ڈاکٹر فاروق عادل کی کتاب” جب مؤرخ کے ہاتھ بندھےتھے ۔ کئی دنوں سے زیر مطالعہ تھی۔ کیونکہ یہ ایسی کتاب نہیں ہے جسے ایک نشست میں پڑھ کر ہضم بھی کر لیا جائے۔ اور پھر دل کی دھڑکنوں کو بھی قابو میں رکھ لیا جائے اور تو اور روہانسی اور ہیجانی کیفیت پر بھی کنٹرول رہے۔
ڈاکٹر فاروق عادل انتہائی سنجیدہ سلجھے ہوئے ، بات کی تہہ تک پہنچنے والے۔ ذہین لکھاری ہیں۔ کتاب پڑھتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ اسے نیک نیتی سے لکھا گیا ہے۔ تبصرہ تو کیا کوشش کروں گی کہ چیدہ چیدہ چیزیں جنہوں نے مجھے چونکایا انہیں مختصرا گوش گزار کر سکوں۔ وگرنہ تو کتاب پڑھے بغیر حالات کا اپنے طور پر جائزہ لینے کی بات ہی کچھ اور ہے۔
ابتداء میں لکھتے ہیں تاریخ کا سفر نہ زیادہ سیدھا ہوتا ہے، نہ اس کا بیان
درِ منثور میں درج ہے:
حضرتِ ابو ہریرہ رضی اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی نے دریافت کیا اےصحابی رسول یہ تو فرما دیجئے کہ تقوی کیا ہے؟
آپ نے لحظہ توقف فرمایا۔ پھر سوال کرنے والے کی طرف دیکھا اور پوچھا کیا کبھی کانٹوں بھرے راستے سے گزرے ہو؟
سوال کرنے والے نے کہا کہ حضرت ایسا تو بارہا ہوا۔
آپ نے فرمایا کہ پھر تم ایسی راہوں سے کیسے گزرے؟
کہنے لگا کہ دامن سمیٹ کر کانٹوں سے بچ بچا کے نہائت احتیاط کے ساتھ، نیز ڈرتے ڈرتے۔
آپ نے فرمایا بس یہی تو تقوی ہے۔
یہ مضامین مرتب کرنے کے بعد میں نے پیچھے پلٹ کر جب اپنے سفر پر نگاہ ڈالی تو سوچا کہ تاریخ کا بیان بھی تو ایسا ہی ہے خاص طور پر اپنے وطن کی تاریخ۔
پھر ایک جگہ لکھتے ہیں۔
“ممکن ہے کسی کے لئے معمول کا معاملہ ہو، یا محض ایک مضمون ہو، لیکن میرے لئے تو یہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے جو تاریخ کے گلی کوچوں سے گزرتے ہوئے بار بار میری راہیں روشن کرتا رہا، یوں میری پیشہ وارانہ سرگرمیاں میرے لئے پیشے سے کچھ بڑھ گئیں”
اب لکھاری کی اس نیک نیتی کے ساتھ اس کتاب کو پڑھا تو چاروں طبق روشن ہو گئے۔ کہنے کو یہ سامنے کی تاریخ ہے مگر اندرون خانہ کی سیاست بد نیتی اور خودغرضانہ رویوں نے اس ملک کو کیسے کیسے برباد کیا؟؟ یہ تو کوئ باخبر ہی بتا سکتا تھا۔
سب سے پہلے مضمون فقیر ایپی نے ہی چونکا دیا۔ اسلام آباد کی ایک سڑک کا نام “فقیر ایپی روڈ” تو بہت دفعہ پڑھا تھا مگر فقیر ایپی کون تھا، میں نہیں جانتی تھی۔
یہ بھی پڑھئے:
سید محمد علی نے ڈھونڈا ہے ممتاز مفتی کی عورت کو
حکومت پی ٹی آئی مذاکرات، رانا ثنا اللہ کی غیر معمولی تجویز
سیاسی عدم استحکام کا بیانیہ
“دوسری جنگ عظیم کے دوران جو لوگ سلطنت برطانیہ کے دشمن کی حیثیت سے ابھرے، فقیر ایپی ان میں بے مثل حیثیت رکھتے تھے۔”
“فقیر ایپی کے جنگی حربوں میں قبائلی روایات کے عین مطابق ضد، عدم مفاہمت، دشمن کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا اور ہر اصول کو پامال کرنا شامل تھا۔ وہ قبائلی عسکری روایات کے مطابق گھات لگا کر حملہ کرتے، دشمن کے فوجیوں کو قید کر لیتے اور جسمانی اذیت پہنچاتے یہاں تک کہ ان کے اعضاء تک کاٹ ڈالتے۔ اس حکمت عملی کی وجہ سے ان کے دشمنوں کے دلوں میں ان کا خوف سرایت کر گیا۔”
آگے دیکھیئے۔۔
آخر میں یہ کہ فقیر ایپی ان سیاسی بازی گھروں کے دکھائے گئے سبز باغوں کے جھانسےمیں آ گئے اور پاکستان کے خلاف ایک آزاد پشتون مملکت کا اعلان کر دیا۔ اور اس کی ماسکو، کابل اور دہلی میں خوب تشہیرشروع کر دی ۔ اسی زمانے میں کابل میں بھارتی سفارت خانے کی معرفت فقیر ایپی کے بھارت کے ساتھ براہ راست تعلقات بھی استوار ہو گئے اور انہوں نے بھارتی قیادت کے ساتھ خط و کتابت بھی شروع کر دی۔ لائیک شاہ نے اس سلسلے کا ایک دلچسپ خط اپنی کتاب میں نقل کیا ہے جو انہوں نے بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو کو لکھا اس کے چند جملے نقل کرتی ہوں
“خدا کے فضل سے اب پاکستان کمزور ہو گیا ہے اور کچھ نہیں کر سکتا۔ دوسری بات یہ کہ جو نہی آپ کی مدد پہنچ جاوے گی تو میں سرحدی لوگوں کو ایک دم لڑائی پر مجبور کر دوں گا ۔”
ساری زندگی پاکستان کے خلاف سازشیں کرنے کے بعد آخری عمر میں تائب ہوا اور پاکستان کا ہیرو ٹھہرا۔ اور اسلام آباد کی ایک سڑک کا نام اُس سے منسوب کر دیا گیا۔۔
لیا قت علی خاں کا قرار داد مقاصد پیش کرنا, جس سے عنان حکومت کلی طور پر مذہبی پیشواؤں کے ہاتھ میں آگئی۔ ان میں وہ لوگ بھی تھے جو پاکستان بنانے کے حامی نہ تھے۔ مگر پھر تحریک پاکستان کی کامیابی دیکھ کر اس میں شامل ہوئے۔ اس کے بعد کے حالات اور اقلیتوں کے ساتھ سلوک کی شرمناک مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
صدر میجر جنرل اسکندر مرزا نے خان آف قلات اور نواب بھوپال سر حمیداللہ خاں کے ساتھ مل کر ہمیشہ کے لیئے اپنے ہاتھ مضبوط کرنے کے لیئے سازشوں کا جال بُنا۔ اور جب خان آف قلات کو اس چال کی سمجھ آ گئی اور اُس نے تعاون سے انکار کر دیا تو اُسے غدار کہہ کر “قلات اپریشن” کے ذریعے اسکی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔
طاقت کے نشے میں کیا کیا ہوا۔۔
منیر انکوئری میں تحقیقاتی عدالت اور اختر علی خان کےمکالمے کی تفصیلات جو وزیر اعلی ممتاز دولتانہ کےحوالے سے ہیں، بہت دلچسپ اور حیرت انگیز ہیں۔ مذہبی جنونیت نے تب سے ہی سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ اور پھر اسے باقاعدہ حکومتوں نے اپنے مفادات کے لیئے کیسے کیسے استعمال کیا۔
سوشلزم جب کفر ٹھہرا تو بائیں بازو کے ہمدردوں کے خلاف فتوی جاری کیا گیا۔۔۔جسے پیپلز پارٹی نے ان الفاظ میں رد کیا۔۔
“پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقارعلی بھٹو نے اس ضمن میں اپنے متعدد بیانات میں فتوے کی مذمت کی. انہوں نے کہا فتوی جاری کرنے والے سامراجیوں کے پٹھو ہیں۔ جو لوگ مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں وہ خود کافر ہیں۔ جو لوگ پیسے لے کر مسلمانوں کے خلاف فتوے دیتے ہیں ہم انہیں فکس اپ کریں گے۔انہوں نے کافروں کی خدمت کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکٹری جنرل جے اے رحیم نے اس فتوے کو یہودی سازش قرار دیا۔ انہوں نے ایک اور بیان میں کہا کہ پیشہ ور علماء پاکستان کے لئے خطرہ بن چکے۔ ان کا سختی کے ساتھ سد باب ناگزیر ہو گیا ہے۔”
اور پھر اسی باب میں مذکور ہے
“اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات سے قبل یہ فتوی ایک بڑے ہیجان کا باعث بنا۔ لیکن انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی اس کے اثرات زائل ہو گئے۔ امجد علی شاکر نے لکھا ہے کہ وہ مولانا احتشام الحق تھانوی جو فتوی دینے والوں میں شامل تھے ذولفقارعلی بھٹوکے اتحادی بن گئے اور ان کے پورے دور حکومت میں رویت ھلال کمیٹی کے سربراہ رہے”
انہیں فکس اپ کریں گے۔انہوں نے کافروں کی خدمت کی ہے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکٹری جنرل جے اے رحیم نے اس فتوے کو یہودی سازش قرار دیا۔ انہوں نے ایک اور بیان میں کہا کہ پیشہ ور علماء پاکستان کے لئے خطرہ بن چکے۔ ان کا سختی کے ساتھ سد باب ناگزیر ہو گیا ہے۔”
اور پھر اسی باب میں مذکور ہے
“اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انتخابات سے قبل یہ فتوی ایک بڑے ہیجان کا باعث بنا۔ لیکن انتخابی عمل کے مکمل ہونے کے ساتھ ہی اس کے اثرات زائل ہو گئے۔ امجد علی شاکر نے لکھا ہے کہ وہ مولانا احتشام الحق تھانوی جو فتوی دینے والوں میں شامل تھے ذولفقارعلی بھٹوکے اتحادی بن گئے اور ان کے پورے دور حکومت میں رویت ھلال کمیٹی کے سربراہ رہے”
بلوچستان میں سرداری نظام کی ظالمانہ اور انسانیت سوز کہانیاں پڑھ کر دکھ ہوا۔ اوراس باب کا آخری پیراگراف پڑھ کر یہ دکھ فزوں تر ہو گیا۔۔جو قاری کے لیئے سوچنے سمجھنے کے بے شمارموقع پیدا کرتا ہے۔ اور کافی غور طلب بھی ہے۔
“یہ وجہ ہے کہ بدلے ہوئے حالات میں آج کا سردار زیادہ طاقتور ہو چکا ہے۔ اب وہ صرف وڈیرہ اور زمیندار نہیں بلکہ صنعت کار اور سرمایہ دار بن گیا ہے۔ گویا سرداری نظام بھی اسی طرح قائم و دائم ہے اور کاشتکار ششک جیسا ٹیکس بھی اسی طرح ادا کر رہا ہے “
قدرت اللہ شہاب کا ایک واقعہ ایوب خان کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے.
“شہاب کے مطابق 1962 میں چین نے جب بھارت پر حملہ کیا تو وہ آدھی رات کا وقت تھا. رات کے اسی پہر ایک چینی باشندےنے ان سے ملاقات میں بھارت پر چین کے حملے کی خبر دی اور کہا کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ صدر ایوب کو خبر میں گہری دلچسپی ہوگی۔ شہاب کے مطابق یہ چینی سفارتکاری کا ایک خاص انداز تھا جس کے تحت انہوں نے پاکستانی دوستوں کو آگاہ کیا کہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا بہترین وقت آ پہنچا ہے۔ شہاب کے مطابق انہوں نے ایوب خان کو جگا کر جب یہ خبر سنائی تو وہ بہت خفا ہوئے اور سخت غصے میں کہا
تم سیولین لوگ فوجی نقل وحمل کو بچوں کا کھیل سمجھتے ہو۔ جاؤ تم بھی آرام کرو مجھے بھی نیند آ رہی ہے۔
شہاب نے لکھا ہے مجھے قوی یقین ہے کہ اس شب ایوب خان پر اگر نیند کا غلبہ طاری نہ ہوتا تو تاریخ کا دھارا مختلف ہوتا۔
رائیٹر گلڈ کا قیام حکومتی امداد اور پھر ایوب خان کا پیسے دے کر اپنی حمایت میں لکھوانا اور پھر اُن مصنفین کو ایوارڈ دے کر نوازنا۔۔یہ ادبی مافیا کی ابتدا شاید وہیں سے ہوئ ۔ جو آج بھی رواں دواں ہے۔
جہاں رائیٹرز گلڈ نے ادیبوں کی پہچان کروائ۔ انہیں سوسائیٹی کا اہم حصہ ہونے کا احساس دلوایا۔۔ وہاں یہ اپنے آغاز سے ہی متنازعہ بھی ہو گیا۔
قدرت اللہ شہاب کے مطابق برگیڈیئر خان نے گلڈ سے فائدہ اٹھایا وہ گلڈ کے دفتر سے ادیبوں کی فہرستیں حاصل کر لیا کرتے تھے ان فہرستوں سے وہ کیا فائدہ اٹھاتے تھے؟ شہاب نے لکھا ہے بیورو آف نیشنل ڈی کنسٹرکشن کے نمائندے ایسے ادیبوں کی ٹو ہ میں لگے رہتے تھے جو معاوضہ لے کر حکومت کی مرضی کے مطابق کچھ مضامین یا پمفلٹ اردو، بنگالی، انگریزی، اور دوسری علاقائ زبانوں میں لکھنے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ شہاب نے تسلیم کیا ہے کہ ان عناصر نے بریگیڈیئر خان سے معاوضہ لے کا خاصا کام کیا۔
ایوب خان نے جب دستور نافذ کیا تو اس کی تائید میں مضمون لکھوانے کے لئے ادیبوں کی خدمات حاصل کیں۔ ہر ادیب نے بڑھ چڑھ کر اپنی قیمت لگائی اور حکومت کے مطلوبہ مقاصد کے لئے کام کیا۔ جب مضامین کے انبار در انبار شائع ہو گئے تو ایوب خان نے ایوان صدر میں ان ادیبوں کا شکریہ ادا کرنے کے لئے انہیں چائے پر مدعو کیا۔ اس تقریب میں کئی بڑے صحافی بھی مدعو تھے۔ ایک بڑے اخبار کی ایڈیٹر نے اس موقع پر ایوب خان سے کہا کہ ابھی قوم کو مارشل لاء کی ضرورت تھی آپ نے مارشل لاء کیوں اٹھایا؟
“اپنے سیاسی مقاصد کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایوب خان کے عزائم جب کھل کر سامنے آ گئے تو اس مرحلے پر کئی ادیبوں نے رائٹرز گلڈ سے علیحدگی احتیار کر لی۔ ان میں ایک نمایاں نام ممتاز شاعر منیر نیازی کا ہے ۔انہوں نے ڈاکٹر طاہر مسود کو بتایا کہ میں نے فاطمہ جناح کے الیکشن کے زمانے میں رائٹرز گلڈ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا تھا۔ میں نے علیحدگی کے اعلان میں کہا تھا کہ میں ظالموں کے شہر سے نکل آیا ہوں”
جہاں رائٹرز گلڈ جیسا ادارہ قائم کر کے دانشوروں کو رجھانے کی کامیاب کوشش ہوئی، وہیں کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس کی طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ ایسے ادیبوں میں لاہورسے مولانا صلاح الدین احمد، کراچی سے حسن عسکری اور سلیم احمد نمایاں تھے۔
عطاالحق قاسمی کے مطابق قدرت اللہ شہاب سے دوستی اور قربت رکھنے والے کئی ادیبوں کو اس زمانے میں اچھے اداروں میں پرکشش مشاہروں پر رکھا گیا۔ جن میں اشفاق احمد، ابن انشاء، ممتاز مفتی سمیت کئی دیگر ادیب شامل تھے جو شہاب صاحب کے حلقہ احباب میں شامل تھے۔
جی تو چاہتا ہے “جب مورخ کے ہاتھ بندھے تھے” 33 مضامین جس میں ڈھاکہ فال سے لے کر تمام زمانوں کی اہم داستانیں، بشمول “اسلامک ٹچ” تک محفوظ ہیں کے حوالے دوں۔ مگر ایک تو مضمون کی ضخامت اور دوسرا قاری کا سسپینس ختم ہو جائے گا۔۔ آپ خود پڑھیئے اور فیصلہ کیجیئے کہ ہم سب نے مل کر ملک کے ساتھ کیا کیا