”اک شخص مجھی ساتھا“اردوکے نامورفکاہیہ کالم اورخاکہ نگارنصراللہ خان کی گم شدہ خودنوشت ہے۔جس کی بازیافت وتدوین کاکارنا مہ شاعر،ادیب اورمحقق عقیل عباس جعفری نے انجام دیاہے۔کتاب کانام میرتقی میرکے اس شعرسے لیاگیاہے۔
اِک شخص مجھی سا تھا کہ وہ تجھ پہ تھا عاشق۔۔۔وہ اُس کی وفا پیشگی، وہ اُس کی جوانی
اس گم شدہ خودنوشت کی بازیافت اورتدوین کی داستان بھی بہت دلچسپ اورقابل ِ مطالعہ ہے۔عقیل عباس جعفری”چندباتیں“ کے عنوان سے اسے بیان کرتے ہیں۔
”کوئی دس بارہ برس پہلے کی بات ہے۔میں اتوارکوحسب معمول صدر،کراچی میں لگنے والے پرانی کتابوں کے بازارمیں گھوم رہاتھاکہ فٹ پاتھ پربیٹھے ایک کتب فروش نے مجھے مخاطب کیااورکہاکہ جعفری صاحب ذرایہ فائل دیکھیے گا،شایداس میں آپ کے کام کی کوئی چیزہو،میں نے فائل دیکھی تواس میں نصراللہ خان کے کسی گم نام مداح نے ان کی آپ بیتی”اِک شخص مجھی ساتھا“ کی وہ چھتیس اقساط ترتیب سے محفوظ کی تھیں جو26ستمبر1986ء سے 19جون 1987ء کے دوران روزنامہ حریت کراچی کے ہفتہ وارمیگزین میں شائع ہوئی تھیں۔گھرآ کر ان اقساط کامطالعہ کیاتومعلوم ہواکہ اس فائل میں ”اِک شخص مجھی ساتھا“کی ایک دوکے علاوہ تمام اقساط موجود توہیں مگران میں سے بھی کئی اقساط کٹی پھٹی ہیں۔میں نے آہستہ آہستہ ان کوکمپوزکرواناشروع کردیااورجہاں جہاں سے اقساط کٹی پھٹی تھیں ان کے نوٹس لیتاگیا۔ اب کراچی کے مختلف کتب خانوں میں حریت کی فائلوں کی تلاش شروع کی کہ اس کتاب کومکمل کرسکوں مگرکسی کتب خانے سے کوئی رہنمائی نہیں ملی۔اسی زمانے میں علم ہواکہ ممتازاسکالرمحمدراشدشیخ بھی اس آپ بیتی کی اشاعت میں دلچسپی رکھتے ہیں۔میں نے ان سے رابطہ کیاتو انہوں نے بتایاکہ نصراللہ خان نے یہ آپ بیتی ہفت روزہ تکبیرکے مدیرمحمدصلاح الدین کواشاعت کے لیے دی تھی مگر1990ء کے اوائل میں تکبیرکے کمپیوٹرمیں کسی تیکنیکی خرابی کی وجہ سے اس کتاب کی تمام کمپوزنگ ضائع ہوگئی اوراصل مسودہ بھی لاپتہ ہوگیا۔انہوں نے مشورہ دیا کہ تکبیرسے وابستہ صحافیوں سے رابطہ کروں،ہوسکتاہے کہ آپ بیتی کے اوراق کسی کے ذاتی ریکارڈمیں موجود ہوں۔تکبیرکے دوستوں کی مدد سے میری رسائی جناب محمودعزیزتک ہوئی،انہوں نے بتایاکہ ان کے پاس اس آپ بیتی کے چندابتدائی اوراق موجود ہیں۔یہ اوراق دیکھے تومعلوم ہواکہ نصراللہ خان،کیاقافلہ جاتاہے،کی طرح اپنی اس آپ بیتی کاانتساب بھی جناب مشفق خواجہ کے نام کرناچاہتے تھے۔”اِک شخص مجھی ساتھا“ کی غیرموجوداقساط اورکٹے پھٹے اوراق کامسئلہ اپنی جگہ موجود تھاایسے میں ایک صحافی دوست کام آئے اوران کی وساطت سے میری رسائی روزنامہ ڈان کے دفتر میں موجودروزنامہ حریت کی فائلوں تک ہوئی۔جن کے عکس سے یہ آپ بیتی مکمل ہوئی۔”اِک شخص مجھی ساتھا“1980ء کی دہائی میں تحریرکی گئی تھی۔2002ء میں جناب نصراللہ خان کاانتقال ہوگیا۔ان کے انتقال کے اٹھارہ سال بعدیہ آپ بیتی منظرعام پرآرہی ہے،اگرنصراللہ خان صاحب نے اس کاانتساب جناب مشفق خواجہ کے نام نہ کیاہوتاتواسے نصراللہ خان کے اس گم نام مداح سے منسوب کرتاجس نے اس آپ بیتی کے بیشتراوراق محفوظ کیے۔11نومبر2020ء کونصراللہ خان کی سوویں سالگرہ ہے، اس موقع پران کی آپ بیتی کی اشاعت سے بہترکوئی تحفہ ممکن نہیں۔“
کتاب کاانتساب11جنوری 1990ء کونصراللہ خان نے تحریرکیا۔”میں اس کتاب کواپنے عزیزدوست مشفق خواجہ کے نام نامی سے معنون کرتاہوں،کیونکہ یہ کتاب بھی میں نے ”کیاقافلہ جاتاہے“ کی طرح ان کی فرمائش اوراصرار پرلکھی ہے۔“
نصراللہ خان صاحب کے فرزندارجمندنجم الحسنین نے”یادسے آبادہے“ کے نام سے ان کی یادیں تازہ کی ہیں۔”بہت عرصہ ہواانھیں ہم سے جداہوئے۔وہ ایک شفیق باپ ہی نہیں ہم بہن بھائیوں کے گہرے دوست بھی تھے۔یاد نہیں انھوں نے کبھی ہم میں سے کسی ایک پرکبھی ہاتھ اٹھایاہو،ساری کسروالدہ پوری کردیتی تھیں۔والداورمیں جاورہ میں پیداہوئے۔جاورہ سینٹرل انڈیا(موجودہ مدھیہ پردیش) کی ایک ریاست تھی۔والد کے ایک بھائی اوردوبہنیں تھیں۔میرے داداجان کاتعلق امرتسرسے تھا،انھوں نے لاہوراورامرتسرمیں تعلیم حاصل کی، ان کانام محمدعمرخان تھا۔وہ مسلم اسکول امرتسرکے بانی تھے۔امرتسرسے نواب صاحب جاورہ کے اصرار پرجاورہ آئے اورپھروہیں کے ہو رہے۔والدنے ابتدائی عمرامرتسرمیں گزاری اورصحافت کاآغاززمینداراخبارسے کیا۔صحافت میں ان کے پہلے استادمولاناظفرعلی خان تھے۔قیام ِ پاکستان کے بعدہماراساراخاندان کراچی آگیا۔ہمیں رہنے کے لیے مارٹن کوارٹرزمیں دوکمروں کاگھرملاجس کی ٹین کی چھت تھی۔ کراچی آکروالدنے پہلی ملازمت جیکب لائن اسکول میں اوردوسری ریڈیوپاکستان میں کی۔مجھے وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب ریڈیو کے سربراہ سید ذوالفقارعلی بخاری ہمارے دوکمروں کے کوارٹرمیں آتے تھے۔برآمدے میں ایک چٹائی بچھادی جاتی،بخاری صاحب اور میرے والداس چٹائی پربراجمان ہوجاتے۔بخاری صاحب کے ساتھ کبھی شمس الدین بٹ اورکبھی آغاناصربھی ہوتے۔ان دنوں والدریڈ یوکامعرکہ آراڈرامہ”لائٹ ہاؤس کے محافظ“ لکھ رہے تھے۔اس ڈرامے میں باپ اوربیٹے کے دوکردارتھے اوردونوں بخاری صاحب کوہی ادا کرنے تھے یعنی پورے ڈرامے کاایک ہی ایکٹرتھا،خود بخاری صاحب۔کراچی میں کئی سال گزارنے کے بعدوالدکی صحافت کاآغازفخر ماتری کے اخبارحریت سے ہوا۔حریت نے پوری ملک کی صحافت میں تہلکہ مچادیا،والدصاحب پہلے روزسے اخبارکے کالم نویس تھے۔کالم کانام کیاہوگا،فخرماتری اس پربڑے فکرمندتھے۔ہرشخص نام پیش کررہاتھالیکن کوئی نام فخرماتری کوپسندنہیں آرہاتھا۔اتفاقاً ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے اورفخرماتری سے کہا’آداب عرض‘فخرماتری نے زورسے قہقہہ لگایا،لوبھئی نام مل گیا۔آداب عرض۔“فخرماتری کے انتقال کے بعدحریت تیزی سے زوال پذیرہونے لگا۔فخرماتری کے صاحبزادے انقلاب ماتری اسے سنبھال نہ سکے اوراس کی ملکیت ڈان گروپ کوچلی گئی۔اس بعد بھی کئی سال تک والداسی اخبارسے اپناکالم لکھتے رہے پھرمیرخلیل الرحمٰن مرحوم کے مدعوکرنے پرجنگ کے لیے کالم لکھنے لگے۔والدہرسال اپنی چھوٹی بیٹی شاہین کے پاس امریکاجایاکرتے تھے۔جوواشنگٹن ڈی سی کے قریب چھوٹی بستی پورٹ ٹوبیکو میں رہاکرتی تھی۔وہاں والدکے دیرینہ دوست صاحبزادہ سلطان محمدخان سابق سفر اورسابق سیکریٹری خارجہ اکثروالد سے ملنے آتے۔والد شاہین سے ملنے گئے ہوئے تھے کہ وہیں سے سفرآخرت پرروانہ ہوئے۔وہ سیر کے لیے نکلے ہوئے تھے،چکراکرگرپڑے،اسپتال پہنچ کر معلوم ہواکہ دماغ میں ٹیومرہے۔عمراتنی زیادہ تھی کہ آپریشن نہیں ہوسکتاتھا۔“
راشداشرف صاحب نے ”اذاجاء نصراللہ“ کے نام سے دیباچہ لکھاہے۔جس کے بارے میں بتاتے ہیں کہ مولاناظفرعلی خان،جب نصراللہ خان کودیکھتے تھے توکہتے تھے اذاجاء نصراللہ۔”نصراللہ خان سے کون واقف نہیں ہے۔کھرے صحافی،پختہ کارکالم نویس،منجھے ہوئے خاکہ نگار۔جس موضوع پرقلم اٹھایااسے اپنے شگفتہ اسلوب کی بدولت شگفتہ تربنادیا۔خاکوں کی کتاب”کیاقافلہ جاتاہے“ شائع ہوئی توادبی حلقو ں میں اسے ہاتھوں ہاتھ لیاگیا۔کتاب کیاہے،ایک جیتاجاگتاعہد ہے جوآنکھوں کے سامنے سلسلہ وارآتاچلاجاتاہے۔مذکورہ کتاب کے علاوہ یوں تونصراللہ خان کے کالموں کاانتخاب بھی شائع ہوچکاہے مگر”اِ ک شخص مجھی ساتھا“ان کی وہ خودنوشت ہے جوروزنامہ حریت میں بالاقساط شائع ہوئی اوربعدازاں اس کی چندقسطیں ہفت روزہ تکبیرمیں بھی شائع کی گئیں۔ڈاکٹرجمیل جالبی نے نصراللہ خان کے اندازتحریر کے بارے میں کیاعمدہ بات کہی تھی کہ ’ان کے اندازبیان میں اردوزبان کی روایت بولتی ہے۔ان کے ہاں زورزورسے چہک چہک کر باتیں کرنے کااحساس ہوتاہے۔ان کی تحریرمیں خاموشی نہیں بلکہ شوراورقہقہے لگانے کاپتہ چلتاہے۔‘ راقم الحروف کواس خودنوشت کے مطالعے کے قدم قدم پرحیرتوں کاسامنارہا۔کتنی ہی گم شدہ کڑیاں تھیں جودوران مطالعہ ایک دوسرے سے باہم ہوتی چلی گئیں۔کتنے فراموش کردہ چہرے نگاہوں کے سامنے چمک دکھلاتے رہے۔امرتسرکے آغاخلش کاشمیری اوربالے کے تذکروں نے تونہال کردیا۔اول الذکرکاخاکہ اے حمیدمرحوم نے بھی لکھاہے۔بالے(مبارک حسین رضا) کاسرسری تذکرہ ہمیں سعادت حسن منٹوکے ایک خاکے میں ملتاہے جبکہ نصراللہ خان نے بالے پرتفصیلاً لکھاہے اوراہم بات یہ ہے کہ انہوں نے بالے کی وہ غزل مکمل حالت میں محفوظ کردی جس کاصرف ایک شعرمنٹو نے اپنے خاکے میں لکھاہے۔“
امرتسرکے ہردل عزیزاورمقبول ماہرتعلیم محمدعمرخان کے فرزندنصراللہ خان 11نومبر1920ء کوریاست جاورہ،مالوہ میں پیداہوئے جووسطی ہندکی ریاست تھی۔محمدعمرخان کے شاگردوں میں سعادت حسن منٹو،اے حمید،سیف الدین سیف شامل تھے۔نصراللہ خان سات سال کی عمر میں امرتسرآگئے اوریہیں تعلیم حاصل کی۔ایم اے اوکالج امرتسرمیں ڈاکٹرمحمددین تاثیر اورفیض احمدفیض ان کے استادتھے۔1945ء میں آگرہ یونیورسٹی سے بے اے اوربی ٹی کی اسناد حاصل کیں۔دوسال بعدناگپوریونیورسٹی سے اردومیں ایم اے کیا۔اسی سال کراچی آگئے اوردرس وتدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔1949ء میں ریڈیوپاکستان کراچی سے وابستہ ہوئے،جہاں انھوں نے بے شمارفیچر، ڈرامے اوردیگرپروگرام تحریرکیے۔ان کامقبول ترین پروگرام ”دیکھتاچلاگیا“تھاجوکئی سال تک نشرہوتارہا۔”لائٹ ہاؤس کے محافظ“،”نام کاچکر“،”سومناتھ“،”کنواہے کامیدان“اور”ایک حقیقت چارافسانے“بہت مقبول ہوئے۔انھوں نے چنداسٹیج ڈرامے بھی تحریرکیے۔ نصراللہ خان کے کالموں کامجموعہ”بات سے بات“ اورخاکوں کی کتاب”کیاقافلہ جاتاہے“ کے نام سے شائع ہوئے۔جامعہ کراچی سے ڈاکٹریاسمین سلطانہ فاروقی نے نصراللہ خان کی کالم نگاری کے موضوع پرمقالہ لکھ کرپی ایچ ڈی کی سندحاصل کی۔نصراللہ خان کوحکومت پاکستان نے صدارتی اعزازبرائے حسن کارکردگی اوراے پی این ایس نے بہترین کالم نگارکاایوارڈعطاکیا۔25فروری2002ء کووہ میری لینڈ امریکا میں وفات پاگئے۔
جاورے کے بارے میں نصراللہ خان لکھتے ہیں۔”ریاست ٹونک،بھوپال اوررام کی مخصوص تہذیبی زندگی تھی۔ان ریاستوں میں تہذیبی،ثقافتی اورخونی رشتے ایسے تھے کہ ساری دوریاں اور فاصلے ختم ہوجاتے اوریوں لگتاکہ جیسے ایک ہی خاندان کی بات ہورہی ہے،مسلمانوں کی تہذیب کے یہ گہوارے اورجزیرے نئی تہذیب کی دست برد سے محفوظ تھے۔جاورے اورٹونک کے پٹھانوں میں یہ فرق تھاکہ ٹونک کے عام پٹھان کچھ زیادہ ہی اکھڑتھے لیکن وہاں کوئی گھر ایسا نہیں تھا جہاں کوئی قاری یاحافظ موجود نہ ہو،ددین داری کازورتھالیکن دنیاداری کے اشغال بھی کچھ کم نہ تھے فرصت کازمانہ تھاپیسے کی کمی نہ تھی باپ داداکی جاگیریں تھیں اورسرکارسے وثیقے بھی ملتے تھے۔اسلامی ریاستوں میں بڑا مردم خیزخطہ تھا بڑے بڑے عالم اورفقیہ یہاں پیداہوئے۔”
اپنے والدکے بارے میں لکھتے ہیں۔”ان کاشمارانگریزی محاورے کے مطابق پیدائشی معلموں میں کیاجاتاہے۔انھوں نے معلمی کوپیشے کے طورپراختیارنہیں کیا۔بلکہ یہ ان کامشغلہ بھی تھا۔اگروہ دوچاردن بچوں کونہ پڑھاتے توبیمارہوجاتے۔وہ اسکول میں پڑھاکرگھرآتے تودسو یں جماعت کے سارے طالب علم ہمارے گھرجمع ہوجاتے اوروہ انھیں سارے مضامین پڑھاتے،پھرشام کومحل جاکرشہزادوں اورشہزادیوں کوپڑھاتے۔انھوں نے گبن کی تصنیف رائزاینڈفال آف دی رومن امپائرکادوحصوں میں اردومیں ترجمہ بھی کیا۔اسی طرح اس ہرن پر بھی انھوں نے ایک طویل مضمون لکھاتھاجس کے نافے سے مشک نکلتاہے۔وہ طلسم ہوشربااورداستان امیرحمزہ بہت شوق سے پڑھتے تھے۔وہ روزانہ دس میں تک پیدل سیرکے لیے نکل جایاکرتے تھے۔ان کاانتقال اسی برس کی عمرمیں ہوا۔“
اپنے بچپن کی صبح کاحال نصراللہ خان کچھ یوں سناتے ہیں۔”سب سے پہلے مندرکی گھنٹیوں اوراذان کی آوازایک ساتھ سنائی دیتی اوریہ عجیب بات ہے کہ مندراورمسجدکے درمیان صرف ایک پل کافاصلہ تھا۔اذان اورمندرکی گھنٹیوں پرکبھی کوئی دنگافساد نہیں ہوااوراس کی وجہ یہ تھی یہ مندربھی نواب صاحب نے بنوایاتھااوریہ مسجدبھی انھی نے بنوائی تھی۔اذان سے پہلے محلے کے غریب گھروالوں کی عورتیں چکی پیستیں اورساتھ ساتھ وہ چکی کے گیت بھی گاتی جاتیں اورچکی کی گھمرگھمرہمیں ناگوارنہ گزرتی۔پھرصبح صبح چڑیوں کی چہکارکے ساتھ فاختہ کی آواز بھی سنائی دیتی۔نجانے یہ فاختائیں کہاں چلی گئیں۔“
”اک شخص مجھی ساتھا“ ایک دور،ایک تہذیب کی کہانی ہے۔اس دورسادگی کے لیے یہ اقتباس دیکھیں۔”اگرچہ ہوائی جہازمیرے پیدا ہونے سے بہت پہلے ایجادہوچکے تھے،لیکن ان میں سے کبھی کوئی طیارہ اڑتاہواہمارے سروں سے گزرجاتا،لیکن جب جنگی جہازاڑنے لگے توہم نے اپنے بچپن میں اکثرانھیں اڑتاہوادیکھاانھیں چیل گاڑی کہاکرتے تھے۔بعدمیں ایسے طیارے بھی آئے جوجنگی جہازوں سے مختلف تھے اورجن میں فرنگی تاجروں کامال ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچایاجاتاتھا۔جب ان کی تعداد میں اضافہ ہواتویہ ہمارے شہروں پر سے بھی گزرنے لگے چناں چہ لوگوں نے اس کے خلاف آوازاٹھائی اوریہ کہاکہ ہوائی جہازاڑانے والے ہماری عورتوں کوچھتوں،صحنوں اور آنگنوں میں ننگاکھلابھی دیکھتے ہوں گے اوریوں ہماری عورتوں کی عزت وآبرواب خطرے میں پڑگئی ہے۔اس موضوع پرجلسے جلوس بھی ہو ئے اوراخباروں میں اداریے بھی لکھے گئے۔ایک اخبارنے لکھاکہ جب طیارچی ہوائی جہازمیں پیشاب کرے گاتوظاہرہے کہ اس کے قطرے زمین پربھی پڑیں گے اوراس طرح کون پاک رہ پائے گا۔“
آپ بیتی میں جگ بیتی کارنگ ہے۔ بے شمارافرادکے مختصراورطویل خاکوں کااپنالطف ہے۔ذوقی شاہ،مذاق میاں،تاج الدین بابا،آغا کمال الدین سنجرایرانی،استادرجب علی خان،حکیم نصیرمیاں،مولانامعین الدین اجمیری،مولاناسیدبرکات احمد،رضیہ سجادظہیر،علامہ فضائی، سیدہ سرداراختر،عبدالقادربیگ،سجادسرورنیازی،،علامہ عنایت اللہ مشرقی اورمولاناظفرعلی خان کے بارے میں قارئین کوکئی باتوں کاعلم ہو تا ہے۔نصراللہ خان دل پذیراورسادہ اسلوب سونے پرسہاگہ کے مترادف ہے۔
اس دورکی صحافت کے بارے میں لکھتے ہیں۔”ابوالکلام آزاد،مولاناحسرت موہانی اورمولاناظفرعلی خان کاشماراداروں میں ہوتاہے۔یہ ایسی عظیم اورہمہ جہت شخصیتیں تھیں کہ یہ اپنی زندگی میں اپنے اخباروں کوادارے نہ بناسکیں،کیوں کہ ان کاتعلق ایک طرف توصحافت سے تھاتودوسری طرف ادب،شاعری اورملک کی عملی سیاست سے بھی تھا،لیکن ان کے بعدجوشخصیتیں صرف صحافت کی ہوکررہ گئیں تواگرچہ ان میں سے بعض سیاست میں حصہ لیتی تھیں اوروہ شاعروادیب بھی تھیں لیکن انھوں نے اپنی تمام ترتوجہ اپنے اخباروں کومستقل بنیادوں پرکھڑا کرنے میں صرف کردیں اوران میں انفرادیت پیداکی۔ان بزرگوں میں مہروسالک،حمیدنظامی،مولاناچراغ حسن حسرت،عنایت اللہ اورفخرماتری کے نام شامل ہیں۔“
عقیل عباس جعفری صاحب”اِک شخص مجھی ساتھا“ کی دریافت اورتدوین پرقارئین کی بھرپورداد اورشکریے کے مستحق ہیں کہ انھوں نے گم شدہ انتہائی دلچسپ خودنوشت کوقارئین تک پہنچایا۔ایسی ہی ایک آپ بیتی حال ہی میں شاہین صہبائی نے اپنے والدکی”میری رانی،میری کہانی“بھی شائع کی ہے۔