آپ بیتی ایک مقبول ترین صنفِ ادب ہے۔مختلف شعبہ ہائے زندگی کی طرح عدلیہ کے جج صاحبان نے بھی اپنی آپ بیتیاں تحریرکیں۔ چیف جسٹس جان مارشل اورفرینک فرٹرکی آپ بیتیاں امریکی سپریم کورٹ کے اختیارات کے حصول اورجدوجہدکی داستانیں ہیں اوربہت مشہورہوئیں۔حال ہی میں ایک خاتون جج ہیلن جِنجر بیریگن کی خودنوشت کابڑاچرچاہوا،جنہوں نے عورتوں کے حقوق کے لیے قابلِ قدر فیصلے دیئے۔برطانوی جسٹس لارڈڈیننگ نے خاندانی حوالے سے سوانح عمری Family Storyتحریرکی۔پاکستان میں بھی کئی ججوں نے ریٹائرمنٹ کے بعداپنے عدالتی تجربات کوخودنوشت سوانح عمری میں بیان کیا۔جن میں اپنے دور اورعدلیہ کے رحجانات کے حوالے بھی دیئے۔
پاکستان کے جن چیف جسٹس صاحبان نے اپنی آپ بیتیاں لکھیں ان میں جسٹس اجمل میاں نےA judge May Speak Out،جسٹس خدابخش مری نے A Judge May Speak ڈاکٹرنسیم حسن شاہ نےMemoires and Reflectionقابلِ ذکر ہیں۔جسٹس خدابخش مری کی کتاب کااردومیں ترجمہ بھی شائع ہوا۔ دیگرباتوں کے علاوہ ضیاء الحق دورکے بعض حیران کن واقعات بیان کیے ہیں۔جن میں سے ایک یہ ہے کہ ایک شخص کوخصوصی فوجی عدالت نے سزائے موت دی۔ہائی کورٹ میں اپیل پریہ ثابت ہوگیاکہ اس پرجسے قتل کرنے کاالزام عائدکیاگیاتھا،وہ زندہ ہے۔دوبارہائی کورٹ نے اسی بناپراسے بری کردیا۔پھرحکومت نے فوجی عدالت سے سنائی گئی سزاکے خلاف ہائی کورٹ کی اپیل کی سماعت کااختیارہی ختم کردیا اوراس شخص کوپھانسی دے دی گئی۔جسٹس صمدانی نے بھی ایک مختصر آپ بیتی اردومیں تحریرکی تھی۔جسٹس محمدمنیر نے مختصرآپ بیتی Highways and Byways Of Life کے نام سے تحریرکی،جس میں اپنے دیئے گئے فیصلوں پرکی جانے والی تنقیدکاجواب دیا۔ جسٹس اے آرکارنیلس کی زندگی پرپروفیسررالف بارابنتی نے Chief Justice Corneliusکے نام سے ان کی سوانح حیات لکھی۔جس میں ان کے اختلافی فیصلوں کی ستائش کے ساتھ ان کی تقاریرکے حوالے بھی دیے۔
جسٹس سجادعلی شاہ کی آپ بیتی ”عدالتیں شیشے کاگھر“کے شائع ہونے کاآکسفرڈیونیورسٹی پریس نے اخبارمیں اشتہاردیا۔ لیکن یہ کتاب کبھی منظرعام پر نہیں آئی۔ججزکیس میں سینئرترین جج کوچیف جسٹس مقررکرنے اورصدرِمملکت کوتقرری کے لیے چیف جسٹس کے مشورے کو ماننے کاپابندکرنے کافیصلہ دینے والے جسٹس سجادعلی شاہ کی خودنوشت اس اعتبارسے بھی منفردہے کہ ان کی موجودگی میں سپریم کورٹ پرحملہ کیا گیااورانہیں ماتحت ججوں کے اکثریتی فیصلے کی بناپرچیف جسٹس کے عہدے سے سبکدوش ہوناپڑا۔لیکن نامعلوم وجوہ کی بناپرسجادعلی شاہ کی آپ بیتی کی اشاعت سے پبلشرنے بھی انکارکیااور وہ کبھی منظرعام پرنہیں آئی۔اوراپنی وفات تک جسٹس سجادعلی شاہ نے بھی اپنی اس آپ بیتی کاکبھی ذکرنہیں کیا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق چیف جسٹس ارشادحسن خان کی آپ بیتی ”ارشادنامہ“ میں رائے دیتے ہوئے سابق صدرمملکت اورچیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے ججوں کی آپ بیتیوں میں سجادعلی شاہ کی ”عدالتیں شیشے کاگھر“کابھی ذکرکیاہے۔کسی پبلشر کواس کتاب کو شائع کرنے کی کوشش کرناچاہیے۔اس میں پاکستان کی تاریخ کے اہم دوراورحالات کے بارے میں انکشافات ہوسکتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس ارشادحسن خان نے اپنی آپ بیتی”ارشادنامہ“ کے نام سے لکھی ہے۔اس کی انفرادیت یہ ہے کہ یہ اردومیں تحریرکردہ کسی چیف جسٹس کی پہلی آپ بیتی ہے۔جس میں معاون سے چیف جسٹس آف پاکستان بننے کی رودادانتہائی دلچسپ پیرائے میں بیان کی گئی ہے۔”چندمعروضات“ کے عنوان سے کتاب کے تیسرے باب میں ارشادحسن خان لکھتے ہیں۔”ایسی بے شمارسرگزشتیں لکھی گئی ہیں۔جوپسماند گی سے بلندی تک سفرکی داستانیں ہیں لیکن یہ کتاب نشیب سے فرازکے سفرکی کہانی نہیں اوریہی نہیں بتاتی کہ ایک یتیم اورسائیکل سواربچہ بیساکھیوں کے بغیرمعاون سے پاکستان کاچیف جسٹس اورقائمقام صدرِمملکت کیسے بن گیا۔بلکہ ایک پُرآشوب دور کی دل خراش داستان اور اس سے بھی زیادہ آئین وجمہوریت کوپامالی سے بچانے کی حقیقی کوشش کاذکرہے۔کتاب کے مطالعہ کے بعد کوئی شک نہیں رہ جائے گاکہ سپریم کورٹ کے ظفرعلی شاہ کیس کے فیصلے نے ملک کوآمریت کی طوالت سے بچالیااورڈی ریل جمہوریت کی بحالی میں نہایت قابل ِ قدر اور بنیادی کرداراداکیا۔اگراُس وقت جنرل مشرف کوتین سال تک محدود نہ رکھاجاتاتوکوئی بعید نہیں کہ وہ آج تک بیٹھے ہوتے یاپھرماضی کے آمروں کی طرح اُ ن سے جان چھڑانے کے لیے قوم کوایک بارپھرخاک وخون کے سمندرسے گزرناپڑتا۔12اکتوبر1999ء کوجنرل پرویزمشرف،نوازحکومت کاتختہ الٹ کراقتدارمیں آئے،تویہ اقدام توقع کے عین مطابق سپریم کورٹ میں چیلنج ہوگیا۔بہ حیثیت چیف جسٹس میری سربراہی میں بارہ رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی۔دونوں طرف سے دلائل کے انبارلگادیئے گئے،فاضل عدالت نے سب کوبڑے تحمل سے سُنااورفیصلہ سُنایاکہ جنرل مشرف کوماشل لاء اٹھانے اورفوج کوبیرکوں میں واپس جانے کے لیے تین سال کی مہلت دی جاتی ہے۔تاکہ وہ اس عرصے میں اپنے سات نکاتی ایجنڈے پرعمل اوردی گئی مدت کے اندراندرمکمل غیرجانبدارانہ اورشفاف انتخابات کراکراقتدارعوام کے منتخب نمائندوں کے سپردکردیں۔ میں نے آئینی حکمت عملی کی بناملٹری کورٹس نہ بننے دیں حالانکہ ہرفوجی دورمیں بنیں۔مارشل لاء والوں کوقائل کیاکہ عدلیہ کانظام بڑا واضح اورمضبوط ہے اس کی موجودگی میں کسی دوسرے نظام کی گنجائش ہے نہ ضرورت۔ محبِ وطن حقیقت پسندحلقوں اورپریس نے عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کی تعریف کی اوردرپیش ملکی حالات میں اسے بہترین فیصلہ قرار دیا۔ کچھ لوگوں نے اعتراض کیاکہ مارشل لاء کوآئین کے منافی قرارکیوں نہیں دیاگیا۔ٹیک اوور ہوچکاتھایہ کوئی ایسافیصلہ نہیں تھاکہ جس پرحکم امتناعی جاری ہوجاتااورنہ ہی فوج کے اقدام کوریورس کیاجاسکتاتھا۔عدالت نے خود پٹیشنرخالدانورسے استفسارکیاکہ فیصلہ کیا ہو؟انہوں نے تسلیم کیاکہ یہ ممکن نہیں کہ ان کی پٹیشن قبول ہو۔نوازحکومت کی بحالی سے ملک میں انارکی پھیلے گی،جوہم نہیں چاہتے ایک معقول ٹائم فریم دے دیں کہ کب واپس جائیں گے۔“
جسٹس ارشاد حسن خان نے دراصل آپ بیتی اپنے عدالتی فیصلے کے دفاع اوراس پرکئے جانے والے اعتراضات کاجواب دینے کے لیے تحریرکی ہے۔وہ بڑے وکیل اورچیف جسٹس رہے۔اس لیے انہوں نے اپناکیس عوام کے سامنے عمدگی سے پیش کیا اوراچھے دلائل کے ساتھ ثابت کیاکہ ان کافیصلہ اس وقت کے معروضی حالات میں بہترین تھااوراسی کی وجہ سے ملک میں جمہوریت بحال ہوئی۔تاہم اس کیس کے حوالے سے ڈاکٹربابراعوان کی حاضرجوابی کاایک واقعہ مشہورہے۔”سپریم کورٹ بنچ قتل کے مقدمے کی سماعت کررہاتھا۔ایک جج نے استفسارکیا کہ آپ جو ریلیف مانگ رہے ہیں اس کی تواستدعاہی نہیں کی گئی۔ڈاکٹربابراعوان نے برجستہ کہا۔’سرمیں ظفرعلی شاہ کیس پر انحصارکررہاہوں۔بنچ کے جج مسکرائے بغیرنہ رہ سکے۔ظفرعلی شاہ کیس میں جنرل پرویزمشرف نے آئین میں ترمیم کااختیارنہیں مانگاتھا جبکہ سپریم کورٹ نے ان کے بارہ اکتوبرکے اقدام کودرست قراردیتے ہوئے آئین میں ترمیم کااختیاربھی دیدیا۔“
اس کاجواب ”ارشادنامہ“مصنف دیتے ہیں۔”جہاں تک اس الزام کاتعلق ہے کہ ظفرعلی شاہ کیس میں مانگے بغیرپرویزمشرف کوآئین میں ترمیم کااختیاردیاگیا۔یہ قطعی غلط،لغواورسفید جھوٹ ہے۔آپ پی سی اوکوپڑھیں۔جس میں صاف طورپریہ تحریرہے کہ جنرل مشرف کوبحیثیت چیف ایگزیکٹیوآئین،لاء،یاکسی آرڈرمیں ترمیم کاحق حاصل ہے۔یہی چیزتوزیرِبحث تھی کہ جنرل مشرف کوکوئی اختیارہے یا نہیں۔سپریم کورٹ نے انہیں سات نکاتی ایجنڈے کے نفاذمیں اگرکوئی رکاوٹ ہوتواس کے لیے ترمیم کااختیاردیاتھا اس کے علاوہ کسی ترمیم کاانہیں کوئی اختیارنہیں تھا۔مندرجہ بالا ترمیم کے لیے بھی بہت سے شرائط عائد کی گئی تھیں۔حقیقت میں انہیں آئین میں ترمیم کاکوئی اختیارنہیں دیا گیاتھا۔“
لیکن ان کے فیصلے سے سپریم کورٹ تقسیم ہوئی۔کوئٹہ بنچ کے جسٹس ارشادحسن خان نے چیف جسٹس کومعطل کردیا۔وہ پہلے وزارتِ قانون کے سیکریٹری رہ چکے تھے،تہترکے آئین کے اردوترجمہ کااعزاز انہیں حاصل ہے۔ایک ایساجج جس نے لوگوں کو دستور سمجھا نے کی کوشش کی اس نے اپنے فیصلے میں آئین کے آرٹیکل209(7)کوکیسے نظراندازکردیا،جس کے مطابق عدالت عظمیٰ کے جج کوسپریم جوڈیشنل کونسل ہی برطرف کرسکتی ہے،سوال یہ بھی ہے کہ کیارجسٹری براہ راست آئینی پٹیشن کی سماعت کرسکتی ہے؟آئین کے آر ٹیکل 176کے مطابق سپریم کورٹ چیف جسٹس اورججوں پرمشتمل ہوتاہے۔چیف جسٹس کاعہدہ خالی نہیں رہ سکتا۔اگرچیف جسٹس ختم کر دیا جائے توسپریم کورٹ ہی ختم ہوجائے گا۔ایسی صورت میں کوئٹہ بنچ کی کیاحیثیت رہ جاتی ہے۔آج ایک چیف جسٹس کاانتظامی کنٹرول باقی ججوں کوقبول نہیں، مستقبل کاچیف جسٹس ادارے کوکیسے چلائے گا۔آخرمستقبل کے چیف جسٹس اجمل میاں نے اس موقف کوتسلیم کیوں نہیں کیا؟اسلئے کہ ہرجج بنچ بنانے لگاخودہی آئینی پٹیشنوں کی سماعت کرے گا اورخود ہی برادرجج کوعہدے سے برطرف کرے گاتو عدالتی انارکی کادروازہ کھل جائے گا۔پشاوربنچ نے بھی ہاں میں ہاں ملائی۔بلکہ سپریم کورٹ کافل بنچ تشکیل دیا۔یہ بہت اہم سوال ہیں۔جن کے جواب نہیں دیے گئے۔جسٹس سجادعلی شاہ کے بارے میں ارشادحسن خان انکشاف کرتے ہیں۔”اس زمانے میں جسٹس سجادعلی شاہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے،اورسپریم کورٹ کے سینئرجج صاحبان،ان سے تعاون نہیں کرتے تھے۔ان کاگلہ یہ تھاکہ سعدسعودجان سینئرموسٹ جج تھے،ان کے بعد اجمل میاں اورپھرسعیدالزماں صدیقی تھے۔قاعدے کی روسے جان صاحب کوچیف جسٹس ہوناچاہیے تھا ان کے بعداجمل میاں کواورعلی ہذاالقیاس،سجاد شاہ کوجونیئرہونے کے ناتے چیف جسٹس نہیں بناناچاہیے تھا،سینیارٹی کے اصول کومدنظررکھاجاناچاہیے تھا۔رنجش یہ تھی کہ سینئرججزچیف جسٹس سے بات چیت بھی نہیں کرتے تھے۔سلام دعاتک کی نوبت نہیں آتی تھی۔گیارہ بجے میٹنگ میں شریک ہوجاتے تھے۔اس کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتے تھے۔میری کوشش ہوتی تھی کہ کوئی ایساموضوع چھیڑ دیاجائے کہ آپس میں گفتگوہونے کاموقع بنے۔حالات اتنے پیچیدہ تھے کہ چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے فل کورٹ کی میٹنگ ہی طلب نہیں کی حالانکہ کئی معاملات پرایسی میٹنگ کی ضرورت ہوتی تھی۔کم ازکم کام کے معاملے میں سینئرججز اورچیف جسٹس کے درمیان کسی حدتک تعاون کی فضابرقراررہی۔کافی حدتک اس میں میراکرداربھی تھا۔اس وقت میں سپریم کورٹ میں بطورایڈہاک جج ہی کام کررہاتھا جس کامطلب یہ تھاکہ ہائی کورٹ کے جج کے طور پر میری حیثیت برقرارتھی اورمیں کسی وقت بھی ہائی کورٹ واپس جاسکتاتھا۔میری سینیارٹی اتنی تھی کہ مجھے ہائی کورٹ کاچیف جسٹس بنایاجاناتھا۔سجادعلی شاہ نے ایک دن مجھ سے کہاارشادتم مجھ سے وعدہ کروکہ تم بطورچیف جسٹس ہائی کورٹ میں کبھی نہیں جاؤگے۔تمہارے بغیرمیں یہ نظام نہیں چلاسکتا۔ویسے بھی میرے بعد توتم ہی نے چیف جسٹس بنناہے۔میں نے کہاکہ میں چیف جسٹس کیسے بن سکتاہوں؟آئین کے پروسیجرکے تحت آپ کے ریکمنڈ کیے بغیرتومیں چیف جسٹس نہیں بن سکتا۔آپ میرانام ہی تجویزنہ کیجئے گا۔مجھ سے وعدہ لینے کی کیاضرورت ہے؟انہوں نے بتایاکہ وزیراعظم آپ کوسپریم کورٹ کامستقل جج مقررکرناچاہتی ہیں۔میں نے ان سے کہاکہ آئین کے تحت یہ آپ کی صوابدید ہے کہ آپ مجھے سپریم کورٹ کاجج تجویزکریں یانہ کریں۔وزیرتوآپ کومجبورنہیں کرسکتیں۔انہوں نے کہاکہ نہیں،میں پرائم منسٹرکو کہہ چکاہوں۔اس کے بعد وہ اپناریکمنڈیشن تحریری طورپرمجھے دے کرچلے گئے،اوریوں میں سپریم کورٹ کامستقل جج تعینات ہوگیا۔سجاد علی شاہ کواس سے کوئی خوشی نہ ہوئی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں ابھی ایڈہاک جج کے طورپرہی کام کرتارہوں۔میں نے ان کی ناخوشی دیکھی تو کہاکہ اگرآپ کے دل میں کوئی ملال ہے تودومہینے کے لیے رخصت پرچلاجاتاہوں۔انہوں نے کہاکہ ٹھیک ہے،آپ چھٹی پرچلے جائیں۔میں دومہینے کی چھٹی پرلاہورچلاگیا۔میراخیال تھاکہ اس عرصے میں انہیں اپنی پریشانی دورکرنے کاموقع مل جائے گا لیکن اللہ کافیصلہ کچھ اور ہی تھا۔وزیراعظم نے مجھے ملاقات کے لیے طلب کیا۔بے نظیرصاحبہ نے کہا:ارشادصاحب،آج کل لاہورہائی کورٹ کے حالات اچھے نہیں ہیں،میں چاہتی ہوں آپ لاہورہائی کورٹ کے چیف جسٹس کاعہدہ سنبھالیں اوراس کی ایڈمنسٹریشن درست کریں۔دوتین روزبعد لاہورہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے میری نوٹیفیکیشن ہوگئی۔آئین کے مطابق قائم مقام چیف جسٹس کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کی ریکمنڈیشن کی ضرورت نہیں ہے۔میں ایک بارپھرسجادعلی شاہ کے پاس گیااوران کے استفسارپرکہاکہ وزیراعظم صاحبہ مجھے لاہورہائی کورٹ کاچیف جسٹس بنارہی ہیں۔انہوں نے کہاتم استعفیٰ دیدو۔میں نے کہا:خداکاواسطہ ہے،استعفیٰ دیاتومیں سپریم کورٹ کی ججی سے بھی گیا۔“
”ارشادنامہ“ پاکستان کے انتہائی اہم دورکے چیف جسٹس کی خودنوشت ہے۔مشہورماہرقانون ایس ایم ظفرکتاب کے بارے میں کہتے ہیں۔”ظفرعلی شاہ کیس کاحوالہ دیتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ’اگرہم نے جنرل مشرف کوتین سال تک محدودنہ کررکھاہوتاتوکوئی بعیدنہیں کہ وہ آج تک بیٹھاہوتا۔‘ان کایہ کہنادرست معلوم ہوتاہے کیونکہ نصرت بھٹوکے مقدمہ میں سپریم کورٹ پاکستان نے جب اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پراس امید کااظہارکیاتھاکہ جنرل ضیاء الحق،چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹرجلدانتخابات کرادیں گے توتاریخ نے دیکھاکہ وعدہ وفانہ ہوا اور جنرل ضیاء الحق اپنی آخرعمرتک اقتدارمیں رہے کتاب کے پہلے چودہ باب میں داستان کووہ حصہ ہے کہ ایک یتیم اورسائیکل سواربچہ کس طرح بیساکھیوں کے بغیرپاکستان کاچیف جسٹس بن گیا،بڑے دل پذیر اوردلچسپ انداز میں بیان کیاگیاہے۔“
سابق صدر اورچیئرمین سینیٹ وسیم سجادکاکہناہے۔”ارشادنامہ ملک کی سیاسی اورقانونی تاریخ کے لٹریچرمیں نہایت قیمتی اضافہ ہے۔یقین واثق ہے کہ اسے قانون دانوں کے ساتھ ساتھ وکلاء جج صاحبان اورتاریخ طلباء بھی بڑی دلچسپی سے پڑھیں گے۔میں اس عمدہ تصنیف پر جسٹس ارشاد حسن خان کومبارکباد پیش کرتاہوں۔انہوں نے ارشادنامہ لکھ کرتاریخ کاقرض اتاردیاہے۔“
سابق اٹارنی جنرل مخدوم علی خان نے لکھاہے۔”ظفرعلی شاہ کیس کی پیروی ناموروکیل محترم خالد انورنے کی تھی۔عدالت کے دوست اورمعاون ایس ایم ظفرتھے دونوں نے اپنی بحث میں واضح کردیاتھاکہ وہ کسی ایسے فیصلے کے متمنی نہیں جس سے ملک انتشارکاشکارہوجائے ہر اچھے وکیل کی طرح ان کی کوشش بھی یہی تھی کہ مقدمہ کافیصلہ ایساہوجس کے نتائج ناصرف مدعاعلیہ کے لیے بلکہ ملک،قوم اورعدالتی نظام کے لیے بھی مثبت ہوں ان کی یہ کوشش کامیاب رہی اسی فیصلہ کے نتیجہ میں انتخابات ہوئے آئین مکمل طور پربحال ہوااوردوہزاردو میں ایک ایسے جمہوری سفرکا آغاز ہواجوآج بھی جاری ہے۔“
نامورسیاستدان اوروکیل اعترازاحسن لکھتے ہیں۔”ارشادنامہ کے بجائے اس کتاب کاعنوان’ارشادات‘ ہوتا،توزیادہ موزوں تھا کیونکہ اس انتہائی دلچسپ کتاب میں زیادہ تردلچسپی،ان فرمودات میں ہیں جنہیں خودمصنف ہی کی کمال حاضرجوابی اوربلاکی مصلحت اندیشی سے تعبیرکیاجاسکتاہے۔ذہانت کے پے درپے شگوفے،موتیوں کی طرح،جگہ جگہ تحریر میں باف پرٹانکے گئے ہیں۔سنگین سے سنگین صورتحال سے بھی مصنف مسکراتے اورقاری کوگدگداتے ہوئے نکل جاتاہے اوربیان کردہ ہرواقعہ سے اخذکردہ اسباق ارشادفرماتاجاتا ہے۔تقسیم ہندوپاک سے پہلے ہی والدین کے سہارے اورشفقت سے محروم ہوجانے والابٹالہ کایہ نوجوان آگ وپانی کے کن دشوارتر مراحل سے گزرکے،ہنستامسکراتاہوا،پہلے اپنی تعلیم مکمل کرکے وکالت کے بحربیکراں میں چھلانگ لگادیتاہے،اورپھرایک ایساوکیل جس کاکوئی ماما،چاچا، اعلیٰ افسر،جج یاپیشہ وکالت سے تعلق نہیں رکھتاتھا،ہائی کورٹ کاجج،وفاقی سیکریٹری قانون،سپریم کورٹ کاجج بن کرچیف جسٹس آف پاکستان کے اعلیٰ ترین عہدے پرفائزہوجاتاہے۔یہ سفرنامہ ء حیات حیرت انگیزہی نہیں،سبق آموزبھی ہے۔“
”ارشادنامہ“کاپیش لفظ موجودہ چیف جسٹس پاکستان جسٹس گلزاراحمدنے لکھاہے۔”پاکستان کی عدلیہ تاریخ میں کثیرتعداد میں ججوں نے اپنے نقوش چھوڑے ہیں پراس کثیرتعداد میں کچھ ایسے بھی ہیں جن کی شہرت زیادہ نمایاں اورہربزم کاتذکرہ رہتی ہے۔اس فہرست میں جناب ارشادحسن خان صاحب نمایاں ہیں۔ان کے فیصلے،بحیثیت جج لاہورہائی کورٹ،جج سپریم کورٹ پھرچیف جسٹس آف پاکستا ن پڑھے جاتے اورزیرِبحث آتے تھے۔قاری یہ ضرورمحسوس کرے گاکہ سابق چیف جسٹس ایک خودپرداختہ اورمحنتی انسان ہیں اورساتھ ہی مذہبِ اسلام سے گہرالگاؤ ان کی زندگی کاخاصہ رہاہے۔جوکچھ بھی زندگی میں انہوں نے حاصل کیاوہ اپنے زورِ بازوسے حاصل کیااور وہ زورِ بازوان کولائقِ تحسین سوچ اورخدااوررسولؐ پربے حداعتقادسے حاصل ہوا۔یہ کوئی آسان کامیابی نہیں تھی۔تقسیمِ ہندکے بعدجب یہ پاکستان آئے توکافی نامساعدحالات سے دوچارہوئے،جن کابخوبی مقابلہ کرنے کے بعدایک کامیاب زندگی کاحصول ممکن بنایا۔“
”ارشادنامہ“ ایک انتہائی دلچسپ اورقابلِ مطالعہ آپ بیتی ہے۔جسٹس ارشادحسن خان کااسلوب سادہ اوردل نشین ہے۔انہوں نے بہت عمدگی سے ایک یتیم ویسیرعام سے بچے کے چیف جسٹس آف پاکستان کے اہم عہدے تک پہنچنے کی داستان بیان کی ہے۔جس سے آنے والی نسلوں کوبھی ترقی کرنے کی ترغیب ملتی ہے۔یہی اس آپ بیتی کاسب سے مثبت پہلوہے۔وہ زندگی میں پیش آنے والے مسائل کاذکر ہی نہیں کرتے بلکہ ان سے نکلنے کاراستہ بھی پیش کرتے ہیں۔ارشادنامہ ایک حوالے سے سیاست نامہ بھی ہے۔محترم ارشادحسن خان کواعلیٰ
مناسب پرفائز ہونے کی وجہ سے اقتدارکے ایوانوں کوقریب سے دیکھنے کاموقع ملالہٰذاانہوں نے اپنی کتاب میں سیاسی انکشافات بھی کیے ہیں۔ان کایہ کہنابھی درست ہے کہ ظفرعلی شاہ کیس کی بدولت جمہوریت کوبحال ہوئے کئی سال ہوگئے پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ ن پانچ پانچ سال حکومت کرچکی ہیں فیصلے پراعتراض کرنے والے یہ توبتائیں کہ جنرل مشرف پربارہ اکتوبرکی بغاوت کے بارے میں غداری کامقدمہ قائم کرنے کاکریڈٹ کسی نے کیوں نہیں لیا؟
کتاب کاایک اورفکرانگیزپہلویہ ہے کہ اپنی عملی زندگی کے حوالوں سے بتایاکہ وکیل اورجج کوکیساہوناچاہیے؟ان کاعجیب الطبع وکیلوں اور مشتعل مزاج ججوں سے واسطہ پڑتارہا لیکن فطری خوش مزاجی،بردباری اورمعاملہ فہمی سے وہ سرُخ روہوئے۔ایسابھی ہواکہ جج نے اسٹے نہ دینے قسم کھارکھی تھی لیکن خداداد صلاحیت پیشے سے اخلاص کی بدولت حکم امتناعی حاصل کرلیا۔کیسے؟اس کاجواب جاننے کے لیے نئے وکلا ء اورماتحت عدالتوں کے جج صاحبان کوان صفحات کابہ غورمطالعہ کرناچاہیے۔
جسٹس ارشادحسن خان لکھتے ہیں۔”ہم کیسے مسلمان ہیں،قرآن مجیدپڑھتے ہیں لیکن اس کے ارشادات پرعمل نہیں کرتے۔کاش! کہ لوگ دوسروں کے بارے میں منہ کھولنے سے پہلے سورہ الحجرات پڑھ لیں۔بلکہ میں توکہوں گاکہ سورہ الحجرات تعلیم کے آخر ی مدارج تک پڑھائی جانی چاہیے۔اس کہ یہ معاشرتی محاسن اورآداب واخلاق اورانسانیت کادرس دیتی ہے۔“
کتاب میں ایسے پیغامات جگہ جگہ موجود ہیں۔ارشادحسن خان مارچ 1984ء سے جولائی 1988ء تک سیکریٹری وزارتِ قانون وپارلیمانی اموررہے۔اکتوبر 1994ء میں سپریم کورٹ کے ایڈہاک جج مقررہوئے۔جون 1995ء سے اپریل 1996ء تک لاہورہائی کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اپریل 1996ء میں مستقل سپریم کورٹ جج اور26جنوری 2000ء کوچیف جسٹس آف پاکستان مقررہوئے۔بہ حیثیت چیئرمین جوڈیشل کونسل،بہت سے ادارے قائم کیے،یاان اداروں کی تشکیل وترقی میں اہم کرداراداکیا جن کاعدلیہ سے تعلق ہے۔16 جنوری کوچیف الیکشن کمشنرتعینات ہوئے15جنوری 2005ء کواس عہدے سے بھی ریٹائرہوگئے۔
”ارشادنامہ“ اردوآپ بیتیوں میں ایک اہم اضافہ ہے۔جسٹس ارشادحسن خان کی دلچسپ یادیں معلومات افزااورچشم کشاہیں۔