تحریک عدم اعتماد میں جو بھی کامیاب ہو مگر اس کے پیش ہونے کے بعد کچھ کام جو پہلے اپوزیشن اور حکومت کے لیے جائز تھے وہ ناجائز ہوگئے اور جو ناجائز تھے وہ جائز ہو گئے ہیں۔ فرق صرف اپنی اپنی پوزیشن کا ہے۔
ارکان کو مختلف طریقوں سے اپنی طرف راغب کرنا کل حکومت کے لیے جائز تھا اور اپوزیشن اسے برا سمجھتی تھی مگر آج وہ ایسا کرنا درست مانتے ہیں۔
ارکان کا اپنے ضمیر کے مطابق فیصلہ کرنا کل اپوزیشن کو نہیں بھاتا تھا تو آج حکومت ایسے لوگوں کو بے ضمیر گردانتی ہے۔
پارلیمنٹ کو اصولوں کے مطابق کام کرنے دینا یا نہ دینا اب ضرورت پر منحصر ہے۔
یہ بھی دیکھئے:
قانون کی پاسداری کرنا
پارلیمنٹ کے معاملات کو عدالت کی طرف نہ لے جانا
اداروں کی عدم مداخلت کو appreciate کرنا
پارلیمنٹ کی بجائے فیصلے سڑکوں پر کرنا
اصولوں پر سمجھوتہ کرنا
کسی بھی دوسری پارٹی میں جانے والے کو ضمیر فروش سمجھنا اب اپنی اپنی حمایت اور سوچ کے مطابق ہے
سامنے والے کی زبان سے لفظ غلط نکل جائے تو مذاق اڑانا اور خود غلطی یو جائے تو اسے زبان کا پھسل جانا تصور کرنا
مسائل کی بجائے ذاتیات پر گفتگو کرنا
یہ بھی پڑھئے:
ٹرمپ کارڈ ناراض ایم این ایز کے پاس ہے
تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کیا ہوگا؟
پی ٹی آئی جلسہ: وہ کیا حربہ تھا، عمران خان جس میں ناکام رہے
مخالفت کو دشمنی بنا دینا
کل کی بے اصولی کو آج کے اصول سمجھ لینا اور ان پر سمجھوتہ کر لینا
کل جو ملک دشمن تھے ان کو اپنی حمایت کرنے پر سب سے بڑا محب وطن ماں لینا یہ سب کچھ وقت اور حالات کے مطابق جائز یا ناجائز سمجھا جا رہا ہے
بس یہ ہی حال ہے جو کل بھی تھا اور اس وقت بھی ہے
تمہاری زلف میں پہنچی تو حسن کہلائی وہ تیرگی جو میرے نامہ سیاہ میں تھی۔