عشق ایک بے مثال جذبہ ہے۔عشق انسان سے وہ کام کرالیتاہے،جس کی عام حالات میں توقع نہیں ہوتی۔ادب سے عشق نے شکیل عادل زادہ کے”سب رنگ ڈائجسٹ“کووہ مقام دیاکہ اس کے بندہونے کے تیرہ چودہ سال بعد بھی آشفتگانِ سب رنگ اس کے پرانے پرچے ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔پھرحسن رضاگوندل کے بے پناہ عشق نے ہی اس سے سب رنگ کے تمام شمارے جمع کروائے اوراس میں شامل تحریروں کوکتابی شکل میں شائع کرنے کااہتمام کروایا۔ عشق نے ہی محترم شاہدحمیدکوجہلم بک کارنرجیسابے مثال ادارہ قائم کروایاجس نے اردوپبلشنگ کابین الاقوامی معیارقائم کیا اور”سب رنگ کہانیاں“ اوردیگرکتب کی خوبصورت اشاعت سے دنیابھرسے داد حاصل کی۔شاہد حمیدکے دوہونہارصاحبزادے گگن شاہد اورامرشاہد اس معیارکوخوب سے خوب تربنانے میں کوشاں ہیں۔
اپنے کام سے بے پناہ عشق نے ہی محترم اشعرنجمی سے اردوکامنفردادبی جریدہ ”اثبات“ جاری کروایااورپھر’اثبات‘کے منفردخصوصی شمارے مرتب کروائے۔جن میں ”قرۃ العین حیدرنمبر“ اور”فیض صدی کی شخصیت نمبر“ نے دھوم مچائی۔”سرقہ نمبر“توبھارت کے ساتھ پاکستان میں بھی شائع ہوا اوربے حدپسند کیاگیا۔اس تجربے کے بعد”عریاں نگاری اورفحش نگاری نمبر“ اوردوجلدوں پرمشتمل ”احیائے مذاہب نمبر“ دونوں ملکوں سے شائع ہوا۔اورادب دوستوں سے بھرپورخراجِ تحسین حاصل کیا۔حال ہی میں اشعرنجمی کے ”اثبات“ کا”عالمی نثرکاانتخاب“ تین جلدوں میں بک کارنرجہلم سے شائع ہواہے۔ان ضخیم جلدوں میں دنیابھرکی تقریباً سوزبانوں کے اردوتراجم کوشامل کیاگیاگویادریا کو کوزے میں بندکیاگیاہے۔
اردوکے بے مثال نقاد،ناول،افسانہ نگار،شاعرشمس الرحمٰن فاروقی سے اشعرنجمی کی عقیدت سے ایک دنیاواقف ہے۔ان کی یہ عقیدت اثبات کے صفحات پربھی نظرآتی ہے اوراشعرنجمی کی تحریروں میں بھی۔شمس الرحمٰن فاروقی کی اچانک وفات نے اشعرنجمی کوبری طرح متاثر کیا۔ لیکن انہوں نے اس غم کودل سے لگانے کے بجائے فاروقی صاحب کونذرانہ عقیدت پیش کرنے کافیصلہ کیا اوریہ بے مثال خراجِ عقیدت فاروقی صاحب کی وفات کے صرف ڈیڑھ دوماہ بعد”وہ جوچاندتھاسرآسماں،بیادِشمس الرحمٰن فاروقی“کی صورت میں جلوہ افروز ہوا۔شایدہی کسی معنوی اولادنے اپنے استادکواس سے بہترخراجِ تحسین پیش کیاہو۔”وہ جوچاندتھاسرآسماں“ پاکستان سے سٹی بک پوائنٹ نے انتہائی دلکش انداز میں شائع کیاہے۔بڑے سائزکے سات سوصفحات کی اس شاندارکتاب کی قیمت اٹھارہ سوروپے بہت مناسب ہے۔ ادارہ اس عمدہ کتاب کی اشاعت پرمبارک باد کاحقدارہے۔
”وہ جوچاندتھاسرآسماں بیادشمس الرحمٰن فاروقی“ کسی ادبی شخصیت پرنکلنے والے خاص نمبرزاورکتب سے بیحدمختلف اورمنفردہے۔ اس میں شمس الرحمٰن فاروقی کے فکروفن کی گواہی بیشتر انہی کے قلم نے دی ہے اوربہت کم دوسرے افرادکی تحریریں اس میں شامل ہیں۔حال ہی میں بک کارنرجہلم نے بھی ”مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی“اپنے روایتی عمدہ معیارکے ساتھ شائع کیاہے۔جس میں فاروقی صاحب کے فکشن کو سوائے ان کے ضخیم ناول ”کوئی چاند تھاسرآسماں“کے یکجاکردیاگیاہے۔ناول کے چندابواب بھی مجموعے میں شامل ہیں۔افسانوں کامکمل مجموعہ ”سوار“ناولٹ”قبض زماں“آخری افسانہ اورچندتراجم ”مجموعہ شمس الرحمٰن فاروقی“کاحصہ ہیں۔جبکہ ”وہ جوچاندتھاسر آسماں“ فاروقی صاحب کے آخری افسانے”فانی باقی“کے سوا تمام مواداس سے یکسرمختلف ہے۔ کتاب کو آٹھ ابواب میں تقسیم کیاگیاہے۔ پہلا باب ”احوالِ فاروقی“ہے۔جس میں انیس صدیقی”آئینہ خانہء حیات فاروقی“ کے عنوان سے طویل مضمون میں شمس الرحمٰن فاروقی کی پیدائش،تعلیم،خاندان،شریک حیات،اولاد،ملازمت،مختلف اداروں سے وابستگی،انعامات و اعزازات،علمی وادبی خطابا ت،بیرونی ملک اسفار،ادبی صحافت اورشمس الرحمٰن فاروقی کی حیات وخدمات اورشب خون پرمختلف یونیورسٹیزمیں لکھے گئے تحقیقی مقالہ جات اور فاروقی صاحب پرادبی جرائدکے نمبرزاورگوشوں تفاصیل یکجاکردی ہے۔جبکہ ابراراعظمی نے ”مختصرتذکرہ اورتصانیف کی مکمل فہرست“ دی ہے۔ دونوں مضامین مستقبل میں فاروقی صاحب پرکام کرنے والے طلباکے لیے کارآمدثابت ہوں گے۔اسی باب میں شمس الرحمٰن فاروقی کے اپنی زندگی کے مختلف گوشوں سے متعلق سات مضامین شامل کیے گئے ہیں۔سوصفحات پرمحیط یہ مضامین فاروقی صاحب کی آپ بیتی کی کمی بخوبی پوری کرتے ہیں اوراس سے ان کی حیات کے کئی گوشے عیاں ہوتے ہیں۔جبکہ اس باب کااختتام عرفان صدیقی کی نظم”فاروقی صاحب کے نام“سے ہوتاہے۔دیگرابواب میں ’افکارِ فاروقی“،”مذاکراتِ فاروقی“،”شذراتِ فاروقی“،”باقیاتِ فاروقی“،”باز یافت فاروقی“،”نذرِفاروقی“ اوراشعرنجمی کاطویل مضمون”یہ لوح مزارتومیری ہے“۔
ادب سے دلچسپی کے بارے میں شمس الرحمٰن فاروقی کی تحریرسے اقتباس پیش ہے۔”انوکھی بات یہ ہے کہ ادب کے باقاعدہ مطالعے کاذوق مجھ میں کورس کی دوکتابیں پڑھ کرجاگا۔آل احمدسرورکی’ہماراادب‘1947ء میں ہمیں نویں کلاس میں پڑھائی جاتی تھی۔شایداسی سال خلیل الرب کی ’ادبی شہزادے‘ انٹرمیڈیٹ میں منظورہوئی تھی۔میں چاروں کتابیں (نظم ونثر) ہفتوں بلکہ دنوں میں پڑھ ڈالیں۔خلیل الرب کے انتخاب کی وسعت اورجدیدیت اورآل احمدسرورکی مختصرتنقیدی عبارتوں نے مجھے بہت متاثرکیا۔خلیل الرب کی کوئی کتاب توپھردیکھنے کونہ ملی،؛ہلم آل احمدسرورکی ’نئے اورپرانے چراغ‘اور’تنقیدی اشارے‘ وغیرہ جب بھ مجھے ملیں،میں نے انھیں بہت دلچسپی سے پڑھا۔اعظم گڑھ کے اسکولی دنوں میں دواورشخصیتیں میری زندگی پرہلکاساپرتَو ڈال گئیں۔ایک تواحتشام صاحب اوردوسرے مشہورفلم ڈائرکٹرشوکت حسین۔ادبی حلقوں میں احتشام صاحب اورعام حلقوں میں شوکت حسین کانام اعظم گڑھ کے بچے بچے کی زبان پرتھا۔دونوں مقامی ہیرو کی حیثیت رکھتے تھے۔“فاروقی صاحب کے یہ سات سوانحی مضامین ”میراذہنی سفر“،”غبارکارواں“،”جارج اسلامیہ کالج“،”میری گزارش احوال واقعی“،”میراماحول میراتخلیقی سفر“،”میں کون ہوں اے ہم نفساں“ اور”دس خود دہان خود“میں خاکوں کالطف اوررنگ بھی موجودہے۔
ان تمام حصوں کاالگ الگ ذکرکرنے سے پہلے ناول نگارخالدجاویدکی کتاب کے بارے میں تحریرپیش کرتاہوں۔”یہ کتاب شمس الرحمٰن فاروقی کی تنقید،ان کے افکار،ان کے تراجم اوران کی تخلیقات کے حوالے سے ایک جامع،مبسوط اورمستندحوالے کی حیثیت رکھتی ہے۔شمس الرحمٰن فاروقی کی ہمہ جہت شخصیت کوآٹھ ابواب میں بڑی کامیابی سے پیش کیاگیاہے اوریہ خود اتنی بڑی بات ہے کہ جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔مگرصرف اتناہی نہیں،اشعرنجمی نے کتاب کوترتیب دینے کے علاوہ خودبھی ایک طویل مضمون قلم بندکیاہے جس کاعنوا ن ”یہ لوح ِ مزارتومیری ہے“۔اسے ایک مضمون نہ کہہ کراپنے آپ میں مکمل کتاب کادرجہ دیاجاسکتاہے۔اس مضمون میں اشعرنجمی نے فاروقی کے حوالے سے اپنی یادیں اورواقعات تحریرکیے ہیں جنھیں پڑھنے کے بعدآنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔”وہ جوچاندتھاسرآسماں“ اشعر نجمی کاایک تاریخ سازکارنامہ ہے جوہمیں یہ بھی سکھاتاہے کہ ایک نابغہء روزگارہستی کوخراجِ عقیدت کس طرح پیش کیاجاتاہے۔اس حوالے سے بھی یہ اردو ادب کاایک ناقابل فراموش اوریادگارواقعہ ہے۔“
پاکستانی شاعرظفراقبال نے شمس الرحمٰن فاروقی کے بارے میں لکھاہے۔”مجھے ان کے انتقال کی روح فرساخبرجب ملی تومجھے یوں لگاکہ جیسے میرے ہاں نقب لگی ہے اورکوئی میرے گھرکاصفایاہی کرگیاہے۔یہاں تک کہ میں اس کی کہیں رپٹ بھی درج نہیں کرواسکتا۔سینکڑے کی دہائی میں داخل ہوچکاہوں۔ حافظے کی تختی سے بہت کچھ محوہوچکاہے۔کچھ یادیں باقی رہ گئی ہیں،دھندلی اورنامکمل۔میراان کاتعلق کم و بیش نصف صدی کومحیط ہے۔مجھے ان کے جریدے’شب خون‘ نے بھارت میں متعارف اورپروموٹ کیاورنہ وہاں مجھے کوئی نہیں جانتاتھا۔ اس بابغہء روزگارہستی کے کمالات اورکنٹری بیوشن کیاتھے،یہ بتانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ یہ سب کچھ ساری دنیاجانتی ہے۔وہ ایک لی جنڈفینامیناتھا۔جدید اردوادب کے لیے ان کی خدمات رہتی دنیاتک یادرکھی جائیں گی۔یہ رسمی جملے ہیں،ان کی بھی ضرورت نہیں تھی۔“
”پیش لفظ“ کے طورپراشعرنجمی نے فاروقی صاحب کے نام ایک خط لکھاہے۔”مکرمی فاروقی صاحب سلام مسنون،آپ جانتے ہیں کہ تعز یت پیش کرنے کاسلیقہ مجھے کبھی نہ آیا۔برسوں پہلے جب آپ کی شریک حیات جمیلہ فاروقی کاانتقال ہواتھا،توایک ہفتہ صرف لفظوں کے انتخا ب وترتیب میں گزرگیا۔جب آپ کوفون کیاتوصرف یہی کہہ سکاکہ میں کیاکہوں،سمجھ میں نہیں آرہا۔سچ مچ زندگی میں ایسے ہی موقعوں پر احساس ہوتاہے کہ ہم کتنے مفلس وقلاش ہیں جوساری زندگی لفظوں کوڈھونڈتے رہتے ہیں لیکن جب ہمیں واقعی ان کی ضرورت ہوتی ہے تو یہ ہمیں دھوکادے جاتے ہیں۔آپ کوشایدکبھی نہیں بتایاتھاکہ میں جب ڈپریشن کاشکارہوتاہوں تولیپ ٹاپ کے کی بورڈ پرمیری انگلیاں تھرکنی شروع ہوجاتی ہیں،اس طرح میں اپنادھیان بٹانے کی کوشش کرتاہوں۔سو، ایک بارپھرمیری انگلیاں لیپ ٹاپ کے کی بورڈپرتھرکنے لگیں،میں آپ کی لحد میں لیٹاہواNear Death Experienceسے گزررہاتھا۔میں آپ کی تلاش میں خود سے ملاقات کربیٹھا۔ بھلاخود سے ناآشناکوئی شخص کسی کی آشنائی کادعویٰ کیسے کرسکتاہے؟آپ سے بچھڑنے کے دوسرے روزہی سے میں نے فیس بک پرتنویمی حالت میں لکھناشروع کردیا،میں یہ سب آپ کے لیے نہیں،خود کے لیے کررہاتھا،خود کوبچانے کے لیے۔میں ڈھونگ نہیں کرسکتاتھا، آپ پرمختصرمضمون لکھ کرخود کوجسٹیفائی کرنے کی کوشش نہیں کرسکتاتھا،تعزیتی بیانات دے کررسم پوری کرنے کاناٹک نہیں کرسکتاتھا۔ہم سب کے مربی ومرشدگوپی چندنارنگ صاحب کی طرح تعزیتی کلمات پیش کرتے ہوئے فراق وفیض پرآپ کے موقف کی مذمت نہیں کرسکتاتھا اور آخرمیں خلیل مامون کی ایک نہایت ہی ہتک آمیزاوراستہزائی نظم’ایک نقادکی موت‘ کے کچھ بند بھی نہیں پیش کرسکتاتھا،پھرمیں کیاکرتا، بیان بازی کرنی آتی نہیں،مجھے توصرف لکھناآتاہے(حالانکہ اس پربھی مجھے شک ہے)،سومیں نے لکھناشروع کردیا،لکھتاچلاگیا،لکھتے لکھتے آپ کی چیزوں کوسمیٹنابھی شروع کردیا،آپ کے ڈھیروں برقی خطوط چھانتاپھٹکتارہا،آپ کے دوستوں کے تاثرات جاننے کی کوشش کرتارہا،آپ کے متروکہ اثاثے کی تلاش میں دھول پھانکتارہا،غرضیکہ اس وقت تک خود کومصروف رکھاجب تک اس لحدسے باہر نہ آ گیا۔ اب میں خود کوکم سے کم اس لائق سمجھ رہاہوں کہ آپ کوتعزیت پیش کرسکوں۔آپ ہمیشہ تاکید کرتے تھے کہ نمبرنکالنے کی‘اثبات‘ کو ضرو رت نہیں ہے،لہٰذا زیرنظرکتاب ’فاروقی نمبر‘ ہرگزنہیں ہے جوآپ کی زندگی میں کئی ادبی جریدوں نے نکالے اورامید ہے کہ آپ کے یہاں سے رخصت ہونے کے بعدمزیدکئی نکلیں گے۔اسے آپ زیادہ سے زیادہ الوداعیہ کہہ سکتے ہیں لیکن اس لفظ کودوہراتے ہوئے بھی کلیجہ منہ کو آتاہے۔جوبھی ہے،جیسابھی ہے،آپ کی نذرہے۔اسے قبول کریں۔“
کسی نے اپنے محبوب کوایساالوداعیہ کب پیش کیاہوگا۔یہ اعزازبھی اشعرنجمی صاحب کوحاصل ہوا۔وہ شمس الرحمٰن فاروقی صاحب کے تراجم بھی یکجاکرنے پرکام کررہے ہیں۔اس طرح فاروقی صاحب کاکافی کام یکجاہوجائے گا۔
کتاب کاباقاعدہ آغازعین تابش کی خوبصورت نظم سے کیاگیاہے۔جس کاپس منظربیان کرتے ہوئے بتایاگیاہے۔”ساہتیہ اکیڈمی کی جانب سے محترم شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم کی یادمیں منعقدکی گئی آن لائن تعزیتی نشست میں محترم گوپی چندنارنگ نے خلیل مامون کی نظم”ایک ناقدکی موت“ سنائی جس کے پہلے مصرعے’خدا مرگیاہے‘ کے انتہائی سخت استہزائی اندازبلکہ پوری نظم کے نہایت سفاکانہ لہجے نے پریشان کیا۔اس نظم کاپس منظریہی ہے۔“
خدانہیں تھاوہ آدمی تھا/ تمام ترفکروجذبہ وآگہی میں /لفظوں کی رفعتوں میں / خیال کی ندرتوں بصیرت کی روشنی میں /وہ آدمی تھا/ حروف والفا ظ رنگ ونغمہ/ خداکی جانب سے / اس پہ نازل ہوئے تھے/وہ صرف آدمی تھا/وفا،انااورخطاکاپتلا/ جوروزاول سے/ دردوداغ وعذاب صد جستجوکامارا/ہزارتھکتاہے تھک کے گرتاہے/ پھرنئے خواب کی طلب میں /ہزاررستے تلاش کرتاہے/ ترک کرتاہے/ یہ راستوں کی تلاش ہی تو / وہ نقطہ ء امتیازمعیارآگہی ہے/ کہ اچھے اچھوں کا/ سانس اکھڑتادم نکلتاہے/ یہ سمجھ لو/ خدانہیں تھاوہ آدمی تھا/ کہ دل کی دنیا/ کہ ذہن کی مملکت پہ/ قبضہ ہے بس خداکا/اسی خدانے توآدمی کوعطاکیاہے وہ/ شرف وعزت/ کہ تم خدااس کوکہہ رہے ہو/ خدانہیں تھاوہ آدمی تھا/ خدا کی جانب سے سارارتبہ/ تمام ترقدرومنزلت ہے/یہ منزلت اب کسے ملے/ کس کومل نہ پائے/یہ فیصلہ ہوچکاہے/ ہم سرپٹخ کے کیوں جان دے رہے ہیں
بہت عمدہ نظم میں فاروقی صاحب کوشاندارخراج تحسین اورمامون خلیل کومنہ توڑجواب دیاگیاہے۔عین تابش کی کی غزل ”الوداع“ ہی اس کتاب کااختتامیہ ہے۔
ہمت شکن ہے ہجر کا اعلان الوداع اے جان علم و دانش و وجدان الوداع
یاشعرغم زدہ ہوا یا شور تھم گیا اجڑا پڑا ہے میر کا دیوان الودا ع
جاؤ کہ اب الٹ گئی اس بزم کی بساط ملک عدم کا ہونا ہے مہمان الوداع
سورج تھے اب کے چاندسرآسماں ہوئے یہ مرتبہ ہے شان کے شایان الوداع
تم ہی خرد کی جان تھے تم ہی جنون کی شان سب ہیں اداس شہر و بیابان الوداع
کتاب کادوسراباب”افکارفاروقی“ ہے۔کتاب کے ہرباب کی طرح اس کاتعارف اشعرنجمی نے کچھ یوں کرایاہے۔”فاروقی صاحب کے افکارسے ہم سب کم وبیش واقف ہیں۔پچھہترکتابوں کے اس مصنف کی بیشترکتابیں تنقیدوتحقیق ہی سے تعلق رکھتی ہیں،اس کے علاوہ ’شب خون‘ کے ہزاروں صفحات نے نہ صرف ان کے نظریاتی موقف کوکافی پہلے مستحکم کردیاتھا بلکہ ہم فاروقی صاحب کوانھی حوالوں سے جانتے ہیں۔لیکن انٹرنیٹ اورسوشل میڈیاکی جلدبازنسل جو’امیڈیٹ ریسپانس‘ پرایمان رکھتی ہے،وہ مطالعے کاجوکھم اٹھانے پرکچھ زیادہ یقین نہیں کرتی۔نتیجتاً فاروقی کے نظریاتی موقف کے تعلق سے بہت ساری ایسی غلط فہمیوں نے ناپختہ ذہنوں میں رین بسیراکرلیاہے جن کا تدارک کوئی تیسرا شخص نہیں بلکہ صرف فاروقی ہی کرسکتے ہیں۔لہٰذا تقریباً وہ تمام موضوعات جن سے فاروقی صاحب کی نظریاتی شناخت وابستہ ہے،ان کاایک انتخاب زیرنظرباب میں پیش کیاگیاہے۔ان کی یہ گفتگورسمی نہیں اورنہ ان کی شائع شدہ ڈھیروں کتابوں پرمشتمل ہے بلکہ پچاسوں انٹرویوزمیں سے منتخب ومرتب کیاگیاہے،فاروقی صاحب کے یہ انٹرویوزان کی شائع شدہ کتابوں اوران کے نظریات کاایک خلاصہ ہے،جوشخص فاروقی صاحب کے نظریات اورتحفظات کوجانناچاہتاہے،اس کیلیے یہ انتخاب ضروری ہوگااورشایداس انتخاب سے وہ اس اجمال کی تفصیل جاننے کے لیے ان کی کتابیں بھی پڑھ ڈالے۔“
ستترصفحات پرمحیط اس باب کے اہم انٹرویوزمیں ”ایک شخص باتیں ہزار“،”جدیدیت“،”ادب برائے زندگی اورادب برائے ادب“،”جد یدادب“،”ادب کے ادبی اورغیرادبی معیار“،”نظیراکبرآبادی،فراق گورکھپوری،فیض احمدفیض،احمدمشتاق“،”ہندوستان میں اردوکامسئلہ“ اور”فاروقی کاارتقا“ بہت اہم،خیال افروزاورمعلومات افزاہیں۔
”مذاکراتِ فاروقی“کے بارے میں اشعرنجمی کہتے ہیں۔”فاروقی صاحب نے ہندوپاک کے علاوہ دنیابھرکے تعلیمی اداروں اوردیگراردو اداروں میں کسی نہ کسی موضوع پرخطبے پیش کیے،میری خواہش تھی کہ ہندوستان اورپاکستان اوردیگرممالک میں پیش کردہ ان خطبات کومرتب کرکے اسی کتاب میں پیش کردوں لیکن وسائل اوروقت کی تنگی نے میرے ہاتھ پکڑلیے۔اس کمی کاازالہ میں نے فاروقی صاحب کے تحریری مذاکرات اوردوستوں کے درمیان ہونے والی گفتگوسے پوراکرنے کی کوشش کی ہے۔اس میں شامل ’کئی چاندتھے سرآسماں‘ کے تعلق سے محمود الحسن کاانٹرویوخاصے کی چیزہے،جس سے اس شہرہ آفاق ناول کے کئی گوشے روشن ہوتے ہیں۔“
اس باب میں ”اخترالایمان اورنظم کاقاری“،”اشتراکی دنیامیں تبدیلیاں“،”تفہیم اقبال“،”تفہیم انیس“،”نثری نظم،ایک بحث“،”فکشن کی سچائیاں“ اورشمس الرحمٰن فاروقی سے محمودالحسن کاانٹرویوشامل ہیں۔جن کے عنوان سے ہی موضوعات کی اہمیت واضح ہے۔
”وہ جوچاند تھاسرآسماں“ کاایک بہت اہم اورقابل قدرباب ”شذرات فاروقی“ ہے۔جس کے تعارف میں اشعرنجمی لکھتے ہیں۔”شب خون کے ہرشمارے میں ایک صفحہ’سوانحی گوشے‘ کے عنوان سے مخصوص ہواکرتاتھا۔لیکن یہ گوشہ رسمی نہیں تھا،سوانح کے نام پرکسی عالمی شہرت یافتہ ادیب یافن کارکے بائیوڈیٹاکے بجائے اس کی زندگی کے کسی ایسے پہلوپرروشنی ڈالی جاتی تھی جوعموماً عام لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوتی تھی۔اگرچہ یہ گوشے معلوماتی ہی ہواکرتے تھے لیکن یہ نرے معلوماتی نہ ہوکرکسی قدرآگہیء حیات وفن سے ہمیں متعارف بھی کراتے تھے۔ایسے سوانحی گوشوں کی تعدادسینکڑوں ہے لیکن تنگی صفحات کے سبب میں ان کاایک نہایت ہی مختصرساانتخاب پیش کرنے پرمجبورہوں تاکہ فاروقی صاحب کے دائرہ کارکی ایک اورجہت نئی نسل پرروشن ہوسکے۔
اس باب میں جوسوانحی گوشے شامل ہیں۔ان میں ”برنارڈشااوربرٹش میوزیم“،”پکاسواورمائنطور“،”ٹی ایس ایلیٹ کی سخاوت“،”جان رسکن کی شادی اورعشق“،”امیراللہ تسلیم،ایک پیسہ روز“،”ٹینی سن کے آخری دن“،”بودلیئرکالمحہء مسرت“،”پول سیزان کادیہاتی انداز“، ”جارج آرویل کی مالکہ ء مکان“،”ہیوم کالمحہء آخریں“،”ڈانٹے کی آخری آرام گاہ“،”ڈکنس کی زندگی میں اہم عورتیں“،”پریمولیوی کی پیچیدہ زندگی“،”بوعلی سینااورعرض عمر“،”مولاناروم کی ہوائی سیر“،”ماہ لقاچنداکی شان اوربدیہہ گوئی“اور”قرۃ العین حیدرکی یادمیں“ شامل ہیں۔ان سوانحی گوشوں کوپڑھ کرقاری کے سامنے فاروقی صاحب کاایک اوررخ آتاہے۔اشعرنجمی صاحب سے درخواست ہے کہ ان مختصرمضامین کامجموعہ بھی مرتب کریں۔جس سے شمس الرحمٰن فاروقی کااہم کام سامنے آئے گا۔
”باقیات فاروقی“کی تعارفی سطورمیں اشعرنجمی لکھتے ہیں۔”فاروقی صاحب کی وہ تمام نگارشات(فکشن) جوکبھی ’شب خون‘ میں ان کے فرضی ناموں،مثلاً بینی مادھورسوا،شہرزاد، جاویدجمیل وغیرہ جیسے قلمی ناموں سے شائع ہوئی تھیں،ان میں سے بیشتر’سواراوردیگرافسانے‘ میں شمس الرحمٰن فاروقی کے نام سے شامل ہیں۔لیکن جب میں نے ’شب خون‘ کے پرانے شمارے دیکھے تواحساس ہواکہ فاروقی صاحب نے کچھ افسانے بوجوہ اپنے اس مجموعے میں شامل نہیں کیے۔کوئی حیرت کی بات نہیں اگرفاروقی صاحب کے سخت معیارپران کے اپنے افسانے شریک مجموعہ ہونے میں پورے نہ اترے ہوں۔وہ تمام افسانے اس باب میں شامل کرلیے گئے ہیں۔ان کے علاوہ’فانی باقی‘کے عنوان سے انھوں نے جوافسانہ رقم کیاتھا،وہ شایدان کاآخری افسانہ تھا،جو’رہروان ادب‘ کولکاتہ میں شائع ہوا۔اس افسانے کوبہت لوگو ں نے ابھی پڑھانہیں ہے،سواسے بھی شریک اشاعت کرلیاہے۔“اس باب میں فاروقی صاحب کی چار”فانی باقی“،”دریائے خواب“،”شیطانی پوجاکی ایک رات“ اور”ہرایک راہروکے ساتھ“پیش کی گئی ہیں۔
کتاب کااگلاباب”بازیافت فاروقی“ ہے۔جس کے بارے میں اشعرنجمی نے بتایا۔”فاروقی صاحب اپنی ایک خودنوشت میں لکھتے ہیں کہ میں نے 1950ء میں اپنی پہلی طویل تحریرلکھی تھی اوراسے ناولٹ قراردیاتھا۔اس وقت میری عمرچودہ پندرہ سال ہوگی۔میں انٹرکے پہلے سال میں پڑھتاتھا۔ان دنوں میرٹھ سے ایک رسالہ ’معیار‘ ہم لوگوں میں بہت مقبول تھاکیوں کہ اس میں اسلامی رنگ کے ساتھ عالمی ادبی رنگ بھی تھا۔اتفاق سے فاروقی صاحب کے رفیق خاص اورمعروف شاعرابراراعظمی مرحوم نے ان کی بیاض یاڈائری ہتھیالی تھی یا فارو قی صاحب نے اسے بے ضرر سمجھ کرانھیں سونپ دیاتھا۔ابراراعظمی نے ننھے شمس الرحمٰن فاروقی کی ان نگارشات کو’بازیافت فاروقی‘ کے نام سے کتابی شکل دے دی۔لیکن خاطرخواہ تشہیراورڈسٹری بیوشن نہ ہونے کے سبب یہ کتاب تقریباً محجوب رہی۔آپ ان نگارشات کوپڑھیں تو ممکن ہے کہ مایوسی ہوچونکہ آپ کے لاشعورمیں ”کئی چاندتھے سرآسماں‘ کامصنف ہوگالیکن اگرآپ اپنی توقعات چودہ پندرہ سال کے بچے کی کاوشات سے وابستہ کریں گے توآپ کواس محاورے پریقین لانا ہی ہوگاکہ ’پوت کے پاؤں پالنے میں نظرآجاتے ہیں۔‘ اس عمرمیں زبا ن وبیان پرقدرت،ذخیرہ الفاظ،تخیل آفرینی اورمطالعے کی ایسی دھن شاذہی نظرآتی ہے۔“
اس باب میں شمس الرحمٰن فاروقی کاایک ناولٹ”دلدل سے باہر“ ایک افسانہ”مفلوج عقلیں“ دوتراجم،ایک ابتدائی غزل اور’خطوط ونکات‘ کے زیرعنوان قلمی نام شمسی فاروقی سے مدیرمعیارکے نام ایک خط شامل ہے۔جسے پڑھ کراندازہ ہوتاہے کہ بیس سال کی عمرمیں ان کامطالعہ اورتنقیدی تیورکس درجے پرتھے۔
”وہ جوچاندتھاسرآسماں“ کے ابتدائی ساڑھے چارسوصفحات میں تمام ترمواد شمس الرحمٰن فاروقی کے اپنے قلم یاخیالات پرمبنی ہے۔ ”نذر فاروقی“ میں دنیابھرکے احباب کی جانب سے مرحوم کوخراجِ تحسین پیش کیاگیاہے۔”شمس الرحمٰن فاروقی کااس طرح جانایقینا دنیائے ادب خصوصاً اردودنیاکے لیے خسارہء عظیم ہے۔مختلف اخباروں،رسائل،نیوزپورٹل اورسوشل میڈیامیں اردوزبان و ادب سے وابستہ بیشترقلم کاروں نے انھیں خراج عقیدت پیش کیاہے۔اس باب میں کچھ ایسے معاصرادیبوں کے تاثرات شامل کیے گئے ہیں جوفاروقی صاحب سے کسی نہ کسی حوالے سے وابستہ رہے ہیں،ان کے ساتھ کام کیاہے،ان کے ساتھ وقت گزاراہے یاان کے ساتھ خط وکتابت کی ہے،تاکہ فاروقی صاحب کے کچھ شخصی گوشے ہم پرظاہرہوسکیں۔سب سے پہلے بزرگ شاعرظفراقبال کی نظم”یہی چاندتھاسر آسماں“ محمدسلیم الرحمٰن،صدیق عالم،ان کی صاحبزادی مہرافشاں فاروقی،خالدجاوید،احمدمحفوظ،علی اکبرناطق، محمدحمیدشاہد،اطہرفاروقی، ان کے داماد رچرڈ کوہن،شہنازنبی اورتالیف حیدرکے تاثراتی مضامین شامل ہیں۔کتاب کاآخری باب اشعرنجمی کاطویل تاثراتی اوررپور تاژ نمامضمون ”یہ لوح مزارتومیری ہے“ فاروقی صاحب کے ایک شعرہی سے مستعارہے۔یہ مضمون بذات خود ایک الگ کتاب اورالگ تبصرے کاحقدارہے۔جوبشرط زندگی جلدپیش کیاجائے گا۔
مجموعی طور پراشعرنجمی کی مرتبہ کتاب”وہ جوچاندتھاسرآسماں،بیادِشمس الرحمٰن فاروقی“ مرحوم کے ایک حقیقی مداح کی ان سے عقیدت کی داستانِ ہے۔جسے پڑھ کرفاروقی صاحب کی نوجوانی سے لے کروفات تک کی تمام زندگی اوران کے کارہائے نمایاں قارئین کے سامنے آجاتے ہیں۔شمس الرحمٰن فاروقی مرحوم کی عظمت کو سلامِ جنہیں اشعرنجمی جیسے عقیدت مندمیسرہیں۔جس کے باعث دنیائے ادب میں فاروقی صاحب کانام ہمیشہ جگمگاتارہے گا۔کتاب کی ترتیب کے لیے اشعرنجمی کوبھرپورمبارک باد پیش ہے۔