استاذی عمار خان ناصر لکھتے ہیں کہ بعض حضرات، یقینا اخلاص کے ساتھ، یہ تجویز دے رہے ہیں کہ شیعہ سنی منافرت کے سدباب کے لیے جانبین کے مابین متنازعہ تاریخی شخصیات کے حوالے سے کچھ اس طرح کا لین دین کر لیا جائے کہ اہل تشیع خلفائے ثلاثہ کا احترام کریں اور اہل سنت حضرت معاویہ کے احترام کے مطالبے سے دستبردار ہو جائیں۔ مصالحت کے جذبے پر مبنی ہونے کے باوجود اس تجویز میں کئی اخلاقی اور عملی مسائل ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ پرامن بقائے باہمی کے لیے اصل ضرورت متعلقہ شخصیات کے “احترام” کی نہیں جو ایک قلبی اور اعتقادی کیفیت ہے، بلکہ طرز اظہار میں احتیاط کی ہے جو ایک عملی اور قابل عمل اصول ہے۔ ظاہری احترام جو آپ کے حقیقی نقطہ نظر کے برعکس ہو، منافقت ہوتا ہے، جبکہ محتاط طرز اظہار میں آپ اپنے موقف کا بیان ایسے اسلوب میں کرتے ہیں جس سے دوسروں کی دل آزاری نہ ہو۔ سو ہمارا تقاضا برادران اہل تشیع سے نہ خلفائے ثلاثہ کے احترام کا ہے اور نہ حضرت معاویہ کے۔ اگر وہ دیانت دارانہ طور پر سمجھتے ہیں کہ خلفائے ثلاثہ اور سیدنا علی کے مابین کوئی ایسا سنگین اختلاف نہیں تھا جس پر ان کا ترک احترام لازم ہو تو بہت اچھا، لیکن اہل سنت کا ان سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے اور نہ بنتا ہے۔ وہ جو رائے رکھنا چاہیں، رکھیں، البتہ اپنے عقیدہ وموقف کا بیان ایسے اسلوب میں کریں کہ اس پر سنجیدہ بحث ومجادلہ ہو سکے، نہ کہ لڑنے مرنے کے جذبات انگیخت ہوں۔
ہمارے نزدیک، حضرت معاویہ سے متعلق بھی جمہور اہل سنت کا مطالبہ اس سے زائد نہیں ہے۔ خود اہل سنت میں مولانا مودودی کے نقطہ نظر پر تاریخی وعلمی بحث ومباحثہ ہو سکتا ہے تو اہل تشیع کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے، بشرطیکہ طرز اظہار گفت وشنید کی گنجائش رکھتا ہو۔ پس تاریخی واعتقادی نزاعات میں یہ مصنوعی لین دین کا طریقہ نہ مطلوب ہے اور نہ کارگر۔ جو رویہ اصل میں مطلوب ہے، اس پر توجہ اور اسی کو فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ حضرت معاویہ کے متعلق جمہور اہل سنت کا موقف کن نزاکتوں کو توازن کے ساتھ ملحوظ رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔