ممتازشیخ نے خودکوادبی نابغہ ثابت کردیاہے۔انہوں نے تن تنہاجوکام کیا۔وہ اداروں کے بھی بس کانہیں ہے۔ان کا بے مثال ادبی مجلہ ”لوح“ دس شماروں کے بعدہی اردوکاسب سے باوقاراورمعیاری ادبی جریدہ بن گیاہے۔اس کاہرشمارہ ضخیم اورخاص ہوتاہے۔جبکہ جس طرح نقوش کے بارے میں ابن انشانے کہاتھا۔”اس کاہرشمارہ خاص شمارہ ہوتاہے۔عام شمارہ خاص مواقع پرشائع کیاجاتاہے۔“تاہم لوح کااب تک کوئی عام شمارہ شائع نہیں ہوا،سب ضخامت کے اعتبارسے خاص نمبرہی ہوتے ہیں۔ اب تک شائع ہونے والے دس شماروں میں ”اردوافسانے کے118سالہ تاریخ پر مشتمل شاندارنمبر“شامل ہے۔لوح کاشمارہ تیرہ اورچودہ ”ناول نمبر“ ہے۔2020ء کو ناول کا سال قراردیاگیاتھا۔اس حوالے سے سہ ماہی ”آبشار“نے ”ناول نمبر“ شائع کیا۔پھراکادمی ادبیات کے جریدے ”ادبیات“ کا دوجلدوں پرمشتمل ضخیم اورشاندار”ناول ڈیڑھ صدی نمبر“ شائع ہوا،جوناول کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ پرشائع ہونے والا بہترین نمبرہے۔لیکن یہ نمبر ایک سرکاری ادارے اوراس کے وسائل اوربھرپورافرادی قوت کی محنت کانتیجہ ہے۔جبکہ ”لوح“ تن تنہاممتازشیخ کی کاوشوں اوروسائل کے ذریعے مرتب کیاگیا۔نامورافسانہ نگار،شاعر،دانشوراورمدیر”مکالمہ“مبین مرزانے بھی ناول نمبرکی اشاعت کااعلان کیاتھا۔لیکن ان کانمبراب تک شائع نہیں ہوا۔اس کے بجائے مکالمہ کے چارماہانہ شمارے منظرعام پر آ چکے ہیں۔
ممتازشیخ کا”لوح“ اولڈراویئنزکی جانب سے اسیرانِ علم وادب کے لیے توشہ ء خاص کے طورپرشائع کیاجاتاہے۔مشہورعلی گڑھ یونیورسٹی کی طرح راویئنزبھی اپنی یونیورسٹی کوہمیشہ یادرکھتے ہیں۔”لوح“ کاناول نمبر”ڈیڑھ صدی کاقصہ ہے دوچاربرس کی بات نہیں۔ناول کی ڈیڑھ سوسالہ تاریخ،آغازوارتقا“ پرمستنداورشانداردستاویزہے۔کروناوباکے دورمیں ممتازشیخ نے آٹھ سوصفحات کاشاندار”ناول نمبر“مرتب کر لیا۔جوقارئین کے لیے اس مشکل دورمیں کسی تحفہ خاص کادرجہ رکھتاہے۔بہترین طباعت سے آراستہ بڑے سائزکے مجلداس شمارے کی ہدیہ دوہزارروپے بہت مناسب ہے۔یہ نمبرمستقل اہمیت کاحامل ہے اورمستقبل میں اردوناول پرتحقیقی کام کرنے والے طلباء کے لیے بہت کارآمدثابت ہوگا۔
”حرف لوح“ بھی سب رنگ ڈائجسٹ کے شکیل عادل زادہ کے ذاتی صفحہ کی طرح غیرمعمولی مقبولیت حاصل کرچکاہے۔”ناول نمبر“ کے ”حرف لوح“ میں ممتازشیخ کے الفاظ قاری کے دل میں گھرکرلیتے ہیں۔”نامہ ء شوق کامرحلہ ایک بارپھردرپیش ہے۔نامہء شوق کیاہے،یہ توآشفتہ سری کی کوئی کہانی ہے،اک داستان جنوں خیز،یہ تودل کے نہاں خانے سے نکلنے والی روانی ء جذبات کی سچی لہرہے جومجھے سہلاتے ہوئے الفاظ کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔اس میں جہاں کچھ ہونے کااحساس باعثِ انبساط ہوتاہے وہاں کبھی ہیجان اورتلذذکی کیفیت بھی درآتی ہے۔بہ شرطیکہ کچھ اچھاہوتاہوامحسوس ہو۔اس بارجی ذرابھاری اوراحساس میں تعجب کہ معمول سے ہٹ کربہت تاخیرسے وابستگا ن ودلدادگان”لوح“ سے ملاقات کی صورت بن پڑی ہے،اورگذشتہ پانچ چھ سالوں میں پہلی بار”لوح“ کی رونمائی کے تواترو تسلسل میں ایساتکلیف دہ بل پڑاکہ سال بھرچپکے سے گزرنے کوہے۔”لوح“ کے اعلان شدہ نمبرجس میں (ناول،افسانہ،غزل ونظم شامل تھی) پرجب کام کاآغازہواتوجاناکہ کتنے بڑے کام کابیڑااٹھالیا۔مگرہمت نہ ہاری لیکن،جب کام مکمل ہواتوپانچ چھ ہزارصفحات کااجتماع تھا۔جس کی تقصیروتطہیراوراشاعت ناممکن معلوم ہوئی۔اوریوں وقت کے زیاں کااحساس جی کوجلانے لگاکہ چھ آٹھ ماہ نکل چکے تھے۔گویااس عرصے کا ہرپل میرے اعصاب کاامتحان لے رہاتھا،کسی بے حداداس رات کے پچھلے پہراس ناممکن کام کومختلف مراحل ومدارج میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کرکے ذراسانس لینے کاموقع ملاتودنیاپر”کووڈ19“ کاحملہ ہوگیا،اوریہ معمولی حملہ نہیں تھا۔زندگی اورموت کے بیچ ایک انجانے خوف اورذہنی دباؤ کی ہولناک ساعتوں کاسامناتھا۔ہرگھڑی زندگی اورموت کی کشمکش، امیدوبیم میں زندہ رہنے کے درمیان سولی پرلٹکے رہنے کی کیفیت تھی۔دنیاکے کسی کونے سے کوئی اچھی خبرنہیں آرہی تھی اورترقی یافتہ ممالک میں شرح اموات سے یوں لگتاتھاکہ ہماری بقاکی امیدتو محض ہمارے ایمان اوراللہ کے کرم سے ہی وابستہ ہے اوراسی خوف ودہشت میں کئی ماہ گزرے۔اس عالم میں بھی”لوح“ کاخیال دامن گیررہاجبکہ کام کرنے کی ہمت تھی نہ اس کارمحال کے لیے مطلوبہ جذبے کی توفیق ارزانی اورکاروباری شکست وریخت کاعالم تومت پوچھئے۔ جونہی حالات ذراسنبھلے دوبارہ کام کی ٹھانی اورمجھے خوشی ہے کہ الحمداللہ میرانامہء شوق،دلبرودلدار”لوح“ اپنے وابستگان ودلدادگان کے سامنے ہے(کہ جن کے ساتھ میراعزت اورمحبت کارشتہ طے شدہ امرہے)اوران کے لیے ماورائے معیارکوئی ایسی چیرنہیں رکھ سکتاجولوح کی روایت شکنی کاباعث بن سکے،کہ ”لوح“ کی روایت دکان داری کی طرح ہے نہ ہی اس پرکسی کاروباری نسبت کاشائبہ۔”لوح“ توسربہ سرمحبت،معیاراورادبی خدمت کااستعارہ ہے۔شایدتعلی ہومگراس عہدانحطاط میں بھلاکہاں تک ایساہوتاہے کہ کسی لالچ اورغرض کے بغیرجی جلانے کی رسم جنوں فروغ پاتی رہے۔آپ کے اس شوریدہ سراورجنوں خیزکے لیے ناول نمبرکااجراء اوراس سلسلہ میں تحقیق وتدوین کے مرا حل نہایت دشوارتھے۔کوئی ایک شخص شاید ہی اپنے ہرفن مولاہونے کاادعارکھتاہواوریقینا یہ معاملہ میرے ساتھ اس لیے بھی سَواترہے کہ مجھے توکبھی بھی علمی بساط پراپنی دسترس کادعویٰ نہیں رہا،مگرعلمی بصارت اوراخلاص کی دولت سے مالامال ضرور ہوں اوراسی برتے پرناول پر کام ترجیحاً اس لیے شروع کیاکہ اس پرکام اس طرح نہیں ہواجس طرح ادب کی دیگراصناف پرتوجہ دی گئی اورجن رسالوں نے ناول پرکام کیاوہ لائقِ تحسین ہیں اوران کی قدرکی جانی چاہیے۔2020ء چونکہ ناول کاسال قرارپایاتوشعوری طورپرکوشش کی کہ ناول کی تاریخ،آغاز و ارتقااوراس کے امکانات پرکام کیاجائے اورقارئین کے علاوہ ادب کے طلبہ کوایک مسابقتی بنیادفراہم کی جائے کہ 1862ء سے2020 ء تک ناول کاسفرکیسے طے ہوا،ڈیڑھ سوسال میں ناول کی زبان،بُنت اورمضامین کن مدارج سے گزرے،کیاکیااورکیسے کیسے تبدیلیاں آئیں،کیسے یادگاراورمعرکتہ الآراناول لکھے گئے۔یہ بھی تاریخ کاحصہ ہے،آج ناول کس مقام پرہے اورکیسے لکھاجارہاہے۔اس ضمن میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ڈیڑھ صدی میں لکھے جانے والے کم وبیش چارہزارناولوں میں سے پچاس پچپن ناول بطورسندپیش کردیے جائیں تاکہ آپ ناول کے مزاج،طوراطواراورچال چلن کو”لوح“ کی وساطت سے ماضی،حال اورمستقبل کے آئینے میں پرکھ سکیں۔ایک اہم گذا رش،جسے ضروری سمجھتاہوں یہ ہے کہ ”لوح“ کے اس تاریخی ناول نمبرمیں تاریخی،اسلامی اورمعروف ناول شامل نہیں کیے گئے۔پاپولرادب میں خواتین ناول نگاروں کی ایک بڑی اورقابل قدرتعدادسامنے آئی ہے جوبجائے خود الگ اوربھرپورمطالعے کی متقاضی ہے اوراسی طرح اسلامی اورتاریخی ناول نگاری کابھی علاحدہ سے جائزہ لیناوقت کی اہم ضرورت ہے۔مہلت اوروسائل کی ارزانی میسررہی تواس پربھی کچھ کام کرنے کاارادہ ہے مگرآپ کی دعاؤں کی اشد ضرورت رہے گی۔“”لوح ناول نمبر“کو1862ء سے 2020ء تک تین ادواریاابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔پہلادور1862ء سے 1900ء تک پرمبنی ہے۔ جس کی ابتدامیں دوبے حدوقیع اورقابلِ قدرمضامین ڈاکٹرمرزاحامدبیگ کا”ناول کی طرف پیش رفت“ اورڈاکٹررشیدامجدکا”آغازوارتقا ناول“ دیے گئے ہیں۔اس باب میں پانچ ناولوں کے منتخب ابواب شامل کیے گئے ہیں۔’جن میں ’خط تقدیر“ مولوی عبدالکریم،”مراۃ العروس“ ڈپٹی نذیر احمد،”فسانہء آزاد“رتن ناتھ سرشار،”امراؤجان ادا“مرزاہادی رسوا،اور”فردوس بریں“‘ عبدالحلیم شررشامل ہیں۔
ڈاکٹرمرزاحامدبیگ کامضمون”اردوناول کی طرف پیش رفت“ میں 1862ء سے1899ء تک اردوناول کے آغازوابتداکی تفصیل بیان کی ہے،اس بارے میں لکھتے ہیں۔”ہمارے بیشترناقدین جب اردوناول کے ابتدائی خدوخال زیربحث لاتے ہیں توتمثیلی قصے اورناول کافرق روانہیں رکھتے۔کریم الدین پانی پتی اورنذیراحمددہلوی کے تمثیلی قصوں کوناول قراردیتے ہیں۔بے شک تمثیل کے انداز میں ناول کی طرف یہ ہمارے دوابتدائی قدم تھے اورہمیں خالص تمثیل سے نیم تمثیلی اندازکے جیتے جاگتے انسانی کرداروں تک آتے آتے دوسواٹھائیس سال لگ گئے۔اس لیے ملا وجہی کاتمثیلی قصہ’سب رس‘ 1636ء کی تصنیف ہے اورکریم الدین پانی پتی کاانسانی کرداروں کے ساتھ تحریر کر دہ تمثیلی قصہ’خط تقدیر‘ 1862ء میں شائع ہوا۔اس قصے کودانش محل لکھنؤنے شائع کیا۔اشاعت کے تین برس بعداورنذیراحمددہلوی کی”مراۃ العروس“سے چاربرس پہلے،امین الاخبار،الہ آبادکے مدیرعزیزاحمدخان کاتحریرکردہ تمثیلی قصہ”جواہراصل“ 1865ء میں شائع ہواتھا۔”خط تقدیر“کے دیباچہ بہ عنوان’پیشانی خط تقدیر‘ میں مصنف لکھتے ہیں۔’مدت سے یہ امنگ تھی کہ تقدیروتدبیرکامضمون بطورقصہ لکھاجائے بہ شرط کہ مخالف کسی مذہب اورخلاف رائے اہل فلسفہ کے بھی نہ ہواورجوباتیں اس میں درج ہوں وہ اخلاق واطواراورتجربات انسانی اس طرز کے ہوں جن کااثرطبع انسان پرہوکہ بہت نتیجہ پیداکریں اورکہانی ایسے طورپرہوکہ جوشخص پڑھے یاسنے،اوس کوخیال ہوکہ یہ قصہ میرے حسب حال لکھاگیاہے۔‘قصہ میں کریم الدین نے1857ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعدروزگار کے حوالے سے ہندوستانیوں کوحقیقت پسندانہ سوچ کی طرف راغب کرتے ہوئے،مشورہ دیاہے کہ انگریزسے زندگی کاچلن سیکھیں اور روایتی ومعاندانہ سوچ کوترک کر دیں۔ توکل کے بجائے عمل کی طرف آئیں۔کریم الدین نے قصہ رقم کرنے کے لیے تمثیلی اندازاختیارکرکے اسم بہ مسمٰی کردارتراشے۔قصے کا مرکزی کردار،مستان شاہ،طالب تقدیرہے جواپنی محبوبہ ملکہ تقدیرسے مددکاخواہاں ہے۔گھرسے نکلتاہے تورستے میں اس کی ملاقات’عقل‘ کی خادمہ ’چترائی‘ سے ہوتی ہے۔چترائی نے طالب تقدیر،مستان شاہ کے پرصعوبت سفرکااحوال سناتواس نے ملکہ تقدیرتک راہنمائی کی اورملکہ تقدیرنے کوتوال جہاں،عقل سے رجوع کرنے کامشورہ دیا۔جب طالب تقدیر،مستان شاہ نے ایساکیاتوملکہ ء تقدیراس پرمہربان ہو گئی۔اس اصلاحی قصے کے تمام کرداراسم بامسمٰی ہیں،جوانسانی زندگی میں جمودکی جگہ حرکت اوربے عقلی کوشعورمیں بدلنے کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔نیزاس تمثلی قصے میں موقع بے موقع اشعارکی بھرماردیکھنے کوملتی ہے۔کریم الدین کے بیان میں نہ وہ چاشنی ہے،نہ قدرت بیان ہے جونذیراحمددہلوی کے نیم تمثیلی قصوں کاخاصہ ہے۔مرزاحامدبیگ نے مضمون میں ناول اورتمثیلی قصوں کافرق واضح کیاہے اورانگریزی میں ناول کے آغازپربھی روشنی ڈالی ہے۔اردوناول کی ابتداکے بارے میں مضمون شاندارہے۔ڈاکٹررشیدامجد کامضمون کاعنوان ہی ”آغازوارتقاء ناول“ہے۔جس کے مطابق اردوناول نگاری کاآغازترجمہ سے ہوا۔میرمنشی شیوپرشاد نے گریس کینیڈی کے Dunallan کااردو ترجمہ ”دنالن اورقشرینہ“ کے نام سے کیا۔یہ ایک اصلاحی اوراخلاقی نقطہ نظرکاناول تھا۔بعدمیں اسی ناول کومنشی شیو پرشادنے”قصہ چمبیلی گلاب“ کے نام سے ازسرنومکمل اردومیں لکھا۔ڈاکٹررشیدامجدنے اردوکاپہلاطبع زادناول”خط تقدیر“کوقراردیاہے۔مضمون میں ڈپٹی نذیراحمدکے ناولوں کے موضوع اورزبان وبیان پرتفصیلی بحث کی گئی ہے۔رتن ناتھ سرشارکے ”فسانہ آزاد“اورمرزاہادی رسواکے ناول”امراؤجان ادا“ کابھی جائزہ لیاگیاہے۔
دوسراباب”ناول کادورثانی“ہے۔جو1900ء سے 1947ء کے دورپرمشتمل ہے۔اس حصے کے آغازمیں بھارت کے مشہورناول نگار مشرف عالم ذوقی کامضمون”اردوناول“ اورپاکستان کے معروف افسانہ نگاراورمدیراستعارہ ڈاکٹرامجدطفیل کامضمون ”اردوناول،انیسویں صدی کے نصف اول میں“ شامل ہے۔اس دورکے بھی پانچ ناولوں کاابواب دیے گئے ہیں۔جن میں منشی پریم چندکا”گؤدان“، عزیزاحمد کا ”گریز“،کرشن چندرکا”شکست“،عصمت چغتائی کا”ٹیڑھی لکیر“ اورسجادظہیرکا”لندن کی ایک رات“ شامل ہیں۔
دورحاضرمیں بھارت کے سب سے بڑے اورکثیرالتصنیف ناول وافسانہ نگارمشرف عالم ذوقی کامضمون”اردوناول1900ء سے 1948ء تک“ سے اس باب کاآغازہواہے۔جس میں ذوقی صاحب کے مطابق مارکیز،اورحان پامک،رشدی،میلان کنڈیراتک آتے آتے ناول کی شکل اس حدتک تبدیل ہوچکی ہے کہ آپ اسے کسی تعریف میں باندھ کرنہیں رکھ سکتے۔میرے نزدیک ناول خلامیں منتشرایسی داستان ہے،ناول نگارجس کے رنگوں کی طرف لپکتاہے اوراپنے حصے کے رنگ کشید کرلیتاہے۔سرشارکے تاریخی ناول،مرزاہادی رسواکا امراؤجان،راشدالخیری کے ناولوں سے آگے بڑھتے ہیں توحقیقت نگاری بے بس نظرآتی ہے۔عصمت چغتائی اورقرۃ العین حیدرکے عہد تک تہذیبی رویے بدلے تھے۔سجادظہیرنے بہت حدتک ناول کے متھ کوتوڑامگرزیادہ ترنقاد’لندن کی ایک رات‘ کوناول ہی تسلیم نہیں کرتے۔ہندوستان تقسم ہوالیکن تقسیم سے پہلے کے ناول نگاراس دستک کومحسوس کرچکے تھے۔ذوقی صاحب نے عصمت،قرہ العین،پریم چند،کرشن چندر،احسن فاروقی کے تناظرمیں ناول کے بدلتے تیورعمدگی سے بیان کیے ہیں۔ان کے جملے ذومعنی ہیں۔”مذہب سے اخلاقیات تک کیا سچ وہی ہے جوہماراہے؟یعنی ہمارامذہب۔ہمارالباس۔ہماری تہذیب؟ کروناکے جراثیم کوہمارالباس پسندآگیا۔ہماری تہذیب پسندآ گئی ممکن ہے،نئے ناول کی تخلیق کے لیے یہ عہدایک بہترپڑاؤثابت ہو۔ابھی یقین سے کچھ بھی نہیں کہاجاسکتا۔ایک دلچسپ موضوع انسان ہے۔اس سے زیادہ دلچسپ موضوع موت۔ہم برق رفتاری سے ان دیکھی،انجانی موت کی طرف قدم بڑھاچکے ہیں۔“ناول نمبرکاتیسراباب””ناول دورسوم(بعدازقیام پاکستان)“ ہے۔اس باب کی شروعات معروف ناول نگارودانشورمحمدحمیدشاہد کامضمون ڈاکٹرامجدطفیل نے مختصرمضمون”اردوناول:انیسویں صدی کے نصف اول میں“لکھتے ہیں۔”ناول دراصل زندگی کواس کی کلیت میں بیان کرنے کافن ہے۔ناول اس دنیامیں انسانی صورتِ حال کوبیان کرنے کاسب سے موثرذریعہ ہے اورہم دیکھتے ہیں کہ ناول اپنے آغازہی سے انسان اورانسانی معاملات سے جڑارہاہے۔ہردورمیں ناول نے انسانی زندگی کے بارے میں اہم سوال اٹھائے اوران کے جواب تلا ش کرنے کی کوشش کی۔ظاہرہے ناول نگاریہ کوشش موضوعی سطح پرکرتاہے وہ معروضی اورتجرباتی شواہدتلاش کرنے کے بجائے انسان کے باطن میں جھانکتا اورجاننے کی کوشش کرتاہے کہ انسان کے ساتھ جوکچھ ہورہاہے کیاہے،کیوں ہورہاہے اورانسانی معاملات اس سے کس طرح جڑے ہیں۔“امجدطفیل نے پریم چند،عزیزاحمد،قاضی عبدالغفار،کرشن چندر،عصمت چغتائی،قرۃ العین حیدرکے ناولزاورکرداروں کا جائزہ پیش کیاہے۔
”ناول نمبر“ تیسرااورسب سے طویل باب”ناول دورسوئم،بعدازقیام پاکستان“ ہے،جوپانچ سوپچھہترصفحات پرمشتمل ہے۔اس باب کی ابتدا محمدحمیدشاہد کے مضمون”ناول ایک اجمالی خاکہ“ اورڈاکٹرمحمداشرف کمال کا ”ناول کاسفر“سے ہوئی ہے۔جس بعد اکتالیس ناولوں کے منتخب ابواب پیش کیے گئے ہیں۔جن میں 1948ء میں شائع ہونے والامحمداحسن فاروقی کے”شام اودھ“ سے لے کر2020ء میں اشاعت پذیرمحمدحفیظ خان کاناول ”کرک ناتھ“ شامل ہیں۔اس طرح مجموعی طور پرآٹھ سوصفحات کے اس ضخیم اورمستندناول نمبرمیں چھ بہترین مضامین جن سے ناول کے آغاز،ارتقا اورترقی کاپوری طرح احاطہ کیاگیاہے اوراردوکے پہلے ناول سے لے کرآج کے دورکے تازہ ترین ناول سمیت اکیاون ناولوں کے منتخب ابواب پیش کرکے اردوناول کی ڈیڑھ صدی کی مکمل پیش رفت کوشانداراندازمیں پیش کیاگیاہے۔
معروف سیرت وافسانہ نگارمحمدحمیدشاہدنے ”ناول ایک اجمالی خاکہ“ میں اردومیں تحریرکیے گئے ناولزمیں پیش کی گئیں مختلف تیکنیک پربحث کی گئی اوربہت عمدگی سے اردوناول کی مختلف تیکنیک سے عام قاری کومتعارف کرایااورمثالوں کے ذریعے واضح کیاگیاہے۔ان ناولوں میں ربیسنکربال کے بنگلہ ناول جس کاترجمہ انعام ندیم نے ”دوزخ نامہ“ کے نام سے کیاہے۔جس میں مصنف نے ایک غیرمطبوعہ ناول ملنے اور پھراچانک یوں ملنے والے ناول کامسودہ ہی سامنے نہیں آتا،راوی اوراردومسودہ پڑھنے والی تبسم مرزابھی ناول کاحصہ بن جاتے ہیں۔شمس الرحمٰن فاروقی کے ”کئی چاندتھے سرآسماں“میں ایک بھیدبھری تصویراورپچاس اوراق کاپیکٹ ملتاہے۔عاصم بٹ کے ناول ”بھید“ میں بھی ایک پراسرارمسودہ جوراوی کوقصوربس اسٹاپ پرہاتھ لگا تھا۔قیام پاکستان تک ڈپٹی نذیراحمد،رتن ناتھ سرشار،مرزاہادی رسوا،عبدالحلیم شرر، پریم چند،عزیزاحمد،کرشن چندر،عصمت چغتائی اورسجادظہیراردوناول کی مختصرمگرلائق توجہ روایت مرتب کرچکے تھے۔قرۃ العین حیدرکا”آگ کا دریا“ ہندوستان کی ڈھائی ہزارسالہ تاریخ کوموضوع بنایاگیا۔ان کے دیگرناول”آخرشب کے ہمسفر“،”گردش رنگ چمن“اور”چاندنی بیگم“ کے اثرات بھی اردوناول پربہت گہرے ہیں۔ عبداللہ حسین کے ناول ”اداس نسلیں“ کواردوکاپہلاپاکستانی ناول قراردیاگیا۔ان کے ناول”باگھ“،”قید“ اور”نادارلوگ“ بھی اہم ہیں۔”باگھ“ میں عبداللہ حسین کافن عروج پرنظرآتاہے۔محمداحسن فاروقی کا”سنگم“ ساٹھ کی دہائی میں شائع ہوا۔جسے ہماری متوازی تاریخ بھی کہاگیا۔جمیلہ ہاشمی کے ”دشت سوس“ میں مسلم تاریخ کاحوالہ ہے۔محمدخالداختر،انتظار حسین،شوکت صدیقی،بلونت سنگھ کے حال ہی میں پاکستان سے دوبارہ شائع ہونے والے تین ناول”کالے کوس“،”رات چانداورچور“ اور”چک پیراں کا جسا“خدیجہ مستورکا”آنگن“ اور”زمین“ممتازمفتی کاسوانحی ناول”علی پورکاایلی“اکرام اللہ کا”گرگ شب“ سمیت بے شمارناولوں اوران کی تیکنیک پرمحمدحمیدشاہد نے سیرحاصل گفتگوکی ہے۔مضمون سے اردوناول کاپوراارتقاپیش کیاگیاہے۔ڈاکٹرمحمداشرف کمال نے ”ناول کاسفر“میں اردوناول کی ابتداسے دورحاضرتک پیش رفت کے ساتھ کئی گمنام ناولوں کاذکرکیاہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں۔”اردو ناول کاآغازانیسویں صدی سے ہوااوربیسویں صدی تک اس نے بطورصنف ادب مقبولیت حاصل کرلی۔ 1862ء میں دہلی کالج کے تعلیم یافتہ مولوی کریم الدین کا”خط تقدیر“سامنے آیا۔جسے داستان اورناول نگاری کی درمیانی کڑی قرار دیا جاتا ہے۔دہلی کالج ہی کے مولوی نذیراحمدنے ”مراۃ العروس“ لکھی۔اس دورمیں دس بارہ مزیدناول بھی منظرعام پرآئے۔جن میں غزل گوشاد عظیم آبادی کا”صوت الخیال عرف ولایتی کی آپ بیتی“ اور”بدھاوا“ مولوی عبدالجبارخان کا”مخبرالواقعات“ اور”مخبرالمحسنات“ منشی حسن علی اورمنشی محمداعظم کا”نقش طاؤس“،مولوی افضل الدین احمدکا”فسانہ خورشیدی“ سیدفرزنداحمدصغیربلگرامی کا”جوہرمقالات“سیدسجادعلی کا ”نئی نویلی“،منشی محمداعظم کا”رازبستہ“،سیدخلیل الرحمٰن کا”سرمخفی“ (اردوکاپہلا طبع زادجاسوسی ناول) سیدعلی سجادعظیم آبادی کا”محل خانہ“ مولوی غیاث الدین بلخی کا”طرزِمعاشرت“،علی اسلم عظیم آبادی کا”فسانہ شریفی“ اورسیدمحمدحنیف کا”رفیق وانیس“ کے علاوہ اردوکی پہلی ناول نگارخاتون رشیدہ النساء کاناول”اصلاح النسا“ محمدی بیگم کا”صفیہ بیگم“ اورصغریٰ ہمایوں کا”مشیرنسواں“ کے نام پیش کیے گئے ہیں۔ مضمون سے اردوناول کے کئی نئے گوشے واضح کیے اورکئی ایسے ناولزکے نام پیش کیے ہیں۔جواس سے قبل سنے بھی نہیں گئے۔
”لوح ناول نمبر“ کے آخری حصے میں قیام پاکستان کے بعدشائع ہونے والے اکتالیس ناولوں کے منتخب باب پیش کیے گئے ہیں۔جن میں شام اودھ محمداحسن فاروقی،نگری نگری پھرامسافرنثارعزیزبٹ،آگ کادریاقرۃ العین حیدر،خداکی بستی شوکت صدیقی،ایک معمولی لڑکی بلو نت سنگھ،علی پورکاایلی ممتازمفتی،آنگن خدیجہ مستور،اک چادرمیلی سی راجندرسنگھ بیدی،آفت کاٹکڑاخان فضل الرحمٰن،اداس نسلیں عبداللہ حسین،گرگ شب اکرام اللہ،بستی انتظارحسین،راجہ گدھ بانوقدسیہ،خوشیوکاباغ انورسجاد،دشت سوس جمیلہ ہاشمی،دستک نہ دوالطاف فاطمہ، صدیوں کی زنجیررضیہ فصیح احمدد،تین بتی کے راماعلی امام نقوی،بہاؤمستنصرحسین تارڑ،دیوارکے پیچھے انیس ناگی،فائر ایریا الیاس احمد گدی، چاکی واڑہ میں وصال محمدخالد اختر، کاغذی گھاٹ خالدہ حسین، دھمک عبدالصمد، غلام باغ مرزااطہربیگ،کئی چاندتھے سرآسماں شمس الرحمٰن فاروقی،مٹی آدم کھاتی ہے محمدحمیدشاہد،لے سانس بھی آہستہ مشرف عالم ذوقی،موت کی کتاب خالدجاوید،کنجری کاپل یونس جاوید،خواب سراب انیس اشفاق،العاصفہ حسن منظر،بالوں کاگچھاخالدطور،جاگے ہیں خواب میں اختررضاسلیمی،آخری سواریاں سیدمحمداشرف، انارکلی مرزاحامدبیگ،حبس محمدالیاس، بنارس والی گلی فیاض رفعت،ساشامحمدشیرازدستی،گل مینہ زیف سید،سودوزیاں کے درمیاں خالدفتح محمد اور کرک ناتھ محمدحفیظ خان شامل ہیں۔
ان اکتالیس ناولوں کے منتخب ابواب سے پاکستان میں اردوناول کے ارتقا،نت نئے موضوعات،تیکنیک،زبان وبیان،اسلوب کابخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے۔آٹھ سوصفحات میں ممتازشیخ صاحب نے چھ مضامین اوراکیاون ناولوں کے ابواب کے ذریعے اردوناول کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ اورارتقاکوایک جگہ اس طرح پیش کردیاہے کہ مستقبل میں اس پرکام کرنے والے محققین کے لیے یہ ایک مستنددستاویزبن گئی ہے۔اس شاندارپیش کش پرممتازشیخ بھرپورداد اورستائش کے حقدارہیں اوران کے آئندہ منصوبوں کے بھی قارئین بے چینی سے منتظررہیں گے۔