ADVERTISEMENT
السلام علیکم ۔۔۔ عقب سے آواز ابھری تو گردن پیچھے کی جانب موڑتے ہوئے ہم بے ساختہ کھڑے ہو چکے تھے ۔
لڑکپن سے اب تک جس سے تصاویر، خوابوں اور خیالوں میں ملاقات رہتی تھی وہ ہ اب اپنے جیتے جاگتے وجود کے ساتھ نظروں کے عین سامنے تھا ۔
انجینئرگلبدین_حکمتیار دروازے میں کھڑے مسکرارہے تھے ۔
ہال میں داخل ہونے کے بعد صرف دو قدم کے فاصلے پر سامنے سے گزرتے ہوئے اسٹیج کی جانب بڑھنے لگے ۔۔ اپنی نشست پر بیٹھنے سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر اپنے سینے پر ہاتھ رکھا اور سلام کیا ۔
یہ وزارت خارجہ کے تحت بک کیا گیا اسلام آباد میں میریٹ ہوٹل کا چھوٹا سا ہال تھا۔ سلیم صافی ، نسیم زہرا ، عاصمہ شیرازی ، امتیاز گل ، ہارون الرشید سمیت اینکرز اور صحافی نشست میں موجود تھے ۔
حکمتیار نے سلیم صافی کو مترجم کے فرائض انجام دینے کی درخواست کی اور انہیں اپنے ساتھ نشست پر بٹھا لیا ۔
وہ دھیمے لہجے میں مختصر جملے بولتے رہے اور سلیم صافی ساتھ ساتھ ترجمہ کرتے رہے۔
حکمت یار زور دے کر کہتے رہے کہ ہم امن چاہتے ہیں ۔ افغانستان میں امن کیلئے امریکی_فوجوں کی واپسی ، موجودہ افغان_حکومت کا استعفی ، اور طالبان سمیت تمام سیاسی اکائیوں کا ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر لائحہ عمل ترتیب دینا ہی اصل حل ہے ۔
نسیم زہرا نے سوال سے پہلے خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ روس جنگ کے دوران سب سے زیادہ آپ کے نام حکمت یار اور سٹنگر میزائل ان دو سے ہی ڈرتا تھا ۔۔ امتیار گل نے سوال داغا کہ آپ افغان حکومت کو بھی نہیں مان رہے ،طالبان امریکہ مذاکرت کو بھی کافی نہی سمجھتے تو کیا ہم مستقبل میں ایک اور جنگ دیکھ رہے ہیں ۔۔ہارون الرشید نے پوچھا کہ عبداللہ عبداللہ بھی پاکستان آتے ہیں ، آپ کو بھی پاکستان سے امیدیں ہیں طالبان مذاکرات میں بھی پاکستان کا کردار ہے تو پاکستان اتنا ضروری کیوں ہے افغانستان کیلئے ؟ ایک ا ور سوال تھا کہ موجودہ منظر نامے میں آپ اپنے آپ کو کہاں دیکھتے ہیں ؟
اس طرح کے کٹھے میٹھے سوالات ہوتے رہے اور حکمت یار تحمل اور تدبر کے ساتھ سب کے جواب دیتے رہے ۔۔۔
ان کی گفتگو سنتے سنتے ایک لمحہ ایسا آیا کہ نظروں میں چہرہ سمایا تھا اور خیالات کی دنیا آباد تھی ۔۔۔
چند روز ہی تو گزرے جب کورولس عثمان کی دوسری قسط میں ارطغرل کی واپسی ہوئی تھی ۔۔۔ برسوں کی طویل گمنامی کےبعد بوڑھا شیر واپس اپنے قبیلے پہنچا تو منظر کتنا بدل چکا تھا ۔ ایک پوری نسل جوان ہو چکی اور معاملات کو اپنے رخ پر چلانے اور سوچنے لگی تھی ۔۔ ۔۔۔ دشمن کے قلعے فتح کرنے والا ارطغرل اب اتنا بوڑھا ہو چکا تھا کہ سامنے بیٹھا صلیبی پر اپنے چاقو سے اس کے سینے پر وار کرنے کا سوچ رہا تھا ۔
حکمت یار بھی ماضی کا ہیرو تھا ۔۔ روسیوں کے ٹینکوں اور فوج کو الٹا پھیرنے والا ۔۔۔ ۔۔ مگر دشمن نے اسکے عین عروج کے زمانے میں اپنی بات نہ ماننے پر اسکی عزت داغدار کرنے کا گھناونا کھیل کھیلا ۔۔ اسکی فتح کو خانہ جنگی میں بدل کر اپنی پوری جدید ابلاغی قوت کے ذریعے خون خرابے کا ذمہ دار قرار دے کر اسے ڈی فیم کر دیا گیا ۔۔۔
اور پھر گمنامی کے طویل صبر آزما سال اس کی قسمت میں لکھے گئے۔
اب برسوں بعد ماضی کا ہیرو اپنے وطن آیا تو منظر کتنا بدل چکا تھا ۔۔۔ ایک نسل جوان ہو چکی اور ایک نسل اس کے نام سے ناواقف ۔۔۔ حفظ مراتب کے تحت یا بادل ناخواستہ ہی سہی، اس کا احترام رقیب بھی کرنے پر مجبور تو ہیں مگر جگہ دینے پر کوئی تیار نہیں ۔
بندوق سے سنگلاخ چٹانیں اور پہاڑ فتح کرنے والے حکمت یار کو اب سیاست کے میدان میں اپنی حکمت کاری آزمانے کا مرحلہ درپیش ہے ۔