محمدعثمان جامعی سینئرصحافی،بلاگر،مزاح نگاراورشاعرہیں۔وہ 1973ء میں میرپورخاص میں پیداہوئے،ابتدائی زندگی میرپورمیں ہی گزری،جامعہ کراچی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرزکیا۔کئی اخبارات کے میگزین ایڈیٹررہے ہیں۔ان کے طنزومزاح سے بھرپورمضامین قارئین کی داد حاصل کرتے رہے ہیں۔انکے تخلیقی سفرمیں سندھ،بالخصوص شہرکراچی کے المیوں کادردمندانہ اظہارملتاہے۔اپنے تین عشروں پرمحیط صحافتی سفرمیں وہ کئی اہم اخبارات ورسائل سے وابستہ رہے۔میگزین صحافت میں انھوں نے نئے نئے رحجانات متعارف کرائے۔شاعری ان کامستندحوالہ ہے۔انکے شعری مجموعہ”میں بس ایک دیوار“کوناقدین اورقارئین کی جانب سے بھرپورپذیرائی حاصل ہوئی۔ بطورمزاح نگاران کے فکاہیہ مضامین کامجموعہ”کہے بغیر“ کے نام سے شائع ہوا اورعرصہ سے نایاب ہے۔ا س کے ساتھ وہ کہانیوں کی صورت بھی اپنی تخلیقی صلاحیتوں کااظہارکرتے رہے ہیں۔فکاہیہ کالموں میں ان کامخصوص اسلوب الگ ہی دکھائی دیتاہے۔وہ معمولی سی تحریف سے بات کو کہیں سے کہیں پہنچانے کے ماہرہیں۔جیسے ’وفاقی وزیرقلت ِ آب اوربندبجلی‘کی دلچسپ اصطلاح انہوں نے پیش کی۔ دلچسپ اور گہری معنویت سے بھرپوربلاگ بھی ان کی پہچان ہیں۔ان کے اسلوب کے دونمونے پیش ہیں۔
”الطا ف بھائی کی جگہ کوئی لے سکتاہے تووہ پرویزمشرف ہیں۔دونوں کوموسیقی سے رغبت ہے،ایک کوگانے اورناچنے کاشوق اوردوسراطبلہ بجائے کاشائق،یہ ہوسکتاتھاکہ،دونوں ’بھائی جوڑی‘ بنالیتے اورمشترکہ قیادت میں موسیقی قومی موومنٹ بناڈالتے۔“
”مردانہ قوت اورتیسری قوت کاہمارے ملک میں بہت شوررہتاہے۔مردانہ قوت کے اشتہارات سے دیواریں سیاہ ہیں توتیسری قوت کے نعرے کی سرخی اخبارات میں نظرآتی ہے۔طاہرالقادری اپنی پاکستان عوامی تحریک کوتیسری قوت قراردیتے رہے پھرنہ تین میں رہے نہ تیرہ میں۔“
کس سہولت سے عثمان جامعی نے چند جملوں میں اپنی بات بیان کردی۔وہ ایک دردمنددل رکھنے والے شاعرہیں۔مختلف قومی معاملات پر ان کی نظمیں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں۔ان کاشعری مجموعہ ”میں بس اک دیوار“ شائع ہوچکاہے۔جس میں ”لفظ مرتے نہیں“،”خط“،”کیابتائیں اب تم کو“،”کراچی توزندہ رہے گا“،”اے مری جان سنو“،”نیاپاکستان“گم شدہ بیٹے کے متلاشی بلوچ باپ سے“،”آس“،”پھربٹوارا؟“،”میرے بچوں کاکوئی سہارانہیں“،”سانحوں کے بعد“،”اپنے لیے توبس ایدھی تھا“،”رات جن کے لیے سوتیلی ماں“،”اے گھرسے نکلنے والو“،”منڈی“ اور”میرے لفظ“جیسی نظمیں اورکئی غزلیں قاری کے احساس کوجھنجھوڑکررکھ دیتی ہیں۔نظم ”تمہاراشکریہ‘‘ میں کروناکے دورمیں طبی خدمات پیش کرنے والوں کے لیے ان کی دردمندی عیاں ہے۔ملاحظہ کریں۔
تمہاراشکریہ/اے زندگی کے ساتھیو! /حیات کے سپاہیو/وباسے لڑتے دوستو/نجات کے سپاہیو/ہواکی زدپہ آئے،وہ/ دیے بچارہے ہوتم/ اندھیراپھیلتاہے اور/ چراغ لارہے ہوتم/ ہے بڑھتی آگ ہرطرف/ جسے بجھارہے ہوتم/ ہتھیلی پردھری ہے جاں / ڈرے بنا،رواں دواں / یہ جذبہ کتناپاک ہے/ ہوجیسے صبح کی اذاں / یہ ولولے،یہ حوصلے/ کبھی نہ ہوں گے رائیگاں / صداہرایک دل سے ہے اٹھی/ تمہاراشکریہ/ سبھی لبوں پہ ورد ہے یہی/تمہاراشکریہ/ پکارتی گلی گلی/ تمہاراشکریہ/ تمہی سے توہے فخرِآدمی/ یہ کہہ رہی ہے آنکھ کی نمی/ تمہاراشکریہ۔
محمدعثمان جامعی نے ناول نگاری کی طرف رُخ کیاتوان کے قلم نے اردوادب کو ”سرسید،سینتالیس،سیکٹرانچارج“ جیسامنفردناول دیا۔جو ویب سائٹ پر”نوشابہ کی ڈائری“ کے نام سے قسط وارشائع ہوا۔بقول عثمان جامعی قسط وارشائع ہونے کی وجہ سے ہی یہ ناول مکمل ہوسکا۔ ناول میں سیاست کاذکرہمیشہ ہوتارہاہے۔لیکن مکمل سیاسی ناول محمودشام نے ”شب بخیر“کے نام سے لکھا۔جس میں پاکستانی سیاست کے معروف کرداروں کواس طرح پیش کیاکہ ہرقاری انہیں پہچان سکتاتھا۔لیکن فتح اعتبارسے یہ کمزورناول ہے۔اشرف شادکے ناولز ”وزیراعظم“،”صدرمملکت“،”جج صاحب“ اور”اینکرپرسن“ سیاسی ہونے کے ساتھ فنی طورپربھی مضبوط ہیں۔کراچی کے مسائل پرآصف فرخی کے افسانوں کے دومجموعے”شہربیتی“ اور”شہرماجرہ“ شائع ہوچکے ہیں۔نجم الحسن رضوی مرحوم کے آخری مجموعہ”بوری میں بندآدمی“
اوران کاپہلاناول”ماروی اورمرجینا“ بھی کراچی کے مسائل اورایم کیوایم دورکے جبرکی کہانی بیان کرتے ہیں۔تاہم محمدعثمان جامعی نے مکمل غیرجانبداری اورمعروضی اندازکے ساتھ فنی طور پر بھی بہت عمدہ ناول تحریرکیاہے۔ناول کی خاص بات یہ ہے۔کراچی کے اس تیس سالہ دورکوایک سولہ سالہ لڑکی کی آنکھ سے دکھایا گیا۔ جو اپنی ڈائری میں ان تمام واقعات کوبیان کررہی ہے۔
معروف فکشن نگاراورصحافی اخلاق احمدکاکہناہے۔”کچھ کام ہمارے کہانی کاروں کے لیے بہت دشواررہے ہیں۔دشواران معنوں میں،کہ معاشرے کی یاان دیکھی طاقتوں کی ناراضی کاخوف ہمہ وقت دامن گیر رہتاہے۔رشتوں کے ٹیبوز،جنس،مذہب،فوج،سیاست اورسیاسی رہنما، مولوی،علیحدگی پسند تحریکیں،ریاستی مظالم،سچی تاریخ۔موضوعات کی ایک طویل فہرست ہے جن کوپاکستانی فکشن میں گویاممنوع قرار دے دیاگیاہے اورہم کہانی کاروں نے خوشی خوشی یہ زنجیرپہن لی ہے۔پر کبھی کبھی،کوئی کہانی کارایساضرور نکل آتاہے جوممنوع سمجھے جانے والے کسی موضوع پرہنستے کھیلتے کچھ لکھ ڈالتاہے اورپڑھنے والوں کوہی نہیں،زنجیربکف لکھاریوں کوبھی حیران کردیتاہے۔محمدعثمان جامعی وہی کہانی کارہیں۔پولیٹکل فکشن پرلکھناآسان کام نہیں ہے۔اورشاید صرف کراچی میں رہنے والے ہی سمجھ سکتے ہیں کہ ایم کیوایم جیسے موضوع پرلکھناکیسامشکل،کیساکٹھن کام رہاہے۔محمدعثمان جامعی کایہ ناول انہی تیس برسوں کی داستان ہے جواس بے مثال شہرکے لیے غارت گری اوراجتماعی نفسیات کی تبدیلی کاپیغام لائے۔روایت ہے کہ ادبی فن پاروں کابہترجائزہ نقاد ہی لے سکتے ہیں۔میں نقادنہیں ہوں،محض ایک کہانی کارہوں۔میں صر ف یہ کہہ سکتاہوں کہ محمدعثمان جامعی نے ایک سیاسی ناول لکھتے ہوئے ناقابل یقین مہارت کے ساتھ ایسی غیرجانبداری برتی ہے،اس خوبی سے پڑھنے والوں پرکوئی نظریہ تھوپنے سے گریزکیاہے،اوراس کمال سے ایک سادہ کہانی پن برقراررکھاہے کہ حیرت ہوتی ہے۔زندگی،فکشن اورسیاست کایہ عجیب وغریب امتزاج بہت دل رباہے اوربہت چشم کشا۔کراچی کی کہانی بیان کرنے کاقرض ہم سب پرہے۔ہم میں سے کچھ لوگوں نے یہ قرض تھوڑا بہت اتارابھی ہے۔مگرمحمدعثمان جامعی نے اپنے حصے کاقرض شایدپورا اداکردیاہے۔“
صحافی اورنثرنگاررانامحمدآصف کہتے ہیں۔”کراچی صرف ایک شہرنہیں،قیامِ پاکستان سے جڑی امیدیں ٹوٹنے بکھرنے اورپھرمستقبل کے خو ش نماخوابوں میں تبدیل ہونے کے دائرہ وارسلسلے کی علامت ہے۔اس شہرکی تاریخ کی ہردہائی ان ہی دائروں میں سفرکرتی ہے اورہردائرہ حلقہ زنجیرکی طرح ایک دوسرے سے جڑاہواہے۔اس ناول کی کہانی 1986ء سے شروع ہوتی ہے لیکن عثمان جامعی نے اس کڑی کواس سلسلے سے الگ نہیں ہونے دیا۔اس لیے جوکراچی کاالمیہ صرف محسوس کرتے ہیں اورسمجھ نہیں پاتے یاجوسمجھنااورمحسوس کرناچاہتے ہیں یہ کہانی ان سبھی کے لیے ہے۔فیض صاحب نے پینسٹھ میں کراچی پرگزری قیامت کے بعد”یہاں سے شہرکودیکھو“ کے شہرمیں کہاتھا۔جورنگ ہردر و دیوارپرپریشاں ہے۔یہاں کچھ نہیں کھلتاکہ ہے یا لہو۔۔یہ کہانی کئی اعتبارسے اس دردکی شرح ہے،حالات وسیاست کے جبرسے خوب و نا خوب کے بدلتے سفاک منظروں کابیان ہے۔کہانی میں کہیں کہیں صحافیانہ اسلوب کانقش گہراضرور ہے لیکن اس سے کہانی میں ابھرتے ڈو بٹے زندہ کردارماند نہیں پڑتے اورمصنف کایہی کمال کیاکم ہے کہ وہ ایک ایسی داستان بیان کرنے میں کامیاب رہاہے جوبیک وقت ہمارے حافظے اوردھڑکن دونوں کوبیدارکررہی ہے۔“
ناول ’تکون کی چوتھی جہت‘ کے مصنف اقبال خورشیدکہتے ہیں۔”کراچی،کہانیوں سے پُرشہرہے،اوراکثرکہانیاں کرب ناک ہیں۔مگرکہانی کارکے لیے فقط کرب بیان کرناکافی نہیں۔قطعی نہیں۔فن کاروہ ہے،جواس کی گہرا ئی میں اترے،اس کے اسباب تک رسائی پائے، بکھرے ہوئے ٹکڑوں کوجوڑے،ان میں احساس کاطلسم پھونکے،اورپھرچابک دستی سے اسے فکشن کردے۔عثمان جامعی نے لہورنگ کراچی کومنظرکرنے کے لیے ماضی میں جست لگائی ہے،وہ سفرکرتاہواتہہ تک پہنچا،اورایک موتی پاگیا۔یہ کہانی کراچی کے کرب کو،سیاسی و سماجی نشیب وفرازکومنظرکرنے کابھرپورعزم ہے۔یوں لگتاہے کہ عثمان جامعی نے یہ ناول لکھ کراس شہرکی سیکڑوں خوابیدہ کہانیوں کو جگا دیا ہے۔کاٹ دارنثرکے حامل ایک حساس شاعرسے ہمیں جس کتاب کی توقع تھی،وہ اب آپ کے ہاتھوں میں ہے۔“
کتاب کاانتساب ہے۔”تاریخ کے نام،جوایک فریب ہے،لگتاہے،ہم اسے بنارہے ہیں،مگروہ ہمیں کچھ سے کچھ بناجاتی ہے۔“
محمدعثمان جامعی ”یہ کس کی کہانی ہے؟؟“ کے عنوان سے پیش لفظ میں لکھتے ہیں۔”شاعری کی،کہانیاں لکھیں،مزاح نگاری کی،مضمون لکھے۔ لیکن ناول لکھنے کاخیال دل میں مچلتارہا۔مجھ جیسے سہل واختصارپسندکے لیے یہ بھاری پتھرتھا،بارہاچوم کے رکھا،آخری ایک دن ٹکڑوں کی صو رت اٹھاہی لیا۔’مہاجر‘ اوراس کراچی کے موضوع پرلکھناجوآج ہمارے سامنے ہے،میری دیرینہ خواہش تھی،کوئی چارسال پہلے ”بھیاجی“ کے زیرعنوان کہانی لکھ کر1986ء سے 2016ء تک پھیلی داستان کی ایک جھلک دکھائی،جس میں اقبال خورشید اوررانامحمدآصف جیسے دو ستوں نے ناول کاامکان تلاش کرلیا۔اپنے دل کے بعد سب سے زیادہ اصرارہم کاررضوان طاہرمبین کاتھا کہ ’ایم کیوایم‘ کے ظہورکے ساتھ جنم لینے والے واقعات اورتبدیلیوں پرکچھ لکھوں۔اس اصرار کاسبب رضوان اوردیگرساتھیوں سے تواترسس ہونے والی گفتگوتھی جس کامحورمہاجرسیاست اورمہاجرقومیت ہواکرتی۔مجھ سے اس موضوع پرلکھنے کی فرمائش ہونے لگتی۔لکھابھی،بلاگز،مختصرتحریروں اورافسانے ’بھیاجی‘ کی صورت میں،لیکن ان سب میں ماضی کے چنددھندلے خاکوں کوچھوڑ کربس حال کی تصاویرتھیں۔کوروناکے باعث لاک ڈاؤن کے دنوں میں اس خیال نے زورپکڑاکہ اس سب کوناول اورناول کوڈائری کی شکل دی جائے۔لکھناشروع کیا،تویادوں نے آگے بڑھ بڑھ کرساتھ دیا،لیکن پھریادوں کاذخیرہ کم پڑتاگیا،سویہ ہوتاکہ جوواقعہ یادآتااس کی تحقیق کے لیے کبھی گوگل کارخ کرتا،کبھی کتابوں میں سرکھپا تا،کبھی دوستوں سے رابطہ کرتا۔سینئرصحافی نادرشاہ عادل سے واقعات کی کھوج کے لیے بارباررجوع کیااورانھوں نے بڑی شفقت سے مدد کی۔ناول کے آخری باب میں دی گئی تجویزکوقابل عمل بنانے کے لیے دوستوں سے راہ نمائی لی۔مقبول ویب سائٹ کے مدیراعلیٰ محترم وجاہت مسعوداورمدیرجناب عدنان خان کاکڑنے ابتدامیں ”نوشابہ کی ڈائری“ کے زیرعنوان ناول کوقسط وارشائع کیا۔وجاہت مسعودجیسے جادوئی نثرلکھنے والے اوردبنگ صحافی کاسراہناتومیرے لیے اعزازہے۔اس ناول میں کئی نازک مقامات ایسے تھے کہ مجھے خدشہ تھاخطر ے کے سائرن بجاتے یہ جملے حذف کردیے جائیں گے یامجھ سے کہاجائے گاکہ انھیں نکال دوں،مگرایک باربھی ایسانہ ہوا۔اکثرپڑھنے والوں نے اس ناول کوتاریخ کہا،میرے نزدیک یہ تاریخ توہے،لیکن صرف واقعات کی نہیں احساسات،جذبات اورخوابوں کی بھی۔ ’نوشابہ کی ڈائری‘ کے نام سے جنم لینے والایہ ناول درحقیقت کس کی کہانی ہے؟ میں خود بھی نہ سمجھ پایا۔یہ ’مہاجر‘ کے نام سے پہچان بنالینے والے لسانی گروہ کی کتھاہے؟ اس گروہ کی شناخت بن جانے والے کراچی کاقصہ؟ یالفظ مہاجرسے طوفان اٹھادینے والی ایم کیوایم کی داستان؟ شایدیہ بس ایک فرد نوشابہ کی کہانی ہے،جوپھیلتی چلی جاتی ہے اوراس کہانی میں مہاجروں،کراچی اورایم کیوایم کی کہانیاں جڑتی چلی جاتی ہیں،یوں پتہ نہیں چلتاکس کہانی کاکون ساحصہ کب دوسرے قصے کاٹکڑابن گیا۔اس ناول میں لاتعدادکردارہیں،حقیقی بھی اورنوشابہ سمیت فرضی بھی،لیکن اس کامرکزی کردارکون ہے؟ نوشابہ؟ مہاجر؟کراچی؟ ایم کیو ایم؟ نہیں نہیں،،ان میں سے کوئی نہیں۔مجھے تولگتاہے اس کہانی کامرکزی کردارخود کہانی ہی ہے۔وہ کہانی جونوشابہ کوکہیں راستے میں ملی،اوراپناسفرکررہی ہے،جانے کس منزل کی طرف۔“
”سرسید،سینتالیس،سیکٹرانچارچ“ کی تقریب اجرا میں سینئرصحافی اورناول نگارانورسن رائے نے کہا۔”یہ ناول مستندتاریخ ہے۔اگریہ تاریخ نہیں تومورخ اس دورکے بارے میں اس سے زیادہ کیالکھ سکتاہے۔“
محمدعثمان جامعی نے تقریب میں کہا۔لوگ پوچھتے ہیں کریدتے ہو اب راکھ جستجوکیاہے۔کیا جواب دیتا، خود نہیں جانتا تھا کہ جستجو کیا ہے۔ شاید میں اپنے ہم وطنوں کو اس کے ایک کھوجانے والے قبیلے کی کہانی سنانا چاہتا تھا۔ جو بہ ظاہر سامنے تھا مگر حقیتاً گم ہوچکا تھاکہ نصاب میں چار ثقافتوں اور سیاست میں چار قومیتوں کے تذکرے میں یہ کہیں نظر نہ آتا تھا۔ پھر اس کا ظہور ہوا مگر ایک ایسی دیوار کے پیچھے جو باہر آہنی دیوار تھی اور اندر دیوارِگریہ۔ میں اس بچھڑجانے والے قبیلے کی قوم سے کہنا چاہتا تھا اس قبیلے پر کیا بیتی، تمھیں کیسے علم ہوتا، اس کے تو اپنے افراد ایک دوسرے سے بے خبر تھے۔ قبیلے کے کسی باپ کو بیٹے کا خون آلود کرتا دکھا کر بتایا جاتا کہ اسے بھیڑیا سموچا نگل گیا، اور اسے سر جھکا کر یہ تسلیم کرنا پڑتا تھا۔ یہ اتنا ڈھیٹ شہر ہے کہ خوف اور قتل وغارت گری کے پوری تین عشرے اس کی آبادی گھٹا سکے، رونق کم کرسکے نہ حوصلے۔ میں نے اس مختصر سے ناول میں ان تین عشروں کو سمیٹنے کی کوشش تو ساتھ ماضی کے وہ قصے بھی سمٹ آئے جن کے بغیر اس کہانی کو سمجھنا ممکن نہیں۔عثمان جامعی نے اس شہرمیں جنم لینے والے سینکڑوں کہانیوں میں سے کچھ پوری تفصیل کے ساتھ پیش کرنے کاارادہ بھی ظاہرکیاہے۔اللہ ان کے ارادے کامیاب کرے۔
ناول”سرسید،سینتالیس،سیکٹرانچارچ“کے چھبیس ابواب ہیں۔جس کاعنوان”بھٹونے قتل کامنصوبہ بنایاتھا“ ہے۔یہ ”نوشابہ کی ڈائری“ کا پہلااندراج ہے،جو8فروری 1986ء کوکیاگیاجبکہ وقفے وقفے سے لکھی جانے والی ڈائری کاآخری صفحہ10ستمبر 2016ء کو”بائیس اگست کی تقریر۔۔اورشہربدل گیا“ کے عنوان سے تحریرکیاگیاہے۔اس طرح ناول کراچی کے تیس برسوں کی داستان بیان کرتاہے۔لڑکیاں عام طورسے خوبصورت استانیوں سے متاثرہوتی ہیں،ان کی نقالی کرتی ہیں اوران کی ہدایات پرعمل کرتی ہیں۔یہی کچھ نوشابہ کی ڈائری لکھنے کاسبب بنا۔”مس نرگس نے آج کلاس میں کہا”لڑکیو!تم ڈائری لکھا کرو“انھوں نے ڈائری لکھنے کے بہت سے فائدے بتائے،مجھ فائدوں سے کیا،مس نرگس نے کہہ دیا یہی کافی ہے۔مجھے اپنے اسکول کی ساری ٹیچرزمیں سب سے اچھی وہی لگتی ہیں،بلکہ لگتاہے ان سے اچھاکوئی ہے ہی نہیں،ہاں بس امی کوچھوڑکر،اورزہرہ باجی کوبھی۔مس نرگس مجھے ایک تواس لیے اچھی لگتی ہیں کہ وہ بہت پیاری سی ہیں۔ بڑی بڑی آنکھیں ریکھاجیسی،گورارنگ،اورآوازاورلہجہ۔لگتاہے خالدہ ریاست بول رہی ہو۔پھروہ دوسری ٹیچرزکی طرح نہیں کہ بس کتاب میں جو ہے وہی پڑھادینا،بات بات پرڈانٹنا،ذراسی غلطی پراسکیل سے ہاتھ لال کردینا۔مس نرگس توہم سے جانے کہاں کہاں کی باتیں کرتی ہیں۔مسکرامسکراکر۔اس پرتوان کی شکایت ہوگئی تھی کہ لڑکیوں سے جمہوریت اوربھٹوکے بارے میں باتیں کرتی ہے، اورصدرضیا الحق کے خلاف بھی۔“
یہ ایک سولہ سالہ لڑکی کی رومانیت ہے۔جواستانی کے کہنے پرڈائری لکھنے لگی۔جسے یہ بھی علم نہیں کہ ڈائری میں کیالکھناہے۔”لو،مس نے کہا تھاکہ ڈائری اس لیے ہوتی ہے اس میں روزکے معمولات اورواقعات لکھے جائیں اورمیں پرانی باتیں لکھنے بیٹھ گئی۔اب روزکے معمولات کیالکھوں؟ وہی صبح اٹھنا،اسکول جانے کی تیاری،پھرتانگے پربیٹھ کراسکول جانا،وہاں بھی سب روزجیسا،واپس آکرسوجانا۔شام کواٹھ کر انتظارکرناکہ پی ٹی وی پرڈرامہ کب آئے گا۔اب یہ ایک جیسی باتیں روز کون لکھے،میں توبس وہی لکھوں گی جومجھے نیالگے گا،اورتب ہی لکھو ں گی جب کچھ نیالگے گا۔“
محمدعثمان جامعی نے کراچی کاوہ تیس سالہ دورایک نوعمرلڑکی کی آنکھ سے دیکھا اوردکھایاگیاہے۔یہ بہت دلچسپ اورپراثراسلوب ہے۔یہ نو عمر لڑکی میرپورکے محلہ دارسعید کوپسند کرتی ہے جس کاہیئراسٹائل اس کے فیورٹ ہیرومتھن چکرورتی جیساہے۔وہ اسکول کے رستے میں کسی بہانے آ کرنوشابہ کوخط تھماجاتا۔اس کی ڈرائنگ بہت اچھی ہے اوروہ خوبصورت دل اورتیربناتاہے۔شعرتوایسے ایسے لکھتاہے۔لیکن کچھ دنوں سعید نے کوئی خط نہیں دیا۔کچھ دنوں بعدنوشابہ نے اسے دیواروں پرنعرے لکھتے دیکھا۔’مہاجروں ایک ہوجاؤ‘،”مہاجروں کے دل کاچین الطا ف حسین الطاف حسین‘،’الطاف کرے گاقیادت پھرراج کرے گامہاجر‘۔کچھ دنوں بعدیہ نعرے شہربھرمیں نظرآنے لگے۔ گھر میں ابواوربھائی کی بحث ہورہی تھی۔’کاہے کا مہاجر،ہم اب سندھی ہیں،بے کارباتیں۔‘’مگرابووہ ہمیں مکڑاورپناہ گیرکہتے ہیں،ہماری کوئی شناخت توہو۔‘ چھوٹے چھوٹے جملوں اور پیراگرف میں بدلتی ہوئی صورت حال کوعمدگی سے واضح کیاگیاہے۔ شہاب بھائی نے کراچی جاتے ہوئے ابوسے کہا۔خالوجان مہاجرو ں کے لیے کراچی ہی محفوظ ہے یہاں توپتہ نہیں کب کیاہوجائے۔ابونے جواب دیاتھا۔ بیٹا دعا ہے کہ کم ازکم کراچی میں مہاجرحفاظت سے رہیں۔مجھے تووہ منظریادہے جب ایوب خان کابیٹاجلوس لے کرکراچی والوں کوسزادینے نکلاتھا۔فاطمہ جناح کوووٹ دینے کی سزا۔
نوشابہ لکھتی ہے۔”مجھے پہلی بارتب احساس ہواتھاکہ ہم مہاجرہیں جب پچھلے سال کراچی میں ایک لڑکی بشریٰ زیدی ٹریفک حادثے میں ہلا ک ہوگئی تھی۔ابونے بتایاتھاکہ کراچی میں مہاجرپٹھان فسادات ہورہے ہیں کیونکہ پٹھان بس ڈرائیورنے مہاجرلڑکی کوبس کے نیچے کچل دیا۔ پچھلی بارخالہ کے گھرکراچی گئے توخالونے بتایاکہ وہ ڈرائیورپٹھان نہیں تھا اوران فسادات میں بہت سے پٹھانوں کوماردیاگیا۔پہلے نہ پتا تھانہ سوچتے تھے کہ کون کیاہے۔گھرمیں شہاب بھائی خالہ سے کہہ رہے تھے۔خالہ!الطاف بھائی صحیح کہتے ہیں مہاجروں کوٹی وی فریج بیچ کر اسلحہ خریدناہوگا۔شہاب بھائی اوربھائی جان رات کوبیٹھے یہی باتیں کرتے رہے۔’ٹی ٹی کتنے تک آجائے گی،ماؤزرکتنے میں پڑے گا،کلا شنکوف لیں یاچھوٹاسامان۔‘ اب تو مجھے بھی ان ہتھیاروں کے نام پتاچل گئے ہیں،ہرجگہ یہی باتیں جوہورہی ہیں۔پہلے ہمارے ہاں فریج، گاڑی،گھرلینے کی باتیں ہوتی تھیں،بقرعیدکوبُغدابھی کسی کے گھرسے آتاتھااوراب کلاشنکوف اورٹی ٹی خریدنے کاذکرہوتاہے۔“
کراچی میں علی گڑھ،قصبہ کالونی اوراورنگی ٹاؤن کے دوسرے کئی علاقوں پرحملے کے بعدتوحالات اورخراب ہوگئے۔ابوکے علاوہ سب پٹھا نوں کاذکرنفرت سے کرتے ہیں۔ابونے بتایا۔”جب بہارمیں مسلمانوں کاقتل عام ہورہاتھاتوانھیں بچانے کوئی اردوبولنے والایامسلم لیگی راہ نماآگے نہیں بڑھا۔ایک پٹھان لیڈرعبدالغفارخان اس وقت بہارپہنچا۔وہ بھرے گھربارچھوڑکرکیمپوں میں پناہ لینے والے بہاری مسلما نوں کوگاڑی میں ہندوآبادیوں میں واقع ان کے گھرلے جاتا،جہاں وہ اپناسامان لیتے اورعبدالغفارخان کے ساتھ ہی واپس آجاتے۔ پھر اس نے بے گھرہوجانے والے مسلمانوں کوبہ حفاظت بنگال پہنچانے کاانتظام کیا۔وہ کئی ماہ بہارمیں اپنی جان خطرے میں ڈالے وہاں کے مظلوم مسلمانوں کی خدمت میں جتارہا۔’وہی عبدالغفارخان جنھیں غدارکہاجاتاہے۔‘میرے سوال پرابوکاجواب تھا۔ہاں وہی۔“
معاشرہ کیسے تبدیل ہورہاتھا اوربزرگوں کااحترام ختم ہوتاجارہاتھا۔اس کے لیے یہ مختصراقتباس۔”میری دوست نبیلہ بتارہی تھی کہ اس کے ابو نے الطاف حسین کوکچھ کہہ دیاتواس کابھائی اکڑکرکھڑاہوگیاتھاکہ ابا! مجھے کچھ بھی کہہ لیں آئندہ الطاف بھائی کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بولیے گا۔نبیلہ بتارہی تھی اباکی آنکھوں میں آنسوآگئے تھے۔سن کرکتنادکھ ہوا۔“
ناول کے چندابواب کے ناموں سے بھی بخوبی اندازہ کیاجاسکتاہے کہ کہانی کیارُخ اختیارکررہی ہے۔جیسے”وہ کسی اسامہ نام کے مجاہدسے بہت متاثرہوا“،”انھیں چوبیس گھنٹے کاٹائم ملابدلہ لینے کے لیے“،”الطاف حسین کوپیرصاحب کہاجانے لگاہے“،”دونوں نے ایک دوسرے کے اغواشدہ کار کنوں کاآپس میں تبادلہ کیا“،”ایم کیوایم والے کہہ رہے ہیں فائنل راؤنڈہوناہے،آخری لڑائی“،”جوقائدکاغدارہے وہ موت کاحقدار ہے“،”کراچی پرایم کیوایم حقیقی کاراج قائم ہوچکاہے“،”کھجی گراؤنڈفتح ہوگیا۔ایم کیوایم جنگ ہاررہی ہے“،”چیرا۔ ماورائے عدالت اقدامات عدالتوں تک جاپہنچے۔اسلحہ دفن ہونے لگا“اور”حکیم سعیدشہید۔سندھ میں گورنرراج۔مہاجرلفظ متحدہ سے تبدیل“
نوشابہ کی ذیشان سے شادی کے بعداپنے بچے کانام رکھنے کاموقع آیاتوانتخاب مشکل ہوگیا۔”پہلی باراندازہ ہواکہ نام بھی اپنے ماضی،تہذ یب،عقیدے اورنظریے کے اظہاراوراس سے جڑے رہنے کاذریعہ ہوتاہے۔بھائی جان کہہ رہے تھے نام ٹیپو،جوہر،غالب یاخسرو رکھو، پھوپھاکااصرارتھاخالص اسلامی نام ہو جیسے فیض اللہ،نورِاسلام۔سسرکے سپاہ صحابہ والے دوست کی تجویزتھی معاویہ،دوگھرچھوڑکررہنے والے باقررضوی کی بیگم نے نام حیدریاجعفررکھنے کی صلاح دی۔ذیشان کے دعوت اسلامی والے ماموں عطالمصطفیٰ اورغلام دستگیرپرمصر تھے۔آخر نوشاد چچاکام آئے،ہمیں مقامی نام اپناناچاہیے،یہ عمل قربت کاسبب بنے گا،پھرکہنے لگے،سچل،پنھل،بچل اورسارنگ کتنے خوبصورت نام ہیں۔سارنگ نام میں مجھے دمکتے نظرآئے اورپھرہمارے ننھے مہمان کاکے برتھ سرٹیفیکیٹ پرسارنگ ذیشان کا نام جگمگارہاتھا۔پھرذیشان جیساپڑھالکھااورامن پسند انسان بھی گھرپرچھاپے اوراس صدمے سے ماں کے مرنے کے بعدقاتل بن گیا۔یہ المناک کہانی ہے۔ناول کااختتامیہ باب ”بائیس اگست کی تقریر۔اورشہربدل گیا“قدرے طویل ہے۔جسے ایک مثبت پیغام کے ساتھ اختتام پذیرکیاگیا ہے۔
مجموعی طور پر”سرسید،سینتالیس،سیکٹرانچارج“ اردوکاایک انتہائی منفرداورحقیقی واقعات پرمبنی ناول ہے جومحض صحافتی بیان بازی پرمبنی نہیں بلکہ فنی اعتبارسے بھی بہت مضبوط اوردلچسپ ہے اورکراچی کی تیس سالہ تاریخ اس میں شانداراندازمیں پیش کی گئی ہے۔محمدعثمان جامعی کے وعدے کے مطابق کراچی کی سینکڑوں کہانیوں میں سے مزیدچندکاقارئین کوانتظاررہے گا۔