کل شام کی بات ہے میں اور علوی صاحب کمرے میں بیٹھے گود میں اپنی اپنی پسند کی کتاب ٹکائے عینک کے شیشیوں سے جھانکتی آنکھوں سے مطالعے میں مصروف تھے۔ اچانک میں نے دیکھا وہ اپنی کرسی پر بیٹھے ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہورہےہیں۔۔
میں نے وجہ پوچھنے کی بجائے کتاب پر نظر ڈالی تو وہ ڈاکٹر ذوالفقار علی کی کتاب اٹھکیلیاں تھی۔۔اور جملہ تھا۔۔۔۔”بازار حسن میں آگ لگ گئی عملے نے دو گھنٹے کی مسلسل جدو جہد سے آگ پر تو قابو پا لیا لیکن اب عملے پر قابو نہیں پایا جا رہا”
ڈاکٹر ذوالفقار علی کی تحریر میں ایسے کئی جملے ہیں جنہیں پڑھ کر قاری بے اختیار ہنسنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔۔
مزاح لکھنا کوئی آسان کام نہیں ڈاکٹر صاحب کی طبیعت ہی میں یہ ہنر فطرت نے گوندھ دیا ہے۔۔دیکھنے میں وہ سنجیدہ لگتے ہیں ۔۔مگر ان کی تحریر عبادت کی حد تک بژمردہ ،مایوس ،نا امید،اور دُکھی انسانوں کو جی اٹھنے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔ان کا مزاح گردو پیش کے حالات و واقعات سے ہی اخذکیا گیا ہے۔مگر وہ جس طرح لفظوں کی پرتیں کھول کھول کر ان کے استعمال سے مزاح پیدا کرتے ہیں وہ انہی کا کمال ہے۔۔
عصر حاضر کے بہت سے مسائل ہیں جن کی وجہ سے انسان تنہا ہو گیا ہے۔مستقل تنہائی نے بہت سے مسائل پیدا کیئے ہیں۔۔جن کی وجہ سے انسان کی سوچ میں منفی اثرات نے جنم لیا ہے۔۔یہ بڑی خطرناک بات ہے کہ انسان جینے کی امید ہی کو چھوڑ دے۔۔اور موت کے خوفناک سایوں میں زندگی کی ڈور کھینچنی شروع کردے۔۔بسا اوقات یہ ڈور بھی تو ٹوٹ جاتی ہے۔۔
اور انسان گنگناتا پھرتا ہے۔۔
میں کپڑے پہن کر جاؤں کہاں
میں بال بناؤں کس کے لیئے
بھلے ہمارے پاس انٹر نیٹ یو ٹیوب فیس بک وغیرہ کی سہولیات ہیں مگر کتاب کا نعم البدل کوئی نہیں۔۔کتاب جس طرح وجود پر نازل ہوتی ہے اور پھر آپ کو ایک نئی سوچ کے ساتھ مثبت طریقے سے دھو دھلا کر نئے کپڑے پہنا کر زلفیں سنوار کر گنگنانے پر مجبور کر دیتی ہے۔۔
زندگی اک سفر ہے سہانا ۔۔۔۔یہاں کل کیا ہو کس نے جانا
فکر فردا کو فراموش کرکے لمحہ موجود میں جینا ہی زندگی ہے۔۔مزاح نگار انسان کی منفی سوچ میں کمند لگا کر اس میں لطافت اور خوشی بھر دیتا ہے۔۔ڈاکٹر ذوالفقار علی کی تحریروں میں ان شائی رنگ بھی ملتا ہے۔۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی سے قلمی تعلق کے علاوہ میرے اور بھی رشتے ہیں۔ہم دونوں کو اوریئنٹل کالج کی متبرک مٹی نے سینچا ہے۔۔خیر میں تو اس نمی کو دور ہی سے دیکھتی رہی ڈاکٹر ذوالفقار علی نے اس مٹی سے خوب خوب فائدہ اٹھایا۔۔
ڈاکٹر فخر الحق نوری ان کے استاد تھے اور میرے کلاس فیلو۔۔۔
ڈاکٹر خواجہ زکریا صاحب سے ہم دونوں نے اکتساب علم کی شمع روشن کی۔۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کی تحریروں میں فیصل آباد کی جگت بازی کا رنگ بھی ملتا ہے۔۔۔اور اس شہر سے بھی ہم دونوں کا تعلق ہے۔۔
آخر میں میں اتنا ہی کہوں گی لکھتے رہیئے بر خوردار آپ کا قلم باوضو ہے۔۔۔۔اور تحریر عبادت۔۔۔
اب میں ان کے لکھے ہوئےکچھ جملے پیش کرتی ہوں ۔۔۔
“کالج کے طالبعلم اتنے غیرت مند ہیں کہ اگر استاد دوران لیکچر “سوال “ کرنے کو کہیں تو کوئ بھی دست سوال دراز نہیں کرتا”
“ڈاکٹر نے پوچھا
آپ کو کتنا درد محسوس ہو رہا ہے
مریض نے جواب دیا”تمہاری ٹانگ کبھی ٹوٹی ہے”
ڈاکٹر نے کہا “نہیں”
مریض نے کہا” تو پھر میں کیسے بتاؤں کہ میری ٹانگ میں کتنا درد ہے”
“امریکہ کا “سور مایہ “ نظام
“ایک لاٹھی ماسٹر صاحب کے پاس بھی ہوتی تھی جو اب اس کے ہاتھ سے سرک رہی ہے اور طالب علم کے ہاتھ آ رہی ہے اسی لیئے تو ماسٹر وں کے مائینڈ” ماسٹر مائینڈ “نہیں رہےبلکہ ڈزاسٹر مائینڈ بن گئے ہیں”
“عابدہ پروین کا دیکھ کر یوں لگتا ہے کہ اس کا تعلق گاتے پیتے گھرانے سے ہے”
“جو خواتین کشمیری پروگرام پیش کرتی ہیں وہ کشمیر میں ہونے والے مظالم بتاتی ہیں حالانکہ ان کا اپنا حلیہ ظلم کرنے والا ہوتا ہے “
یہ اور ایسے کئی جملے۔۔۔جن کے لیئے کتاب کا مطالعہ بہت ضروری ہے۔۔۱بھی تو میں نے اٹھکیلیاں ہی پڑھی ہیں۔چٹکیاں اور چسکیاں کو سرسری سا دیکھا ہے۔۔اٹھکیلیاں ان کی پہلی کتاب ہے۔۔چٹکیاں اور چسکیاں میں یہ فن اور بھی نکھر کر سامنے آیا ہے
بہر حال میں تو ڈاکٹر صاحب کی کتابوں سے خوب لطف اٹھا رہی ہوں۔۔
اللہ کرے مزاح قلم اور زیادہ۔۔۔