جبار مرزا صاحب کی کتاب”جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں “ کے تیسرے ایڈیشن کی اسپیشل ایمبوسڈ سرورق والی کاپی سجی سنوری پلاسٹک اور خاکی کاغذ میں لپٹی ملی تو میں نے اس کتاب کو تہہ در تہہ کھولتے ہوئے سوچا۔
اگر مرنے کے بعد اتنی پزیرائی ملنے کی امید ہو تو مرنا کیا برا ہے؟
ارے بھئی !سسی پنوں ،شیریں فرہاد،لیلی مجنوں ،رومیو جیولٹ جیسی کئی داستانیں جوانی میں پڑھ پڑھ کر خواب دیکھتے گزر گئیں ۔
مگر۔۔۔۔۔خواب تو خواب ہی ہوتے ہیں۔۔۔اور پھر جوانی کے خواب تو نرے خواب ہوتے ہیں۔
یہ بھی پڑھئے:
آرٹیفیشل انٹیلیجنس نے جمھوریت کو کیسے مغلوب کیا؟
شہباز شریف بلوچستان کے لیے کیا کریں؟
عصر حاضر کے جبار مرزا جسے پروفیسر فتح محمد ملک نے دلدار مرزا کہا ہے کی داستانیں عشق جس طرح ایک نئے رنگ روپ اور جلوے کے ساتھ ہمارے سامنے آئی ہیں۔
اس پر خواب تو نہیں رشک ہی کر سکتے ہیں۔۔بڑھاپا جوانی کی میٹھی اور سہانی یادوں کے ساتھ کیسے گزرتا ہے یہ جبار مرزا صاحب گاہے گاہے ہمیں بتاتے اور سمجھاتے رہتے ہیں۔۔
چھوڑیئے جی !سب حسرتیں ،خواب ،قصے اور کہانیاں ۔۔۔۔”جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں” دیکھتے ہیں اس کا تیسرا ایڈیشن تصویروں کے ساتھ چھپا ہے اور ان میں صرف رانی اور جبار مرزا کی تصویریں نہیں ان سب دوستوں کی تصویریں ہیں جن کے ساتھ رانی کا تھوڑا سا بھی تعلق رہا۔
جن دوستوں نے پہلے ایڈیشن کے بارے میں کچھ لکھا ان سب کا ریکارڈ بھی اس میں موجود ہے۔میں نے تو ایک ایک صفحے کو دیکھا اس کی خوشبو کو محسوس کیا۔اور دل ہی دل میں جبار مرزا صاحب کا شکریہ ادا کیا ۔ وہ انسان انسانیت اور دوستی کے اتنے بڑے قدردان ہیں کہ محبت بھلے تھوڑی ہو ان کے دامن دل تک پہنچتی ہے تو پہاڑ بن جاتی ہے۔ محبت ،عزت اور احترام کا پہاڑ۔اس پہاڑ کی بلندی دیکھ کر ہمارا دل بھی احترام سے جھک جھک جاتا ہے۔
بچپن میں ایک حدیث پڑھی تھی کہ جو عورت اس حالت میں دنیا سے جائے کہ اس کا شوہر اس سے راضی ہو۔تو وہ سیدھی جنت میں جائے گی۔۔
تو آؤ سکھیو سہیلیو !
جشن رانی مناتے ہیں ۔کیونکہ ہمیں تو اپنے بارے میں معلوم نہیں ۔۔۔رانی یقیناً جنت میں بیٹھی اس کتاب کی اشاعت پر مسکرا رہی ہوں گی۔۔