منیر نیازی نے کیا خوب کہا ؎
شہر کا تبدیل ہونا شاد رہنا اور اداس
رونقیں جتنی یہاں ہیں عورتوں کے دم سے ہیں
خواتین معاشرے کا معتبر معزز محترم اور پیار بھرا حصہ ہے۔رشتوں ناطوں کو نبھانا ہو ،گھر کو سنبھالنا، تخلیق کے سفر سے گزرنا ہو، یا نسلوں کو سنوارنا، عورت کا ہر کردار پھولوں کی مہک اور محبت کی خوشبو سے معطر ہوتا ہے۔ کیا یہ کم اہمیت کی بات ہے کہ عورت ہی نوع انسان کی کردار سازی کا باعث ہوتی ہے۔۔مگر کیا وجہ ہے ساتھیو!
معاشرے میں کردار سازی، تہزیب سازی اور اخلاق کی وہ بلندی نظر نہیں آتی۔۔جس کی ذمہ داری ہمیں سونپی گئ ہے۔
آئیے آج ہم اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھیں۔۔کہیں ہم خواتین اپنے فرض سے غافل تو نہیں ہو گئیں۔۔
اور کیا ہمارے مردوں نے خواتین کے اس باوقار حیثیت کو کسی بے وقار حیثیت پر ترجیح دینا تو نہیں شروع کردیا؟
آئیے ہم سب اپنی تہذیب کی بچی کچھی اقدار کو ماتھے کا جھومر بنا کر خود کو بھی سجائیں اور اپنے فرائض منصبی کو بھی نبھائیں۔
آج ایک پبلک پارک میں واک کرتے ہوئےنئے نویلے دولہوں اور دلہنوں کو سولہ سنگھار کرکےجھومتے بل کھاتے سرعام فوٹو شوٹ کرواتے دیکھا۔۔تو سوچ کا مرکز یہی رہا۔۔
ازدواجی رشتوں کی مٹھاس تو دھیمے دھیمے سلگتے مہکتے اور پھر بے نقاب ہوتے جذبوں کا مخفی خزانہ ہے۔ ہمارا یہ خزانہ کس نے چرا لیاہے؟
وحیدہ نسیم کے افسانوں میں فاصلوں حجابوں سے چند قدم چلتے ہوئے دو پریمی پل بھر میں زندگی جی لیتے تھے۔ شعور فاطمہ کے چلبلے جملے جذبات میں ہلچل مچا دیتے تھے۔ آج ہم نے ازدواجی رشتوں کو بھی سر بازار لا کر رسوا کر دیا ہے۔ ذرا سوچیئے تو !
کیاہم سب مردوزن اپنا سبق بھول تو نہیں گئے ہیں؟
ہے کوئی جو ہمیں اس دوراہے پر پہنچا دے جہاں سے ہم بھٹکے تھے۔