آکسیجن زندگی کی نمو کے لیئے بہت ضروری ہے اسی لیئے تو تازہ ہوا کے لیئے درو دیوار کو کھولنا پڑتاہے ۔موسم اور ماحول کی تبدیلی بھی تو انسانی زندگی میں خوشگوار تبدیلی کا سندیسہ لے کر آتی ہے۔جمود کبھی بھی کسی بھی حال میں باعث تحسین نہیں ہوا کرتا۔قدرت کا اصول بھی جمود کو توڑتا ہوا تغیر کو ترغیب دیتا ہے۔۔
“خواتین کی انٹر نیشنل تنظیم جس کا ہدف ہے کہ خواتین کو تعلیم کے ذریعے باشعور اور طاقت ور بنایاجائے”
مجھے خوشی ہے کہ آج فیڈریشن کے آئین کی رو سے اس تنظیم کی چھ سال تک سیکرٹری شپ کی ذمہ داری نبھانے کے بعد میں اس عہدے سے سبکدوش ہو گئی ہوں۔۔۔
یہ الگ بات ہے کہ فیڈریشن کی پریزیڈنٹ قیصرہ مختار علوی کی محبت اور اعتراف نے تنظیم سے وابستہ رکھنے کے لیے وائس پریزیڈنٹ کے طور پر میرا نام پیش کیا ۔ جسے فیڈریشن کی اکثریت نے بخوشی قبول بھی کر لیا۔۔
مجھے اس فیڈریشن کا حصہ بنانے کے لیئے مسز خالدہ مسعود علی نے متعارف کروایا اور پھر انگلی پکڑ کر سیکرٹری شپ کی ذمہ داریوں سے نبرد آزما ہونا سکھایا۔۔مسز خالدہ مسعود علی بہت بڑی شخصیت ہیں۔ وہ ایف سیون کالج کی سربراہ کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے فارغ ہوئیں۔ ان کے ساتھ کام کر کے بہت لطف آیا اور میں نےبہت کچھ سیکھا۔ میرے لیے یہ نیا تجربہ تھا ۔۔اور تیراکی کے لیے ۔۔۔۔۔وسیع سمندر۔۔۔۔انہیں اپنے انتخاب پر اعتماد تھا اور مجھے ان کی انگلی پکڑ کر چلنا بہت اچھا لگتا تھا۔۔بڑے لوگوں کے ساتھ کچھ دیر ہی کے لیئے سہی مسافرت بڑی خوش قسمتی کی بات ہوتی ہے اور میں اپنے آپ کو ان خوش قسمت لوگوں میں سمجھتی ہوں۔۔
اور پھر یونہی چلتے چلتے اس خوشگوار ہوا کے جھونکے نے مجھے نہ صرف یہ کہ تازہ دم کر دیا بلکہ میں نے فیڈریشن کے ممبران کی بے شمار محبتوں سے اپنا دامن بھی لبا لب بھر لیا۔۔۔خالدہ باجی میری دوست بھی تھیں محسن بھی رہبر بھی۔۔۔اور مشیر خاص بھی۔۔
خالدہ مسعود علی چھ سال اپنی ذمہ داری نبھانے کے بعد آئین کی رو سے سبکدوش ہوئیں تو قیصرہ مختار علوی نے فیڈریشن کی ذمہ داری بطور پریزیڈنٹ سمبھالیں ۔۔۔۔
یہ وہ وقت تھا جب میں نے اپنے عہدے کو برقرار رکھنے کے لیئے پس و پیش سے کام لیا۔کیونکہ قیصرہ مختار علوی بھی شہر اسلام آباد کی پہچان تھیں۔۔ ان کا تعلق بھی تدریسی شعبے سے رہا۔۔ان کے وسیع دستر خان کی بھی اپنی ایک پہچان ہے میں ان کے اس مرتبے اور مقام سے متاثر تھی ۔۔میرا خیال تھا۔مجھ جیسی مزدور اور درویش طبیعت خاتون کہاں بیگمانہ رعب دبدبے کی بھول بھلیوں میں ٹھوکریں کھاتی پھرے گی۔۔
مگر جب مجھے معلوم ہوا کہ قیصرہ مختار علوی نے پریزیڈنٹ کا عہدہ قبول کرنے کے لیئے یہ شرط عائد کی ہے کہ اگر نعیم سیکرٹری ہوگی تو مجھے یہ عہدہ قبول ہے۔۔
تو پھر بھلا انکار کی گنجائش کہاں رہ جاتی تھی۔۔قیصرہ جی کے ساتھ کام کرکے مجھے معلوم ہوا وہ تو مجھ سے بھی زیادہ درویش صفت ،محبت کرنے والی اور متحمل مزاج خاتون ہیں۔۔غصہ تو کبھی آتا ہی نہیں۔جس کو اپنا کہہ دیں پھر اسے پوری طرح اپنا لیتی ہیں۔۔اور یوں وہ ان کا “اپنا “ ان کے گھر کا فرد ہو جاتا ہے۔
میں کچھ جلالی طبیعت کی ہوں۔۔پھر خالدہ باجی نے نکھارنے کی کوشش میں درخت پر چڑھنا بھی سکھا دیا تھا۔۔قیصرہ مختار علوی کے ساتھ میرا تعلق دوستانہ رہا۔۔میں جھگڑ بھی لیتی۔۔اختلاف رائے کا بھی برملا اظہار کر لیتی۔مگر مجال ہے جو ان کی محبت میں کبھی کمی آئی ہویا انہوں نے کبھی غصے سے اپنے جذبات کا اظہار کیا ہو ۔۔۔۔ہمیشہ سبک رواں ندی کی طرح خاموشی سے بہتی چلی جاتیں۔۔مسکراتی رہتیں۔اور محبت کی چھتر چھاؤں کا سائبان سا بنائے رکھتیں۔۔
نہ جذبات میں ہلچل نہ غصہ نہ جھنجھناہٹ نہ اضطراب نہ پریشانی نہ بے چینی۔۔۔ان کے ساتھ کام کرنے کا بھی اپنا ہی لطف تھا۔میں ان دونوں محترم ہستیوں کی شکر گزار ہوں۔جو میرے قریب رہیں ۔۔۔میرے قریب ہیں اور میرے قریب رہیں گی۔۔
مجھے امید ہے کہ فیڈریشن کی نئی سیکرٹری شیراز فضل داد مجھ سے بھی بہتر طور پر اپنی ذمہ داریاں سمبھالیں گی میں انہیں اور تمام نئے ممبران کو دل کی گہرائیوں سے مبارکباد پیش کرتی ہوں۔