گمنام اور تنہائ بھری زندگی گزارتے ہوئے۔۔۔وہ ہمارے آس پاس ہی تو تھے۔ وہ جی رہے تھے۔اس لیئے کہ زندگی خدا کی دی ہوئی نعمت ہے جسے گزارنا ہی ہوتا ہے۔
وہ ہمارے درمیان پھولوں کی سی شخصیت تھی مگربہت عرصہ پہلے اس پھول کو موسم بدلنے کے بہانے مرجھانے پر مجبور کیا گیا۔۔وہ خود سے مرجھانا نہیں چاہتے تھے۔
کبھی نہیں ۔۔
وہ کبھی اپنے کلموں میں یادوں کے دیپ جلاتے کبھی دوستوں کو یاد کرتے۔کبھی محسنوں کے لیئے کلمہ خیر کہتے۔۔کبھی خاموش رہتے جب خاموشی جان لیوا ہو جاتی تو درد کو سینے کا روگ بناکر دانتوں تلے داب لیتے۔۔ان کا سینہ تو ناقدری زمانہ کا روگ بن چکا تھا۔
وہ ہمارے لیئے تازہ ہوا کا جھونکا تھے۔۔مگر ہم نے تو تازہ ہوا کے لیئے تمام کھڑکیاں دروازے ہی بند کر لیئے تھے۔۔
ہم تو اس احساس سے بھی عاری ہیں۔ جو پھولوں کو خوشبو،ہوا کو تازگی،زندگی کو توانائ عطا کرتی ہے۔عبدالقدیر خاں حب الوطنی کا عذاب سہتے سہتے ختم ہوگئے۔۔
خدا را انہیں عظیم مت کہیئے۔۔۔محسن پاکستان بھی مت کہیئے۔۔حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ بھی مت دیجیئے۔۔۔انہیں خاموشی سے بھول جائیے۔۔۔
اس لیئے کہ عظمت کے پیمانے یہ نہیں ہواکرتے۔۔احسان کے تقاضے بھی یہ نہیں ہوتے۔۔حب الوطنی کو پرکھنے کے معیار بھی یہ کہاں ہوتے ہیں۔۔
وہ اللہ کا سپاہی تھے۔۔اللہ کے سپرد ہوئے۔ہم تو اس قابل بھی نہیں کہ دعا کے لیئے ہاتھ اٹھائیں۔