اگر میں یہ کہوں کہ قادر مطلق جس تخلیق کار کو الگ کرکے نمایاں دکھانا چاہتا ہے اس کی تخلیقی تو فیقات میں کچھ الگ سا ایسا رکھ دیتا ہے کہ اُس کے ہم عمر ہم عصروں اس کی مثال تک نہیں ملتی تو یہ عطا حمیدہ شاہین پر ہوئی ہے۔ وہ کہنے کو غزل گوہیں اور نظم و نثر میں بھی ہنر آزماتی ہیں مگر اپنے تخلیقی وجود میں وہ اتنی مختلف ،تازہ کار اور منفرد لب ولہجے میں کلام کرتی ہیں کہ شاعری محض مصرع سازی کا فن رہتی ہے نہ نثر روایتی جملوں کے گچھے بنالینے کا۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والا زمانہ چالومضامین کو روایتی ڈھنگ میں کاریگری سے برت کر غزل بنا لینےوالوں کو جلد بھلا دے گا۔ جی، انہیں بھی جو چمکتے ہوئے مصارع میں کوئی چونکانے والی بات رکھ کرمشاعرے لوٹ لیتے ہیں ۔ یہ کام شاید اختراعی ذہانت(اے آئی) بہتر کرنے لگے گی۔ شاعر وہی بچے گا جس کے ہاں تخلیقیت کے بھیدبھنورہوں گے ؛ نہ سمجھ میں آنے والےاور رفتگاں سے مختلف بھی ۔
یہ تخلیقیت حمیدہ شاہین کو ودیعت ہوئی ہے اور کچھ یوں ارزانی ہوئی ہےکہ یہ ہم جیسے پڑھنے والوں اور سننے والوں تک پہنچتی بھی ہے۔ مجھے یاد ہے میں ان کی شاعری کی طرف ان کی ایک نظم کے وسیلے سے متوجہ ہوا تھا ۔ نظم مقتبس کیے دیتا ہوں:
“میں ٹھنڈے توے کی روٹی ہوں
مجھے بے دھیانی میں ڈالا گیا
مجھے بے دردی سے پلٹا گیا
مرے کتنے ٹکڑے اکھڑ گئے
میں ٹھیک سے سینکی جا نہ سکی
میں کسی چنگیر میں آ نہ سکی
مرا پسنا جلنا اور گندھنا
بے کار گیا میں ہار گئی
اک بے دھیانی مجھے مار گئی
(اِک بے دھیانی)
یہ بھی پڑھئے:
تحریک انصاف: پرویزمشرف سے ڈونلڈ ٹرمپ تک
انسانی اسمگلرز کے خلاف کارروائیوں کا معمہ
ایک سو نوے ملین پائونڈ:کرپشن کی طلسم ہوش رُبا
کوفہ کے مسافر، سانحہ کربلاپرغیرجذباتی تحقیقی منفردناول
رائیگانی کا یہ احساس ایک عورت کا بھی ہو سکتا ہے اور ایک تخلیق کار وجود کا بھی۔ واقعہ یہ ہے کہ رائیگانی کا یہ شدید احساس ان کی غزل میں بھی سرایت کرتا رہا ہے۔ ان کی غزلیات کے تازہ مجموعے”آر پار” کے اس تعارفی اجتماع میں اُن کے منفرد اسلوب کی بات کی جائے ، ان کے ہاں عصری حسیت اور اس سے وابستہ مضامین کا ذکر ہو یا اُس جادوئی آہنگ کا جس میں مصرعوں کی بنت ، لفظیات اور تراکیب کا یوں کرشمہ ہوتا ہے کہ ان کی تاثیر سوا ہو جاتی ہے۔ آپ کتاب کھولیں گے تو آغاز میں موجود حمد ہی میں ایسی لفظیات سے آپ کا استقبال ہوگا جن کی طرف اوروں کا کم کم دھیان جاتا رہا ہے۔ “تشکیک بھری گٹھڑی، “الجھی جندڑی”، “بھاگ بھری”، ” رُلتا کھلتا”کے پہلو بہ پہلو “ارحم راحم”، “واجد ماجد”، “دائم قائم”، “باسط، رافع واسع”اپنی صوتیات سے ایک فضا بناتے ہیں۔اور پھر ہم جوں جوں آگے بڑھتے ہیں یوں لگتا ہے جیسے صوفیا کے کلام کی تاثیر ان کے کلام میں رچ بس گئی ہے۔ اس تاثیر میں اضافہ تکرار لفظی اور خاص صوتی لہروں کو مصرعوں کے اندر رواں کرنے اور اپنے مضامین کو انسانی نفسیات کی لطیف ترین پرتوں کی جانب تحریک دینے سے وہ بڑھائے چلی جاتی ہیں۔
اُن کا ایک شعر تو کئی نعت گو لے اڑے ہیں:
ہاتھ میں کاسہ ،کلائی میں کڑا سجتا ہے
در بڑا ہو تو سوالی بھی کھڑا سجتا ہے
ایک اور غزل تو آپ کو یاد ہی ہوگی؛”اُگتے ہوئے نہ روند ، ہرے مت خراب کر” کہ یہ والی غزل جب یہیں مشاعرے میں پڑھی گئی تھی تو اس کی گونج ساری اردو دنیا تک پہنچی تھی، زبان کو جو نیا پن اس غزل میں عطا کیا گیا ہےاسے ہر کہیں سراہا گیا۔یہاں ایک لطیف طنز ہے مگریہ شدیددُکھ کے پانیوں سے بھگا ہوا بھی ہے جوہمارےدھیان کواپنے ہاں کی تکلیف دہ سیاسی سماجی صورت حال کی طرف لے جاتاہے۔
جو جس مقام پر ہے اسے بے سبب نہ چھیڑ
بکھرے ہوئے سمیٹ، پڑے مت خراب کر
اسی غزل کا ایک مختلف احساس کو گرفت میں لیتے اشعار بھی ملاحظہ ہو:
اب سلوٹوں سمیت پہن یا سمیٹ دے
تجھ سے کہا بھی تھا کہ مجھے مت خراب کر
اتنا نہ کر دراز خرابی کا سلسلہ
اک شے کو دوسری کے لیے مت خراب کر
وہ خود خراب کرنے پہ کرتا ہے مشتعل
جو روز بار بار کہے مت خراب کر
حمیدہ شاہین کی شاعرانہ منطق کے اندر سے ان کے فن کی جمالیات کا ظہور ہوتا ہے۔ انہیں مکمل طور پر پڑھنے سے ان کے تصور حیات اور عصری حسیت سے مملو سماج سیاسی شعور کو آنکا جاسکتا ہے ۔ یہی سبب ہے کہ ان کے کلام کا نقش قاری کے ذہن پر گہرا اور دیر پا ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ بالعموم غزل گو شاعر مصرع مصرع آگے بڑھتے ہیں اور مصرع تازہ کے تعاقب میں اپنے ہی فکری دھارے کو کاٹتے پیٹتے چلے جاتے ہیں۔انتشار فکری اچھے بھلے شاعروں کو اپنے ہی قدموں پر یوں گرا دیتی ہےجیسے وہ ہڈیوں کے استخوان کے بغیر زمین پر پڑےماس کا ڈھیرہوں۔ تاہم حمیدہ شاہین کی فکر مربوط ہے اور اُس کا ایک رُخ متعین ہے جو ان کے تخلیقی وجود کو قامت اور پہچان عطا کرتا ہے۔ آخر میں ایک غزل مقتبس کرکے اجازت چاہتاہوں:
کھیل میں کچھ تو گڑبڑ تھی جو آدھے ہو کر ہارے لوگ
آدھے لوگ نری مٹی تھے آدھے چاند ستارے لوگ
اس ترتیب میں کوئی جانی بوجھی بے ترتیبی تھی
آدھے ایک کنارے پر تھے آدھے ایک کنارے لوگ
اس کے نظم و ضبط سے باہر ہونا کیسے ممکن تھا
آدھے اس نے ساتھ ملائے آدھے اس نے مارے لوگ
آج ہماری ہار سمجھ میں آنے والی بات نہیں
اس کے پورے لشکر میں تھے آدھے آج ہمارے لوگ
کس کے ساتھ ہماری یک جانی کا منظر بن پاتا
آدھے جان کے دشمن تھے اور آدھے جان سے پیارے لوگ
ان پر خواب ہوا اور پانی کی تبدیلی لازم ہے
آدھے پھیکے بے رس ہو گئے آدھے زہر تمہارے لوگ
آدھی رات ہوئی تو غم نے چپکے سے در کھول دئے
آدھوں نے تو آنکھ نہ کھولی آدھے آج گزارے لوگ
آدھوں آدھ کٹی یکجائی پھر دوجوں نے بیچوں بیچ
آدھے پاؤں کے نیچے رکھے آدھے سر سے وارے لوگ
ایسا بند و بست ہمارے حق میں کیسا رہنا تھا
ہلکے ہلکے چن کر اس نے آدھے پار اتارے لوگ
کچھ لوگوں پر شیشے کے اس جانب ہونا واجب تھا
دھار پہ چلتے چلتے ہو گئے آدھے آدھے سارے لوگ
۔۔۔۔۔
(عالمی اردو کانفرنس کراچی کے دوران حمیدہ شاہین کی شاعری کے تازہ مجموعے “آرپار” کی خصوصی تعارفی نشست میں پڑھی گئی سطور)