شمس الرحمٰن فاروقی کا فکشن اُردو ادب کا ایک مکمل باب ہے۔ اس باب کا مطالعہ تب ہی ڈھنگ سے ممکن ہو پائے گا کہ اُردوادب کی اس جید شخصیت کے فکشن کو مکمل صورت میں پڑھا جائے۔ فاروقی صاحب کے اس مجموعے کو مرتب کرنے کا خیال اُن کی زندگی ہی میں زیرِبحث آیا تھا مگر فیصلہ ہوا تھا کہ اس کی ابتدا اُن کے تہذیبی دستاویز ہو جانے والے ناول ’’کئی چاند تھے سرِآسماں‘‘ سے کی جائے۔ اس ناول کی نئی اشاعت ان کی زندگی میں ہوئی مگر اس مجموعے کی ترتیب سے پہلے ہی وہ کووڈ 19 کا شکار ہو کر ہسپتال جا پہنچے ۔ کووڈ سے نپٹ چکے تو بھی صحت بحال نہ ہوئی اور 25 دسمبر 2020ء کو وہ ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بچھڑ گئے اور اس باب میں ہمیں ان کی وہ رہنمائی اور معاونت میسر نہیں جو اُن کے ہوتے ہوئے ممکن تھی۔
اُردو تنقید میں اپنے عہد کا سب سے بڑا نام ہوجانے والے شمس الرحمٰن فاروقی کی شاعری کے علاوہ ایک اور تخلیقی جہت ان کا فکشن ہے۔ ان کے فکشن نے ادبی حلقوں کو تب متوجہ کیا تھا جب وہ اپنی عمر کے لگ بھگ باسٹھ تریسٹھ سال بتا چکے تھے۔ لیکن کیا یہ واقعہ اچانک ایک روشن صبح کو ہو گیا تھا۔ یقیناً ایسا نہیں تھا ۔ اپنی ادبی زندگی کے آغاز سے ہی وہ فکشن کی طرف متوجہ تھے مگر واقعہ یہ ہے کہ جیسا فکشن وہ لکھنا چاہتے تھے اس کی صورت انھیں نہیں سوجھ رہی تھی۔ یہ سارے مراحل کیسے طے ہوئے اور تنقید کا بڑا نام فکشن کا بھی بڑا نام کیسے بنا، یہ جاننے کے لیے اُن سب تحریروں کی جستجو ہوئی جو اُن کے قلم سے فکشن کی ذیل میں نکلیں۔
فاروقی صاحب کے افسانوں کا مجموعہ اور دونوں ناول تو دسترس میں تھے مگر اُن کا وہ کام جو ان کی زندگی میں کسی مجموعے کا حصہ نہیں بن پایا تھا اُسے ڈھونڈ نکالنے کا مرحلہ درپیش تھا۔اُنھوں نے مختلف اوقات میں خود مجھ سے اپنے فکشن کی کچھ تخلیقات کا ذِکر کیا تھا۔ ان میں سے دو تو ناول ہیں جو چھپ کر قبولِ عام کی سند پا چکے ہیں: ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ اور’’قبض زماں‘‘ اور تیسرا وہ طویل افسانہ جو ان کے مجموعے کی اشاعت کے بعد لکھا گیا تھا۔ یہ افسانہ’’باقی فانی‘‘ تھا جو بھارت میں اپنے دوستوں کی مدد سے محترمہ شہناز نبی کی ادارت میں کلکتہ سے شائع ہونے والے ’’رہروانِ ادب‘‘ کے جنوری تا جون2020ء کے شمارے سے ڈھونڈ نکالا گیا۔
اس مجموعے میں فاروقی صاحب کے فکشن کے اس سارے سرمائے کو بہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہمیں اب تک دستیاب ہو سکا ہے۔ اُن کا ضخیم ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘ چوں کہ پورے اہتمام سے اور فاروقی صاحب کی خواہش کے مطابق اس خاکسار کے دیباچے کے ساتھ شائع ہو چکا ہے اور اسے دوسرے کام کے ساتھ ایک جلد میں چھاپنا ممکن بھی نہیں تھا، اس لیے باقی کا سارا کام اس مجموعے میں یکجا کر دیا گیا ہے۔ اس ضمن میں یہ قرینہ برتا گیا ہے کہ سارے کام کودرج ذیل پانچ حصوں میں مدون کر دیا جائے:
1️⃣ پہلے حصے میں ان کا غیر مدون افسانہ ’’فانی باقی‘‘ رکھا گیا ہے جو ان کے اپنے نام کے ساتھ شائع ہوا تھا۔
2️⃣ دوسرے حصے میں وہ پانچ افسانے ہیں جو ان کی زندگی میں ہی ایک مجموعے ’’سوار اور دوسرے افسانے‘‘ کی صورت، ان کے اپنے نام کے ساتھ، ایک خاص ترتیب میں سامنے آچکے تھے۔
3️⃣ تیسرے حصے میں فاروقی صاحب کا مختصر ناول ’’قبضِ زماں ‘‘ ہے ۔
4️⃣ چوتھے حصے میں وہ افسانے ہیں جو طبع زاد تو ہیں مگر کسی اور نام سے چھپے اور اسی حصے میں وہ افسانے بھی شامل کر دیے گئے ہیں جن کا خیال یا اسلوب ماخوذ تھا۔
5️⃣ پانچویں اور آخری حصے میں فاروقی صاحب کے کیے ہوئے انگریزی کے، یا انگریزی سے دوسری زبانوں کے افسانوں کے تراجم ہیں۔ اسی حصے میں ان کے کیے ہوئے ڈراموں کے تراجم بھی فراہم کر دیے گئے ہیں ۔ بتایا جاچکا ہے کہ یہ تراجم بھی فاروقی صاحب کے نام سے شائع نہیں ہوئے تھے تاہم ان میں ایلن کیپرو کی ایک ایسی تحریر بھی شامل ہے جسے ترجمہ تو مہر افشاں فاروقی نے کیا ہے مگر ترجمے کی نظر ثانی میں فاروقی صاحب کا اپنا نام موجود ہے۔
امید کی جاتی ہے کہ اس اہتمام کے نتیجے میں اس عہد کی سب سے جید ادبی شخصیت کے فکشن کا مطالعہ درست درست تناظر میں ممکن ہو پائے گا۔ میں اشاعتی دُنیا میں قابل قدر خدمات انجام دینے والے ادارے ’’بک کارنر‘‘ جہلم کے سربراہان گگن شاہد اورامر شاہد کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس مجموعے کی اس اہتمام سے اشاعت ان کی ذاتی توجہ اور معاونت کے بغیر ممکن نہ تھی۔