گزشتہ ہفتے ایک ملاقات میں کشور ناہید سے باتوں باتوں میں مسعود اشعر کا ذکر چل نکلا تو کہنے لگیں وہ حد درجہ ڈپریشن کا شکار ہے۔پہلے کسی کانفرنس یا ادبی میلے میں ہماری ملاقاتیں ہو جاتی تھی کبھی ہم لاہور چلے جاتے کبھی وہ اسلام آباد آجاتے یا پھر کسی دوسرے شہر میں ملنے کا بہانہ نکل آیا کرتا تھا مگر وبا کے پھیلائو کے بعد ملاقاتیں ختم ہو کر رہ گئی تھیں تاہم ان سے فون پر بات ہو جاتی تھی جس سے مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ تنہائی محسوس کرنے لگے تھے ۔تاہم حوصلے والے تھے کہ ان کے کالم ایسے میں بھی، ان کے پسندیدہ موضوعات پر مسلسل اخبارات میں چھپ رہے تھے ۔ سیاسی سماجی موضوعات ان کے افسانوں کا موضوع تھے اور ان کے کالموں کا بھی ۔ چار جولائی کی شام ان پر فالج کا حملہ ہونے کا اطلاع ملی اور اگلے روز رحلت کی خبر آگئی ۔ نوے برس کی عمر میں وفات پانے والے مسعود اشعر نے اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کاغذ قلم سے رشتہ استوار رکھا ۔ یہ لکھنے والوں کے اس قبیلے کے فرد تھے جن کے لیے لکھنا پڑھنا ہی زندگی تھا ۔
مسعود اشعر کے قومی سطح پر بہ طور صحافی اور افسانہ نگار اپنی شناخت بنانے کے پیچھے ان کی طویل جدو جہد ہے ۔ ہمیشہ اجلے لباس میں نظر آنے والے مسعود اشعر کا اپنا کردار بھی بہت اجلا رہا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جنرل ضیاالحق کی آمریت کا زمانہ تھا تو وہ امروز ملتان کے ایڈیٹر تھے۔ انہی دنوں کالونی ٹیکسٹائل ملز میں مزدوروں پر گولی چلائی گئی اور ساتھ ہی حکم ہوا کہ خبر اخبارات میں نہ آنے دی جائے۔ مسعود اشعر آمریت کے دل سے دشمن ایسی خبر کو کیسے سنسر کر سکتے تھے جو ظالم کے ہاتھ مضبوط کرنے کا سبب بن سکتی تھی۔ اخبار میں خبر چھپ گئی۔ اور ان پر آزمائشیں ٹوٹ پڑیں ۔
اس واقعے کی تفصیل خود مسعود اشعر نے بھی بتا رکھی ہے ۔ ان کے مطابق امروز ملتان میں وہ خبر چھپی تو پیشی ہو گئی ۔ مارشل لا کے افسر اپنے دفتر میں سادہ کپڑوں میں چپلیں پہنے بیٹھے تھے ۔وہ ہمیں کرید کرید کر پوچھتے رہے کہ خبر کس رپورٹر نے لکھی ۔ مسعود اشعر نے کہہ دیا معلوم نہیں ، دراصل وہ بات رپورٹر تک نہیں جانے دینا چاہتے تھے۔ افسر نے پوچھا ”تو پھر اس کے چھپنے کا ذمہ دار کون ہے۔” مسعود اشعر کا جواب تھا ”اخبار میں چھپنے والے متن کا ذمے دارایڈیٹر ہوتا ہے۔” اس کا جو نتیجہ نکلنا تھا وہ نکلا۔ ملتان بدر کر دیے گئے اور پھر مارشل لا کے خلاف ایک بیان پر دستخط کرنے کی پاداش میں نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ تین سال بیروزگاری کا عرصہ جس طرح مسعود اشعر نے کاٹا وہ اپنی جگہ بہت تکلیف دہ ہے ۔ بے نظیر کی حکومت آئی تو انہیں ملازمت پر بحال کیا گیا ۔
یہیں مسعود اشعر کا سنایا ہوا ایک لطیفہ ؛ ہاں یہ لطیفہ ہی تو ہے کہ جنرل ضیاالحق کا مارشل لگا تو تمام اہم اخبارات کے ایڈیٹروں کو اسلام آباد بلایا گیا تھا۔ ان میں مسعود اشعر بھی شامل تھے اور لہذا وہ اس واقعے کے راوی اور چشم دید گواہ بھی ہیں ۔ یاد رہے ابھی وہ واقعہ نہیں ہوا تھا جس کے سبب انہیں امروز سے نکال باہر کیا گیا تھا۔جنرل ضیا الحق نے صحافیوں کو یقین دلانا چاہا کہ مارشل لا عارضی ہے اور جلد ہی الیکشن کروا کر حکومت منتخب نمائندوں کے حوالے کردی جائے گی۔ضیاالحق کی تقریر ختم ہوئی ایک سینئر صحافی سوالات کے سیشن میں کھڑا ہوا اور کہنے لگا جنرل صاحب پیاز بہت مہنگے ہو گئے ہیں ۔میری بیوی نے کہا تھایہ بات آپ کو ضرور بتائوں ”۔ملک پر مارشل لا لگ گیا تھا ۔ جمہوریت کا بستر گول ہو چکا تھا اور صحافیوں کی طرف سے جو ردعمل سامنے آیا تھا اگرچہ اس پر سنائے جانے والے ایک لطیفے کی طرح قہقہہ گونجا تھا مگر یہ ایک واقعہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں صحافت کا معیار کیا رہا ہے ۔ مجھے تو لگتا ہے کہ روز بروز گرتا چلا جارہا ہے اور اب صورت حال پہلے سے کہیں زیادہ خراب ہو چکی ہے۔
بہ طور صحافی انہوں نے ہر عہد میں اپنا فرض ادا کیا ان کے کالم ملک کے معروف اخبارات کا حصہ ہوتے رہے۔ میرا جس مسعود اشعر سے تعلق بنا وہ صحافی نہیں افسانہ نگار تھا ۔ جی ، ہم جب جب ملے ادب ہی ہمارا موضوع رہا ۔ جب پاکستان بھر میں اردو کانفرنسوں اور ادبی میلوں کا سلسلہ چل نکلا تو ہماری ملاقاتیں تسلسل سے ہونے لگیں۔ لاہور، کراچی، اسلام آباد، فیصل آباد ؛ جہاں بھی فکشن پر بات کرنا ہوتی اور مجھے بلایا جاتا تو اسٹیج پر جو سینئر گفتگو کرنے والے ہوتے وہ انتظار حسین اور مسعود اشعر ہی ہوتے۔ انتظار حسین اور مسعود اشعر تو ہر کہیں ساتھ ساتھ نظر آتے ۔ ایک ساتھ چلتے ہوئے وہ لگتے بھی بہت اچھے تھے۔ مسعود اشعر چپ چاپ اپنی باری کا انتظار کرتے کبھی کسی کی بات کاٹتے نہ انہیں گفتگو میں پہل کرنے کا ہوکا تھا۔ کبھی انہوں نے دلیل کے بغیر بات نہیں کی ۔ ایسا بھی نہیں ہوا کہ انہوں نے دوسرے فرد کے نکتۂ نظر کو سختی سے رد کر دیا ہو ۔ وہ ان نکات سے بات آغاز کرتے جس پر دوسرا فرد متفق ہوتا یا اسے اعتراض نہیں ہو سکتا تھا۔ کہہ لیجئے فکر کے مشترکہ علاقوں سے وہ آگے بڑھتے اور اپنے خالص نکتۂ نظر کے خال و خد واضح کرتے چلے جاتے اور یوں ماحول گفتگو کے لیے ہمیشہ ساز گار رہتا تھا۔ مجھے مسعود اشعر اور انتظار حسین کے ساتھ الحمرا لاہور کے زبان و ثقافت کے فیسٹول ، کراچی لٹریچر فیسٹول، عالمی اردو کانفرنس، اسلام آباد لٹریچر فیسٹول اور دوسرے مواقع پر جن موضوعات پر مکالمے کا موقع ملا وہ بالعموم فکشن کے موضوعات تھے۔ اردو افسانے کی تاریخ سے لے کر اسلوب اور تیکنیک کے تجربات تک جس بھی موضوع پر مسعود اشعر گفتگو کرتے پوری تیاری کے ساتھ کرتے ۔ انتظار حسین نہ رہے توبھی وہ ایسے پروگراموں کا حصہ ہوتے رہے مگر مجھے لگتا ہے کہ جوڑی ٹوٹنے سے وہ اندر سے بھی ٹوٹ گئے تھے۔ جب بھی ملتے انتظار حسین کو یاد کرتے تھے۔
مسعود اَشعر کا شمار اُن اَفسانہ نگاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے ستر کی دہائی میں اپنی شناخت بنالی تھی ۔ ” آنکھوں پر دونوں ہاتھ” کی اشاعت کے ساتھ ہی ان کی کہانی کا قرینہ قاری کو اپنی طرف متوجہ کرنے لگاتھا اور ”اپنا گھر” کی اشاعت تک ان کے ہاں موضوعات کا جو تنوع آیا ہے وہ اپنی جگہ بہت اہم ہو جاتا ہے ۔ مسعود اشعر ١٠ فروری ١٩٣١ء کو رام پور اتر پردیش میں پیدا ہوئے اور عین جوانی میں ہی پائوں کی مٹی نے ساتھ چھوڑ دیا۔قیام پاکستان کے بعد پہلے ملتان رہے اور پھر لاہور میں آکر مسعود اشعر نے جو دیکھا اسے اپنے فکشن کا موضوع بنایا۔ تقسیم کے موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے اور سلیقہ ہو تو بہت کچھ لکھے جانے کی گنجائش باقی رہتی ہے۔
‘ ‘ اپنا گھر ”کا مطالعہ بتاتا ہے کہ مسعود اشعر کے پاس سلیقہ بھی تھا اور حوصلہ بھی ۔ ”بیسویں صدی کی آخری کہانی ہو ”یا”میں نے جواب نہیں دیا” جیسے اَفسانے مربوط کہانی کے لطف کو بحال رکھ کر ذہنی کشادگی کی صورتیں بہم کرتے ہیں۔ رشتوں اور تعلق میں عجب طرح کا بندھن انہوں نے دریافت کیا ہے اور لطف یہ مسعوداشعر کا بیانیہ حد درجہ جادو اثر ہے۔
” مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ وہ تو اپنے سوامی کو بہت چاہتی تھی اور کہتی تھی کہ اس کا سوامی بھی اس پر جان چھڑکتا ہے۔ جی ہاں’ وہ اپنے شوہر کو سوامی کہتی تھی کہ اس ملک میں ہر بِیوی اپنے شوہر کو سوامی کہتی ہے ۔
اور میں نے جب اسے بتایا تھا کہ سوامی کا مطلب آقا یا مالک ہوتا ہے تو اس نے بڑے فخر سے کہا تھا’ ہاں ‘وہ میرا مالک ہی ہے ‘ وہ میرا مالک اور میں اس کی مالک۔ یہ کہہ کر وہ خوب ہنسی تھی۔ بعد میں جب ہمارے درمیان ای میل کا سلسلہ شروع ہوا تو وہ لکھتی تھی
” دعا کرو میں مرتے دم تک اپنے سوامی اور بدھ مت کے ساتھ وفادار رہوں۔ ”
یہ بات خاص طور پر وہ اس وقت لکھتی تھی جب میں مذاق مذاق میں اس کے ساتھ فلرٹ کرنا شروع کر دیتا تھا۔ ”
۔۔۔۔۔۔۔۔ (میں نے جواب نہیں دیا)
مسعود اشعر کے افسانوں کے چار مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ پہلا وہی ، ”آنکھوں پر دونوں ہاتھ” جس سے میں نے انہیں بہ طور ترقی پسند اور روشن خیال افسانہ نگار کے طور پر انہیں پہچاننا شروع کیا تھا۔ پھر”سارے افسانے” اور”اپنا گھر” اور یہ دو ایسے مجموعے تھے جنہوں نے مسعود اشعر کی شناخت بہ طور افسانہ نگار مستحکم کی ۔ ”سوال کہانی” کے نام سے ان کے افسانوں کا مجموعہ کوئی دو برس پہلے آیا تھا۔ یہ کتاب انہوں نے مجھے خود عطا کی تھی اور اس موقعے پر کہا تھا کہ شا ید یہ ان کی زندگی کا آخری مجموعہ ہو۔ میں نے تب کہا تھا کہ آپ ایسا کیوں کہتے ہیں ابھی تو آپ نے بہت لکھنا ہے۔ مسعود اشعر حد درجہ حقیقت پسند اور صاف گو تھے کہنے لگے ، حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ سارا وقت صحافت لے لیتی ہے۔
سوال کہانی کا انتساب پڑھ کر مجھے حیرت ہوئی تھی ۔ کتاب میں مختص انتساب کے صفحے پر لکھا تھا”اپنے نام”۔ ایک ایسا شخص جو دوسروں کے لیے جیتا رہا اور سماجی سطح پر انقلابی تبدیلی کی خواہش رکھتا تھا ، جس کے افسانوں میں بھی روشن خیالی اور ترقی پسندی چھلک چھلک پڑتی تھی ، اس شخص نے اپنے افسانوں کو اپنے نام ہی معنون کیوں کیا؟ یہ سوال میں نے مسعود اشعر سے کیا تھا اور ان کا جواب تھا کہ”بھئی میں بھی تو سماج کا حصہ ہوں اور سماج کے پاس اپنے وجود کے اندر سے راستہ بنا کر پہنچتا ہوں ۔ اس لیے ان کہانیوں کا وسیلہ تو میرا وجود ہوا ناں! ”
اس کتاب کے افسانوں میں انہوں نے آج کے موضوعات پر بات کی ہے مگر کہیں بھی فنی تقاضوں پر آنچ نہیں آنے دی ۔ مثلاً دیکھئے پہلا ہی افسانہ ، اس میں وہ عورت اور مرد کے درمیان موجود رشتے کی لطیف سطحوں کو بیان کر رہے ہیں اور ایسے ایسے نکات کہانی کے متن میں حصہ بنا رہے ہیں جو کسی اور طرح سے گرفت میں نہیں آسکتے ۔اس افسانے سے ایک اقتباس:
”تم نے اسے پھولوں کا رس چوستے دیکھا ہے؟” اُس نے پدے کو چھت کے ساتھ ایک ہی جگہ پر اپنے پر پھڑپھڑاتے ہوئے دیکھا ۔”یہ ہوا میں ایسے معلق ہوتا ہے جیسے ایک ہی جگہ کھڑا ہو۔ صرف اس کے پر پھڑ پھڑاتے رہتے ہیں اور وہ ہوا میں معلق پھولوں کا رس چوستا رہتا ہے۔”وہ نظریں جمائے پدے کو دیکھتا رہا۔”
۔۔۔۔۔(کون ڈرتا ہے نارمن میلر سے )
بتاتا چلوں کہ اس افسانے کا آغاز ایک ایسے پدے کے ذکر سے شروع ہوتا ہے جو اتفاقاً ڈرائنگ روم میں آگیا تھا جہاں وہ دونوں میاں بیوی موجود تھے ، پدے کوو اپسی کا راستہ نہیں مل رہا تھا اس کے سامنے شیشے کی صاف شفاف دیوار تھی جس کے باہر سرسبز لان تھا اور وہ بار نکلنے کے لیے بار بار اس طرف جاتا اور اس دیوار سے ٹکراتا تھا۔ یہی پدا افسانے میں مرد کی علامت کی صورت ظاہر ہوتا ہے ۔ مرد اور عورت کے تعلق کی پیچیدگی کا اندازہ اس تلخ گفتگو سے بھی لگایا جاسکتا ہے جو میاں بیوی کے درمیان ہو رہی ہے:
”اب وہ پدے کو بھول گئے۔۔۔ کس نے قید کیا؟ کسے قید کیا؟
”عورت ہونا ہی قید ہے۔”بیوی نے پھر قہقہہ لگایا :”گھر پر حکمرانی کرو اور گھر کے قیدی بن جائو۔”
یہ مکالمہ وہاں سے تلخ ہو جاتا ہے جہاں مرد قہقہہ لگاتا ہے اور کہتا ہے۔
”یہ بھی خوب ڈھکوسلا ہے ۔ اپنے مظلوم اور شہید ہونے کا آسمان پھاڑ شور مچائو اور عورت ہونے کا خوب خوب فائدہ اٹھائو۔ پورے پورے فائدے اٹھائو اپنے عورت ہونے کے۔ ہر دروازہ کھلا ہے آپ کے لیے۔میڈم۔ بیگم صاحب۔ آپا ۔ باجی۔ آئیے تشریف لایئے ۔ کیا خدمت کی جا سکتی ہے آپ کی؟ اور آپ ہر ایک پر رعب جما رہی ہیںاپنے عورت ہونے کا ۔ اگر ذرا خوب صورت ہیں تو سونے پر سہاگہ ۔ کم شکل ہیں تو بھی کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ مردوں کو تگنی کا ناچ تو اس صورت میں بھی نچایا جاسکتا ہے نا؟وہ سب پیٹ پر ہاتھ باندھے کورس میں کہہ رہے ہیں :ع”کہیے کیا حکم ہے،دیوانہ بنوں یا نہ بنوں”۔ وہ زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔”
۔۔۔۔۔۔ (کون ڈرتا ہے نارمن میلر سے)
آپ کوئی سا افسانہ اٹھا کر دیکھیں مسعود اشعر آپ کو انسانی رشتوں کی الجھی ہوئی ڈوریں سلجھاتے ہوئے نظر آئیں گے۔ اس باب میں کہیں وہ سیدھے سادے بیانیے سے کام لیتے ہیں اور کہیں کرداروں کے بیچ مکالمے سے ۔ کہیں وہ مختلف مناظر کو جوڑ کر ایک خیال تک پہنچتے ہیں اور کہیں خیالات کے الجھائو سے انسانی صورت حال کی کہانی نکال لاتے ہیں۔ اگر وہ ”نیند نہیں آتی” جیسی کہانی میں جدید تر زندگی سے فرد کے ذہنی سکون کے اتلاف کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو ”بسم اللہ کا گنبد” جیسے افسانے میں ہماری مذہبی تنگ نظری پر چوٹ لگا رہے ہوتے ہیں جس نے زندگی کا دائرہ سکیڑ کر رکھ دیا ہے۔ یہ کتاب میرے سامنے پڑی ہے اور میں نے اس کتاب کے افسانے ایک بار پھر پڑھ لیے ہیں۔ ”یہ میرا دیس ہے”،”اُس کا کیا نام تھا؟”،”انتقام”،”میں نے جواب نہیں دیا”،”تانا شاہ کی بیٹی”،”چھتری”،”کتنے وطن”،”سوال کہانی”،ستر سال کی دوری” آپ افسانے پڑھتے جاتے ہیں اور متن میں گندھی ہوئی فکشن کی دانش اپنا کام کرتی ہے ۔افسوس کہ مسعود اشعر جو کہانی کہنے کا ہنر جانتے تھے اور انہوں نے بہت خوب صورت افسانے دیے بھی مگر ایک افسانہ نگار کے طور پر بہت کم کم زیر بحث آئے ہیں ۔
صحافت اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ ان کی ایک شناخت مترجم کی بھی ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے پہلے پہل ان کا ترجمہ کیا ہوا ایک ناول”زخم کا نشان” پڑھا تھا ۔ یہ ناول اتنی رواں دواں اور پر اثر زبان میں ترجمہ کیا گیا تھا کہ لگتا تھا جیسے اردو ہی میں لکھا گیا ہو۔ یہ ناول ایک فلسطینی لڑکی سوزن ابوالہوا کا لکھا ہوا تھا۔ ناول نہیں آپ بیتی کہہ لیں کہ سوزن ابوالہوا کو فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے عذابوں نے ناول نگار بنا دیا تھا۔ پھر میں تلاش کرکے ان کے ترجمہ کی ہوئی کتابیں پڑھتا رہا اور یہ فہرست بھی طویل ہے۔آپ ان کی ترجمہ کی ہوئی کتب کو دیکھیں گے تو محسوس کریں گے کہ وہ ایسی کتب کو ترجمے کے لیے منتخب کرتے تھے جو پڑھنے والوں کی فکر میں مثبت تبدیلی پیدا کر سکے اور ان کے اندر فکری آزادی اور انسانوں سے محبت کی قندیل روشن کر سکے ۔
مسعود اشعر کی رحلت کی خبر سنی توانتظار حسین سے لے کر شمیم حنفی تک، چند ہی برسوں میں ایک ایک کرکے بچھڑتے چلے جانے والوں کے چہرے نگاہوں کے سامنے گھوم گئے۔ پچھلے کچھ عرصے سے تو یوں لگنے لگاتھا جیسے موت کا اصل نشانہ فکشن لکھنے والے تھے ا س طرف موت کا وار مسلسل تھا اور اندھا دھند بھی۔ یہ چھوٹا بڑا نہیں دیکھ رہی تھی جو راہ میں آتا ، یا ذرا کمزور پڑا دکھائی دیتا اُچک کر چل دِیتی ۔ بڑی بوڑھیاں سچ کہا کرتی تھیں ، یہاں آنے کی ترتیب تو ہے جانے کی نہیں۔ ڈاکٹر آصف فرخی، خالدہ حسین، شمس الرحمن فاروقی، مسعود مفتی، ڈاکٹررشید امجد، ڈاکٹر انور سجاد ؛یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے اردو فکشن کی کتاب میں اپنے لیے الگ سے باب مختص کر لیے تھے ۔ ہر ایک الگ اسلوب کا حامل اور زبان و ادب کا دامن مالا مال کرنے والا اور اب مسعود اشعر بھی۔ ساقی فاروقی کا شعر یاد آتا ہے :
ایک ایک کرکے لوگ بچھڑتے چلے گئے
یہ کیا ہوا کہ وقفہ ماتم نہیں ملا