محمد الیاس اور خالد فتح محمد مجھ سے کچھ فاصلے پر ہیں مگر یوں لگتا ہے جیسے گاہے گاہے وہ آتے ہیں ، دستک دیتے ہیں اورمیری توجہ ہتھیا کر اپنے اپنے ناغول میں کچھ اور لکھنے اور حیرت کا سامان پیدا کرنےکو پلٹ جاتے ہیں ۔ مسلسل لکھنے اور ادبی منظر نامے میں اپنے ہونے کا احساس دلائے رکھنے والے دونوں تخلیق کار وں کا اختصاص محض زود نویسی نہیں ہے ،ان کی لکھنے کی اپنی ترجیحات اور خاص مزاج ہے ؛ شخصی بھی اور تخلیقی سطح پر بھی؛ اور یہ ایسا ہے کہ مجھ ایسا ادب کا قاری ادھر متوجہ رہنے پر خود کو مجبور پاتا ہے۔ محمد الیاس کوجشن خالد فتح محمد کی اس تقریب میں کلیدی خطبہ عطا کرنا تھا؛ بوجوہ وہ دستیاب نہ ہوئے تو اس خاکسار کو کچھ عرض کرنے کا کہہ لیا گیا ہے ۔یہ چند گزارشات اسی باب کی ہیں ۔
خالد فتح محمد نے بہت کم وقت میں اتنا کچھ لکھ لیا ہے کہ اس پر حیرت ہوتی ہے ۔ جہاں تک میں سُن گُن لے پایا ہوں ، وہ پاک فوج میں تھے۔ 1993ءمیں وہاں سے میجر ہو کرریٹائر ہوئے اوراندازہ یہی ہے کہ پھر کہیں لکھنے لکھانے کو قلم آزاد ہوا ہوگا۔اگر میری معلومات میں سقم نہیں تو ان کا پہلا افسانہ” اماں نیلی” تھا جو کہیں 2000ء میں شائع ہوا تھا ۔ پہلا ناول تو اس کے بھی چھے برس بعد یعنی 2006ء میں آیا ۔ ناول کا نام تھا “پری”۔ اُس کے بعد چل سو چل ؛ افسانوں ، ناولوں ، تراجم کے ڈھیر لگ گئے ۔ یہ سب ان کی تئیس چوبیس برس کی ریاضت کا ثمر ہے ۔
مجھے یاد ہے ، جب میں خالد فتح محمدکے افسانوں کا مجموعہ “میں ” پڑھ رہا تھا تو رہ رہ کر مجھے اسی نام کی (یعنی “میں ” نامی) ایک اور کتاب یاد آ رہی تھی۔ یہ دوسری کتاب انجم سلیمی کی غزلیات کا مجموعہ ہے ۔ انجم سلیمی نے اپنی اس کتاب کی ایک غزل میں کہا تھا:
بچاؤ کا کوئی رستہ نہیں بچا مجھ میں
میں اپنے خانہ شہ مات میں پڑا ہوں
مجھے یوں لگتا ہے کہ خالد فتح محمد کے افسانے ہوں یا ناول یہاں بھی وہی انسان مرکز میں ہے جو اپنے خانہ شہ مات میں پڑاہوا ہے ۔ کہا جاسکتا ہے کہ ان کا فکشن عام آدمی کا فکشن ہے۔ گرے پڑے آدمی کا بھی اور سفید پوش آدمی کا بھی جو سماج کے اندر جگہ پانے کو یا اپنے وجود کے خلا کو پڑ کرنے کی جدوجہد میں مبتلا ہے ۔ جو سماج ہمارے اس فکشن نگار کی نظر میں ہے اس میں مسائل سماجی ناہمواری سے پیدا ہورہے ہیں یا معاشی اکھاڑ پچھاڑ اور جنسی بے اعتدالیوں سے؛ اسی کے اندر سے وہ کرداروں کے رویوں کا تضادلے کر متن میں گوندھتے اور جملوں میں تانت اور تجسس بھرتے ہیں ۔ ناول “سانپ سے زیادہ سیراب”کا نور محمد آتش جیسا کردار سماج بدلنا چاہتا ہے اور شیخ سبحان جیسا سیاست اور اقتدار میں آنے کی تاہنگ رکھتا ہے۔ ناول “زینہ” میں فہیم اور ہادیہ جیسے کردار ہیں اور سہیل خانزادہ اور مارتھا جیسے بھی۔ اسی ناول میں جنسی نا آسودگیاں متن ہو رہی ہیں اور دوسری بے اعتدالیاں اور بے راہ روی بھی ۔ ناول”خلیج” پاکستان کے ٹوٹنے کے سانحے کے گرد گھومتا ہے ۔ یہ پاکستان کے دونوں حصوں میں خلیج پیدا ہونے اورمشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی کہانی ہے، اور ناول اسے اتنے قریب سے دکھاتا ہے کہ پڑھتے ہوئے ہم وہ سب حماقتیں دیکھ اور محسوس بھی کر رہے ہوتے ہیں جو پاکستان ٹوٹنے کا سبب ہوئیں۔ لفٹیننٹ افضل، میجر بلال، کرن ، فاخرہ ، یاسمین ، مرشد جیسے کردار بہت قرینے سے تراشے گئے ہیں جو ہمیں ساتھ ساتھ لیے چلتے ہیں ۔ ناول “کوہ گراں” میں پانی کی کم یابی اور قحط سالی جیسے مسائل مرکز میں ہیں ۔ خشک ہوتے دریا ، خشک ہوتی نہریں اور اجڑتے کھیت ؛ یہ آج کا موضوع ہے جسے خالد فتح محمد فکشن کے لیے چن لیتے ہیں۔ ناول “شہر مدفون ” میں ناول نگار نے اپنے جد امجد اور ضلع گورداس پور کے گاؤں ماڑی بوچیاں کو بسانے والے رائے بوچہ مل بھٹی اور اس کی اگلی پیڑھیوں کی کہانی سناتے ہوئے بابر سے اب تک کی تاریخ بھی فکشن کے بیانیے کا حصہ بنالی ہے ۔
خان صاحب ! کیا آپ کی بھی کچھ حدود ہیں ؟
دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ
تحریک انصاف: پرویزمشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک
انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائیوں کا معمہ
ناولوں میں خالد فتح محمد کے موضوعات متعین، بیانیہ پھیلا پھیلا مگر اپنے موضوع کے حتمی نتیجے کی طرف گامزن اور اردگرد کے مناظر کو چوپٹ آنکھ سے دیکھنے والا ہے لہذا آپ اس میں سے یوں گزرتے ہیں جیسے ایسی ندی سے گزر رہے ہوں جس میں بہتے پانی کو دیکھنے سے ندی کی سطح بھی جھلک دے جاتی ہے ۔ افسانوں میں ایسا نہیں ہوتا۔یہاں ان کا قلم قدرے زیادہ گہرا چلا ہے،بیانیہ گھنا اور کچھ بھید بھنور ساتھ لے کر چلتا ہے اور اچھال ایسا ہے کہ دامن بھگوتا رہتا ہے۔مثلاً افسانہ دیکھیے “خلا” ؛ اس کہانی کا واحد متکلم ایک عورت کو دیکھتا ہے۔ کہاں؟، اسے یاد نہیں۔خواب میں دیکھا تھا یا حقیقت میں وہ نہیں جانتا ؛ بس اس نے ایک جھلک پائی اور اسی جھلک کو بیساکھی بنا کر جینے لگا تھا۔ عین آغاز ہی میں ہم جان جانتے ہیں کہ یہ کسی عام شخص کا کردار نہیں ہے ۔ آگے چل کر املی کا درخت اس کی توجہ کا مرکز ہو جاتا ہے۔ اسے دیکھنا اور عورت کو محسوس کرنا کہ املی کادرخت بھی تو مادہ تھا۔ اس مرد اور املی کے پیڑ کے درمیان تعلق کی جو سطحیں اس افسانے میں قائم ہوتی ہیں اس سے یہ بیانیہ بہت رس دار ہو جاتا ہے حتی کہ خواب میں بسی ہوئی عورت مرد کو مل جاتی ہے تو یہی املی کا پیڑ اسے کھَلنے لگتا ہے ۔ جس رات گھر میں دلہن آتی ہے مرد کلہاڑی سے پیڑ کاٹنے کو وار کرتا ؛ اس پیڑ پرجو شاید وہاں تھا ہی نہیں۔
ایک اور افسانہ دیکھیے “پیوند”؛ میں نے پہلا افسانہ خالد فتح محمد کے افسانوں کے مجموعے “میں ” سے لیا تھا اور یہ دوسرا افسانہ ان کے ایک اورمجموعے “جمع تقسیم” سے لے رہا ہوں ۔ اس میں مرد کو نیم خائف اور نیم متوقع بتایا گیا ہے؛ نامکمل شخص جواس خود فریبی میں مبتلا ہے کہ وہ مکمل بھی ہو سکتا ہے۔اپنی ڈگریوں کے ساتھ گھر سے بھاگے اور چھوٹی سی ملازمت کرتے اس شخص کو ایک عورت ملتی ہے اور یہیں سے کہانی کا چلن مختلف ہو جاتا ہے ۔ جس عورت سے ہم اس کہانی میں متعارف ہوتے ہیں وہ کہانی کے راوی / مردکردارکے لیے زندگی کی کھڑکی سہی ، مگر اس کا نام زمین ہے؛ ایسی زمین جو تشنہ ہےاور پیاس بجھانے کو در بہ در جاتی ہے؛ اوروں کی پیاس بجھاتی ہے مگرخود پیاسی رہتی ہے۔ زمین کو دیکھ کر مرد آسمان ہو گیا ہے۔ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی آنکھیں بند کرنے والا اور اپنی آغوش میں سمیٹ لینے والا آسمان۔ آسمان کی خواہش تھی کہ دونوں ایک ہو جائیں۔ آدمی اور عورت۔نامکمل آدمی ؛ تسکین کے ذریعے تکمیل کا خواہاں۔ ایک بچہ پیدا کرکے مکمل ہونے کی خواہش رکھنے والا۔ افسانہ نگار نے یہاں زمین اور آسمان کو جائز رشتے میں باندھ کرایک کیا ہے۔ تاہم ان دونوں کہانیوں کو پڑھ کر یوں لگتا ہے کہ افسانہ نگار کا اصل مسئلہ وہ خلا اور نامکمل ہونے کا احساس ہے جو وجودی کرب کی صورت انسان کا مقدر ہو گیا ہے۔
نامکمل ہونے کا احساس ہو یا وجود کے اندر گونجتا خلا ، نئے عہد کے انسان کو جس شدت سےمتاثر کرکے اس کے رویوں میں مجہولیت کو گھسیڑ رہا ہے اس کا مطالعہ “جمع تقسیم ” کے افسانے” ٹیس” میں کیا جاسکتا ہے۔ ایک پڑھی لکھی خود مختار عورت جو ایک مرد سے محبت کرتی ہے اور نہیں بھی کرتی ۔دونوں اپنی تکمیل سے ہمکنار ہونے کو بے قرار ہیں مگر لڑتے جھگڑتے دور بھی ہو جاتے ہیں۔ایسا موقع بھی آتا ہے کہ مرد اجتناب کی رسی کاٹ ڈالےاور عورت بھی یہی چاہتی ہے مگر مرد رک جاتا ہے کہ اسے اپنے رشتے کو آلودگی سے بچانا ہوتا ہے ۔ پھر عورت کی شادی طے ہو جاتی ہے تو وہ مرد سے ملنے آتی ہے اور وہ بھی بے قابو ہو کر اس عورت کے چہرے کو ہاتھوں میں لینے کے بعد گردن پر گرفت سخت کر لیتا ہے۔یہ لمس کے شیرے کوٹشو سے صاف کرتی نئی عورت کے لیے نئے زمانے ہی کے ایک غیر اہم آدمی کی کہانی ہو گئی ہے ۔
جنس اور سماجی رشتوں کی اکھاڑ پچھاڑ کی زائیدہ ایک اور کہانی کی طرف دھیان جارہا ہے ؛جس میں ایک بے وقعت آدمی گھرسےبھاگ نکلا اور اس کی ماں صدمے سے مر گئی تھی ۔ باپ نے سب کچھ بیچ باچ کر اپنا وقت اچھا کاٹنے کو اپنے ایک دوست کے مشورے سے آب حیات کی بوتل کا اہتمام کر لیا تھا۔ یہ بوتل کچھ اور نہیں ایک عورت تھی جو اس کی زندگی میں در آئی تھی۔ گھر سے بھاگا ہوا شخص واپس لوٹا تو گھر اور اس کے اپنے نہیں تھے؛یہاں اس کے باپ کا رنڈوا دوست نوازش کہانی میں داخل ہوتا ہے جس کے بیٹے شادی کرکے اپنے اپنے گھروں میں خوش ہیں اور وہ اکیلاہے اور ایک ایسی عورت کی محبت میں مبتلا ہے جو اسے اپنے گھر کی کھڑکی سے دیکھتی ہے۔ جس کہانی کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں اس کا نام “دھنک” ہے اور وہ افسانوں کے مجموعے “میں” کا حصہ ہے۔ اپنے باپ کے دوست کو بھی دوسری شادی کا مشورہ دینے والا بے وقعت آدمی کھڑکی والی عورت کو ڈھونڈنے نکلتا ہے تو اندھیرے اور اس کے سکوت میں اس عورت سے ملتا ہے جو وہاں کھڑکی کے عقب میں تھی ہی نہیں۔ کہانی اور بھی آگے چلتی ہے ،مزید کچھ کہنے کو اور شاید یہ بتانے کو کہ رشتوں سے کٹ کر آدمی سانپ جیسا ہو جاتا ہے۔سانپ جس کی بابت کہا گیا ہے کہ اس کا کوئی گھر نہیں ہوتا۔
آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ خالد فتح محمد افسانوں میں کہانی کو محض ایک سطح پر نہیں چلاتے اس میں ایک اور سطح کی گنجائش رکھنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں ۔ ان کے کردار عام زندگی سے اٹھائے ہوئے ہو کر بھی عام نہیں رہتے بالعموم ان کے اندر ایک خلا یا ٹیڑھ موجود ہو تا ہے جو ان کے سماجی رویوں کو متعین کر رہا ہوتا ہے۔ اپنی بات مکمل کرنے سے پہلے میں خالد فتح محمد کے بیانیے کی وہ جھلک دکھانا چاہتا ہوں جو یہاں وہاں سے اسے گاڑھا اور زیادہ بامعنی بنادیتا ہے ۔ ملاحظہ ہوں دو اقتباسات :
“وہ میرے سامنے کھڑی تھی ، اس سائے کی طرح جسے ایک وجود کی ضرورت ہوتی ہے یا اس موسم کی طرح جو اگلے موسم کے انتظار میں خود کو بے بس کر دیتا ہے۔” (افسانہ” ہم وہیں ہیں جہاں۔۔۔۔)
“ہماری محبت میں کہیں سے نفرت بھی در آئی تھی ۔میں اکثر سوچتا کہ نفرت ہماری محبت کا حصہ تھی یاہم نے اسے خود ہی تعمیر کر لیا تھا۔ مجھے بعض اوقات محسوس ہوتا کہ وہ ہماری محبت کا حصہ نہیں تھی اور نہ ہی ہم نے اسے تعمیر کیا تھا۔ وہ تو اس بچے کی طرح تھی جو مرد اور عورت کے ملاپ کے بعد پیدا ہوتا ہے ۔ کیا کوئی ایسا بچہ بھی ہے جو نر اور مادہ کے ملاپ کے بغیر پیدا ہوا ہو۔ (افسانہ”شام ہونے سے پہلے “)
صاحب! جس کے پاس ایسا بیانیہ اور ہرا بھرا تخیل ہو اور وہ مسلسل لکھ کر اردو ادب کی جھولی میں اپنی تخلیقات ڈال رہا ہو،اس کے لیے یہ جشن تو بنتا ہی تھا ۔ سخن فاؤنڈیشن نے اس جشن کا اہتمام کرکے ہمارے قبیلے کے ایک محترم تخلیق کار کی توفیقات کا اعتراف کیا ۔ ہم پر جو واجب تھا وہ حق انہوں نے ادا کیا لہذاہماری طرف سے سخن فاونڈیشن اور اس کے روح رواں وقاص عزیز کا شکریہ۔
۔۔۔۔۔۔
(سخن فاؤنڈیشن کے تحت ، رائٹرز ہاؤس، اکادمی ادبیات پاکستان ، اسلام آباد میں منعقدہ جشن خالد فتح محمد میں پڑھی گئی سطور)