”رب رحمٰن کے مہمان“ ستارہ امتیازڈاکٹرآصف محمود جاہ کاعقیدت میں ڈوباسفرنامہ حج ہے۔جس کاذیلی عنوان ”بیت اللہ اورروضہء رسول ﷺ کی چھاؤں میں بیٹھ کرلکھاگیاسفرنامہ حجاز“ ہے۔سفرحج کے بارے میں اردو میں بے شمارسفرنامے لکھے گئے ہیں۔جو جذبہ، عقیدت سے لبریزہیں۔ان میں سرفہرست ممتازمفتی کا”لبیک“ ہے۔مظفراقبال نے”سحرمدینہ“ اوریوسف جمیل نے ”اے اللہ میں حاضرہوں“ کے نام سے بہت عمدہ حج کے سفر نامے تحریر کیے ہیں۔نامورسفرنامہ،ناول،افسانہ اورڈرامہ نگارمستنصرحسین تارڑ نے سفرحج کے حوالے سے دو بے مثل کتب”منہ ول کعبے شریف“ اور”غارِحرامیں ایک رات“ تحریرکیں اورقارئین کی بھرپورداد سمیٹی۔”رب رحمان کے مہمان“ حج کے سفرناموں میں ایک بہترین اضافہ ہے۔
ڈاکٹرآصف محمودجاہ کی شخصیت کے کئی پہلوہیں۔وہ میڈیکل ڈاکٹر،محکمہ کسٹم میں چیف کلیکٹر،سوشل ورکر،بیس سے زائدکتابوں کے مصنف ہیں۔حکومتِ پاکستان کے ان کی خدمات کااعتراف انہیں ستارہ امتیازسے نوازکرکیاہے۔وہ سرگودھامیں پیداہوئے اورکہتے ہیں۔ ”انہیں فخرہے کہ وہ ٹاٹ اسکول سے پڑھے ہیں اورکنگ ایڈورڈمیڈیکل کالج،ایچی سن کالج اورہاورڈیونیورسٹی کے طلباسے بہترنتائج کے حامل رہے ہیں۔وہ ہمیشہ زمین سے جڑے رہے۔ وہ میڈیکل ڈاکٹرہی نہیں کسٹم کے محکمہ میں چیف کلیکٹرہیں۔آپ ایک ایسے انسان کا تصور کر سکتے ہیں۔جومحکمہ کسٹمزمیں چیف کلیکٹرہو،لیکن بدعنوان نہ ہو،سادگی اس کاشعارباعمل مسلمان ہو۔اس کے اکاؤنٹس خالی ہوں اوراس کی ترجیح ہمیشہ اپنی ذات اورخاندان کے بجائے پوری انسانیت ہو۔نامورسفرنامہ نگارمستنصرحسین تارڑان کے بارے میں کہتے ہیں۔”یہ ایک شخص نہیں بلکہ عجائب گھرہے۔اس عجائب گھر میں کیسے کیسے نوادرات سجے ہوئے ہیں۔اس پاک وطن پرنازل آفتوں میں وہ غیب کافرشتہ بن اجڑچکے لوگوں کی نئی بستیاں آبادکرتاہے۔کنویں کھدواتاہے۔کبھی تھرپارکرکے صحراؤں کی پیاس بجھانے میں لگاہے۔کہیں اللہ کابندہ بن کرایسے جذبے میں ڈوب کر حاضری دیتاہے کہ خداخود پوچھے کہ بتاتیری رضاکیاہے۔“
کشمیراورشمالی علاقہ جات میں زلزلہ آئے یاترکی قدرتی آفات سے متاثرہو۔ڈاکٹرآصف محمودجاہ ہرجگہ تن من دھن سے انسانیت کی خدمت میں مصروف نظرآئیں گے۔انہوں نے بیس سے زائدکتابیں لکھی ہیں۔جن میں ”اللہ،کعبہ اوربندہ“،”زلزلے،زخم اورزندگی“،”تھر،پیاس اورپانی“،”دوا،غذااورشفا“،”علاج بالغذا“،”زلزلہ،زیارت اورزندگی“،”فیملی ہیلتھ“،”چڑھتے سورج کے دیس میں“شامل ہیں۔”اللہ،کعبہ اوربندہ“ میں ڈاکٹرآصف جاہ لکھتے ہیں۔”حجازمقدس کاسفران کے دوسرے اسفارسے یکسرمختلف رہا۔اس سفرسے انہیں مذہبی جذبات کی تسکین حاصل ہوئی۔کعبہ پرپہلی نظرڈالتے ہی ان کاپوراجسم خشیت الہٰی سے لرزاٹھا۔مذہبی جذبات اوراللہ کی وحدانیت کے تصورنے انہیں اپنی گرفت میں لے لیا اوراپنے خالق کی عدالت میں حاضری کے موقع پرآنکھوں سے بے اختیاراشکوں کی بارش شروع ہوگئی۔“
”پیش گفتار“ نیشنل بک فاؤنڈیشن کے مینجنگ ڈائریکٹرانعام الحق جاویدلکھتے ہیں۔”رب رحمان کے مہمان ڈاکٹرآصف محمود جاہ کاسفرنامہ
حجاز ہے۔انہوں نے یہ سفرنامہ مناسک حج کے دوران اورمقامات ِ مقدسہ کی زیارت کرتے ہوئے بیت اللہ اورروضہ رسولﷺ کی چھاؤں میں بیٹھ کرلکھاہے۔یہ ایک معلوماتی،تاثراتی اورجذباتی سفرنامہ حجاز ہے جس کے ہرصفحے میں مصنف کی بیت اللہ اورروضہ رسولؐ سے محبت جھلکتی ہے۔حج کاسفرعشق ومحبت کاسفرہے۔ہرمسلمان کی دیرینہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ زندگی میں کم ازکم ایک دفعہ لازمی بیت اللہ جائے اورساتھ ساتھ روضہ رسولؐ کی زیارت کرے۔’رب رحمان کے مہمان‘ پڑھ کرہرمسلمان کے دل میں مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ جانے کی خواہش مچلتی ہے اوروہ اس کے لیے دعائیں اورکوشش کرنے میں لگ جاتاہے۔دل میں خواہش ہوتواللہ کریم کی طرف سے بلاوا بھی آجاتا ہے۔ حج کے لیے بلاوااوپرسے آتاہے جیساکہ ڈاکٹرآصف محمودجاہ نے کتاب میں لکھاہے کہ باباشریف چٹاان پڑھ،کانوں سے بہرہ،پلے دھیلا نہیں لیکن ایک دن بیت اللہ اورپھرروضہ رسولؐ پہ پہنچ گیا۔اللہ سب مسلمانوں کوبیت اللہ اورروضہ رسولؐ کی حاضری نصیب کرے۔“
سعودی عرب کے سفیرنواف بن سعیدالمالکی نے لکھاہے۔”ڈاکٹرآصف محمود جاہ نے’رب رحمان کے مہمان‘ (ضیوف الرحمٰن) کے نام سے خوبصورت اورایمان افروزسفرنامہ حج تحریرکیاہے۔مکہ مکرمہ اورمدینہ منورہ کے مقدس مقامات سے مسلمانوں کی جذباتی وابستگی ہے۔بیت اللہ اورروضہ رسولؐ کی زیارت پرہر مسلمان کے جذبات امڈآتے ہیں۔ڈاکٹرآصف محمود جاہ نے ان مقدس مقامات کے بارے میں اپنے فوری تاثرات اورجذبات کااظہاربڑے موثرانداز میں کیاہے۔یہ سفرنامہ پڑھ کریہ بھی اندازہ ہوتاہے کہ سعودی عرب کی حکومت نے حاجیوں کوبہترسہولتیں فراہم کرنے اوران کے حج کوآسان بنانے کے لیے شاندارانتظامات کیے ہیں۔“
پروفیسراحمدرفیق اخترکاکتاب کے بارے میں ارشاد ہے۔”ڈاکٹرآصف محمود جاہ اگرچہ مقتدرسول سرونٹس میں سے ہیں مگرحج انہوں نے ایک عام آدمی ساکیا۔یہ احساس گرانقدرہے۔اپنی نظرمیں کم تررہنااورخلق کی نگاہ میں بہترہونااللہ کاکرم ہے اوردعائے رسولؐبھی،کیفیا ت ذات سے واضح ہے کہ آصف کوئی فضول اورفالتواشیاء سمیٹ کرنہیں گئے، ان کی تلاش ان کی آرزوکے مطابق رہی۔وہ احساس،تاریخ اور رائے کوایک پس ِ منظرمیں سمیٹے جارہے ہیں۔جہاں سے گزرے پوری آگہی سے گزرے۔مجھے احساس ہواکہ جناب آصف محمود جاہ نے بہت اچھا حج کیااوراچھاصلہ پایا۔“
مولاناطارق جمیل کاکہناہے۔”حج سفراسلام کاخوبصورت ترین فریضہ ہے۔یہ دراصل سفرِ عشق ہے۔اس سفرکاحقیقی مزاوہی لے سکتاہے جس میں رنگِ عشق ہواورڈاکٹرآصف محمود جاہ کی تحریر میں وہ رنگ نمایاں نظرآتاہے۔اللہ تعالیٰ اسے قارئین کے لیے مفیداورمشعل راہ بنائے۔“
مشہوردانشوراورروحانی شخصیت باباعرفان الحق نے کچھ یوں تبصرہ کیا۔”رب رحمان کے مہمان کوئی روایتی قسم کاسفرنامہ حج نہیں ہے یہ ایک ایسے مخلص انسان کے حج کی روداد ہے جس نے قدم قدم پراپنے رب رحمان کی محبت کے احساس کواپنے دل کے قریب ترپایا جس نے رسول پاکؐ سے اپنی عقیدت کااظہارلفظوں سے کم اوراشکوں سے زیادہ کیاہے۔یہ کتاب پڑھنے والوں کے لیے ایک ایساتحفہ ہے جوان کے دلوں میں اللہ اوراللہ کے رسولؐ کی محبت کے احساس کونئے سرے سے بیدارکرکے ان کوخانہ کعبہ اورروضہء رسولؐ کی زیارت کے لیے بے تاب کردے گی۔یہ کتاب دماغ سے نہیں بلکہ دل سے لکھی گئی ہے۔“
پاکستان کے نامورمصوراورادیب اسلم کمال”رب رحمان کے مہمان“ کاتعارف کراتے ہوئے لکھتے ہیں۔”قارئین ایک اندازے کے مطابق تقریباً پچیس لاکھ بندے فریضہ ء حج اوراتنے ہی بندے ہرسال عمرہ اداکرتے ہیں۔واپسی پریہ نصف کروڑمسلمان آبِ زم زم کی بوتلوں،قسم قسم کی کھجوروں،رنگ برنگی تسبیحوں اورٹوپیوں کے تحائف اپنے عزیزواقارب کے لیے لے کراپنے اپنے وطن پلٹ جاتے ہیں۔ لیکن محکمہ کسٹم پاکستان کاایک اعلیٰ عہدیداربڑامختلف بڑا منفردہے جوفریضہء حج کی ادائیگی میں ایک ایک لمحہ کوقلم سے قرطاس پرپہلے حج میں ”اللہ،کعبہ اوربندہ“ اوردوسرے حج کے دوران ”رب رحمان کے مہمان“ کے عنوان سے اتارتارہا اوریوں اپنے ادراک ووجدان وایمان کے نہاں خانوں میں پورے کاپوراحج سمیت سنبھال کراہلِ وطن کے لیے تحفتاً لے آیااوراب وہ روزانہ شام کوکسٹمزہیلتھ کیئرسوسائٹی جہاں زیب بلاک،علامہ اقبال ٹاؤن،لاہورمیں بیٹھ کرمجبوروں،غریبوں اورمریضوں میں اپنے حج کے ثمرات تقسیم کرتاہے۔وہ کسی کے لیے دعا کرتاہے،کسی کی ہتھیلی پردوارکھتااورکسی کی جیب میں دواکے لیے نقدی ڈال کراپنے آپ کوملتزم میں اپنے رب کے بہت قریب محسوس کرتا ہے۔جب اس کاکوئی مریض اپنی شفایابی کی کیفیت سناتاہے توواسے یقین ہوجاتاہے کہ حطیم میں مانگی ہوئی اس کی دعائیں قبول ہورہی ہیں۔قارئین جامعہ قاسم العلوم سرگودھاسے 1997ء میں ریٹائرہونے والے فرشتہ سیرت ہیڈماسٹرمحمدبشیراحمداکثرکوئی پرنورخواب دیکھا کرتے تھے۔کوئی شے غائب سے ظاہرہوکرانہیں حیران کن رفعتوں کی جانب لے جاتی تھی۔ان کے ہاں پیداہونے والا ڈاکٹرآصف محمود جاہ عجیب طرح کاحاجی ہے کہ ہرجگہ اورہروقت حج کے شعوروسرورمیں رہتاہے،اسے آبِ زم زم کی لذت یادآتی ہے تووہ تھرکے ریگزاروں میں میٹھے پانی کے کنویں کھودکرپیاسوں کی پیاس بجھاتاہے۔وطن عزیزمیں ناگہانی زلزلے آتے ہیں تووہ اپنا میڈیکل بکس اٹھاکرچترال، دیر،بالاکوٹ،بٹ گرام،زیارت،آواران،مظفرآباداورمیرپورآزادکشمیرکی پہاڑیوں میں سعی مشکورکرتاہے۔گلے میں اسٹیتھوسکوپ لٹکائے ہاتھ میں تھرمامیٹرلیے وہ بنوں میں آئی ڈی پیزکے خیموں کے چکرپرچکرکاٹتے ہوئے اپنے اندرہی اندرخانہ کعبہ کاطواف کرنے لگتاہے۔ کیلاش،سوات،نوشہرہ اورچارسدہ کے سیلاب میں جن کے گھربہہ گئے۔تعمیرکعبہ کے محنت کشوں اورمزدوروں کی صفمیں جگہ پانے کایہ آرزو مندڈاکٹرآصف محمود جاہ ان کوگھربناکردیتاہے۔اس کے لیے خیبرسے کراچی تک اورکے ٹوسے بحیرہ عرب تک ساراپاکستان میدانِ عرفات ہے،جس کے جنگلوں،دریاؤں،میدانوں اورصحراؤں میں گونجنے والی حاجب مندصداؤں کے جواب میں وہ لبیک لبیک پکارتاہے۔وہ کسی یتیم کے سرپرہاتھ رکھ کرحجراسودکے بوسے کی طمانیت محسوس کرتاہے۔رات کاعرصہ اس کے لیے مزدلفہ ہے۔جہاں سے وہ بے کسوں اور بے چاروں کی راہ سے کنکرچنتااورمنیٰ کے خدمتِ خلق میدان میں وہ یہ کنکریاں بہکانے والے شیطان کومارتاہے۔“
دیباچہ میں ڈاکٹرآصف محمود جاہ لکھتے ہیں۔”رب رحمان کے مہمان کولکھنے کابینادی مقصدیہ ہے کہ کتاب کے مطالعے کے بعدآپ میں اللہ کے گھرکو،حرم کو،دیکھنے کا،حج کرنے کاشوق اوراس کی لگن پیداہو۔جیساکہ آپ جانتے ہیں میرابنیادی کام علاج اورخدمت ہے،اوریہ خدمت میں نے یہاں بھی انجام دی۔مسجدنبوی اوربیت اللہ کی مسلسل حاضری کے ساتھ ساتھ اللہ نے دنیاکے مختلف ممالک سے آئے ہوئے حاجیوں کے علاج اورخدمت کی توفیق بھی دی۔اس کتاب کادوسراحصہ،مدینہ کے سفرپرمشتمل ہے۔مدینہ پہنچ کربھی مختلف ابواب مسجدنبویؐ کے وسیع وعریض ہال کے مختلف کونوں اورصحن،ریاض الجنہ،اصحاب صفہ کے چبوترے یاگنبدخضراکے سامنے بیٹھ کرلکھے گئے۔اس کے علاوہ مقدس جگہوں،تاریخی مقامات مثلاً جبل احد،جبل سلع اورحضورؐ کے دورکی وادیاں دیکھ کرجوجذبات اوراحساسات ہوئے ان سب کواسی وقت قلم بندکردیا۔جب نبیﷺ کے درپہ حاضری ہوتی ہے توپھربندے کوسمجھ نہیں آتی کہ کیاہوگیاہے۔اتنے اچھے نصیب ہوگئے کہ روضہ رسولؐ پہ حاضری نصیب ہوگئی۔“
کتاب کی ایک ایک سطرعقیدت اورجذب میں ڈوبی،بندگی سے سرشاراوراحساسات سے لبریزہے۔جس کی بڑی وجہ انہی مقدس مقامات پربیٹھ کرلکھنابھی ہے۔حج کاسفربھی عجیب سفرہے۔یہ ایساسفرہے جسے کرتے کرتے مسلمان کبھی تھکتانہیں۔کم ازکم ایک دفعہ جانے کی چاہ اورحسرت توہرمسلمان کے دل میں ہوتی ہے۔جس کے دل میں چاہ اورتڑپ ہو۔اللہ اس کاانتظام بھی فرمادیتے ہیں۔حج کاتعلق پیسے سے بھی نہیں۔جب بلاواآجاتاہے توپھرسب کچھ ہوجاتاہے۔ایسی جگہ سے ہوتاہے جہاں سے ہونے کاگمان بھی نہیں ہوتا۔یہ سب اللہ کے مہمان ہیں۔اس کے درکے والی ہیں۔ان سب کوچاہنے اورمحبت کرنے والے اللہ نے اپنامہمان بناکراپنے درپربلایاہے،ان میں بوڑھے بھی ہیں،بچے بھی ہیں،نوجوان بھی ہیں۔ننھے منے حاجی بھی احرام کی چادروں میں ملبوس فرشتے لگتے ہیں۔
کعبہ کیاہے۔اللہ کاسوہناگھر۔وہ عظیم گھرجسے پہلے حضرت آدم ؑ اوربعد میں حضرت ابراہیمؑ اورحضرت اسمٰعیلؑ نے بنایا۔خلیل ؑاللہ نے اللہ سے درخواست کی۔یااللہ تیراگھرتوبنارہاہوں مگرادھرکون آئے گا۔اس بے آب وگیاہ بستی میں کوآکرتیری عبادت کرے گا۔اللہ نے کہا میرے خلیلؑ تسلی رکھ توآوازلگا،میں تیری آوازکورہتی دنیاکی تمام نسلوں تک پہنچاؤں گا۔تیرابنایاہواگھرقیامت تک امن وچین،راستی اور ہدایت کامرکزومحور اورمنبع رہے گا۔اس کودیکھنے کے متلاشی،اس کے ذرے ذرے کوآنکھوں میں بسانے والے،اس کوچومنے والے،اس کے ذرے ذرے سے محبت کرنے والے،فرزانے،دیوانے،دنیاکے کونے کونے سے آئیں گے۔اس کادیدارکرکے،اس کوآنکھوں میں بساکرابدی سکون اورچین پائیں گے۔خلیلؑ اللہ کی اس پکارمیں اتنااثرتھاکہ آج دنیابھرسے گورے،کالے،لال،پیلے،زردرنگ کے، چھوٹے اوربڑے قدکے۔دنیاکے لاکھوں گوشوں میں کوئی گوشہ یامقام تصورمیں نہیں آتاجہاں سے لوگ اس پکارپرلبیک کہتے ہوئے دیوانہ واریہاں حاضرنہ ہوتے ہوں۔
ڈاکٹرآصف محمودجاہ لکھتے ہیں۔”کعبے پرپہلی نظرپڑی تومیں ایک دفعہ دم بخود ہوگیا۔دیوانہ ہوگیا۔فرزانہ بن گیا۔کعبے پہ نظرپڑتی ہے توپڑی رہ جاتی ہے۔نظرتھکتی نہیں بلکہ فکس اورفوکس ہوجاتی ہے۔پہلی نظرپڑتے ہی بندے پہ کعبے کاجلال وکمال اس طریقے سے اثرکرتاہے کہ وہ ایک دم بے خود ہوکراس کے گرددیوانہ اورمستانہ بن کرگھومناشروع کردیتاہے۔اس کے گرد چکرلگانے لگتاہے۔اس کی دیواروں تک پہنچنے کی سعی،ملتزم سے چمٹنے اورحجراسود سے لپٹنے کی کوشش کرتاہے۔رات کے دوبجے ہیں۔عجیب منظرہے۔آنکھوں کوخیرہ کردینے والابے مثال اورلازوال روحانی اورایمان پرورمنظرہے۔حرم بقعہ نوربناہواہے۔اللہ کے گھرکے قریب جاناچاہتے تھے۔اس کی دیواروں کوچومنے کاارادہ تھااس سے لپٹنے کاپروگرام تھا مگرنیچے توتل دھرنے کی جگہ نہیں۔اللہ کی مخلوق لاکھوں کی تعداد میں خانہ کعبہ کے اردگرددیوانوں اور فرزانوں کی طرح بے خود ہوکراس کی محبت میں ڈوب کرچکرلگارہی ہے اورلگاتی چلی جارہی ہے۔الحمداللہ! کعبۃ اللہ پورے جاہ وجلال کے ساتھ آنکھوں کے سامنے ہے۔طواف جاری ہے۔سبزلائٹ آتی ہے توہزاروں چھوٹے بڑے،کالے،گورے،ننھے منے ہاتھ حجر اسودکی طرف عقیدت اورمحبت سے اس کے مالک کودل میں بسانے کی نیت سے اللہ کی تعریف اورحمدوثنابیان کرتے ہوئے اٹھتے ہیں۔اللہ اکبر اور الحمداللہ کی صداؤں سے فضاگونج اٹھتی ہے۔اللہ آسمان سے اٹھ کراپنے گھرکعبہ آگیاہے۔اپنے بندوں کوعاجزی کرتے،اپنی بڑائی بیان کر تے،اپنے آگے روتے،کرلاتے،سسکیاں بھرتے اورگناہوں سے معافی طلب کرتے دیکھ کرفرشتوں کے سامنے تفاخرکااظہارکررہاہے اور وعدہ کررہاہے کہ میرے فرشتوگواہ رہنا۔میں نے اس سب کوبخش دیاہے۔سب کی خطائیں معاف کردی ہیں۔اللہ کے مہمانوں کی اللہ کے گھرآکرخوب پذیرائی ہوتی ہے۔کھانے پینے کی طلب ہوتوخودبخود مل جاتاہے۔راستہ بھول جائیں توکوئی خود ہی سیدھی راہ پرڈال دیتا ہے۔“
کیاروح پرورمنظرکشی ہے۔قاری خود کواس منظرمیں شامل محسوس کرتاہے۔ڈاکٹرآصف محمودجاہ نے کتاب میں طواف کے سات چکرکی وجہ بیان کرتے ہوئے لکھا۔”سات زمین،سات آسمان،ماں کے پیٹ سے زمین میں آنے تک زندگی کی سات منزلیں،قرآن پاک کی سات منزلیں،سبع مثانی،یعنی قرآن کی قرأت سات طرح سے،براعظم سات،ہفتے میں دن سات۔سعی کے چکرسات۔جمرات کوسات کنکریاں سات بار۔سات کاہندسہ مبارک ہے،مقدس ہے،مقام والاہے،اسی لیے طواف کے چکربھی سات ہیں۔عیدین کی تکبیریں سات ہیں اورسات برس سے بچوں کونمازپڑھنے کی ترغیب دلانے کاحکم ہواہے۔“
مصنف نے سعی کے سات چکروں کی کیفیات ہرچکرکے ساتھ بیان کی ہے۔مجموعی طور پر”رب رحمان کے مہمان“ جذب وکیف میں ڈوبا ایک ایساسفرنامہ حج ہے۔جس کی ہرسطرمشکبوہے۔ہرلفظ کیف پرورہے۔قاری کتاب کوشروع کرکے اس میں ڈوب جاتاہے اورڈاکٹر صاحب کے ساتھ قدم قدم چلتاچلاجاتاہے۔اللہ کرے زورِ قلم اورزیادہ۔