ADVERTISEMENT
شہر تہذیبوں سے پہچانے جاتے ہیں اور تہذیبیں حسن معاشرت سے۔ حسن معاشرت کو سمجھنا ہو تو مجلسی زندگی میں دیکھئے، زیادہ کہنے کی ضرورت نہیں، محترمہ نعیم فاطمہ علوی اسلام آباد کا تعارف بس اتنا ہی ہے لیکن اتنے سے تعارف میں بھی پاکستان کے دارالحکومت کی خوبصورتی اور پاکستانی حسن اخلاق کی تصویر جگمگاتی دکھائی دیتی ہے۔ کوئی شبہ نہیں کہ ہمارا دیس شاعری کا بحر بے کراں ہے، نعیم فاطمہ علوی اس سمندر میں نثر کا جزیرہ ہیں۔ اچھی نثر لکھتی ہیں اور اچھی نثر کو پسند کرتی ہیں پھر اسی پر بس نہیں کرتیں، نثری نشستیں منعقد کر کے نثر کے فروغ میں حصہ بھی ڈالتی ہیں۔
*********
تین کتابیں پڑھنے کے لیئے ملیں جیون دھارا ھدیہ ظفر، راجنی کی کھوج ڈاکٹر نجیبہ عارف ۔۔اور حاضر سائیں محمد عارف جمیل اب میرے لیئے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ پہلے کونسی پہلے پڑھوں۔
سو سبقت لے گئ ھدیہ ظفر کی جیون دھارا۔
جیون دھارا ڈاکٹر نجیبہ عارف کی چھیاسی سالہ والدہ کی خود نوشت ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔
زندگی کے واقعات کو انہوں نے جس دیانت داری سے سچائی کی روشنائی میں قلم ڈبو کر پرویا ہے اس سے اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ ان کی پہلی کتاب ہے ۔رواں اسلوب تسلسل اور خوبصورت انداز بیان واقعات میں کسی قسم کا کوئی جھول نہیں۔ میں نے 268 صفحے کی کتاب ایک ہی نشست میں پڑھ لی۔
جیون دھارا سبق آموز بھی ہے۔ زندگی کی سختیوں کو حوصلے اور ہمت سے برداشت کرنے کا سلیقہ بھی ہے اور اس حسن سلیقہ سے سمجھنے سوچنے کا دروازہ بھی۔ قاری کسی بھی عمر کا ہو وہ مصنفہ کی انگلی پکڑے رشتوں کے جیون دھارے میں ان کا ہم سفر بن جاتا ہے۔
زندگی تو سطح آب پر چلنے والی وہ کشتی ہے جو رنگ برنگے مناظر کے ساتھ حالت سفر میں رہتی ہے۔نہ غلطی کی گنجائش نہ پیچھے مڑ کے دیکھنے کاحوصلہ اور وقت۔
کسی نا معلوم منزل کی طرف چلتے رہنے کا نام ہی زندگی ہے۔جیون دھارا ہمیں بتاتی اور سکھاتی ہے کہ وقت صدا ایک جیسا نہیں رہتا لہٰزا اسے سلیقے سے گزارنا ہی ایک فن ہے۔اور یہ بھی کہ کوئ بڑا کام کرنے کے لیئے عمر کی قید نہیں ہوتی۔