ہر سال یکم اگست کو عالمی یومِ آئین منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں تحریری آئین کی اہمیت و افادیت کے متعلق آگاہی پیدا کرنا اورکسی بھی ملک کے لیے آئین کی تشکیل کے لیے اجتماعی انسانی دانش کی تحسین و توصیف ہے۔ پاکستان کاشماران ممالک میں ہوتا ہے جہاں پر تحریری آئین موجود ہے۔ پاکستان میں آئین سازی کے عمل کی ایک تاریخ ہے جو کہ قوم کے سیاسی و آئینی شعور کی غماض ہے۔ آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ برصغیر پاک و ہند اور بعد ازاں پاکستان میں آئین سازی کی تاریخ کیا رہی ہے
کیا برصغیر پاک وہند میں تحریر ی آئین کا تصور موجود رہا ہے؟
ہمارے ہاں یہ عمومی تصور ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں تحریری آئین کا کوئی تصور نہیں تھا اور انگریزوں نے ہی یہاں تحریری آئین متعارف کروایا۔ یہ دونوں مفروضے غلط اور تاریخ سے لا علمی کا مظہر ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر محبوب حسین، چیئرمین ڈیپارٹمینٹ آف ہسٹری اینڈ پاک سٹڈیز ، جامعہ پنجاب ، لاہور کے مطابق ا س خطے میں قدیم زمانے سے ہی آئین و قانون کاتصور موجود ہے۔ قدیم دورِ بادشاہت میں اشو ک کے زمانے میں شاہی فرامین کو سلطنت بھر میں مختلف نمایاں مقامات پر آویزاں کیا جاتا تھا۔اورلوگوں کو اس حوالے سے معلومات اور آگاہی مل جاتی تھی۔ اسی طرح مغل عہدمیں آئینِ اکبری کے نام سے ایک تحریر ی د ستاویز موجود تھی جس سے معاملات کو چلایا جاتاتھا۔ تو اس خطے میں آئین کے حوالے سے لوگوں میں احساس اور شعور موجود تھا۔
پاکستان میں آئین سازی کا عمل : پہلامرحلہ 1947 تا 1956
ہندوستان کی تقسیم انڈین انڈی پنیڈینس ایکٹ 1935 کے تحت ہوئی۔ ہندوستان اور پاکستان دونو ں نے اسی ایکٹ کو ضروری ردو بدل کر کے آئین سازی کے لیے استعمال کیا۔ پاکستان نے اس ایکٹ کو عبوری ایکٹ 1947 کا نام دیا۔ یہ پہلا آئین تھا جو پاکستان میں متعارف ہوا اور اسی کو بنیاد بناکر پاکستان نے اپنے لیے ایک مستقل آئین بنا نا تھا۔ پاکستان کی پہلی اسمبلی کو اسی لیے قانون ساز اسمبلی کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے آئین سازی کا کام کرنا تھا۔ اس اسمبلی کے ذمے
د و کام تھے ایک تو روزمرہ کے معاملات کو دیکھنا اور دوسرا ملک کے لیے ایک مستقل آئین بنانا تھا۔ اس پر کام شروع ہوا۔ بہت سے مراحل طے ہوئے لیکن نو سال کے عرصے میں پاکستان نے اپنا پہلا آئین بنایا۔ تئیس مارچ انیس سو چھپن کو پاکستان نے اپنا پہلا آئین بنا لیا۔ پاکستان میں آئین سازی کا عمل تاخیر کا شکار ہوا جبکہ انڈیامیں ایسا نہیں تھا۔ انڈیا نے انیس سو انچاس میں اپنا آئین بنا لیا اور انیس سو پچاس میں پہلے انتخابات بھی کروا لیے مگر پاکستان میں یہ عمل نو برس تک تاخیر کا شکار رہا۔
یہ بھی پڑھئے:
مسئلہ_ بند نہیں، کھُلی عدالتیں ہیں
احمد حاطب صدیقی اور ان کا چلبلا شعر
بلوچ راجی مچی, خوشحال بلوچستان اور مضبوط پاکستان کی نوید
غدّاران وطن اور جارُوب کَش بیانیہ
آئین سازی میں تاخیر کی وجوہات کیا تھیں؟
آئین سازی میں اتنی تاخیر کی بہت سی وجوہات تھیں۔ دیگر وجوہات کے علاوہ ایک سب سے بڑی وجہ آئین کے
بنیادی ماخذ پر بہت بحث ہوئی۔قومی زبان کیا ہوگی ۔اس پر بحث ہوئی۔ کیا کوئی ایک زبان ہو گی یا ایک سے زائد بھی
زبانیں بھی ہو سکتی ہیں۔ اس آئین میں مذہب کا کیا کردار ہو گا۔ اس آئین میں نمائندگی کاطریقہ کار کیا ہوگا۔ اس
وقت پاکستان دو حصوں مشرقی اور مغربی پاکستان میں تقسیم تھا تو دونوں حصوں کی نمائندگی کیسے ہو گی؟ پھر یہ بحث تھی
کہ ایوان یک رکنی ہو گا یا پھر دو رکنی ایوان ہو گا۔ پھر ایگزیکٹو کا کیا رول ہو گا۔ مغربی پاکستان کے مختلف یونٹس تھے ان
کی نمائندگی کیسے ہو گی۔۔ یہ وہ سوالات تھے جن پر بحث ہو تی رہی۔ جس کی وجہ سے اس میں تاخیر ہوئی۔ پھر اس
دوران ہماری سیاسی حکومتیں بھی وقتا فوقتا تبدیل ہوتی رہیں۔1947 سے 1956 تک چھ سات وزرائے اعظم تبدیل
ہو گئے۔ تین گورنر جنرل تبدیل ہوئے اور پھر اس سارے عرصے میں پاکستان میں کوئی براہ راست الیکشن بھی نہیں
ہوا۔ جس سے کوئی تازہ مینڈیٹ مل جاتا۔ایک مرتبہ بالواسطہ انتخاب کروایا وہ بھی اس لیے کہ پہلی قانون ساز اسمبلی
کو گورنر جنرل نے تحلیل کر دیا تھا۔دوسری قانون سا زا سمبلی جس نے آئین بنانا تھا وہ بالواسطہ انتخاب کے ذریعے
آئی۔ صوبائی اسمبلی نے اسے منتخب کیا تھا۔ فریش الیکشن کا نہ ہونا او ر آئینی امو ر کے حوالے سے بحث اس میں تاخیر
کی وجہ تھی۔ پھر آئین بن گیا اور یہ دو ڈھائی سال چل سکا تو سات اکتوبر انیس سو اٹھاون کو مارشل لا ء لگ گیا اور اس
آئین کو معطل کر دیا گیا۔ اسمبلی برخاست کر دی گئی، حکومت کو بھی ختم کر دیا گیا۔
پاکستان میں آئین سازی کا عمل : دوسرامرحلہ 1958تا 1962
ملک میں پہلے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد 1958 سے 1962 تک یہ ملک مارشل لاء کے تحت چلتا رہا۔ اور یہاں کوئی
ایسا آئین نہیں تھا جو کسی منتخب ادارے نے بنایا ہو۔فوجی حکومت نے بھی آئین سازی کے لیے کام شروع کیا اور اس
کے لیے ایک شہاب الدین کی سربراہی میں ایک کمیشن بنایا جس نے اپنی سفارشات پیش کیں ۔ آخرکار 1962 میں
ایک آئین بنا۔ جو پہلے آئین سے بالکل مختلف تھا۔ اور یہ مجموعی طور پر تیسرا آئین تھا۔ کمیشن کی سفارشات کے
برعکس یہ آئین بنایا گیا۔ اور اختیارات کو ایک فرد واحد کی شخصیت میں مرتکز کردیا گیا۔ اس آئین کے حوالے سے یہ
کہا جاتا تھا کہ اس کی مثال فیصل آباد کے گھنٹہ گھر بازار کی طرح ہے۔ اس میں آپ جس راستے سے بھی آئیں آپ کو
سامنے گھنٹہ گھر نظر آتا ہے۔ اس آئین کی بھی کوئی بھی شق اٹھا لیں تو اس میں صدر کے اختیارات نظر آتے ہیں۔
جب تک ملک میں فوجی حکومت رہی ۔یہ آئین چلتار ہا –
پاکستان میں آئین سازی کا عمل : تیسرا مرحلہ 1969تا 1973
جنرل ایوب خان کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد اقتدار جنرل یحیی کو منتقل ہوا تو ملک میں پہلی بار ” ایک فرد ، ایک ووٹ”
کی بنیاد پر انتخابات کروائے گئے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں ایک نئی اسمبلی وجود میں آئی۔ یہ الیکشن لیگل فریم ورک
آرڈر کے تحت ہوئے۔ اور اس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ نئی آنے والی اسمبلی ایک سو بیس دنوں میں آئین بنائے گی۔ اگر وہ
آئین نہیں بنائے گی تو یہ اسمبلی خود بخود ختم ہو جائےگی۔ اور یہ شاید اس لیے لکھا تھا کہ ان کے پاس ماضی کا تجربہ تھا ۔
پہلا آئین نو سال میں بنا، دوسرا آئین ایک غیر منتخب اسمبلی نے بنایا تھا۔ اس لیے یہ لکھا گیا تھا ۔ آپ اسمبلی میں آئیں ۔
لیکن آئین سازی کا کام ترجیحی بنیادوں پر کریں۔ پھر یہاں پر دو بڑی سیاسی جماعتوں میں اختلاف ہوا۔ مشرقی پاکستان
سے عوامی لیگ جیتی تھی۔ اور مغربی پاکستان سے پاکستان پیپلز پارٹی۔ عوامی لیگ کا خیال تھا کہ ہمیں اسمبلی کا اجلاس بلا
کر آئین سازی کا عمل شروع کر دینا چاہیے۔کیونکہ ایک سو بیس دن بہت عرصہ ہوتا ہے۔ ا بتدائی کام ہوا ہے آگے ہم
آئین بنا لیں گے۔ مگر پیپلز پارٹی کا خیال تھا کہ اسمبلی اجلاس بلانے سے پہلے ہمیں کچھ بنیادی امور طے کر لینے چاہیں۔
اس پر اختلاف ہوا۔ اسمبلی کا اجلاس بلایا نہ جا سکا او ر اسی عرصے میں مشرقی پاکستان الگ ہو گیا۔ علیحدگی کے بعد مغربی
پاکستان کی بچی کھچی اسمبلی کا اجلاس اپریل 1972 میں ہوتا ہے۔ پہلے اجلاس کے بعد انہوں نے آئین سازی پر کام
شروع کیا اور دس اپریل 1973 کو انہوں نے اس کا م کو پورا کیا۔ یہ چوتھا آئین تھا۔ لیکن درمیان میں کچھ عرصہ تھا ۔
جس میں اسمبلی کا اجلاس بلایا جاتا تھا تو ظاہر ہے کہ وہ کسی قانون کے تحت ہوتا تھا۔ مغربی پاکستان کی اسمبلی میں سات
جماعتیں تھیں۔ ان سیاسی جماعتوں نے ایک معاہدہ کیا کہ جب تک مستقل قانون بن نہیں جاتا اس وقت تک ایک
عبوری آئین بنالیا جائے۔ اپریل 1972 میں ایک عبور ی آئین بنا۔ یہ چوتھا آئین تھا اور جو بعد میں پھر مستقل بنا وہ
پانچوا ں آئین تھا۔ اس طرح پاکستان کی تاریخ میں کل پانچ آئین بنے جن میں سے تین مستقل اور دو عبوری آئین
تھے۔
تحریری آئین کی اہمیت
پروفیسر ڈاکٹر محبو ب حسین کے مطابق تحریری آئین ریاست کے لیے ایک سافٹ وئیر کی مانند ہوتا ہے جس کے
ذریعے ریاستی بندوبست چلایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت جو سیاسی نظام ہے وہ ہم برطانوی ما ڈل پر چلار ہے ہیں۔
برطانیہ میں جو آئین ہے وہ تحریری شکل میں نہیں ہے۔ وہ وہاں روایات کے اندازمیں ہے۔ پاکستان میں تحریری آئین
ہے۔ امریکہ میں تحریری آئین ہے۔ تو یہ دو بڑے ماڈل ہیں ۔ ایک یو کے کا اور یو ایس کا۔
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں مختلف ریاستی یونٹس ہیں۔ جہاں کسی نہ کسی معاملےپراختلاف رائے ہو سکتا ہے۔ آئین
ایک ایسی دستاویز ہے جس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم اپنے اختلافات کو خوش اسلوبی سے حل کر سکتے ہیں۔ پھر ہمارے
ہاں جو نظام ہے وہ دو ایوا نوں پر مشتمل ہے۔
ایک ایوان زیریں اور ایک ایوان بالا ہے۔ برطانیہ میں بھی ہاؤس آف لارڈز ہے اور ہاؤس آف کامنز ہے۔پاکستان میں
ایوان بالا کو سینٹ کہا جاتا ہے۔ یہاں پر تمام وفاقی یونٹس کی یکساں نمائندگی ہوتی ہے۔ جبکہ ایوان زیریں میں یہ
نمائندگی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے۔ جیسے پنجاب سب سے بڑا صوبہ ہے تو قومی اسمبلی میں اس کی نشستیں سب
سے زیادہ ہیں اور بلوچستان کی نشستیں سب سے کم ہیں۔ لیکن سینٹ میں پنجاب اور بلوچستان کی نشستیں برابر ہیں۔ تو یہ
ایک اچھا نظام ہے ۔ کسی بھی معاملے پر دونوں ایوانوں میں اچھے انداز سے بحث کی جا سکتی ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ اگر
ایوان زیریں میں آبادی کے اعتبار سے کوئی فیصلہ ہو جاتا ہے تو جب تک ایوان بالا اس کو منظور نہیں کرےگا اس
وقت تک قانون نہیں بنےگا۔ یہ ایک اچھا چیک اینڈ بیلنس ہے۔ تحریری آئین قوم کے شہریوں کی مفادات کی نگرانی
کرتا ہے۔ پاکستان میں کونسل آف کامن انٹر سٹ ہے۔ یہ ایک آئینی باڈی ہے جہاں چاروں صوبوں کی نمائندگی
ہے۔ جوڈیشری ہے جہاں آئین کی تشریح کی جاتی ہے۔ آئین ہی قوم کو متحد رکھتا ہے۔
انیس سو تہتر کے آئین کو بناتے وقت اسمبلی کے اندر سات سیاسی جماعتیں تھیں۔ جن سے پچیس لو گوں کو لیا گیا ۔ اس میں تما م سیاسی جماعتوں کی نمائندگی تھی۔ اس میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کے افراد شامل تھے۔ آئین سازی کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی اس میں تما م سیاسی جماعتیں شامل تھیں۔
پاکستان کے آئین کی ڈیجٹیلائزیشن
حال ہی میں ریڈیو پاکستان کے ایک ڈپٹی کنٹرولر پروگرام محمد عاطف نے جامعہ بلوچستان کے تعاون سے آئین پاکستان کو ڈیجٹیلائز کرنے کا اہم سنگ میل حاصل کیا ہے۔ محمد عاطف نے اس پراجیکٹ کا بنیادی خیال تخلیق کیا اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئین کے متن کو اردو اور انگریزی دونوں زبانوں میں فارمیٹ اور کوڈنگ کرنے کا اہم کام انجام دیا، تاکہ اسے ڈیجیٹل پلیٹ فارم میں بغیر کسی رکاوٹ کے ضم کیا جا سکے۔ اس پراجیکٹ کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے جامعہ بلوچستان کے (سابقہ) وائس چانسلر ڈاکٹر شفیق الرحمان، محمد سلال کھوسہ، ڈائریکٹر آئی ٹی، جامعہ بلوچستان اور محمد حسین خجک، سافٹ ویئر انجینئر، جامعہ بلوچستان کی بھر پور معاونت محمد عاطف کو حاصل رہیں۔
پاکستان میں انیس سو تہتر کاآئین ایک ایسی دستاویز ہے جو مستند اور معتبر ہے۔ اس وقت اسمبلی میں جتنی بھی جماعتیں تھیں۔ ان سب نے بطور سیاسی جماعت اس کی تائید کی۔ اس لیے یہ پاکستا ن کا سب سے متفقہ دستاویز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچاس سال سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد یہ آئین قوم کو یکجا کیے ہوئے ہے۔