جبار مرزا صاحب اور رانی کا جواں سال بیٹاہنستامسکراتا مجھے کتابیں دے کر گیا تو میں سوچنے لگی کہ یہ بھی تو زندہ رہنے کا ایک سلیقہ ہے۔۔چھپن چھپائی کھیل کر اپنے ہنستے بستے گلشن کو شاد و آباد دیکھتے رہنا۔۔اور پھر رانی کی مسکراتی تصویرنے میرے اس خیال کی بھرپور گواہی دی۔
یہ کتاب محض میاں بیوی کی لازوال محبت ہی کی داستان نہیں۔ایک عہد کی داستان ہے۔ مستقبل کامورخ اس عہد کی داستان لکھے گا تو پیروں،فقیروں،طبیبوں ،بابوں ، روحانی پیشواؤں اور عصر حاضر کے تخیل کی جھلک بھی اس کتاب میں دیکھ پائے گا۔
بیوی سے محبت کرنے کا ہنر بیوی کے احترا م اور محبت کی لازوال داستان کے گر بھی اس کتاب کے اندر محفوظ کر دیئے گئے ہیں۔
ہاں البتہ اس بات کی نشاندہی نہیں کی گئی۔۔۔۔۔کہ “پہل اس نے کی تھی “اور پھر “جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں”۔۔۔۔کے بعد سمٹ کر یکجا ہونے والی خوبصورت شخصیت کے لیے کسی اور کتاب زیست کی بھی گنجائش ہے کہ نہیں۔
“جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں “ کو ہم یعنی” بہت سی خواتین نے”اپنے فیس بک پر حرف بہ حرف دلچسپی سے پڑھا اور پھر اپنے اپنے شوہروں کو بھی سنا سنا کر احساس دلایا کہ دیکھو میاں ! تاج محل نہ سہی، کوئی کتاب لکھنے کی توقع سے بھی ہاتھ دھو لیتے ہیں ۔۔۔ہر مہینے کوئی نیا سوٹ ہی دلا دیا کرو۔۔یہ الگ بات ہے کہ اس کے بعد “ جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں” ہمارے گھر میں شجر ممنوعہ ہو گئی۔۔مگر ہمیں تو اس کتاب کی ہر قسط پڑھنے کی لت پڑ گئی تھی ۔۔۔جونہی تخلیہ میسر آیا فورا اس کتاب کی اگلی قسط نکالی پڑھی اور پھر خوابوں خیالوں میں اپنے حالات کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے راتیں گزاریں۔۔کبھی رشک بھری ،کبھی حسرت بھری اور کبھی امید بھری۔۔۔
اب آپ خود اندازہ لگائیں اس کتاب نے کتنی عورتوں کے ذہنوں میں گھس کر خیالات کی دنیا کو آباد کیا ہو گا۔۔اور رانی کی خوش نصیبی پر فخر کیا ہو گا۔۔
تسلسل روانی کردار نگاری اور نثر کی چاشنی اپنی جگہ بہت خوبصورت ہےجو قاری کی توجہ کا مرکز بن جاتی ہے۔۔
“جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں “پڑھنے کے بعد مجھے لگا رانی رانی نہیں تھی پارس پتھر تھی رانی کی ہر دوست جس کی رانی سے ملاقات رہی وہ بھی اس کتاب میں محفوظ ہو گئی ہے۔۔یہ بڑی خو ش نصیبی کی بات ہے کہ ہم بھی اس کتاب میں موجود ہیں۔۔یہ ہنر بھی محبت سے لبالب بھرے صاحب کتاب کا ہی ہو سکتا ہے۔
بسا اوقات لگتا ہے “جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں”ایک کنواں ہے جس کے میٹھے پانی سے لوگ آتے گئے فیض یاب ہوتے گئے۔۔
بسا اوقات لگتا ہے رانی تو ایک باغیچہ تھی۔۔جس کے پھولوں کی خوشبو سے ہم سب دوست معطر رہے۔۔
اور اب بہ نفس نفیس کتاب کی صورت وہ ڈائریکٹ میرے بیڈ روم کی زینت بن گئی ہے۔۔تصویر بھی تحریر بھی تصور بھی تخیل بھی۔۔۔۔
وصل بھی دیکھا جدائی دیکھ لی
حق نےجوصورت دکھائی دیکھ لی
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی