایک منفردقلم کارہیں۔جن کے پیرمیں چکرہے۔انہیں جب موقع ملتاہے،وہ پاکستان کے مختلف علاقوں کی سیرکونکل جاتے ہیں اوردلچسپ امریہ ہے کہ وہ اپنے ان سفری تجربات میں قارئین کوبھی شامل کرلیتے ہیں۔اس مقصد کے لیے عرفان شہودنے سفرناموں کی ٹی ٹوئنٹی کی اختراع کرکے اسے سفرانچے کانام دیاہے۔ان کے یہ سفرانچے ممتازشیخ کے ”لوح“ جیسے مستند ادبی جریدے میں شائع ہوکر قارئین سے شرف قبولیت حاصل کرچکے ہیں۔عرفان شہودنے اپنے باون سفرانچوں پرمبنی پہلی کتاب کو”باونی“ کانام دیاہے۔جس کی مقبولیت کاثبوت یہ ہے کہ ”باونی“ کا دوسراایڈیشن صرف تین ماہ میں شائع کرنا پڑا،جبکہ کتاب اب بھی بازارمیں دستیاب نہیں ہے۔عرفان شہود کابے پناہ مشاہدہ جب پراثر اوردلکش نثرمیں ڈھلتاہے،توعمدہ اسلوب دل میں اترجاتاہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ وہ ایک بہت اچھے شاعر بھی ہیں۔شاعری میں انہوں نے غزل کی مقبول صنف کے بجائے نظم کاانتخاب کیاہے۔ان کی نظموں کامجموعہ”بے سمتی کے دن“ بھی شائع ہوکرناقدین اورقارئین کی داد سمیٹ چکی ہے۔شاعری اظہارکے لیے بہت بھرپورصنف ہے اورعرفان شہودکوجزئیات بیان کرنے کاملکہ حاصل ہے۔ان کااپنی ثقافت اورتہذیب سے گہرارشتہ ہے اوران کی لفظیات دامن دل کوکھینچتی ہیں۔یہی وجہ سے ”باونی“ میں ان کی نثرپربھی شاعری کاگمان ہوتاہے۔
”زمین کھینچتی ہے“کے عنوان سے عرفان شہودنے مختصرپیش لفظ میں لکھاہے۔”لکیروں والے خربوزوں کے شہرعارف والاکی گلیوں سے گزر تے ہوئے ہمیشہ اڑان بھرتے پرندوں کودیکھتاتھا اوران جیسی پروازکاخواہش مندتھا۔پھرایک دن خود کوہی دریافت کیااورتساہل کی زنجیریں توڑکرپروازشروع کردی۔اس ملک کے طول وعرض پرپھیلے رعنائی کے منظرنامے نے مسرورکیا۔یہ ملک ہرطرح کے لینڈ اسکیپ سے بھرا ہوا ہے۔جس کے کچھ عکس اس کتاب میں بھی ملیں گے۔یہ کوئی تاریخ کی کتاب نہیں ہے۔بلکہ جذبات کی راہداریوں سے نکلا ہواایک راستہ ہے۔اوران داستانوں کامجموعہ ہے جوفطرت اپنے من پسندافرادکوسناتی ہے۔اس کتاب میں میری قلبی وارداتیں ہیں۔یہ کروٹیں ایسے انسا ن کی ہیں جوشب بھرنیندنہ آنے کی اذیت میں مبتلارہتاہے۔میرے لیے ٹھہرجاناایک اذیت ہے اوراسی سفرمیں آپ دوستوں کوبھی شامل کر نامیری آرزوتھی۔اب آپ لوگ کتنی دیرتک میرے ہم سفررہتے ہیں۔یہ توکتاب پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔اس کتاب کوسفرانچوں کی کتاب اس لیے کہاگیاہے کہ یہ سفرنامے کی مختصرترین شاخ ہیں۔آپ ان سفرانچوں سے حظ اٹھایے تب تک میں اپناسفرجاری رکھتاہوں کیوں کہ مجھے زمین کھینچتی ہے۔“
مصنف کااندازبیان دیکھئے محض خربوزوں کاشہرنہیں لکھابلکہ لکیروں والے خربوزوں کاشہرعارف والا لکھ کرقاری کی معلومات میں اضافہ کیا کہ ایسے خربوزے کہاں پیداہوتے ہیں۔سفرنامے کی مختصرترین شاخ کوعرفان شہودنے سفرانچے کانام دیاہے تومیں نے اسے سفرنامے کاٹی ٹوئنٹی قراردیاہے۔ان سفرناموں میں پاکستان کے مختلف گوشے،وہاں کی ثقافت،تہذیب،رہن سہن،بولی ٹھولی کواس خوبی سے بیان کیا ہے کہ قاری گھربیٹھے ملک کے گوشے گوشے سے آشناہوجاتاہے۔
قاضی ظفراقبال ”باونی“ کے بارے میں لکھتے ہیں۔”خالق کائنات نے اپنی مخلوق کو’سیروفی الارض‘ کی نصیحت کی ہے۔یعنی اللہ کی زمین کو چل پھرکردیکھو۔یہ مشاہدہ عینی بصری بھی ہوسکتاہے اورعقلی وفکری بھی۔گویااس زمین پرجہاں بصری حسن موجودہے وہاں اس میں بے شمار اسراربھی غبارِوقت کی دبیزتہوں میں اٹے پڑے ہیں۔جس طرح ماہرآثارقدیمہ گردوغبارہٹاکراس میں سے آثاروشواہد کے خزانے دریافت کرتاہے بالکل ایسے ہی عرفان شہود نے اپنے سفرانچوں میں زمین پرپھیلی بے صورتی ہٹاکراس کی بے پناہ خوبصورتی اور بے انتہا حسن کواپنے گہرے مشاہدے سے صفحہ قرطاس پراجاگرکیاہے۔کسی مجسمہ سازکاقول اپنے اندربڑی حکمت رکھتاہے کہ نقش ونگار اور خدوخال تو پتھرکے اندرہی ہوتے ہیں میں توبس فالتوپتھرہٹادیتاہوں۔عرفان شہودنے بھی یہی کیاہے۔اس نے زمین پرپھیلی بہت سی بے صورتی کو ہٹا کراپنی کہانیوں کوصورت پذیری عطاکی ہے۔اردوسفرناموں کی تاریخ ڈیڑھ پونے دوصدیوں پرمحیط ہے۔لکھنؤ کے محمدیوسف خان کمبل پوش کاپہلاسفرنامہ اٹھارہ سوسینتالیس میں عجائبات فرنگ کے نام سے شائع ہوا،اورسفرناموں کایہ سلسلہ بہت سے کروٹیں لیتاہوا ہنوزجاری وساری ہے۔عرفان شہودکے سفرانچوں میں گرم مصالحہ توشایدنہیں ملے گا۔لیکن دھرتی کی بہت ساری خوبصورتی اوربے انت سندرتاآپ کی آنکھ کے عدسے سے آپ کے اندرکوسفرکرتی ہوئی آپ کے دل میں ترازوہوجائے گی۔مصنف کادلکش اندازِ تحریرالگ سے ادبی شان رکھتاہے۔ان سفرانچوں کاتاریخی اوراساطیری پس منظربھی بہ نظرغائردیکھنے کامتقاضی ہے۔عرفان شہودنے قرطاس وقلم کے سہارے بساطِ فکروخیال سجادی ہے۔باونی کے باون سفرانچے تاش کے باون پتوں کی طرح آپ کے سامنے بکھرے پڑے ہیں۔جن میں تنوع ہی تنوع،اسرارہی اسرار اوررنگ ہی رنگ پھیلے ہوئے ہیں۔“
ناول نگارمرزااطہربیگ لکھتے ہیں۔”آپ کسی بھی مقصدکے لیے سفرکرتے ہیں یانہیں کرتے،یہ آپ کاذاتی معاملہ ہے لیکن اگرآپ اپنے سفری تجربے کوبنیادبناکرایک تحریری متن تخلیق کرتے ہیں تویہ دوسروں کابھی معاملہ بن جاتاہے۔سفر،مسافر اورمنزل کی مظہریاتی تکون میں آپ اپنے لسانی ہم سفرقاری کے ساتھ کیاسلوک روارکھتے ہیں یہ ایک انتہائی دلچسپ موضوع ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کامالک مسافرگوالمنڈی سے گجوماتاتک کے بظاہرادنیٰ سے سفرکوبھی ایک اعلیٰ پائے کی تخلیقی دستاویزبناسکتاہے۔مجھے یقین ہے کہ باونی کامصنف عرفان شہودسفر اور لفظ کی اس پرخطرجدلیات کی تمام جزئیات سے بخوبی آگاہ ہے اوراسی لیے اس کاقاری نہ صرف مذکورہ گھمیٹیاں کھانے سے محفوظ رہتاہے بلکہ ذات اورفاصلے کے انتہائی متنوع اورکثیرالجہتی عرفان میں سرشارہوکرمصنف کے ہمراہ لمحہ بہ لمحہ تحیرکی نِت نئی منزلیں طے کرتاہے۔یہ ایک جادوئی کیفیت ہے۔جوشایداب صرف سفرانچوں میں ہی ممکن ہوگی۔کسی بھی عظیم فن پار ے کے بارے میں کہاجاتاہے کہ وہ نہ صرف اپنابلکہ اپنی صنف کاجوازفراہم کرتاہے۔عرفان شہود نے باونی لکھ کرثابت کردکھایاہے کہ اب جب کہ ابن بطوطہ اورمارکوپولوکے زمانے نہیں رہے سفرپھربھی کسی بڑی تحریری تخلیق کے لیے طاقتورجوازبن سکتاہے۔ہاں سفرنامے کوسفرانچہ بنانے کی جرأت رندانہ ضروردرکارہوگی۔“
معروف شاعر اورکالم نگارسعودعثمانی جو”مسافر“ تحریرکرکے سفرنامہ نگاربھی بن گئے ہیں۔لیکن ان کاسفرنامہ کراچی میں بھی دستیاب نہیں ہے۔انہوں نے ”گلے سے آگے چلتاگڈریا“کے عنوان سے لکھاہے۔”کبھی کبھی عرفان شہودکے جسم میں اپنادل دھڑکتامحسوس ہونے لگتاہے۔میں بوکھلاکراپناآپ دیکھتاہوں اورپھراس شخص کو بارِ دگردیکھتاہوں یہ کیسے ہواکہ جواضطراب میرے سینے میں موج کرتاہے وہی اس کے سینے میں لہریں مارتاہے،وہی لفظ جومجھے تسخیر کرتے ہیں وہی اس کی فصیل پربھی اپناجھنڈالہرارہے ہیں،وہی اجڑی بستیاں متروک حویلیاں اورسنسان گلیاں جومجھے بلاتی ہیں وہی اسے بھی صدا ئیں دیتی ہیں۔وہی مٹی کی مٹتی تہذیب قدیم آثاراوربھولی بسری تاریخ جومجھ میں پڑاؤ ڈالے بیٹھی ہے وہی اس میں بھی بسیراکرتی ہے۔ وہی شاعری جوناگن کی طرح مجھے ڈستی رہتی ہے اس کارقص کرتانشہ اس کے بھی سرچڑھ کربولتاہے۔اورسچ یہ ہے کہ تنہاسفرکالطف اورہے،ایک ہم ذوق ہم کلام مسافرکی رفاقت کامزااورہے۔ عرفان شہود کی نثرپڑھوں تواس اپنے تحیرزادگلی کوچے ہیں۔نظم پڑھوں تواس کی وہ فضا ڈھانپ لیتی ہے جوخوف ہیبت تجسس کشش اورقدیم اسرارسے بنی ہے۔کہاں سے آیااس میں سیاحت اوربادیہ پیمائی کایہ شوق جو صرف میری ملکیت تھا۔یہ موضوعات یہ لفظیات یہ بنت توموہنجوڈارو،تخت بائی،پومپیائی اوراجنتاایلوراکے باسیوں کی زبانیں بولتے ہیں۔ یہ اظہار توبھیل،گونڈاوردوسرے دراوڑی قبائل کااظہارہے۔ساندل بارکے میدانوں خیبرکے کہساروں اورچولستان کے صحراؤں کی بولیا ں وہ کیسے جانتاہے۔ یہ ہنگول کے سرخ پتھروں کنڈملیرکی نیلی لہروں اورکوہ باطل کی خاکستری چٹانوں سے وہ مکالمہ کس طرح کرتاہے۔یہ سمیری گڈریوں اورہیروغلیفی لکھاریوں کامشاہدہ اس میں کیسے سانس لیتاہے۔اس کی جہاں نوردی مجھ سے کہتی ہے کہ عرفان شہودایک ایسا چرواہاہے جوگلے کے پیچھے نہیں چلتاگلہ ا س کے پیچھے چلتاہے۔“
تین سوسے زائدصفحات کی ”باونی“عمدہ سفیدکاغذپربہت خوبصورت پرنٹنگ میں شائع کی گئی ہے۔جس میں رائے بلارخان بھٹی کی آخری آرام گاہ،ہندیرے،قلعہ اسکندرہ،اچ شریف،رام چوترامیں رام مندر،دریائے سوات،چوکنڈی قبرستان،سکندریونانی کی یادگار،جسٹر ریلو ے اسٹیشن اوردیگرکی رنگین تصاویرپرمبنی سولہ آرٹ پیپرصفحات کے ساتھ پانچ سوروپے قیمت انتہائی مناسب ہے۔باون سفرانچوں کوسات ابواب میں موضوعات کے اعتبارسے تقسیم کیاگیاہے۔ساتواں اورآخری باب منظوم سفرانچوں پرمبنی ہے۔
عرفان شہوداپنے سادہ اوردلنشین اسلوب میں قاری کواپنے ساتھ لے کرچلتے ہیں۔پہلا باب ہے”بحیرہ عرب کے ساحلوں پر“جس کا پہلا سفرانچہ”کوسٹل ہائی وے کاسیاح“ ہے۔اندازِبیان ملاحظہ کیجئے۔”پابلونرودااگراس سیارے میں کوئی تبدیلی پسندنہیں کرناچاہتاتھااوراسی طرح کی فطری منظرکشی کااسیرتھا۔تومجھے بھی پاکستان جیسے طول وعرض میں پھیلی جمالیاتی طلسمی کہانیاں موجودہ شکل میں ہی خوبصورت لگتی ہیں۔یہ سفرکی متحرک کروٹیں جامدفضاؤں کوتوڑ کرزندگی میں انگڑائی بھرتی ہیں۔عمومی رویہ ہے کہ جب بھی بلوچستان کانام لبوں پرآتاہے توخوفناک سرداربندوقیں اٹھائے پہاڑوں پربیٹھے محسوس ہوتے ہیں اورصوبائی تعصب برت کرپنجاب سے آنے والے لوگوں کاسواگت ان کاخون بہاکرکرتے ہیں۔مگراب صورت حال بالکل تبدیل ہوچکی ہے۔ایک پرامن اور قدرتی وسائل کایہ شہکارخطہ خوبصورت بھی ہے اورثقافت کے رنگوں سے لبریزبھی۔یہ تاریخ کے ثمرداردرختوں کی سرزمین ہے۔ان پھلوں کی مٹھاس ماہی گیروں کی نسلیں اپنی زبانوں پر محسوس کرتی ہیں۔ان درختوں کی کشتیاں پانیوں پرتیرتی ہیں توکثیرالجہت ساحلوں کی رونقیں بڑھ جاتی ہیں ان علاقوں کی جغرافیائی ساخت کائنات کے نقشے پرخوبصورت جزیرے کی مانند روشن ہے۔اگرزمین پرصرف آکسیجن ہو اور سورج کی فلٹرشدہ کرنیں ہوں توایسے ساحل زندگی بسرکرنے کوکافی ہوں گے۔“کیاسحرطرازمنظرنامہ ہے،پڑھنے والااس میں کھوجاتاہے۔مصنف جگہ جگہ منظرکی دلکشی کے ذکرکے ساتھ مسائل کی جانب متوجہ بھی کرتا ہے۔”سامنے ٹھاٹھیں مارتاجھاگ اڑاتاسمندر،اردگردریت کاسنہری قالین انسانی آنکھ میں دلکشی کے رنگ بھرتاہے۔حکومتِ بلوچستان تھوڑی سی کوشش اورسیکیورٹی کوبہتربنالے اوران ساحلی علاقوں کوسیاحوں کے لیے قابلِ رسائی بنادے توزرکثیرکماسکتی ہے۔طلسم ہوشربانظارے اپنے وطن میں پھیلی افراتفری کویکسرمستردکرنے پراکساتے ہیں۔کنڈملیرکے ساحل توانسانی آنکھ میں حیرت کاباب کھولتے ہیں۔کوہِ پرنا سس جویونان میں فنون لطیفہ کی دیویوں کامن پسندجزیرہ تھا اورزخل جسے قدیم یونام میں جمالیاتی اوج کامحورسمجھاجاتاتھا۔اگرکوئی ان ساحلوں کی رعنائی دیکھ لے تووہ یونانیوں کی ان دیومائی کہانیوں کوہیچ سمجھنے لگ جائے گا۔نیلے،اجلے رنگ کاپانی قدموں سے لپٹ جاتاہے اورپکارپکارکرکہتاہے کہ اے اجنبی مسافراورگمنام سیاح اپنے دوستوں کوکہہ دوکہ حسینوں کے حلقے سے نکلو،شباب ومستی کوچھوڑوو،اورزندگی کی چالاک سازشوں کوسمجھو،جوروزگاراوربزنس کے جال میں انسانوں کوالجھائے رکھتی ہے اورایسے ساحلوں کارخ کرویہاں انسانی آنکھ کوحسن کی تمازت سے پرنورکیاجاتاہے۔ایسے ساحلوں پہ ایک بسیط خاموشی میں الوہی ترانے بجتے ہیں۔سنہری نورکی لہروں میں خدائے عز وجل اترتاہے اورزندگی کے چشم ولب کھِل جاتے ہیں۔بصارتوں پرنئے منظرآشکارہوتے ہیں۔اگرچہ سپت کاساحل صبحدم اوڈیسی کے ساحلوں کی طرح اپناحسن دکھاتاہے۔مگراس کودیکھنے کے لیے آف روڈ سفرکرناپڑتاہے۔“
اس باب میں ”پسنی کے ساحل کاکومل روپ“ اور”ماہی گیروں کی بستی (مبارک ولیج)“بھی شامل ہیں۔دوسراباب ”صحرائی داستانیں“ ہے۔جس میں ”جام گڑھ کی روہی کورند“،”قلعہ میرگڑھ کاسیاہ پھول“،”روہی ڈائن کاقلعہ موج گڑھ“،”راجپوتوں کاقلعہ دیراوڑ“ اور”صحرائے چولستان کے ماتھے کاسفیدجھومر“ کے عنوان سے سفرانچے شامل ہیں۔”جام گڑھ کارند“سے اقتباس ملاحظہ کریں۔”چولستان،حاصل پور سے چھوناوالاکے قریب شروع ہوتاہے۔یہ ایک ہزاردوسومربع کلومیٹررقبہ پرپھیلاہواہے۔یہ علاقہ صحرائے تھرسے جاملتاہے جوکہ بھارت اورسندھ تک پھیلاہواہے۔ماہرِ لسانیات کے نزدیک چولستان عراقی لفظ چیستان سے نکلاہے۔جس کامطلب بے آب وگیاہ علاقہ ہے۔ اس صحرا میں خودروجھاڑیاں،سرکانے،سروٹ اورملھے اُگ آتے ہیں جب بارش ہوتی ہے تومشروم یاکھمبی بہت زیادہ اگتی ہے جوکہ بہت ساری بیماریوں کے علاج میں کام آتی ہے۔ٹوبے پانی سے بھرجاتے ہیں توگائے،بکریاں،اونٹ اوربھینسیں بھی انسانوں کے ساتھ ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں۔بارش سے گھٹن،یاس اورقنوطیت کاخاتمہ ہوجاتاہے۔مجروح اورشکستہ بدن کھِل اٹھتے ہیں۔روہی نے اپنے خشک بدن پردیدہ زیب قلعوں کاپیراہن پہناہواہے۔جوایک سمت سے دوسری جانب طویل منظرنامے پرپھیلاہواہے۔ان میں سے ایک قلعہ جام گڑھ بھی ہے جوفورٹ عباس سے صرف بیس کلومیٹردورہے۔“
تیسراباب”شکستہ آئنوں کے درمیان اُڑتاپرندہ“کتاب کاسب سے طویل باب ہے،جس میں انیس سفرانچے شامل ہیں ہرایک،ایک سے بڑھ کرایک۔”کوہ مردار۔موہن جو داڑو“،”سرائے رنجیت سنگھ باٹھاوالا“،”دوقبروں والاعمرحیات پیلس“،”کوٹ ڈیجی۔صحرائی رسم الخط“،”ساکت گھڑیاں اورانڈس کوئین‘‘، ”رائیگانی کے چارقدم“،”منقش قبورکاجنگل“،”اُچ شریف کاقلعہ اسکندرہ“،”حویلی سردارجوالاسنگھ اِن پڈھانہ“،”آخری معرکہ،سکندر یو نانی اورراجہ پورس“،”جسٹرریلوے اسٹیشن،گرداس پورکاآخری موڑ“،”اوم بشیشرنگرکابنگلہ“،”قلعہ ہڑندکی خون آلودفصیل“،”سسی کاشہربھنبھور“،”سرداربھگت سنگھ کاگاؤں“،”کیاہیلن آف ٹرائے کامقبرہ ہیلاں میں ہے؟“،”لال مہڑہ کے قدیم ہندیرے اورپدماوتی“، ”تلمبہ کے قدیم سوار“ اور”سرونسٹن چرچل اورچکدرہ کی شام“ کے عنوانات سے ہی قاری کوان سفرانچوں میں دی گئی معلومات اندازہ ہو جاتا ہے اوریہ پنجاب کے مختلف علاقوں کی سیرپرمبنی ہیں۔
چوتھاباب ”مندرہکڑونور“ ہے۔جس میں ”سندھوساگرکاحیرت کدہ(سادھوبیلا)“،”ٹلہ جوگیاں کاسیلانی“،”رامائین کے تین کردارسیتا، رام اورلکشمن“،”باباگرونانک کاعظیم دوست رائے بلاربھٹی“،”قدیم بھکشووں کے چشمے تخت بھائی“،”دومہاجرشاعرشِوکماربٹالوی اوربابو رجب علی“،”ٹبہ ابھورکاتاریخی گردوارہ“،”پہلی سکھ دھرم شالامخدوم پورپہوڑاں“،”قطب کوٹ کاقلعہ“ اور”سھیرس کنارے بلوٹ کے مندر“ شامل ہیں۔یہ سب پاکستان کے کونے کونے بھی پھیلے جہانِ حیرت کابیان ہے۔ہندو،سکھ اوربدھ مت کے کیسی تاریخی یادگاریں ہیں۔جسے سیاحتی کتابچوں کے ذریعے پھیلایاجائے،سیکیورٹی اورسہولیات بہترہوں توسیاحت کوکس قدرفروغ مل سکتاہے۔
”سندھو ساگرکاحیرت کدہ“ کااقتباس دیکھیں اورعرفان شہودکی لفظیات اورنثرمیں شاعری سے لطف اندوزہوں۔”شیردریائے سندھ گار تنگ ندی کی کوکھ سے جنم لیتاہے۔پاکیزی کے سوتے پانیوں کی روانی سے پھوٹتے ہیں۔لداخ کی سرزمین پردیوتاؤں کی مجلس لگتی ہے تو سر زمینِ ہندسے پاپی یاتری اپنے گناہوں کی پوٹلی سروں پہ سجائے جھیل مانسرورمیں اشنان کرنے کے چلے آتے ہیں۔شِوجی کی پوجاکرتے ہیں پاپ دُھلتے ہیں یاتری رگ وید کے اشلوک پڑھتے ہیں۔مٹکوں میں اپنے عزیزوں کی راکھ پوترپانیوں میں بہاتے ہیں۔اورسندھو ساگر جھیل مانسرورکی گود ہری کرتے ہوئے کیلاش کی پہاڑی کوعبورکرتاہے۔خانقاہوں میں چراغِ ولایت جلتے ہیں۔بدھ راہب اوررشی مظاہر فطرت کی فضاؤں میں عبادت کرتے ہیں۔کیلاش کی نوکیلی چوٹی سے سورہ رحمان کی آیتوں کی عملی تفسیرکھُلتی ہے اورتبت کے برف زارسفید خیمے روحانیت کی آماجگاہ بنتے ہیں۔خانہ بدوشوں کے ریوڑفطری نصف شدہ چراگاہوں میں چرتے ہیں۔ٹھہری ٹھہری آبشاروں کی ابدالی جنبش سے دودھیادریائے سندھ کسی مسلم مومن کی مانند تبت کے اس پربت کے سات چکرکاٹتا ہے۔تودلی مراد کاراستہ کھلتاہے۔قدرت دریاؤں کی تسبیح کے اس امام کی مکمل نگہداشت کرتی ہے۔کیونکہ اس نے آگے چل کرانسانی زندگی کے لیے سہولتوں کے اسباب مہیاکرنا ہے۔ سیب،اخروٹ،شاہ بلوط،شہتوت،خوبانی اوردیگرپھلداردرختوں کوجنم دیناہے۔سینکڑوں چٹانوں کے بیچ مچھلیوں کی فصلوں کوپروان چڑھانا ہے۔ شوخ وشنگ گھاس کے چبوتروں پرمویشی اورڈنگروں کوخوراک فراہم کرنی ہے اورکڑکتے جاہ وجلال رکھتے گلیشیئرزکواپنے اندرسمو کر مسطح پربتی سیڑھیاں انسانی زندگی کوفراہم کرناہے۔“
”باونی“ کاپانچواں باب”فسوں نگر(بہتے پانیوں کے گیت)“ ہے۔جس میں ”کمراٹ ویلی۔کوہِ ہندوکش کاجھومر“،”دائیں بازوکادریا۔ سواستوعجوبہ“،”منٹھوکاجنت کی آبشار“،”دیوسائی تیرے روپ ہزار“،”کیلاش۔ایک قدیم کتھا“،”نورپوراسٹیشن اوربیساکھ میں سنہری کنکاں“،”ببول کے پھولوں کاموسم“،”جھیل اوچھالی کے تین رنگ“،”کھبیلی جھیل(بندہوں گنبدِتحیرمیں)“،”نیلم کی لال پری۔رتی گلی جھیل“،”مالاکنڈڈویژن کی سبزآماجگاہیں“ اور”بنج کھور۔فطرت کاقدیم جنگل“ جیسے سفرانچے شمالی علاقہ جات کی ایک حسین اوردیدہ زیب تصویرقارئین کے سامنے لاتی ہے۔چھٹاباب”دربستہ کہانی“ میں پریم نگرکادوست یٰسین ملک“،”باپ سِراں دے تاج“ اور”بچپن کے میلے“دلچسپ یادوں پرمنبی ہیں جبکہ ساتویں باب”منظوم سفرانچے“ میں ”مستنصرحسین تارڑسے پہلی منظوم ملاقات“،”کلیدِ نشاط“،”منتشرمضافات کے رنگ“،”شاہراہِ ہمالیہ“ اور”دلیپ کمارکی آخری خواہش“ بھی انتہائی دلچسپ ہیں۔ایک شاعرسفرنامہ نگارکی کتاب ”باونی“ پاکستان میں پھیلے حسن کی کہانیوں پر مبنی ہے اورجوبھی پاکستان کے ذرے ذرے میں پھیلے حسن کودیکھناچاہتاہے۔باونی کامطالعہ ضرورکرناچاہیے۔آخر میں باونی کے بارے میں چندمختصرتبصرے پیش ہیں۔
ڈاکٹرابراراحمدکاکہناہے۔”باونی افسانہ اورسفرنامے کاخوب صورت امتزاج کی حامل منفردکتاب ہے۔“ روش ندیم نے لکھا۔”ایسی خوب صورت نثراب کم کم ہی دیکھنے کوملتی ہے۔سفرناموں میں اتنی توجہ اورتخلیقی شعورکے ساتھ ایسااسلوب اپنی انفرادیت کی مثال بھی ہے۔“ سلمان باسط کے مطابق۔”یہ کتاب خریدیے،کسی سے مانگیے یاچوری کیجئے مگراسے پڑھیے ضرورکہ ایسے نوادرات روزروزبازارکی زینت نہیں بنتے۔“ مالک اشترکاکہناہے۔”باونی کوہرگھرمیں کافی ٹیبل بک کی طرح ہوناچاہیے۔“ اورناصرخان ناصرکہتے ہیں۔”اگرلفظوں حرفو ں کی زبان ہوتی تووجدان میں آکراپنے سریلے لحن میں یہی باونی میں لکھے بانگ دراگیت ہی گنگناتے پھرتے۔“
بلاشبہ ان مشاہیرنے عرفان شہودکی ”باونی“ کودرست خراجِ تحسین پیش کیاہے۔قارئین کوان کی مزیدکتب کاانتظاررہے گا۔