ایک سیاسی اتحاد جو شاید الیکشن میں تو نہ بنے مگر الیکشن کے بعد اس کے آثار نظر آرہے ہیں۔ محبت اور جنگ میں سب کچھ جائز ہے۔ اس کا پہلا مظاہرہ ہم نے اس وقت دیکھا جب بے محترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی طرف سے جن ناموں کا ذکر کیا گیا تھا کہ وہ ان کےقتل میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ ان ہی ناموں میں سے ایک نام پرویز الٰہی صاحب کو ہم نے پپلز پارٹی کے اتحادی بننے اور نائب وزیر اعظم کا عہدہ سنمبھالتے دیکھا۔ تو یہ ہے وہ سیاسی محبت جس کے لیئے سب جائز ہے۔
سینٹ چیئرمین کے انتخابات والا واقعہ سب کو یاد ہے۔ پھر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانا شہباز شریف کو مختصر عرصے اقتدار کے لیئے تیار کرنا اور پھر اسی حکومت میں شامل ہو کر اسپر تنقید کرنا اپنے دو die hard قسم کے نظریاتی ساتھیوں کے ذریعے عمران خان کو مکمل معاونت دینا اور اب اسکے خلاف کوئی بھی بیان نہ دینا اس حکمت عملی کا حصہ ہے۔ جس کے تحت تحریک انصاف کے ووٹ بلاول بھٹو صاحب کی وزارت عظمی کیلئے استعمال ہونگے کراچی میں کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشن اور پھر میئر کے الیکشن میں تحریک انصاف کی پپلز پارٹی کو حمایت ایک اور indicator ہے مسلم لیگ نون کو ان تمام عوامل کو سامنے رکھ کر اپنی الیکشن کی حکمت عملی بنانی ہوگی۔ ابھی یہ تحریر ادھوری تھی کہ ٹیلی وزن پر صدر عارف علوی صاحب نے حامد میر صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے پپلز پارٹی کی قیادت اور پالیسی کی تعریف کی جو ایک اور بہت بڑا اشارہ ہے آئندہ ہونے والے واقعات کا۔
یہ بھی پڑھئے:
دو روٹیوں کا مسئلہ اور غیر قانونی افغان پناہ گزیں
مسلم لیگ کی منشور کمیٹی عرفان صدیقی کی قیادت میں کیوں؟