بڑے پیمانے پر اپنی عظمت کی دھاک بٹھا لینے والے ادیبوں کایہ المیہ رہا ہے کہ اُن کا لکھا ہوا لفظ بہت پیچھے رہ جاتا ہے اور اُن کی شخصیت اور شخصیت کے قصے آگے نکل جاتے ہیں۔ منٹو کے ساتھ بھی یہی ہوتا رہا ہے۔ منٹو صدی کا شور اُٹھا تو سب منٹو پر بات کرنے کے لیے پُرجوش تھے اور لگ بھگ وہی باتیں دہرا رہے تھے جو اس سے قبل کہی جا چکی تھیں۔
منٹو کی اپنی زندگی اور اُس کا فن ایک دوسرے میں گھل مل کر ایک ایسا آمیزہ بن گیاتھا کہ اس شیرے کو چاٹتے چلے جانے والوں کو لطف آنے لگاہے۔خیر، ایساہے کہ اسی دورانیے میں منٹو کے فن کو معروضیت کے ساتھ دیکھنے کی طرف بھی رغبت نظر آئی۔اس عہد کے سب سے بڑے نقاد اور فکشن میں بھی کمال حاصل کرنے والے شمس الرحمن فاروقی کی گفتگو ”ہمارے لیے منٹو صاحب“ کو میں اِسی ذیل میں شمار کرتا ہوں۔
میں بہت پہلے سے منٹو کی طرف متوجہ تھا۔ منٹواور اُس کے فن کو سمجھنے کا عمل شروع ہواتو میں بار بار منٹو کی تحریروں کو پڑھتا تھا۔ کہیں ضرورت کے تحت، کہیں اُسے سمجھنے کے لیے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ منٹو کے افسانوں کا مطالعہ محض منٹو کو رد کرنے یا آنکھیں میچ کر قبول کر لینے کے جذبے کے تحت کیا ہو۔ واقعہ یہ ہے کہ میں نے تو منٹو کا مطالعہ ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے کیا ہے۔
جی، ایک افسانہ نگار کا مطالعہ، ایک افسانہ نگار کی حیثیت سے۔ یوں مجھے بہت سے مقامات پر منٹو فن کی بلندیوں پر نظر آیا اور ایسے بھی مقامات آئے کہ میں منٹو سے اختلاف کر رہا تھا۔ یہی معاملہ منٹو کے ناقدین سے بھی رہاہے مگر جب جب منٹو پر ناروا حملے ہوئے اور اُس کے افسانوں کی من مانی تعبیریں ہونے لگیں تو اس باب میں مجھے قلم اٹھانا پڑا۔ ایسا بار بارہوا۔
آپ فاروقی صاحب کی کتاب ”ہمارے لیے منٹو صاحب“ کو پڑھیے کہ یہ میری نظر میں نقطہ نظر کے اختلاف کے باوجود بہت اہم کتاب ہے اور موقع نکلے تو ”ہمارے منٹو صاحب“ کے عنوان سے میری کتاب ”منٹو:آج بھی زندہ ہے“ میں موجود سطور کوبھی پڑھ لیجئے جسے بک کارنر نے ہی بہت اہتمام سے شائع کیا ہے۔ یہ بات میرے لیے باعث مسرت ہے کہ فاروقی صاحب نے انہیں اپنی زندگی میں پڑھا اور پسند کیا تھا۔ واقعہ یہ ہے کہ منٹو کو آنکنے اور پرکھنے کاصحیح پیمانہ یہی ہے کہ اُس کے تخلیقی کام کو نہایت سنجیدگی سے دیکھا جائے۔ جی، سنجیدگی سے اور معروضیت کے ساتھ۔