چھبیس نومبر رات آٹھ سے نو بجے کے درمیان ہم نے سوچا کہ اسلام آباد کے بلیو ایریا جاکر دیکھا جائے کہ کیا عمران خان کی فائینل کال پر بشریٰ بی بی واقعی ڈی چوک پہنچ گئی ہیں یا محض افواہیں ہیں؟
جب ہم گھر سے نکلے تو سوچ رہے تھے کہ نہ معلوم وہاں تک پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں؟ مگر حیرت کی بات یہ کہ ہم آرام سے مجمع تک پہنچ گئے۔ راستے میں کنٹینر تو تھے مگر گاڑیوں کے گزرنے کے لیے جگہ تھی۔ ہمیں سیونتھ ایوینیوکے قریب پی ایس او کے پٹرول پمپ تک جانے میں سوائے رش کے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ نہ تو آنسو گیس کی کوئی بدبو تھی اور نہ ہی کسی شے کے جلنے کی بو۔
زیرو پوائنٹ سے آگے سینٹورس کی جانب جاتے ہوئے بائیں جانب بہت سی ٹویوٹا ہائی ایس اور چند بسیں کھڑی تھیں۔سڑک کے دونوں طرف گندگی اور کچرا پھیلا ہوا تھا۔ احتجاجیے سر پر تحریک انصاف کے جھنڈے کے رنگ کے رُومال، سروں پر ٹوپیاں، ہاتھوں میں ڈنڈے اور کندھوں پر چادریں اوڑھے گھوم پھر رہے تھے۔ یہ لوگ ٹریفک بھی کنٹرول کر نے کی کوشش کر رہے تھے۔
تمام مظاہرین پٹھان تھے۔ ہماری گاڑی دھیرے دھیرے مجمعے میں سے راستہ بناتی ہوئی آگے اور آگے چلی جا رہی تھی۔ گاڑیوں کی تعداد خاصی تھی اور رش بھی۔ زیادہ تعداد موٹر سائیکلوں کی تھی۔ ایک جگہ رش میں ہم نے واپسی کیلئے یو ٹرن لینا چاہا مگر پیچھے موجود گاڑیوں کی وجہ سے ممکن نہ تھا۔ سو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ سست روی سے ہی سہی آگے بڑھتے جاؤ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔
یہ بھی پڑھئے:
کوئی لاش گرے، کوئی خون بہے، کوئی بات بنے
بلوچستان کی روح عمار مسعود کےقلم سے
اقبال؛ اقبال کیسے بنے؟ زاہد منیر عامر کی تاریخی فکری دریافت
میرے میاں جس ہمت اور سمجھ بوجھ سے گاڑی بچا کر گزر رہے تھے ۔ یہ انہی کا خاصا تھا میں تو صرف ہمت ہی بڑھا رہی تھی۔ ایک جگہ کچھ لڑکوں نے گاڑی کے شیشے پر ہاتھ مارا۔ میں نے شیشہ نیچے کر کے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا،پینے کیلئے پانی ہے؟ میں نے کہا نہیں اور شیشہ بند کر لیا۔
دھرنے میں لوگ تو کافی تھے۔ ہمارا اندازہ ہے کہ کے پی کے اور پنڈی اسلا م آباد سے تقریبا دس ہزار کے لگ بھگ لوگ دھرنے میں تھے۔ پورے مجمع میں صرف ایک خاتون نظر آئی جو اپنی گاڑی کی سن روف میں سے گردن نکال کر وکٹری کا نشان بنا رہی تھی۔ ہجوم میں کچھ ہم جیسے تماش بین بھی ہونگے۔ حیرت اس بات پر بھی تھی کہ فائنل کال میں علی امین، بشری بی بی اور عمر ایوب کے علاوہ کوئی لیڈر نظر نہ آیا۔ ہم تو اپنی بزرگی کا بھی فائدہ اُٹھا رہے تھے۔ کیونکہ لوگ ہماری طرف ہمدردی سے دیکھ کر ہمیں تھوڑا راستہ بھی دے دیتے۔
اتنے رش میں ایک جگہ سوزوکی پک اپ پر کابلی پلاؤ بٹ رہا تھا۔ ایک سوچھبیس دن والے دھرنے جیسا موج میلہ نہیں تھا۔ گرد و پیش کی دکانیں بھی بند تھیں۔
ہماری گاڑی بری طرح رش میں پھنس چکی تھی آگے جانے والوں کی ایک لین تھی اور سامنے سے آنے والے دو لینوں میں تھے۔ یعنی ہمارے دائیں اور بائیں دونوں طرف سامنے سے آنے والی گاڑیاں آ رہی تھیں اور گاڑی کے سامنے موٹر سائیکل تھے۔ جوں کی رفتار چلتے ہوئے اچانک ہمیں پی ایس او کا پٹرول پمپ نظر آیا جو کہ سیونتھ ایوینیو کے پاس ہے۔ ہم نے گاڑی کا رخ بائیں طرف موڑ دیا۔ بالآخر وہاں سے سروس روڈ کے ذریعے واپسی کا راستہ مل گیا۔ ہم جتنے آرام سے بلیو ایریا گئے تھے اتنے ہی آرام سے واپس گھر پہنچ گئے۔
گھر آ کر ملکی حالات ، دھرنے پر لوگوں کا ہجوم، غنڈا گردی، کچرے کے ڈھیر ، ڈیڈ لاک اور گزشتہ کئی برسوں سے یکے بعد دیگرے ڈی چوک کے حالات پر دل بہت آ زردہ اور افسردہ تھا۔ ملکی حالات کے بارے میں بہت تشویش تھی کہ اب کیا ہوگا؟ خوف و ہراس اور بے یقینی کا یہ عالم کب تک رہے گا؟
کہاں ہے حکومت؟ شہریوں کی جان و مال کا محافظ کون ہے؟
یہی سوچتے سوچتے میں اپنے بیڈ روم میں جا کر سو گئی۔۔۔ ایک بجے کے قریب میرے میاں نے مجھے بتایا کہ دھرنا ختم ہو گیا ہے۔
میں نے انتہائی حیرانی سے پوچھا کہ یہ کیسے ہوگیا؟
جلدی سے اُٹھ کر ٹی وی آن کیا۔
ٹی وی پر بشری بی بی کا کنٹرینر جل رہا تھا۔ اور کچھ ہی دیر بعد محسن نقوی زیر لب مسکراتے ہوئے یہ خبر سنا رہا تھا کہ اسلام آباد شر پسندوں سے وا گزار کروا لیا گیا ہے۔ اور یہ کہ صبح تک اسلام آباد نارمل ہو جائے گا۔۔
میرے میاں نے کہا کہ اس وقت بلیو ایریا دیکھنا چاہتی ہو؟ میں نے کہا کیوں نہیں؟
ہم آئ ایٹ سے نکلے تو زیروپوائنٹ اور سینٹورس کے درمیان جہاں کافی گاڑیاں کھڑی تھیں، اب وہاں کوئ ایک گاڑی یا بس نہیں تھی۔
زیرو پوانٹ پہنچے تو
پولیس اور کچرے کے ڈھیروں کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ چونکہ چند گھنٹے پہلے کا رش دیکھ چکے تھے لہذا ہر قدم پر ریاست کی طاقت کا اندازہ حیرت در حیرت میں مبتلا کر رہا تھا۔ پورے بلیو ایریا میں ہُو کا عالم تھا۔ بھگدڑ میں ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی کوئی درجن بھر ویگنیں اور گاڑیاں جن کے شیشے ٹوٹے ہوئے تھے کھڑی نظر آئیں۔ ان کے مالکان گاڑیاں چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔
خالی سڑک اور ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں مالکان کی بے بسی، بدحواسی اور بولھلاہٹ کی منہ بولتی تصویر نظر آرہی تھیں۔ سڑکوں پر دو تین موٹر سائیکل بھی نظر آئے جنہیں اُن کے مالک چھوڑ کر بھاگ چکے تھے۔
سڑک پر عجیب سی خاموشی تھی۔ پُر اسرار سی کہانیاں بکھری ہوئی تھیں ۔ کچھ اور آگے بڑھے تو اس ویرانی میں کچھ دیر پہلے بلند بانگ دعوے کرتی ہوئی بشری بی بی اور علی امین گنڈا پور کا کنٹنیر جو بہت آرام دہ اور محفوظ تھا آگ سے جلنے کے بعد سلگتا ہوا اپنی بے بسی کا نوحہ بیان کر رہا تھا۔
ہم نے گاڑی سے اتر کر بشری بی بی کے کنٹینر میں لگی اُس آگ کو دیکھا جو اب بجھنے کو تھی۔ دھواں تو ناسازگار ہوائیں اُڑا کر لے جا چکیں تھیں۔ آسمان خاموش تھا۔ رینجرز اور پولیس اپنی ڈیوٹی مکمل کر کے جا چکی تھی۔۔ستارے جگمگا رہے تھے، قمقمے روشن تھے۔ کسی پر کیا گزری؟
کون کس کس کے لیئے استعمال ہوا؟
کس کے دل میں کیا تھا؟ ارمان یا ہیجان، غصہ یا بدلہ، حسرتیں یا اُمیدیں ، فتح یابی یا ناکامی جذبہ یا دکھاوا، ذاتی مفادات یا منافقت؟ سب کہانیاں ختم ہو چکی تھیں۔۔
ہم نے گاڑی سے اتر کر بشری بی بی کے کنٹینر میں لگی اُس آگ کو دیکھا جو اب بجھنے کو تھی۔ دھواں تو ناسازگار ہوائیں اُڑا کر لے جا چکیں تھیں۔ آسمان خاموش تھا۔ رینجرز اور پولیس اپنی ڈیوٹی مکمل کر کے جا چکی تھی۔۔ستارے جگمگا رہے تھے۔