علی گڑھ تحریک بجاطور پرقیامِ پاکستان کی بنیادہے۔سرسیداحمدخان نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے مسلمانوں کوجدیدعلوم وفنون کی جانب راغب کیا۔اورتعلیم سے بیگانے مسلمانوں کے علم حاصل کرنے سے ہی قیامِ پاکستان کی راہ ہموارہوئی۔علی گڑھ کالج اورمسلم یونیورسٹی کے قیام کے لیے سرسیداحمدخان نے بے مثال کرداراداکیا۔برصغیرکے ہرشعبہ زندگی کے اہم ترین افرادنے اسی ادارے سے تعلیم حاصل کی۔ جن میں سرراس مسعود،محمدعلی جوہر،شوکت علی،لیاقت علی خان،سردارعبدالرب نشتر،ڈاکٹرذاکرحسین،خان بدالغفارخان،شیخ عبداللہ،پاکستان کے پہلے فوجی حکمراں فیلڈ مارشل ایوب خان،ضیاالدین، محمدحامدانصاری،ظفرعلی خان،خواجہ ناظم الدین، محمدحامدانصاری اوربے شمارادیب وشاعراس تعلیمی ادارے سے وابستہ رہے۔ علی گڑھ یونیورسٹی کے سابق طالب علم اپنے نام کے ساتھ علیگ کالاحقہ فخریہ لگاتے ہیں۔ہم جیسے افرادکے لیے بھی جن کاعلی گڑھ یونیورسٹی سے دورکابھی تعلق نہیں۔یہ ادارہ ایک افسانوی حیثیت رکھتاہے۔مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے بے شمار مشاہیرنے علی گڑھ کی یادوں کوکتابوں کاموضوع بیایاہے، یااپنی خودنوشت کتب میں علی گڑھ کے دورِطالب علمی کابھرپورذکرکیاہے۔ان کتابوں کامطالعہ ہمیشہ دلچسپ ثابت ہواہے۔اسی لیے علی گڑھ یونیورسٹی سے متعلق بے شمار کتابیں اورمضامین لکھے جاتے رہے ہیں۔
اردوکے صاحب ِ اسلوب ادیب اوردانشورمختارمسعودکے والدشیخ عطااللہ علی گڑھ یونیورسٹی میں استادتھے۔مختارمسعود کابچپن ہی علی گڑھ میں گزرا۔اسی لیے وہ پیدائشی علیگ ہیں۔علی گڑھ یونیورسٹی اورسرسیداحمدکی شخصیت اورکارناموں کوتحریرکرنے کاحق ان سے بہترکوئی ادانہیں کر سکتا۔جومختارمسعودنے اپنی آخری کتاب”حرفِ شوق“ میں بخوبی اداکیاہے۔کتاب کے چارابواب ہیں۔جن میں پہلا”ماضی کے ساتھ ایک نشست“ اوردوسراباب ”سرسیدکون تھے؟“ ہیں۔تیسراباب”باعث تحریر“ مختارمسعود کی آپ بیتی ہے۔جبکہ چوتھے باب میں انہوں نے کتاب ”جواب دوست“ کاجواب دیاہے۔پہلے دوابواب میں علی گڑھ کالج کے قیام کی تاریخ،وہاں تدریسی عمل،علی گڑھ تحریک کے بانی کی شخصیت،کالج کے قیام کے لیے ان کی انتھک جدوجہداوران کی تحریک کے دوررس اثرات کاتفصیلی اوربہترین ذکرکیاہے۔یہ بلاشبہ علی گڑھ یونیورسٹی اوراس کے بانی کے بارے میں اردوکی سب سے بہترین تحریرہے۔
راشداشرف نے زندہ کتابیں میں داستانِ علی گڑھ کی دوضخیم جلدیں شائع کی ہیں۔پہلی جلد میں تین آپ بیتیاں محفوظ الحق حقی کی”علی گڑھ کے چارسال“ عبدالمجیدقریشی کی”ذکرِ علی گڑھ“ اوراطہرپرویزکی”علیگڑھ سے علیگڑھ تک“جبکہ دوسری جلد میں سیدمسعود زیدی کی ”علیگڑھ کی یادیں علیگڑھ کی باتیں“ فیاض رفعت کی ”زندگی ہے توکہانی بھی ہوگی“اورسیدمحمدٹونکی کی ”آبگینہ“شامل ہیں۔ان کے علاوہ پانچ سوانحی مضامین اورصالحہ شفیع کاعلی گڑھ کالج کی ناقابلِ فراموش شخصیت پردلچسپ اورمعلوماتی مضمون”کچھ ذکرمسعودٹامی کا“ بھی دیاگیاہے۔ اردوکے پہلے جاسوسی ناول نگارظفرعمرمرحوم کے چارناولوں کامرکزی کردارانہیں مسعودٹامی سے متاثرتھا۔اس بارے میں نیلی چھتری کے مصنف نے اپنی صاحبزادی حمیدہ اخترحسین سے کرتے ہوئے کہاتھا۔”سچ بات تویہ ہے کہ مجھے لکھنے کاکبھی خیال تک نہ آیاتھا۔یہ توتمہاری اماں نے نیلی چھتری لکھوایااورجب کوٹھی کانام ونشان بھی نہ تھااس کانام بھی یہی رکھا۔زمانہ طالب علمی میں میں تمہارے ماموں سیدحامد حسین اورمسعود ٹامی سے بہت متاثرتھا۔مسعود بڑی باغ وبہارشخصیت تھے اوربھیس بدل کردوستوں کودھوکادیناان کاشغل تھا۔پولیس سروس میں آیاتوخیال آتاکہ مسعود کوسراغ رسانی کے محکمے میں ہوناچاہیے۔بس مسعود اوربہرام کے کرداروں کولے کرتمہاری ماں کے اصرارپر ناول لکھ دیے۔“
راشداشرف نے ”چندباتیں“ میں لکھتے ہیں۔راقم الحروف کے ذہن میں ایک عرصے سے یہ خیال موجود تھاکہ علی گڑھ پرچنددلچسپ اور ہنستی مسکراتی کتابوں کو’زندہ کتابیں‘ میں پیش کیاجائے۔سوآج یہ خواہش پوری ہورہی ہے۔داستانِ علی گڑھ کی پہلی جلد میں تین کتابوں کو شامل کیاگیاہے۔اول محفوظ الحق حقی کی علی گڑھ سے متعلق یادداشتوں پرمبنی کتاب”علی گڑھ کے چارسال“۔دوم ملتان کے عبدالمجیدقریشی مرحوم کی مرتبہ”ذکرعلی گڑھ“۔سوم بھارت میں شائع ہونے والی اطہرپرویزکی ”علی گڑھ سے علی گڑھ تک“ نیزجلد اول کے آخر میں علی گڑھ سے متعلق دلچسپ واقعات سے بھرپورپانچ سوانحی مضامین کوخصوصی طورپرشامل کیاگیاہے۔دونوں جلدوں میں پیش کی گئی کتابوں کے انتخاب میں اس بات کومدنظررکھاگیاہے کہ موضوع کااحاطہ کرتی ہوئی آپ بیتیاں ہوں یاان کی تلخیصات،پڑھنے والے کے لیے ان میں دلچسپی کاعنصرہواورایک گم گشتہ تہذیب کوکم ازکم یادتوکیاجاسکے۔جلداول میں ”ذکرعلی گڑھ“عبدالمجیدقریشی کاتحریرکردہ دیباچہ حددرجے معلوماتی ہے۔قریشی صاحب آپ بیتیوں کے شائق اورعلی گڑھ کے دیوانے تھے۔انہوں نے معروف شخصیات کی آپ بیتیوں سے علی گڑھ کی یادوں کوسمیٹاہے۔بعض کتب کی تلخیص پیش کی ہے۔چندنام مولوی عبدالحق،میرولایت حسین،حکیم احمدشجاع پاشا،رشیداحمدصدیقی،آل احمدسرور،شاہ حسن عطا،نواب چھتاری،سیدرضاعلی،پروفیسرعبدالمجیدقریشی،پروفیسرضیاالدین احمدبدایونی اورپروفیسرظہیراحمدصدیقی۔ ”علی گڑھ سے علی گڑھ تک“ اطہرپرویزکی ایک ہنستی مسکراتی آپ بیتی ہے۔اس میں زندگی کے کئی سبق پوشیدہ ہیں۔“
علی گڑھ کی بحیثیت ایک تعلیمی درس گاہ،کیاحیثیت تھی،اس بارے میں پروفیسرضیااحمدبدایونی لکھتے ہیں۔”حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم قومی درس گاہ کومحض اینٹ اورچونے کی عمارت تصورکرنابڑی غلطی ہوگی۔یہ سرسیداوران کے لائق رفقائے کارنواب محسن الملک،ڈپٹی نذیراحمد، مولاناحالی،مولاناشبلی،مولوی ذکاء اللہ،مولوی چراغ علی،زین العابدین اورمولوی سمیع اللہ کے خوابوں کی تعبیرہے۔یہ وہ درس گاہ ہے جس نے ہرزمانے میں بڑے بڑے مردانِ کارپیداکیے،میرولایت حسین،ڈپٹی حبیب اللہ خان،صاحب زادہ آفتاب احمدخاں اورسیدطفیل احمد منگلوری جیسے فدایانِ ملت،ڈاکٹرضیاء الدین احمد،ڈاکٹرولی احمد،ڈاکٹرمولوی عبدالحق اورمولوی عزیزمرزاجیسے فاضلانِ عصر،علی برادران، رفیع احمدقدوائی،راجہ مہندرپرتاب،خواجہ غلام الثقلین،سرسیدراس مسعود،ڈاکٹرسیدمحمود،خواجہ عبدالمجید،صدرپاکستان محمدایوب خان،خان بہادر شیخ عبداللہ،سردارعبدالرب نشتر،اورنواب حمیداللہ والیِ بھوپال جیسے ممتازرہنما،ڈاکٹرذاکرحسین،مولاناظفرعلی خاں،میرمحفوظ علی بدایو نی،قاضی عبدالغفار،مولوی عنایت اللہ دہلوی،ڈاکٹرعبدالرحمٰن بجنوری،سید سجادحیدریلدرم،،چودھری خوشی محمدناظر،مولاناحسرت موہانی اور حضرت فانی بدایونی جیسے کاملانِ ادب وشعراسی درس گاہ کی آغوش کے تربیت یافتہ ہیں۔“
پروفیسرامجدعلی شاکرنے”زندہ دلوں کی زندہ کتابیں“ کے نام سے طویل پیش لفظ لکھاہے۔”علی گڑھ کاذکرہوتولامحالہ سرسیدیادآتے ہیں۔ سرسیددلی کے تھے اوردلی کی ایک تہذیب بھی تھی،تاریخ بھی۔سرسیدنے دلی سے تہذیب وراثت میں پائی تھی۔سرسیددہلوی تہذیب کے نمائندہ تھے۔دہلی میں لال قلعہ تھاجس میں مغل بادشاہ شہنشاہ کہلاتے تھے۔سرسیدکے بزرگوں کااس قلعے سے تعلق رہاتھا۔خودسرسیدکواس قلعے کے بادشاہ سے خطاب ملے تھے۔یہاں کی زبان سند خیال کی جاتی تھی۔سرسیددلی کے باغی بیٹے تھے۔وہ مغرب سے متاثرتھے۔جب انھوں نے میزکرسی پربیٹھ کرچھری کانٹے سے کھاناکھایاتوبہت تھڑی تھڑی ہوئی۔انھیں کرسٹان کہاگیا،مگریہ بعد میں کھلاکہ سرسیدکی ذات میں دہلوی تہذیب پرمغربی کلچرکی پیوندکاری ہورہی تھی۔لیجیے صاحب اینگلومحمڈن کلچرانھی کی ذات سے کونپل بن کرپھوٹااورپھرعلی گڑھ میں یہ ایک تناوردرخت بن گیا۔سرسیدنے علی گڑھ میں محمڈن اینگلواورینٹیل کالج بنایااورمحمڈن اینگلوورینٹل کلچرکاپودالگایا۔کالج اشرافیہ کاکالج تھا اور اشرافیہ آسانی سے بدلنانہیں ہے۔مگرسرسیدنے انہیں بدلا نہیں تھا،ان میں صرف اینگلوشامل کرکے ایک نئی وسعت دی تھی۔سرسیدکے علی گڑھ کالج میں اشرافیہ کے نوجوان داخلہ لیتے تھے۔انھیں محنت کی عادت توتھی نہیں۔وہ ایک نئی دنیامیں پہنچے اوربے فکری اورلاابالی پن ساتھ لائے تھے۔انھیں سرسیدکی زندہ دلی وراثت میں ملی تھی۔اشرافیہ کی وضع داری بھی ان کے پاس تھی۔انگریزاساتذہ سے انگریزی کلچر بھی ملاتھا۔اب کیاتھاعلی گڑھ میں نیاکلچرپھلنے پھولنے لگا۔ علی گڑھ کی زندہ دلی نے کیاکیادلچسپ اندازاپنائے،ان کے ذکرکودفترچاہئیں۔جملے بازی اورجملے سازی،لطیفے بازی اورنئی سے نئی شرارت۔ان باتوں نے تخلیقی روپ دھاراتوادب میں مزاح نگاری،خاکہ نگاری اور یادنگاری کے شعبے خوب پھلے پھولے۔شاعری بھی ہوئی اورتنقیدبھی۔علی گڑھ نے اخترحسین رائے پوری،خلیل الرحمن اعظمی،خورشیدالاسلام اورعلی سردارجعفری جیسے نقادانِ ادب پیداکیے۔مجاز،خلیل،جذبی،احمدوحیداختراورشہریارجیسے شاعردیے۔مزاح نگاری میں رشیداحمدصدیقی کانام ہی ایساہے کہ بہت سے نام ان کے سامنے ماند پڑجاتے ہیں۔خاکہ نگاری میں فرحت اللہ بیگ کوتقدمِ زمانی حاصل تھااوران سے پہلے محمدحسین آزادمرقع نگاری کرچکے تھے،مگرفرحت اللہ بیگ کے بعدرشید احمدصدیقی نے خاکہ نگاری میں وہ معرکے سرانجام دیے کہ باقی سب کے قلم ان کے سامنے سرنگوں ہیں۔علی گڑھ میں سرسید اوران کے رفقاکی وضع داری نے عجیب وغریب شکلیں اختیارکیں۔ایک رنگ سینئرجونیئرکے تعلق کاہے۔سینئرکااحترام علی گڑھ کی روایت ہے۔یہی وہ رشتہ ہے جس نے علیگ برادری کی تشکیل میں اہم کرداراداکیا۔ علیگ برادری پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔یہ لوگ اپنے انداز،طرزِعمل سے پہچانے جاتے ہیں۔علیگ ہمیشہ زندہ دلی اورخوش دلی کاحامل رہاہے۔یہ جیون کاایک ڈھب ہے جوکم ہوتاجارہاہے۔علی گڑھ والوں کی یادیں اورباتیں اس طرزِ زیست کومتعارف کراتی ہیں اورلایعنی ماحول میں پرلطف زندگی کرناسکھاتی ہیں۔علی گڑھ کاایک اہم حوالہ اولڈبوائزکاہے۔یہ اولڈبوائزدنیاکے مختلف شہروں میں پھیل چکے ہیں۔اولڈبوائزایسوسی ایشنزجب کبھی ڈنرکرتی ہیں تواولڈبوائزواقعی بوائزلگتے ہیں۔یہ لوگ چھیناجھپٹی،ہنسی مذاق،بے تکلفی اوربے ریائی کاایسا مظاہرہ کرتے ہیں کہ بچپن اورلڑکپن زندگی کی اہم حقیقتیں ہی نہیں،زندگی کے انعام لگتے ہیں۔ایسی نعمتوں کوجھٹلاناکتنابرا ہوتاہے اور انھیں یاد کرناشکرکااندازلگتاہے۔علی گڑھ کے لوگ شکرگزارلوگ ہیں،اس لیے وہ اولڈ ہوکربھی بوائزرہتے ہیں اورعلی گڑھ کوشکر کے جذبوں کے ساتھ یاد کرتے ہیں۔یہ یادیں ہمیں زندگی کرناسکھاتی ہیں اورلایعنی صورتحال سے خوشی کشیدکرنے کاہنرسکھاتی ہے۔راشداشرف کیازندہ دل شخص ہیں۔انھوں نے علی گڑھ کے پرانے لوگوں کی یادداشتوں کوجمع کر کے شائع کرنے کواپنے اشاعتی پروگرام کاحصہ بنایاہے۔ہماری موجودہ صورتحال میں اس کام کی اہمیت دیکھیں تویہ ایک کارنامہ لگتاہے۔“
”کچھ ذکرمسعودٹامی کا“ میں حکیم احمدشجاع کے حوالے سے لکھاہے۔”علی گڑھ کالج کے پرانے اورنئے طلبہ میں کوئی ایسابھی ہے جومسعود ٹامی کے نام سے واقف نہ ہو۔مسعودٹامی کانام مسعودحسین کمبوہ تھا۔اس کی شخصیت محبوب اوردلکش تھی۔یہ وہی مسعودٹامی تھے جن کے دماغ کی جدت آفرینیاں،جن کے تخیل کی کارفرمائیاں،جن کی حرکات سکنات کی بوقلمونیاں اورخلوت وجلوت میں جن کی ہنگامہ آرائیاں علی گڑھ اورمیرٹھ ہی میں نہیں،بلکہ سارے یوپی میں الف لیلیٰ کے افسانوں سے زیادہ مشہورہیں۔“
اردوکے نامورافسانہ نگارآغابابرنے مسعود ٹامی کی تحصیل دارکی حیثیت سے تقرری کاذکرکیاہے۔”اس زمانے میں علاقے کاکمشنرتحصیل دار کاتقررکرتاتھا۔ٹامی بھی دیگرامیدواروں کے ساتھ انٹرویوکیلیے پیش ہوئے۔امیدواروں کوایک لائن میں کھڑاکیاگیااورانگریزکمشنرلائن میں کھڑے ہرامیدوارکاانٹرویولیتاتھااورمنتخب ہونے والوں کولائن سے الگ کرتاجاتاتھا،اس دوران کمشنرکسی ضروورت سے اندراپنے دفتر میں گیااورٹامی کواپنی کارکردگی دکھانے کاموقع مل گیا۔کمشنرکے جانے کے بعد وہ بڑے اطمینان سے اپنی لائن سے نکل کرمنتخب ہونے والے امیدواروں میں جاکھڑے ہوئے۔اس طرح ٹامی صاحب تحصیل دارمنتخب کرلیے گیے۔“
ایک کتابچے کے مطابق اس مشہوراورمحبوب شخصیت کی موت بھی افسوسناک انداز میں ہوئی۔ٹامی صاحب کاقول تھاکہ پچاس سال کی عمر کے بعد انسان کوزندہ نہیں رہناچاہیے۔ایک روزوہ اپنے گھرپرچنددوستوں کے ہمراہ تاش کھیل رہے تھے کہ اچانک اٹھ کراندرگئے اورپھر تھوڑی دیربعدپستول چلنے کی آوازآئی۔جاکردیکھاتوٹامی خون میں لت پت آخری سانس لے رہے تھے۔معلوم ہواکہ اس لمحے ان کی عمر تاریخ پیدائش کے مطابق پچاس سال ہوگئی تھی اوراپنے قول کے مطابق انھوں نے خود ہی اپنے ریوالورسے اپنی زندگی کاخاتمہ کرلیا۔
محفوظ الحق حقی نے ”علی گڑھ کے چارسال“ میں ایک باب”ذہانت،ظرافت،شرارت“ میں کچھ دلچسپ واقعات تحریرکیے ہیں۔چنداقتباسا ت ملاحظہ کریں۔
”علی گڑھ میں ٹیپوسلطان شہیدڈے منایاگیا۔یہ توآپ جانتے ہی ہیں کہ انگریزوں اورٹیپوسلطان میں جب جنگ ہوئی تونظام حیدرآباد نے انگریزوں کاساتھ دیاتھا اورٹیپوسلطان سے جنگ کی تھی۔مسلم یونیورسٹی کی نظام حیدرآباد نے بہت مالی امداد کی تھی۔یونین ہال میں زبر دست جلسہ ہوا۔علاوہ دوسرے طلباکے اردوادب کی مشہورشخصیت ڈاکٹرخورشیدالاسلام جواس زمانے میں ایم اے کے طالب علم تھے انہوں نے بھی تقریرفرمائی۔تقریرکے شروع میں آپ نے فرمایا۔مجھے خوشی ہے کہ آج جامعہ میں جس کی اینٹ اینٹ پرنظام کانام کندہ ہے،ٹیپو سلطان شہیدکوخراجِ عقیدت پیش کیاجارہاہے۔“
”جناب احسن علی خان صاحب ہم لوگوں کوسٹی اسکول میں ہندی پڑھایاکرتے تھے۔ہندی کے وہ عالم فاضل بھی تھے۔طلباانھیں پنڈت جی بھی کہہ دیاکرتے تھے۔14اگست 1947ء کوجب ہندوستان تقسیم ہوا۔اسی زمانے کاواقعہ ہے۔مسلمانوں کے ایک ایک گھرکی پولیس تلاشی لے رہی تھی۔ایک شام کومیں اورقمریونیورسٹی سے آرہے تھے کہ جناب احسن علی سے ملاقات ہوئی۔میں نے ازراہ مذاق اورپنڈت کی مناسبت سے کہا۔’پنڈت جی۔جے ہند۔‘ احسن علی صاحب نے ہنستے ہوئے فرمایا۔بیٹا!سب کچھ ٹھیک ہے۔مگرگھرکی تلاشی پھربھی لی جائے گی۔“
”ڈاکٹرذاکرحسین خان مرحوم مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلرتھے۔محرم کے چہلم کے روزیونیورسٹی کی تعطیل تھی لیکن امتحانی پروگرام کے مطابق سائنس کے طلباکے ایک گروپ کاپریکٹیکل پڑتاتھا۔طلبانے درخواست کی کہ امتحان ملتوی کردیاجائے۔لیکن وائس چانسلرنے نامنظور فرمایا۔یونین ہال میں ایک احتجاجی جلسہ ہواجس میں ایک طالب علم نے دوران تقریرکہا۔ہمیں اس بات کاانتہائی غم ہے کہ ذاکرحسین نے ذکرِحسینؓ کی اجازت نہیں دی۔“
”برسات کاموسم تھا۔یونیورسٹی میں جس طرف نظرڈالیے گھاس ہی گھاس دکھائی دیتی۔مرداورعورتیں چاروں طرف گھاس کاٹتے نظرآتے۔ سناہے پروفیسرمجنوں گورکھپوری کلاس لے رہے تھے۔ایک گھسیارن کلاس کے برآمدے سے گزری۔اس بے چاری کوکیاخبرکہ کلاس کے دوران برآمدے میں سے نہیں گزرناچاہیے۔لامحالہ لڑکوں کی نظریں اس کی طرف اٹھ گئیں۔پروفیسرموصوف کے دروازے کے سامنے سے جب گزری تومجنوں صاحب کی بھی نظراس پرپڑی۔کلاس کے ایک گوشے سے آوازآئی۔لیلیٰ گورکھپوری۔“
عبدالمجیدقریشی صاحب نے”ذکرعلی گڑھ“ میں یونیورسٹی کے نامورلوگوں آپ بیتوں سے انتخاب کیاہے۔یہ ایک پرلطف اورمعلومات افزا گلدستہ ہے۔جس میں خان صاحب میرولایت حسین،بابائے اردومولوی عبدالحق،شجاعت علی خاں،سیدرضاعلی،پروفیسرعبدالمجیدقریشی، نواب حافظ سرمحمداحمدخاں چھتاری،چودھری خلیق الزماں،پروفیسرصلاح الدین محموالیاس برنی،خان بہادرحکیم شجاع پاشا،پروفیسررشیداحمد صدیقی،نواب مشتاق احمدخاں،الحاج محمدزیبر،پروفیسرضیاء الدین احمدبدایونی،پروفیسرآلِ احمدسرور،پروفیسرظہیراحمدصدیقی،شاہ حسن عطا، نعمان احمدصدیقی اورچودھری محمدمحمودعلی خان کی مختصر اوردلچسپ آپ بیتیاں پیش کی گئی ہیں۔اس بارے میں عبدالمجیدقریشی نے پیش لفظ میں تحریرکیاہے۔”اردوزبان کے اہلِ قلم حضرات نے اپنے کالجوں،اسکولوں اوردیگردرس گاہوں،اپنے اساتذہ کرام اورہم عصرطلباکے متعلق تاثرات ومشاہدات کوحیطہء تحریرمیں لانے میں اس قدربخل سے کام لیاہے کہ ہماراادب اس دلچسپ اورپرلطف موضوع سے قریب قریب تہی داماں نظرآتاہے۔یہی وجہ ہے کہ میں اپنے مطالعے کی ہمہ گیر وسعت کے باوجود اس عنوان پرغیرعلیگ حضرات کی بہت کم تحریر یں دیکھ سکا۔ایسے میں جب علی گڑھ کے ان مضامین پرنظرڈالتاہوں،جوانہوں نے مادردرس گاہ کی شان میں کمال عقیدت واحترام کے ساتھ تحریرفرمائے ہیں اورجنہیں میں نے برسوں کی محنت اورکاوش کے بعداس مجموعے کی شکل میں مدون کیاہے،تومجھے بڑی مسرت حاصل ہوئی ہے۔میرولایت حسین علی گڑھ کے دورِاول کے وہ استاد ہیں جن کے شاگردوں میں مولانامحمدعلی،شوکت علی،ظفرعلی خاں،مولوی عبدا لحق،ڈاکٹرسیدمحمود،الحاج خواجہ ناظم الدین،نوابزادہ لیاقت علی خان اورسرسکندرحیات جیسے اکابرکے نام آتے ہیں۔علی گڑھ میگزین کے علی گڑھ نمبرمیں ان کی آپ بیتی کی تلخیص دیکھنے کے بعداسے مکمل پڑھنے کی شدیدخواہش ہوئی۔بیس برسوں کے طویل انتظارکے بعدان کے فرزندسیدمسعودزیدی نے والدکی نشانی کو”میرے پچاس سال علی گڑھ میں“ کے عنوان سے شائع کردیا۔جس میں جسٹس سیدمحمودکاتذکرہ اورسرسیدکی رحلت کے واقعات پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔بابائے اردونے اپنی باقاعدہ خودنوشت نہیں چھوڑی،لیکن ڈاکٹرسیدمعین الرحمٰن نے مولوی صاحب کی تحریروں کویکجاکرکے آپ بیتی مرتب کرڈالی۔سرسیدرضاعلی نے اپنی شہرہ آفاق خودنوشت”اعمال نامہ“میں علی گڑھ اوراپنے دورکے اکابرپرکھل کرلکھاہے۔میں نے اس مواد کوازسرِنومرتب کیا۔چودھری خلیق الزمان نے اپنی کتاب ”شاہراہِ پاکستان“ کاایک طویل باب علی گڑھ کے لیے وقف کیاہے۔جس کااختصاربھی شامل ہے۔نواب حافظ سراحمدسعیدچھتاری،حکیم احمدشجاع پروفیسر محمدالیاس اورنواب مشتاق احمدخان کی خودنوشت،سرگزشتوں میں ان حضرات کاعلی گڑھ پوری آب وتاب کے ساتھ موجود ہے۔پروفیسر رشیداحمدصدیقی کی ”میری آشفتہ بیانی“ کاتوموضوع ہی باغ وبہارعلی گڑھ ہے۔لہٰذا وہ بھی تمامتررعنائیوں کے ساتھ موجود ہے۔پروفیسر آل ِ احمدسرورکی مختصرآپ بیتی اقتباس ہے جنیداحمدکی مرتبہ کتاب”شخصیات اورواقعات جن سے میں متاثرہوا“میں شامل ہے۔علی گڑھ کے نامورفرزنداورمیرے ہم نام پروفیسرعبدالمجیدقریشی کے مضمون کی قسطیں ”علی گڑھ میں میرے چوالیس سال“ سہ ماہی ”العلم“ میں شائع ہوئیں۔شاہ حسن عطاکامضمون”علی گڑھ جوکبھی تھا“ حریت اخبارمیں نوقسطوں میں شائع ہوا۔“
غرض ان تمام آپ بیتیوں کویکجاکرنے میں عبدالمجیدصاحب نے سخت محنت اورکاوش کی۔اطہرپرویزکی ”علی گڑھ سے علی گڑھ تک“ بھی انتہائی دلچسپ اورمعلومات سے بھرپورآپ بیتی ہے۔داستانِ علی گڑھ کی دوسری جلد میں شامل سیدمسعودالحسن زیدی کی آپ بیتی”علیگڑھ کی یادیں،علیگڑھ کی باتیں“میں موجود”سنائیں تمہیں بات الہ آبادکی“ میں بریگیڈیئرگلزارکی کہانی،مسعودزیدی کی زبانی سے یہ اقتباس دیکھیں۔ کیاپرلطف،شگفتہ اوردلچسپ پیرایہ اظہارہے۔”یہ جوایک صاحب باون گزکے ہیں جن کانام بریگیڈیئرگلزاراحمدہے،ان کوسمجھنے کے لیے آپ ہزارجتن کریں،سمجھ نہ پائیں گے،خدانخواستہ میں آپ کی عقل کی کوتاہی کی طرف اشارہ نہیں کررہاہوں۔بلکہ یقین کیجئے یہ خودبھی اپنے آپ کوسمجھنے سے قاصر ہیں۔چونکہ نام کے رکھنے میں ان کادخل نہیں تھااورحسبِ دستوران کے مرحوم والدکارکھاہواہے اسلیے سمجھ میں بھی آتا ہے۔محفل میں یہ ہوں تواگرزعفران زارمیں ایک آدھ تولہ کی کسررہ جائے تومیں نہیں کہتا،لیکن گزارضروربنادیتے ہیں۔علی گڑھ کی طالب علمی کے زمانے میں ہروقت دیمک بنے ہوئے کتاب چاٹتے نظرآتے تھے اوریہ معلوم ہوتاتھاکہ ان کی دنیایہ ہی ہے مگرشام کودیکھیے توہاکی گراؤنڈ میں ہوں گے۔شہرکی طرف رخ کیجیے توکسی چوراہے پرپروکٹوریل مانیٹرکابِلّا لگائے ان طلباکی تاک میں دبکے کھڑے ملیں گے جو بغیرپاس کے شہریاریلوے اسٹیشن گھومنے آئے ہیں۔ٹھیٹھ جہلم کے رہنے والے مگراردوکی گفتگوسے یہ دھوکاہوتاہے کہ یہ ہی نہیں بلکہ ان کے آباؤاجدادجیسے مدتوں لکھنؤ میں بستے تھے۔پنجابی ان کی مادری زبان ہے،انگریزی،عربی،ترکی،فارسی اورایک افریقی زبانوں پربھی زبان کی قینچی کی طرح چلتی ہے۔فوج کے بریگیڈیئررہے۔اس کے بعد ایک تیل کمپنی میں تیل بیچاراجہ سے تیلی ہوئے۔فی الحال آج کل جہاں موقع لگتاہے،مولویوں کودھکادے کرریڈیواورٹیلیوژن پرقرآن وسنت پرمدلل تقریرفرماتے سنیں گے اوردیکھیں گے۔“
مجموعی طور”زندہ کتابیں“شائع ہونے والی ”داستانِ علی گڑھ“ کی دونوں جلدیں انتہائی دلچسپ،معلومات افزااورقابل ِ مطالعہ ہیں۔جن کا معالعہ ہرصاحبِ ذوق کوکرناچاہیے۔